ناول : سفر کے بعد
از قلم : منظر امام
قسط : 1
اس نے یہ سفر اپنی گاڑی میں طے کرنے کا ارادہ کیا تھا۔ اور اب اس کی سزا بھگت رہا تھا۔ گاڑی راستے میں خراب ہوگئی تھی۔ بہت ہی عجیب صورتحال تھی۔ جس طرح فلموں اور کہانیوں میں ہوا کرتا ہے کہ ایک کردار اپنے سفر پر جارہا ہے۔ راستے میں اچانک بارش ہونے لگتی ہے۔ جس کی شدت بڑھتی رہتی ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ رات بھی ہوجاتی ہے۔
اور پھر ایک لڑکی ملتی ہے۔ سفید لباس میں ملبوس۔ جس کے کپڑے بارش میں ہونے کہ باوجود گیلے نہیں ہیں۔ جس کے ہونٹوں پر ایک عجیب مسکراہٹ تھی اور جس کی آنکھیں بلی کی طرح چمک رہی ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ تو وہ بھی اس قسم کی صورتحال میں گرفتار ہوگیا تھا۔ بارش ہونے لگی تھی۔ اس کی گاڑی خراب ہوگئی تھی اور ہر طرف اندھیرا طاری ہوگیا تھا۔ یہ اور بات ہے کے فلموں اور کہانیوں والی لڑکی کہیں دکھائی نہیں دے رہی تھی۔
وہ جگہ ایسی تھی جہاں کسی قسم کی مدد ملنے کا بھی امکان نہیں تھا۔ مدد دو ہی قسم کی ہوسکتی تھی یا تو کوئی آکر کر اس کی گاڑی کو ٹھیک کردے یا پھر کوئی اس وقت تک پناہ دیدے۔ جب تک بارش کا زور برقرار رہتا ہے پہلی قسم کی مدد بہت مشکل تھی اس علاقے میں اسے کوئی مکینک نہیں مل سکتا تھا۔ پھر دوسری قسم کی مدد رہ جاتی تھی۔ اس کے لیے اسے گاڑی سے اتر کر آس پاس کا جائزہ لینا تھا۔
وہ گاڑی سے اتر آیا ۔ گاڑی کو لاک کرتے کرتے وہ بری طرح بھیگ چکا تھا ۔ بارش ہی اتنی شدید تھی کہ سنبھلنے کا موقع ہی نہیں دے رہی تھی گاڑی کا دروازہ بند کر کے وہ ایک طرف چل پڑا۔ اندھیرے کی وجہ سے راستہ بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا اس علاقے کی بجلی گئی ہوئی معلوم ہوتی تھی ۔ اس لیے تاریکی اور بھی شدید تھی اور یہ بھی پتہ نہیں چل رہا تھا کہ آس پاس کوئی مکان بھی ہے یا نہیں۔
بہرحال وہ ایک طرف چلتا چلا گیا گھٹنے گھٹنے پانی میں چپ چپ کرتا ہوا۔ احساس ہی نہیں ہورہا تھا کہ وہ کسی سڑک پر چل رہا ہے یا پکے راستے پر ہے۔ آس پاس کوئی مکان بھی نہیں تھا نہ جانے یہ کیسی جگہ تھی جہاں سرے سے کوئی آبادی ہی نہیں تھی
پھر اچانک اسے ہلکی سی روشنی دکھائی دے گئی یہ روشنی بارش کی دیوار کو چیرتی ، کانپتی لرزتی ہوئی اس تک پہنچ رہی تھی شاید کسی لالٹین کی روشنی تھی بجلی جانے کے بعد مکین نے لالٹین روشن کرلی تھی۔ وہ اس روشنی کی طرف بڑھتا چلا گیا کچھ دیر بعد وہ اس مکان تک پہنچ چکا تھا۔ اس نے دروازے پر دستک دی۔ ایک بار۔ ۔ ۔دوبار ۔ ۔ ۔تیسری بار ایک شخص نے دروازہ کھول دیا تھا دروازہ کھولنے والا اپنے ساتھ لالٹین بھی اٹھا لایا تھا ۔
کیا بات ہے بھائی اس نے مسافر سے سوال کیا۔
میں ۔ ۔ ۔میں بارش میں بہت بری طرح بھیگا ہوا ہوں۔
اس نے کہا مجھے کچھ دیر کے لیے پناہ چاہیے۔
پناہ چاہیے۔ ٹھیک ہے۔ آؤاندر آجاؤ۔
وہ اس مکان میں داخل ہوگیا اندر آتے ہی ایسا محسوس ہوا جیسے وہ نرم نرم آغوش میں آگیا ہو۔ اندر اور باہر کے موسم میں بلا کا فرق تھا۔ باہر بارش اور ہواؤں نے بے پناہ خنکی پیدا کردی تھی۔ جبکہ اندر سکون تھا اور گرمی تھی
اب اس گھر میں لالٹین کی روشنی میں سب کچھ واضح ہوتا جارہا تھا ۔ وہ ایک چھوٹا سا گھر تھا معمولی سا فرنیچر ، وہ آدمی بھی صاف دکھائی دینے لگا تھا۔ وہ ایک ادھیڑ عمر انسان تھا۔ جو بہت گہری نگاہوں سے اس مسافر کو دیکھ رہا تھا۔
کہاں سے آرہے ہو بھائی؟ اس نے مسافر سے پوچھا۔
صدیق نگر سے۔ مسافر نے جواب دیا۔ سڑک پر گاڑی اچانک خراب ہوگئی مجبوراً اس طرف چلا آیا ہوں ۔
ہاں بارش بھی تو بہت تیز ہورہی ہے اس نے کہا۔ اور تم بری طرح بھیگے ہوئے بھی ہو۔ گر میری مانو تو کپڑے بدل لو میرے کپڑے آجائیں گے تمہیں۔ ورنہ بیمار پڑ جاؤگے۔
کچھ دیر تکلف کے بعد اس نے بات مان لی تھی۔ گھر کے مکین نے اسے شلوار قمیض لاکردیدی۔ وہ دوسرے کمرے میں سے جب لباس بدل کر باہر آیا تو خود کو بہت پرسکون محسوس کررہا تھا۔ پہلے والے کمرے میں اب مکین تنہا نہیں تھا ۔ بلکہ ایک لڑکی بھی تھی۔ اور میز پر گرم گرم چائے کی پیالی بھی رکھی تھی۔ اس نے نگاہوں سے لڑکی کی طرف دیکھا۔
لڑکی اچھی خاصی خوبصورت تھی۔ پھر چائے کی طرف متوجہ ہوگیا۔ چائے کے پہلے ہی گھونٹ نے اس میں اور بھی طمانیت پیدا کرکدی تھی۔
یہ میری بیٹی ہے زیبا۔۔ مکین نے لڑکی کی طرف اشارہ کیا۔
کالج میں پڑھتی ہے۔
میرا نام وجاہت ہے۔ اس نے بتایا۔ کاروبار ہے میرا۔ ایسی بارش میں کہاں نکل پڑے تھے۔ مکین نے پوچھا
میں جب شہر سے روانہ ہوا اس وقت بارش نہیں ہورہی تھی۔ وجاہت نے بتایا۔ یہ بارش تو اچانک ہی ہوئی ہے۔
ہاں!!! اس قسم کی پریشان کر دینے والی بارشیں اچانک ہی ہوتی ہیں۔ پھر پتہ ہی نہیں چلتا کے کیا ہونے والا ہے اور کیا نہیں ہوگا۔۔
میں آپ کا مطلب نہیں سمجھا؟
مطلب یہ کہ اس قسم کی بارش بہت نقصان دے بھی ہوتی ہے خاص طور پر کچے گھروں کے لیے۔ ہمارے یہاں کی سڑکیں بہہ جاتی ہیں ۔ گڑا بلنے لگتے ہیں ۔ اور بھی پچاس قسم کی خرابیاں ہوجاتی ہیں۔
ہاں یہ بات تو ہے۔ وجاہت نے اپنی گردن ہلائی۔۔
پھر اس لڑکی زیبا کی طرف دیکھا۔ آپ کیوں خاموش ہیں ؟ آپ نے ابھی تک ہماری گفتگو میں حصہ نہیں لیا ہے۔
ارے یہ اس طرح خاموش رہنے والی لڑکی ہے۔ اس کا باپ جلدی سے بولا۔
نہیں بابا ۔ ۔ ۔ میں خاموش رہنے والی لڑکی نہیں ہوں ، لیکن ایسی بارش میں خاموش ہوجاتی ہوں۔ اور اس کی وجہ تم اچھی طرح جانتے ہو۔
وہ شخص جھنپ کر دوسری طرف دیکھنے لگا۔
وجاہت نے محسوس کیا کہ ماحول کچھ مکدر ہوگیا تھا۔ یہ شاید ان دونوں کا کوئی راز تھا۔ اور وجاہت اس میں شمولیت نہیں کرسکتا تھا۔
اگر بارش رک جاتی ہے تو ابھی چلا جاؤں گا۔ وجاہت نے موضوع بدلنے کے لیے کہا۔
بارش رک بھی گئی تو رات میں کہاں جاؤگے۔ وہ شخص اس کی طرف دیکھ کر بولا۔ اور تمہارى تو گاڑی بھی خراب ہوچکی ہے۔
ساجد کے ساتھ بھی تو ایسا ہوا تھا بابا ۔۔ لڑکی نے اچانک کہا۔
اوہو۔ ۔ ۔ تم کہاں اس کا ذکر لے بیٹھی۔ وہ آدمی جلدی سے بولا۔ اب انہیں ساجد وغیرہ سے کیا دلچسپی۔ کوئی اور بات کرو۔ یا جاکر آرام کرو۔
نہیں بابا۔۔ خدا کے لیے مجھے کچھ پرسکون ہونے دو۔ لڑکی بھپری جاری تھی ۔
میں کب تک اس کہانی کو اپنے سینے میں چھپائے رہوں گی ؟ آخر میں بھی انسان ہوں۔ میں بھی یہ چاہتی ہوں کہ جو کچھ مجھے پر بیتی ہے۔ وہ میں کسی کو سناؤں تاکہ میری گھٹن ختم ہو۔
اچھا اچھا ۔ ۔ چلو سنادو۔ وہ آدمی جھلا کر کھڑا ہوگیا۔ میں جا رہا ہوں دوسرے کمرے میں۔ پھر وہ دوسرے کمرے میں چلا گیا۔
وجاہت اس لڑکی کی طرف دیکھتا رہ گیا۔ نہ جانے وہ کیسی کہانی سنانے جارہی تھی۔ وہ اس ڈرامے کا حصہ نہیں بننا چاہتا تھا۔ یہ ان کا مسئلہ تھا۔ جس کا اس سے کوئی تعلق نہیں تھا ۔ اس کے باوجود یہ نہیں ہوسکتا تھا کہ اسے اس لڑکی کی داستان سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ کیونکہ اس نے اس گھر میں پناہ لے رکھی تھی اور وہ لوگ اس سے بہت محبت بھرا سلوک کررہے تھے۔
وہ ایسی ہی ایک بھیانک اور طوفانی رات میں یہاں آیا تھا۔ لڑکی نے بولنا شروع کردیا ۔ وہ شاید اس سے مخاطب نہیں تھی۔ بلکہ اپنے آپ سے باتیں کررہی تھی۔ یہ اور بات تھی کہ اس کی آواز اتنی بلند تھی کہ وجاہت بھی اس آواز کو سن سکتا تھا ۔ یہ پچھلے سال کا واقعہ ہے ایسی ہی رات تھی۔ بہت بارش ہورہی تھی۔ اس دن بارش کا سلسلہ مغرب سے پہلے سے شروع ہوگیا تھا۔ اس لیے میں بہت دیر تک نہاتی رہی تھی حالانکہ بابا منح کررہے تھے۔ لیکن ایسا موسم اپنی طرف کھینچ لیا کرتا ہے ۔ سوچا تھا کہ بارش کا سلسلہ رک جائے گا ۔ لیکن بارش رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی
مغرب کے بعد میرے سر میں درد بھی ہونے لگا ۔ اور چھینکیں بھی آنی شروع ہوگئیں۔ شاید بارش میں نہانے کی وجہ سے یہ سب ہوا تھا بہرحال میں اس وقت بستر پر تھی۔ جب دروازہ پر ہونے والی دستک نے چونکا دیا۔
بابا ہی نے دروازہ کھولا۔ آنے والا ساجد تھا ۔ اس وقت میں اس کا نام نہیں جانتی تھی۔ اس کا نام تو بعد میں معلوم ہوا تھا ۔
میں اس کے لیے چائے بنا کر لے گئی۔ وہ ایک شاندار نوجوان تھا۔ پہلی بار کسی کو دیکھ کر میرے دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہوئی تھیں۔ حالانکہ میں ایسی ہرگز نہیں ہوں۔
لیکن ایسے جذبوں کو کیا نام دیا جاسکتا ہے ؟
آپ ٹھیک کہتی ہیں۔ ایسے جذبوں کوکوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔ وجاہت اچانک بول پڑا۔۔
ارے آپ میری بات سن رہے ہیں ۔ لڑکی نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔
جی ہاں۔۔ میں سن رہا ہوں اور آپ کی کیفیت محسوس بھی کر رہا ہوں۔ وجاہت نے کہا۔
پتہ نہیں مجھے یہ سب بتانا بھی چاہیے یا نہیں ۔
جب آپ نے بتانا شروع ہی کردیا ہے تو بتادیں۔ شاید اس طرح آپ کے دل کا بوجھ ہلکا ہو جائے ؟
ہاں یہ بات تو ہے۔ لڑکی نے ایک گہری سانس لی۔
اصل بات تو دل کے بوجھ کی ہوتی ہے، یہ ہلکا ہوجائے تو زندگی ہلکی ہوجاتی ہے
تو ساجد نے تمہارى زندگی کو تبدیل کردیا؟
ہاں ۔۔ایسا ہی ہوا تھا۔ لڑکی نے کہا۔ وہ بارش اسے مجھ تک لانے کا ایک بیان بن گئی تھی۔ وہ صبح تک اس گھر میں رہا تھا۔ صبح جب بارش رکی تو روانہ ہو گیا۔ لیکن وہ پھر آنے کا وعدہ کرگیا تھا۔
بابا بھی اس سے بہت خوش تھے۔ کیونکہ انہوں نے ہم دونوں کی ایک دوسرے میں دلچسپی محسوس کرلی تھی۔ ایسی باتیں پوشیدہ کہاں رہتی ہیں۔ وہ تو ذرا دیر میں نگاہوں کے سامنے آ کر اپنا احساس دلانے لگتی ہیں۔
ہاں ایسا ہی ہوتا ہے۔ وجاہت نے اس کی تائید کی۔۔
وہ پھر آیا۔۔ دوسری بار بارش نہیں ہورہی تھی۔ بہت اچھا موسم تھا۔ وہ میرے اور بابا کے لیے ڈھیر تحفے لے کر آیا تھا ۔
بابا اس بات سے اب اور بھی خوش اور مطمئن تھے ۔ انہیں شاید احساس ہوگیا تھا کہ قدرت نے ان کی بیٹی کے لیے گھر بیٹھے ہوئے ایک اچھا رشتہ بھیج دیا تھا۔ ایک رات وہ پھر آیا۔ اور اتفاق دیکھیں کہ اس رات بھی بارش ہورہی تھی۔ اتنی ہی تیز بارش جتنی آج ہورہی ہے۔ یا پھر اس پہلی رات ہوئی تھی۔ جب ساجد پہلی بار آیا تھا۔ ۔ ۔خیر۔ ۔ ۔ساجد آیا تو میں اس کے لیے چائے بنانے اندر چلی گئی۔ بابا بھی کسی کام سے اٹھ کر دوسرے کمرے میں چلے گئے۔ کچھ دیر بعد جب میں چائے لے کر پہنچی تو ساجد کمرے میں نہیں تھا۔ وہ کہیں غائب ہوچکا تھا
کیا مطلب آپ کا ؟ کیا وہ بارش میں اٹھ کر کہیں چلا گیا تھا ؟ وجاہت نے حیران ہوکر پوچھا ۔ ۔
کچھ نہیں کہہ سکتے۔ لیکن وہ کہاں جاسکتا تھا؟ کیونکہ دروازہ اندر سے بند تھا۔ اور آپ دیکھ رہے ہیں کہ اس کھڑکی میں سلاخیں لگی ہوئی ہیں۔ وہ اس کھڑکی سے بھی نہیں جاسکتا تھا اس کے باوجود میں اور بابا اسے باہر جاکر تلاش کرتے رہے۔ لیکن اس کا کوئی پتہ نہیں چلا اور آج تک غائب ہے۔
یہ ۔ ۔ ۔ یہ کیسے ہوسکتا ہو؟ وجاہت کی حیرانی اور بڑھ گئی تھی۔
یہی تو ہمیں نہیں معلوم کے یہ کیسے ہوگیا ؟ لڑکی نے کہا۔ ۔
لیکن یہ واقعی ہوا ہے ۔ اس لیے جب بھی ایسی بارش والی رات ہوتی ہے تو میں ہر آہٹ پر چونک پڑتی ہوں کہ کہیں ساجد واپس تو نہیں آگیا۔ وہ اب کہاں سے آئے گا۔ وہ تو کہیں جاچکا ہے ۔
یہ تو کچھ عجیب سی بات ہے
ہاں۔۔۔ آپ کے لیے عجیب ہوگی۔ لیکن میرے لیے تو اس میں دکھ کے پہلو ہیں۔ اس کا اندازہ آپ خود کر سکتے ہیں۔
اس وقت اندر سے آدمی نے اپنی بیٹی کو آواز دی۔
زیبا۔ ۔
جاری ہے

0 تبصرے
ہم سے رابطہ کرنے کا شکریہ
ہم آپ سے بہت جلدی رابطہ کریں گے۔