ناول: ادھوری زندگی (قسط 1)

ناول : ادھوری زندگی
تحریر : شمائل مسکان چوہدری 
دو حصوں پر مشتمل کہانی
پہلا حصہ


مرینہ کے ابو کسی فیکٹری میں کام کرتے تھے شام کو اسے اپنے ابا کے لوٹنے کا شدت سے انتظار رہتا تھا حمید صاحب کو ریلوے کالونی میں معمولی سا کاواٹر ملا ہوا تھا وہ جانے کتنے جتن کرنے کے بعد نصیب ہوا تھا مرینہ اپنے چھ بہن بھائیوں کی لاڈلی تھی گھر میں غربت ایسی کے حمید صاحب کی مزدوری سے آنے والے پیسوں سے آدھا مہینہ گزارنا بھی مشکل تھا نور بانو مرینہ کی والدہ خاصی سلیقہ شعار عورت تھیں یا غربت نے یہ سب اچھے سے سمجھا دیا تھا مرینہ نے تو بمشکل اتنی تعلیم لی تھی کے نام لکھ سکے پڑھ لے مرینہ کی ماں ہر روز صبح آفیسرز کالونی چلی جاتی وہاں مختلف گھروں میں کام کرتی اور دن کو جب گھر لوٹی تو اکثر پرانی روٹیاں بچا ہوا کھانا لے آتی تھی گھر آتے ہی بچے کھانا مانگتے تو پہلے اچھے اچھے روٹی کے ٹکڑے الگ کرتی اور کسی بچے کے ہاتھ خالہ مریم کے گھر بھیج دیتی کیونکہ نور بانو جانتی تھی خالہ مریم بیمار رہتی ہیں اور غربت تو ان کے گھر میں بھی ڈھیرا ڈالے ہوئی ہے نور بانو کے بچے پڑھائی میں زیادہ اچھے نہ تھے ماں کے لاڈپیار نے چاروں بیٹوں کو کہیں کا نہ چھوڑا تھا مرینہ چھوٹی عمر سے گھر کا تمام کام سنبھالے ہوئے تھی گلی محلے میں سب مرینہ کی مثال دیتے تھے بیٹی ہو تو ایسی خالہ مریم نے بیماری کی وجہ سے جلد ہی اپنی دونوں بیٹیوں کے ہاتھ پیلے کر دیے اب خالہ مریم کی تیمارداری کی تمام تر ذمہ داری بھی مرینہ بیگم پہ آگئی
___________
مرینہ بچپن سے شرارتی اور سمجھ دار مشہور تھی ہر شرارت کا الزام بھی اس پہ آتا لیکن تمام گلی کی مشکلات کا حل بھی اس کے پاس ہوتا تھا بوڑھے ماں باپ کے لیے کچھ کرنا چاہتی تھی لیکن کون ماں تھی جو غربت مٹانے کے لیے اسے کام پہ لگا دیتی مرینہ نے ابھی جوانی کی دہلیز پہ رکھا تھا کے ملتان سے چچا رشید چچی سناراں آگئی شادی کی تاریخ پکی کرنے کے لیے مرینہ کے لیے یہ بات کسی طوفان سے کم نہ تھی لیکن چچی سناراں کے بقول یہ رشتہ تو پچپن سے طے ہے وہ شاید مرینہ کی پیدائش کے بعد پہلی بار ہی ان کے گھر آئی تھیں جلد ہی مرینہ بیاہ کے ملتان چلی گئی مرینہ کے وٹے میں اس کی نند سے اس کے بھائی کی شادی رچا دی گئی مرینہ کے لیے گاؤں نیا تھا لیکن ابتدائی طور پہ چچا نے بھیجی کا خوب دھیان رکھا لیکن جس کی ساس سناراں ہو وہ آرام طلبی کا سوچے نہ ہی تو بہتر ہے مرینہ جلد ہی چچی کے مزاج کو سمجھ گئی لیکن چچی کو خوش رکھنا خاصا مشکل کام تھا مرینہ جانوروں کو چارہ ڈالتی ٹیوب ویل سے پانی کے گھڑے کے کے آتی کسان کی طرح ملکوں کی زمینوں میں کام کرتی کپڑے دھونے ہوتے تو نہر پہ جانا پڑتا گھر کے کام کے ساتھ ساتھ بچے سنبھالنے کا بوجھ بھی مرینہ پہ پڑ گیا کبھی سال بعد تو کبھی دو سال بعد میکے جا سکتی تھی پہلی مصیبت اس وقت سینہ تانے سامنے کھڑی معلوم ہوئی جب ساس نے مرینہ کے نشیی دیور کے لیے اس کی بہن کا رشتہ مانگا مرینہ انکاری تھی وہ دن مرینہ کی زندگی میں عذاب بن کر آیا تھا جب اس کا شوہر نشے میں لٹ گھر آیا اور مر پیٹ کر اپنی بات منوانے کی کوشش کی مرینہ ناراض ہو کر میکے آ گئی لیکن چچی ایسے تھوڑی ہار مان جاتی خاندان کے لوگوں کو جمع کر لائیں یہ اپنی نند کی شادی اپنے بھائی سے نہیں ہونے دینا چاہتی یہ منگنی تو طہ تھی مرینہ کے والدین نے انکار کر دیا ایسا کچھ طہ نہیں تھا لیکن بات پنچایت تک جا پہنچی اور یوں دباؤ میں آ کر مرینہ کو واپس جانا پڑا ثمینہ کی شادی ہو گئی وٹے میں بھائی کا گھر بس گیا لیکن مرینہ پہ زندگی نے ستم ڈھانے کی ٹھان لی تھی اس کا شوہر کوئی کا نہیں کرتا تھا بہن نے بھی آتے ہی مرینہ کے ساتھ نوکروں والا سلوک روا رکھا اب مرینہ کھیتوں میں کام کے ساتھ ملک صاحب کی حویلی میں بھی کام کرتی تھی روز روز کی مار پیٹ جھگڑا معمول بن چکا تھا چچا بھی دنیا سے اوجھل ہوگے... 
_________
مرینہ کی زندگی کافی مشکل تھی امید کی وہ کرن جو بہن کے گھر آنے سے قائم ہوئی تھی اس وقت موم کی طرح پگھل گئی جب ایک دن گھر سے باہر جاتے ہوئے اپنے بچوں کو بہن کے سہارے گھر پہ چھوڑ گئی تھی اس کا چھوٹا بچہ جو محض چند ماہ کا تھا لاپرواہی کے سبب چارپائی سے گر کر جان کی بازی ہار گیا تھا اب دونوں بہنوں میں محبت تو شاید باقی نہ رہی تھی بہن کا رشتہ بھلا کر دیوانی جھٹانی کا رشتہ نبھانے لگی تھیں ملکانی صاحبہ مرینہ کی ہر مشکل میں ساتھ دیتی جب کبھی شوہر کے ظلم وستم کی کہانی ملک صاحب تک پہنچتی وہ بلوا کے سمجھاتے کبھی سختی بھی کرتے چچی سناراں کبھی بہو کی ہمایت نہیں کرتی تھیں ہاں جب زبیر اس کا شوہر مرینہ کو طلاق کی دھمکی دیتا تو اتنا کہہ دیتی کماؤ بیوی اور نہ ملے گئی بچے مجھ سے نہ سنبھالے جائیں گے وقت گزرتا گیا امید کی زنجیر سے ایک ایک کڑی ٹوٹتی گئی حتی کے مرینہ کو چھ بچوں کے ہوتے ہوئے اپنی جھولی خالی محسوس ہونے لگی شوہر نے دوسری شادی کا فیصلہ جانے کب کر لیا تھا اب تو جو تھوڑا بہت زیور تھا وہ لینے کی باری تھی مرینہ نے نشیی شوہر سے عاجز آکر زیور ملکانی صاحبہ کے پاس امانت رکھوایا ہوا تھا اب وہ زیور دینے کے لیے راضی نہ تھی لیکن زبیر باضد تھا یوں بات ملک صاحب تک پہنچ گئی ملک صاحب نے مرینہ کو سمجھایا کما کے تو وہ کھاتی ہے بلکہ اس کے نشے کے پیسے وہ دیتی ہے وہ شادی کی راہ میں رکاوٹ نہ بنے ملک صاحب نے 2کنال زمین مظلوم مرینہ کو ملکانی صاحبہ کی سفارش اور خدمت کے صلے میں دی تھی جہاں کچا گھر اس غرض سے تعمیر کیا گیا کے وہ اور بچے رہیں گے کچھ عرصہ وہ وہاں رہی شوہر نے شادی کر لی اب جب بھی رقم کا تقاضہ کرتا وہ انکاری ہوتی.

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے