ناول: ادھوری زندگی (دوسرا اور آخری حصہ)

ناول : ادھوری زندگی

تحریر : شمائل مسکان چوہدری

دوسرا اور آخری حصہ


مرینہ کی زندگی خاصی تلخ تھی اور مزید ہوتی گئی ایک دو بار والدین کے پاس سب چھوڑ چلی گئی لیکن بچوں کی خاطر واپس چلی جاتی لیکن سوتن کے آنے کے بعد مرینہ حالات کی تلخیوں سے بہت گھبرا گئی تھی ایک دن گھر میں کسی معمولی بات پہ نادیہ اور مرینہ کا جھگڑا ہو رہا تھا کے زبیر آگیا حسب عادت نادیہ نے واویلا مچا دیا یا مرینہ رہے گئی یا میں اس گھر میں پھر کیا تھا مرینہ پہ وہ پہاڑ ٹوٹ پڑا جس کا ہمیشہ سے ڈر تھا اس وقت مرینہ کانچ کی مانند ریزہ ریزہ ہو گی تھی جب کھڑے کھڑے زبیر نے طلاق دے دی مرینہ کی ہمت ٹوٹ گئی آنسو خشک ہوگے رات بھر وہاں ہی سہمی بیھٹی رہی صبح ہوتے ہی پہلی کوچ سے اپنے ایک بیٹے کے ساتھ اماں بابا کے پاس آگئی بچوں جاتے وقت اتنا ہی کہہ سکی میں واپس آؤں گی میکے چلی تو گی لیکن بوجھ سمجھی جاتی تھی اماں سخت بیمار تھی بھائی بھابھی خرچ سے گھبراتے نظر آتے تھے اماں صدمہ برداشت نہ کرسکیں اور انتقال ہو گیا مرینہ پریشان ہوتی خود کو حوصلہ دیتی خالہ مریم کے گھر گئی اور کہا میں محنت مزدوری کرنا چاہتی ہوں کوئی درست مشورہ دیں خالہ مریم نے اپنی جمع پونج سے 500 روپے دیے اور کہا چوڑیاں لے آو اور فروخت کرو اب مرینہ گلی گلی گھومتی اور اچھا پیسہ کما لیتی جلد کاروبار میں برکت ہو گی اور بھائی بھی راضی ہوگے اور کمائی سے حصہ لینے لگے زندگی کی گاڑی نے آہستہ آہستہ سفر شروع کردیا...
_________
زندگی میں ایک بچہ جو مرینہ ساتھ لے آئی امید کی کرن تھی چوڑیوں کا کاروبار بڑھتا گیا مختلف لوگوں سے جان پہچان ہو گی کبھی کسی بازار کے کنارے ٹوکرا رکھ کے بیٹھ جاتی کبھی کسی شادی میں تو کبھی عید پہ چکر لگا لیتی زندگی کچھ بہتر ہوئی تھی کے یک کے بعد دیگر والدین چل بسے اب جب بھی کام پہ جاتی ثمر کو ساتھ لے جاتی ایک ذاتی گھر کا شوق تھا مرینہ نے کبھی کسی پہ عیاں نہیں ہونے دیا کے وہ طلاق یافتہ ہے ہمیشہ یہی کہتی روزی روٹی کے لیے ادھر آگئی ہے بچے پیچھے گھر ہیں مرینہ دکھوں کی پوٹلی ہمیشہ سب سے پوشیدہ رکھتی تھی ایک دن چوڑیاں چڑھا لو کی صدا لگاتی جا رہی تھی عینی جو پانچ سال کی معصوم بچی تھی نے ضد کر لی مجھے چوڑیاں لینی ہیں اس کی ماں نہیں چاہتی تھی کے وہ کسی عورت کو گھر میں داخل ہونے دے اس نے مرینہ کو برا بھلا کہا آ جاتی ہیں منہ اٹھا کے.... مرینہ نے کہا بہن اگر پیسوں کا مسئلہ ہے تو رہنے دو ویسے ہی ایک درجن دے دوں گئی میں بھی بچوں کی ماں ہوں یوں بچی کو رونے نہ دو چوڑیاں لے لو عینی کی ماں نے ٹوکرا گلی میں ہی اتروایا اور چوڑیاں لے دیں مرینہ کے جانے کے بعد تمام وقت اس کے بارے میں سوچتی رہی اخلاق کی اچھی تھی جانے کتنی مجبور ہوگی.... بس مسلسل خود کو کوستی رہی اور خود ہی خود منصوبہ بنا رہی تھی اب آئے تو معذرت کر لوں گئی پڑوسی عورتوں سے کہہ کے کچھ چوڑیاں بکوا دوں گی کچھ دن بعد نادیہ آپا عینی کو سکول سے لا رہی تھی راستے میں مرینہ کو دیکھا آواز دی چوڑیوں والی روکو سلام دعا کیا اور عینی کی چوڑیوں کے بہانے سے ساتھ لے آئی آج گلی کے بجائے پوچ میں ٹوکرا اتروایا پانی اور پھر کھانے کی دعوت دی کھانے سے مرینہ نے معذرت کر لی نادیہ آپا اپنے کیے پہ شرمندہ تھیں پڑوسن کو عینی کو بھیج کے بلوا لیا آؤ چوڑیاں لے لو اچھی ہیں اب تو مرینہ ہر مہینے پندرہ دن بعد اس گلی کا چکر لگاتی تھی اب سب اس کو پہچانے لگے تھے اب اس کا ٹوکرا اور پھیری والوں کی طرح گلی میں نہیں اترتا تھا اس گلی کی سبھی عورتیں ڈیمانڈ کر کے پسند کی چوڑیاں منگوایا کرتیں تھیں یوں آہستہ جانے کب مرینہ کے چوڑیوں کے ٹوکرے کے ساتھ دکھوں کا ٹوکرا بھی کھل گیا... اب مرینہ جب آتی عینی کی امی کے سامنے کچھ دکھی سکھی کر لیا کرتی تھی وقت گزرتا گیا حالات بازی بدلتے کبھی حق میں تو کبھی درد غم و الم کی داستان بنتے رہے اب کاروباری لحاظ سے کافی حالات بہتر تھے ہر دو ماہ بعد وقت نکال کر بچوں سے ملنے جاتی اور کچھ دے دلا کر ہی آتی تھی بچے بڑے ہوگئے مرینہ نے محنت مزدوری کی کمائی سے ایک پانچ مرحلہ کا پلاٹ پرانی آبادی کے قریب خریدا اب مرینہ کا خواب اپنے چھوٹے بیٹے کے لیے گھر بنانا تھا بیٹے کا دل پڑھائی میں لگتا ہی نہیں تھا اپنی جگہ میں کچی جوہگی بنا رکھی تھی وہاں ہی رہتی تھی اچانک ایک دن مرینہ کی طبیعت بگڑ گئی معمولی علاج کے بعد کام جاری رکھا لیکن مرینہ کی صحت دن بدن بگڑنے لگی اتنی حالت خراب ہو گئی کے نوبت فاقے تک پہنچ گئی
مرینہ بیماری کے باعث کافی پریشان رہنے لگی تھی کام پہ جانا بھی دشوار تھا ایسے میں ایک دن ساتھی چوڑیوں والی نے کسی سائیں کا ایڈریس بتایا غربت کی ماری مرینہ سائیں کے آستانے پہ جاپہنچی حساب کتاب کے بعد کالا جادو بتایا گیا اس بات نے مرینہ جیسی باہمت عورت کو وہم کا مریض بنا دیا ہر جمعرات اور اتوار کو چھری والے سائیں کے پاس جاتی بیٹا ثمر آوارہ گردی میں مصروف رہتا سائیں کے آستانے پہ کالا مرغا لیکر گئی ہوئی تھی اسے پورا یقین تھا اب ٹھیک ہوجائے گئی گھر آ کر کیا دیکھا چوڑیوں کے ٹوکرے سے لیکر گھر کے برتنوں تک سب چوری ہو چکا ہے اب رات بھر پریشانی میں پانی پی کے گزاری صبح مرینہ انجانے راستوں پہ نکل گئی اس کے پاس کچھ بھی نہیں بچا تھا بیماری اور پریشانی کے عالم میں بیچ سڑک بے ہوش ہو گئی لوگ ارد گرد جمع ہو گئے عینی اور اس کی سہیلیاں جو گفٹ شاب سے باہر نکلی عینی کی نظر مرینہ پہ پڑ گئی اس نے حالت دیکھی تو رہا نہیں گیا ڈرائیور سے کہہ کر گاڑی قریب منگوائی اور قریبی گورنمنٹ ہسپتال میں پہنچا دیا ابتدائی طبی امداد کے بعد مرینہ کو ہوش آگیا جب تک ہوش آتا عینی جا چکی تھی مرینہ نے ساری صورتحال بتائی ڈاکٹرز نے عینی کے نمبر پر فون کیا دوسرے دن عینی مرینہ سے ملنے آئی ڈاکٹر نے مرینہ کی متعلق بتایا شاید یرقان ہو سکتا ہے مرینہ نے زکوٰۃ فارم لیے کر علاج جاری رکھنے کی تاکید کی کچھ دنوں میں مرینہ کی کلاسز شروع ہو گئیں وہ اسلام آباد روانہ ہو گئی یوں مزید پانچ سال گزر گئے مرینہ نے صحت یابی کے بعد بھیک مانگ کر دوبارہ کاروبار شروع کیا ثمر کی شادی کروائی احمر بڑا بیٹا جو گاؤں میں رہتا تھا چھت سے گر کر ٹانگ ٹوٹ گئی بہو چھوڑ کر میکے چلی مجبوراً مرینہ بیٹے اور پوتے پوتیوں کو اپنے پاس لیے آئی زندگی نے مرینہ کے امتحان جاری رکھے چوڑیوں کا کاروبار کم ہونے لگا فیشن تبدیل ہونے لگے چوڑی مہنگی ہوگئی مینے والی سادی کانچ کی چوڑی کی جگہ میٹل پلاسٹک کے کڑوں سیٹوں نے لے لی کاروبار ماند پڑ گیا اور ذمہ داری بڑھ گئی یوں چوڑیوں کا کاروبار مکمل ختم ہو گیا لوگوں کے گھروں میں صفائی کی ملازمت شروع کی تو آمدن بہت کم تھی احمر کا بلیڈ پریشڑ کافی ہائی رہتا تھا مناسب دوا اور علاج دستیاب نہیں تھا اسے فالج ہوگیا اس حالت میں ماں کے لیے برداشت ممکن نہ تھا جاپہنچی خالہ مریم کی حویلی میں مدد کی اپیل کی خالہ مریم کے دنیا سے جانے کے بعد شاید دوسری بار اس دروازے پہ گئی تھی مرینہ کی ماں کی نیکی اور خالہ مریم کی خدمت کی بنا پہ وہ گھرانہ مرینہ کی عزت کرتا تھا اس کی بھرپور مدد کی لیکن احمر کو اور بیماریوں نے جھکڑ لیا علاج کے باوجود دنیا کو خیر آباد کہہ گیا بیٹے کا جنازہ لیکر اپنی حویلی میں ایک بار پھر داخل ہوئی جہاں سے خوار کر کے نکالا گیا تھا مرینہ کے ساتھ غیروں جیسا سلوک کیا گیا ہاں بہو کو بچوں کا خیال آگیا وہ اپنے پاس رکھ لیے مرینہ واپس آگئی ثمر کے ہاں بیٹا ہوا اب ثمر کے بجائے اس پوتے سے امید لگا لی تھی پوتے کی دیکھ بھال مرینہ خود کرتی بہو لاپرواہی برتی تھی مرینہ اور ثمر کو کماتے زری کے ہاتھ پہ رکھتے لیکن وہ مسلسل ادھوری خواہشوں کے شکوے ہی کرتی رہتی تھی عید کا دن تھا تندور جلا ہوا تھا جمال جو ابھی بمشکل تین سال کا کھیلتے کھیلتے تندور میں جا گرابری طرح جل گیا زری کمبخت نے فوراً پانی ڈال دیا بجائے بچے کو پیار کرنے ڈاکٹر کے پاس لے جانے کے مارنا شروع کر دیا مرینہ جو کام پہ گئی ہوئی تھی آنے تک بچے کی حالت بہت خراب ہو چکی تھی پانی اور مار نے بچے کی ہچکی بند کر دی تھی مرینہ لاڈلے پوتے کو اس حالت میں دیکھ کر تڑپ گئی عید کے دن ہسپتال تو لے گئی لیکن ڈاکٹر چھوٹی پہ تھے پیسے نہیں تھے کے پرائیویٹ ڈاکٹر کے پاس لے جاتے بچہ ایک ہفتہ گھر دیسی علاج اور کے سہارے زندہ رہا مرینہ نے در در بھیک مانگی جو لوگ پہلے سے جانتے تھے سو پچاس کسی نے پانچ سو ہزار بھی دیا کچھ نے عادت کہہ کر جھٹلا دیا دس ہزار جمع کر کے ڈاکڑ تک پہنچے لیکن بچے کی چار جلدیں جل چکی تھیں دو دن کے علاج کے بعد زندگی کی بازی ہار گیا یہ دکھ مرینہ کی زندگی کا سنگین دکھ تھا آج وہ بری طرح پارہ پارہ ہو گئی تھی صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا تھا مرینہ جس نے انتہائی مشکل زندگی گزاری تھی ذہنی توازن کھو چکی تھی اب بھیک مانگنا خود سے باتیں کرنا اس کی زندگی تھی وہ شاید حواس میں آنا ہی نہیں چاہتی تھی زری پہلے تو سکتے میں چلی گئی لیکن آہستہ آہستہ بہتر ہو گئی اس کو اللہ نے ایک بیٹی سے نوازا اب زری مکمل بدل چکی تھی مرینہ کی بہن جس نے بہن کو بہن نہ سمجھا تھا کا اکلوتا بیٹا گھریلو جھگڑے کی وجہ سے ناراض ہوکر خودکشی کر چکا تھا ثمر کا باپ زبیر مرینہ سے معافی مانگنا چاہتا تھا لیکن بول چال سے قاصر تھا پھیپھڑوں کا مرض لاحق تھا سوتن کے لیے بیمار شوہر اور معذور بچے کو سنبھالنا بڑی آزمائش تھا مرینہ کو پاگل خانے میں پچھلے پانچ سالوں سے زیر علاج تھی لیکن کیس ہسڑی کی عدم موجودگی بہتری سے بہت رکھے ہوئے تھی عینی جو ماہر نفسیات اور بہترین ڈاکٹر بھی تھی نے مرینہ کو پہچان لیا تھا اس کی یاد معلومات علاج میں مددگار ثابت ہو رہی تھیں..... عینی اپنے ہاتھ میں پہنی چوڑیاں گول گول گھماتے ہوئے یہ غم بھری داستان سنائی جارہی تھی آہ زندگی بہت مشکل تھی مرینہ کے لیے اللہ آگے آسانیاں پیدا کرے وہ لاوارث چلی گئی..... ختم شد

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے