ناول: سفر کے بعد (قسط 2)

ناول : سفر کے بعد
از قلم : منظر امام
قسط : 2


اس وقت اندر سے آدمی نے اپنی بیٹی کو آواز دی۔
زیبا۔ ۔
جی بابا۔۔ زیبا نے جواب دیا۔
ذرا یہاں تو آنا بیٹے۔
وہ لڑکی وجاہت سے معذرت کرکے اندر چلی گئی۔
وجاہت سوچتا رہ گیا۔ اس لڑکی نے یہ کیسی کہانی سنادی تھی۔ کیا اس کہانی میں کوئی حقیقت تھی یا۔ لیکن وہ غلط بیانی کیوں کرنے لگی۔ اسے جھوٹی کہانی سنانے کی کیا ضرورت تھی۔ اور اگر ایسا ہی ہوا تھا تو کتنی حیرت کی بات تھی۔
جب لڑکی کو کمرے سے گئے ہوئے کچھ دیر ہوگئی تو وجاہت نے کرسی سے اٹھ کر کمرے میں ٹہلنا شروع کردیا۔
وہ کچھ بےچینی محسوس کررہا تھا۔ اس کہانی نے اس پر اچھا خاصہ اثر کیا تھا۔ یہ وہی کمرا تو تھا جہاں سے ساجد غائب ہوا تھا ۔ لیکن کس طرح ؟ بقول لڑکی کے دروازہ اندر سے بند تھا اس نے دروازے کے پاس جاکردیکھا۔ کنڈی اندر سیش لگ جانے کے بعد کسی کے باہر نکلنے کا امکان , نہیں ہوسکتا تھا۔ اور نہ ہی کھڑکی کی سلاخیں ایسی تھیں کہ ان کے درمیان سے کوئی گزر سکتا۔
اچانک ایک میز دکھائی دے گئی ۔ وہ ایک ڈائری تھی۔
میز کے نیچے گری ہوئی۔ شاید اس لڑکی کی ڈائری تھی۔ جو میز سے نیچے گرگئی تھی۔ کوئی طاقت وجاہت کو اس ڈائری کی طرف کھینچ رہی تھی۔ یہ ایک انہونی بات تھی۔ اور غیر مہذب۔ کسی کی ڈائری دیکھنا کوئی اچھی بات نہیں تھی۔ لیکن کوئی طاقت اسے اکساررہی تھی۔ کوئی تحریک۔ اس نے نہ چاہتے ہوئے بھی ڈائری اٹھا لی۔
ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے وہ انجان طاقت اسے ڈائری پڑھنے پر مجبور کررہی ہو۔ کوئی اس سے کہہ رہا ہو کہ ڈائری پڑھ ۔ یہ تیرے ہی لیے ہے۔ بارش اسی طرح ہورہی تھی۔ کمرے میں لالٹین کی روشنی پھیلی ہوئی تھی اور دونوں باپ بیٹی ابھی تک دوسرے کمرے میں تھے۔ 
وجاہت نے لالٹین کی روشنی میں ڈائری پڑھنی شروع کردی۔ 
پہلی ہی لائن پڑھ کر وہ بری طرح چونک اٹھا تھا۔ پہلا ہی جملہ تھا۔
میرا نام ساجد ہے۔۔۔ اور مجھے یقین ہے کہ تم جو یہ ڈائری پڑھ رہے ہو ۔ تم بھی ان ہی حالات میں یہاں آپہنچے ہو ۔جو حالات میرے ساتھ پیش آچکے ہیں ۔ اور اب تمہارے ساتھ پیش آنے والے ہیں۔ بلکہ کسی حد تک پیش آبھی چکے ہوں گے ۔ میں غائب ہوجانے کے بعد یہ ڈائری لکھ رہا ہوں۔ میری طرح کچھ اور بھی ہیں۔ لیکن ان سبھوں نے مجھ ہی کو اپنا نمائندہ مقرر کیا ہے کہ میں ان کی طرف سے بھی لکھ دوں۔ کیونکہ سب کے ساتھ پیش آنے والے واقعات ایک ہی جیسے ہیں ۔ 
وجاہت کی پیشانی پسینے سے بھیگ گئی۔ اس ڈائری میں تو کچھ عجیب بات لکھی تھی۔ نہ جانے کیا۔ ساجد نے غائب ہونے کے بعد ڈائری لکھی تھی۔ یہ کس طرح ہو سکتا تھا ۔ یہ تو پاگل پن کی بات تھی۔ اس نے چاہا کہ ڈائری واپس رکھ دے آگے نہ پڑھے ۔ لیکن نہ جانے کیوں وہ ایسا نہیں کرسکا وہ ڈائری اپنے آپ کو پڑھوانے کی کوشش کر رہی تھی ، اس میں لکھا تھا۔
ڈائری پڑھنے والے۔ مجھے یقین ہے کہ آج رات بہت تیز بارش ہوگی۔ بہت بھیانک ۔ ہر طرف گھپ اندھیرا ہورہا ہوگا۔ تم کہیں جارہے ہوگے۔۔۔۔۔ کیوں ۔۔۔۔ ایسا ہی ہوا نا۔۔
ہاں۔۔۔ وجاہت نے غیر شعوری طور پر اپنی گردن ہلادی۔
جیسے وہ ڈائری پڑھ نہیں رہا ہو۔ بلکہ ڈائری اس سے باتیں کر رہی ہو۔۔ آگے لکھا تھا۔۔۔ پھر تمہیں ایک جلتی ہوئی لالٹین دکھائی دی ہوگی۔۔ کسی کھڑکی سے آتی ہوئی روشنی۔۔۔ تم بے ساختہ اس روشنی کی طرف بڑھ آئے ہوگے۔۔ پھر جب تم نے مکان کے دروازے پر دستک دی ہوگی تو دستک کے جواب میں ایک ادھیڑ عمر آدمی نے دروازہ کھولا ہوگا۔۔ جس کے ہاتھ میں جلتی ہوئی لالٹین ہوگی۔۔

ہاں۔۔۔ ہاں ایسا ہی ہوا ہے۔۔ وجاہت نے پھر ڈائری سے کہا۔۔ اب اس کے بدن پر ہلکا ہلکا لرزہ تھا۔۔۔ 
وہ ڈائری کو چھوڑ نہیں سکتا تھا۔۔ خوف کے ساتھ تجسس بھی پیدا ہوتا جارہا تھا۔ ۔
وہ شخص تمہیں مکان میں لے آیا ہوگا۔۔ ڈائری میں لکھا تھا۔۔ پھر اس نے کہا ہوگا تم بری طرح بھیگ گئے ہو۔۔ اس لیے کپڑے بدل لو۔۔ اور تم کپڑے لے کر دوسرے کمرے میں بدلنے چلے گئے ہوگے۔۔ اور جب وہاں سے پہلے والے کمرے میں آئے ہوگے تو چائے کی پیلی کے ساتھ ساتھ ایک خوبصورت لڑکی بھی کمرے میں بیٹھی ہوگی۔۔۔
ہاں۔۔۔ بالکل ایسا ہی ہوا ہے۔۔ وجاہت نے ڈائری کو بتایا۔۔ بلکل ایسا ہی۔۔ اس نے پھر ڈائری بند کرنے کی کوشش کی۔ لیکن اب یہ اس کے بس کا روک نہیں رہا تھا۔۔
ڈائری کی تحریر نے اسے اپنے سحر میں باندھ لیا تھا۔۔ جیسے اس پر جادو کردیا گیا ہو۔۔
پھر اس لڑکی نے باتوں میں کسی ساجد کا ذکر کیا ہوگا۔۔ اور وہ ساجد میں ہی ہوں۔۔ یہ اس کی عادت ہے جب میرے ساتھ یہ سب کچھ ہوا تو اس نے کسی فرحان علی کی بات کی تھی۔۔ کھوئے کھوئے اداس لہجے میں اس نے فرحان علی کی کہانی شروع کی تھی کہ وہ کس طرح ایک بارش کی رات میں آیا تھا۔ پھر وہ اس کے بعد آتا رہا۔ اور ایک رات یہاں آنے کے بعد غائب ہوگیا۔۔ جب وہ اس کے لیے چائے بنانے گئی ہوگی۔۔۔۔
ہاں۔۔ وجاہت بول پڑا۔۔۔ اس کی آواز اچھی خاصی بلند تھی۔۔ اس نے مجھے ساجد کی کہانی سنائی تھی۔۔ اس کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا تھا۔۔۔۔
پڑھتے رہو۔۔ پھر تمہیں سب پتہ چل جائے گا۔۔ اس ڈائری میں لکھا تھا۔۔ میں یعنی ساجد اس لڑکی کی محبت میں گرفتار ہوگیا تھا۔۔ تم نے دیکھ ہی لیا ہوگا کہ وہ کتنی خوبصورت اور دلکش لڑکی ہے۔۔۔ اس کی باتوں میں کتنی خنکی ہے۔۔ اس کے انداز کتنے خوبصورت ہیں۔۔۔ اس لیے کوئی اس کی محبت میں گرفتار ہوجائے تو یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہے ۔۔۔
ہاں۔۔۔۔۔۔۔۔ہاں۔۔۔۔۔۔ وہ ایسی ہی ہے۔۔۔ بے مثال اور میں بھی اسے پسند کرنے لگا تھا۔۔۔ وجاہت نے کہا۔۔۔ اب اسے اس بات کا بھی احساس نہیں رہا تھا کے وہ جو اتنی بلند آواز میں بول رہا ہے تو وہ دونوں اس کی آواز بھی سن سکتے ہیں یا اس کے خلاف کچھ اور بھی کرسکتے ہیں۔۔۔
تو میں اس کی محبت میں گرفتار ہوکر اس سے ملنے آیا تھا 
ڈائری میں لکھا ہوا تھا۔۔ لڑکی اور اس کا باپ دونوں دوسرے کمرے چلے گئے۔۔ اور میں تنہا رہ گیا۔۔ اچانک ایک ایسی بات ہوئی۔۔۔جس نے مجھے حیران اور خوفزدہ کردیا۔۔ اس کمرے میں ایک آئینہ لگا ہوا تھا۔
 بہت بڑا۔۔۔۔ میں اس آئینے کے سامنے تھا۔۔ لیکن اپنے آپ کو دیکھائی نہیں دے رہا تھا۔۔۔ یہ کتنی حیرت انگیز اور خوفزدہ کرنے والی بات تھی۔۔۔ میں آئینےمیں غائب ہوچکا تھا۔۔ پتہ نہیں۔۔۔ یہ میری نگاہوں کا دھوکا تھا یا کوئی اور بات تھی۔۔۔ لیکن جو بھی تھا۔۔۔ تھا بہت خوفناک۔۔۔۔ بھیانک۔۔۔۔ ناقابلِ یقین ۔۔۔ میں اپنی جگہ سے اٹھ کر آئینے کے سامنے آگیا۔۔ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر خود کو دیکھنے کی کوشش کی۔۔۔ لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔۔۔ 
میں غائب ہوچکا تھا مکمل طور پر۔۔۔ پھر مجھے ہنسنے کی آوازیں آنے لگیں یہ آوازیں دوسرے کمرے سے آرہی تھیں۔۔۔ یہ ان دونوں باپ بیٹی کی آوازیں تھیں۔۔۔ وہ شاید میری حالت پر ہنس رہے تھے۔۔ میرا مذاق اڑا رہے تھے۔۔ 
وجاہت نے ڈائری سے نظریں ہٹا کر اپنے آپ کو دیکھا۔۔۔۔۔۔۔

جاری ہے

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے