ناول: محبت سزائے موت (قسط 1)



ناول : محبت سزائے موت
تحریر : از مہر خان
قسط نمبر 1

سردیوں کی رات تهی
خان پیلس ميں ہر طرف رات کا سناٹا تها

خان پیلس کی چھت پر مہک اپنی سریلی آواز میں گانا گارہی تھی

"جو میری روح کو چین دے پیار دے"

"وہ خوشی بن گئے ہو تم"

"زندگی بن گئے ہو تم"

"زندگی بن گئے ہو تم"

"سچ ميں...ميں زندگی بن گيا ہوں"شہزاد نے پیچھے سے آکر خوش ہوتے ہوئے کہا

"آپ...آپ یہاں کيا کررہے ہيں؟"مہک نے شہزاد کو دیکھ کر گھبراتے ہوئے کہا

مہک چاند کو دیکهتے ہوئے گنگنانے ميں اتنی کھوئی ہوئی تهی کہ اسے پتہ ہی نہيں چلا کے کب شہزاد چھت پر آگيا

"کیوں میرا آنا تمہيں اچها نہيں لگا"شہزاد نے سوال کيا

"نہيں میرا وہ مطلب نہيں تها"مہک نے جواب دیا

"تو کيا مطلب تها آپ کا؟"شہزاد نے بھونیں اچکاتے ہوئے کہا

"آپ جائے یہاں سے کوئی دیکھ لے گا"مہک نے گھبراتے ہوئے کہا

"نہيں جاؤں تو؟"شہزاد نے مہک کی آنکهوں ميں جھانکتے ہوئے کہا

"اگر اتنی رات کو کسی نے ہميں چھت پر ایک ساتھ دیکھ ليا تو قیامت آجائے گی...اور سب پہلے تو پھوپھو نے میرا گلا دبانا ہے"مہک نے خدف سے کہتے ہوئے آخری بات شرارت سے کہی

شہزاد نے زوردار قہیقہ لگایا

"بس کردے اتنی تیز تو نا ہنسے کسی کو نہيں پتہ ہوگا تو آپ کی ہنسی کی آواز سے ضرور لگ جائے گا"مہک نے شہزاد کو چپ کرواتے ہوئے کہا

"اچھا بس نہيں ہنس رہا اور کوئی حکم"شہزاد نے ڈرامائی انداز ميں کہا

آپ کو تو ہر وقت صرف مزاق سچتا ہے...اب جائے یہاں سے ورنہ کوئی آجائے گا"مہک نے شہزاد کو پهر سے جانے کا کہا

"یار تم اتنا ڈرتی کیوں ہو؟اور یہ دیکھو ميں تمہارے ليے کيا لایا ہوں"شہزاد نے مہک کے سامنے لال چوڑیاں کرتے ہوئے کہا

"واؤ یہ کتنی پیاری ہيں...آپ یہ ميرے ليے لائے ہيں"مہک نے خوش ہوتے ہوئے کہا

"نہيں مالی کی بیٹی کے ليے لایا ہوں"شہزاد نے چڑتے ہوئے کہا

"اب ناراض تو مت ہو...جلدی سے پہناؤں....ورنہ کوئی آجائے گا"مہک نے ہاتھ آگے کرتے ہوئے کہا

"کوئی نہيں آئے گا ایک بج رہا ہے سب تو کب کے سو گئے ہوں گے"شہزاد نے چوڑیاں پہناتے ہوئے کہا

"کیا ہورہا ہے یہاں"فوزیہ بیگم نے چلاتے ہوئے کہا

فوزیہ بیگم کی آواز سنتے ہی شہزاد کے ہاتھ سے چوڑیاں چھوٹ کے زمين پر گری تهی

مہک کا تو خوف کے مارے برا حال ہوگیا تها

"امی...."شہزاد نے کچھ بولنا ہی چاہا تها کہ فوزیہ بیگم نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا

"خبردار جو تم نے اس لڑکی کی سائیڈ لی.....اور تم"فوزیہ بیگم نے سختی سے مہک کا ہاتھ پکڑتی ہوئی اس نیچے لے گئی

"امی...امی"شہزاد آوازیں دیتا رہ گيا

اور مہک کو تو سمجھ ہی نہيں آرہا تها کيا کرے کيا نہيں وہ تو صرف آنسو بہارہی تهی

"کامران...سلمہ باہر آؤ اور دیکھو اپنی لاڈلی کے کارنامے"فوزیہ بیگم چلا رہی تهی

کامران صاحب اور سلمہ بیگم دوڑتے ہوئے ہال ميں آئے

"کيا ہوا آپا"کامران صاحب نے کہا

"پوچھو اپنی لاڈلی سے کيا گل کہلارہی تهی چھت پر"فوزیہ بیگم نے طنزیہ لہجے ميں کہتے ہوئے مہک کو سلمہ بیگم کی طرف دھکا دیا

مہک کو سلمہ بیگم نے بروقت تھام ليا

"کيا کہہ رہی ہيں آپا؟بتاؤ مہک"سلمہ بیگم نے محبت سے کہا

"رومت...بولو میری جان"کامران صاحب نے بهی محبت سے کہا

"یہ کيا بتائے گی ميں بتاتی ہوں....رات کے اس پہر یہ ميرے بیچارے شہزاد پہ ڈورے ڈال رہی تهی"فوزیہ بیگم نے طنزیہ لہجے ميں کہا

شہزاد بهی ہال ميں پہنچ چکا تها

"کيا آپا سچ کہ رہی ہيں بتاؤ مہک گھبراؤ مت تم اپنے باپ کو ہر فیصلے ميں اپنے ساتھ کھڑا پاؤگی"کامران صاحب نے شفقت سے کہا

مہک نے محبت سے اپنے باپ کو دیکها اور اپنی ماں کے گلے لگ کے پھوٹ پھوٹ کے رونا شروع کردیا

"مامو جان ميں مہک سے بہت محبت کرتا ہوں....اور ميں 

آپ سے وعدہ کرتا ہوں کبھی مہک کی آنکھ ميں ایک آنسو نہيں آنے دوں گا"شہزاد نے کامران صاحب کا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا

"تم ہوش ميں تو ہو کيا کہہ رہے ہوں اس لڑکی کو کبھی ميں اپنی بہو نہيں بناؤں گی سمجھے تم"فوزیہ بیگم نے غصے سے چلاتے ہوئے کہا

"مگر آپا میری بیٹی ميں کيا کمی ہے"کامران صاحب نے دھیمے لہجے ميں فوزیہ بیگم سے سوال کيا

"پہلی بات تو یہ تمہاری سگی اولاد نہيں ہے اور اس سچ کو تم کبھی جھٹلا نہيں سکتے"

"آپا..."کامران صاحب نے افسوس سے فوزیہ بیگم کو دیکھا

مہک نے روتے ہوئے فوزیہ بیگم کو دیکھا اس کی تو سمجھ ميں ہی نہيں آرہا تهاکہ وہ کيا کہہ رہی ہيں

"اور دوسری بات یہ جہانگير پیلس کی وارث ہے اور یہی اس کی سب سے بڑی غلطی ہے"فوزیہ بیگم نے اپنا گرجدار لہجہ برقرار رکهتے ہوئے کہا

مہک تو بے یقینی سے کبھی اپنی ماں کو دیکھتی تو کبھی اپنے باپ کو

مہک مردہ قدموں سے چلتے ہوئے کامران صاحب کے پاس گئی

"پا...پا...کیا یہ سب سچ ہے...کيا م...ميں آپ کی بیٹی نہيں ہ..ہوں"مہک نے روتے ہوئے اٹک اٹک کر کہا

کامران صاحب نے اثبات ميں سر ہلادیا

یہ کون سا سچ تها جو آج اس کے سامنے کھلا تها 

کیا کامران صاحب اور سلمہ بیگم اس کے ماں باپ نہيں تهے؟

کيا وہ اس خاندان کا خون نہيں تهی؟

اس کے ماں باپ کون تهے؟اور کہاں تهے؟انگنت سوچے مہک کے ذہن ميں آرہی تهی

ہر طرف خاموشی چھاگئی تهی جیسے مہک کی چوڑیوں کی آواز نے توڑا

جو اس کے بے ہوش ہونے کی وجہ سے زمين پر ٹکرائی تهی

"مہک"سلمہ بیگم کرب سے چیکی

شہزاد نے اسے اٹھاتا ہوا اوپر کی طرف بھاگا

اور کامران صاحب نے ڈاکٹر کو فون کيا

"اگر ميری بیٹی کو کچھ ہوا تو ميں آپ کو کبھی معاف نہيں کروں گا آپا"کامران صاحب کہتے ہوئے سڑھیوں کی طرف بڑھے

⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐

ڈاکٹر مہک کو چیک کرکے باہر آئے تو کامران صاحب ان کے منتظر تھے

"ان کو کسی چیز کا صدمہ لگا ہے اس وجہ سے بیہوش ہو گئی ہيں ميں نے سکون کا انجیکشن لگادیا ہے انشااللہ صبح تک ٹهيک ہوجائيں گی اور انہيں ہوسکے تو ٹینشن سے دور رکها جائے ورنہ زیادہ سوچنے کی وجہ سے ان کا نروس بریک ڈاوؤن ہوسکتا ہے"ڈاکٹر ہدایت دیتا ہوا چلا گيا

"آئے ميں آپ کو باہر تک چھوڑدوں"شہزاد کہتا ہوا باہر چلا گيا

سلمہ بیگم نے محبت سے اس کا ہاتھ پکڑا اور رونے لگ گئی

کيا ہوا جو وہ مہک کی سگی ماں نہيں تهی مگر انہوں نے کبھی اسے اس بات کا احساس ہونے نہيں دیا تهاکہ وہ اسکی سگی ماں نہيں ہيں

ماں صرف وہ نہيں ہوتی جو پیدا کرتی ہيں

ماں وہ بهی ہوتی ہے جو پالتی ہيں

کامران صاحب نے محبت سے مہک کے سر پر ہاتھ پھیرا

⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐

صبح مہک کی آنکھ کھولی تو اس نے اپنے برابر ميں دیکها جہاں سلمہ بیگم اس کا ہاتھ تھامے بیٹھے بیٹھے ہی سوگئی تهی

اور بیڈ کے سائیڈ کی طرف رکھی ہوئی چئیر پر کامران صاحب سورہے تهے

رات کا سارا منظر مہک کی آنکهوں کے سامنے کسی فلم کی طرح چل رہا تها اس کی آنکهوں ميں آنسو آگئے تھے

وہ آہستہ سے اٹھی 

نماز پڑھنے کے بعد وہ دعا مانگ کر جیسے ہی اٹھی سلمہ بیگم کی آواز آئی

"تم کب اٹھی؟تمہاری طبيعت ٹهيک ہے نا؟"انہوں نے فکریہ لہجے ميں کہا

"ميں ٹهيک ہوں ماما آپ اور پاپا آرام سے اپنے کمرے ميں جاکر سوجاتے یہاں ایسے کیوں سوئے"مہک نے بهی فکریہ لہجے ميں کہا

"صبح صبح ماں بیٹی کی باتيں شروع ہوگئی اب تو لگتا ہے ناشتہ شام ميں ملے گا کیونکہ ایک بار عورتوں کی باتيں شروع ہوجائے تو تین چار گھنٹے سے پہلے ختم نہيں ہوتی"کامران صاحب نے شرارت سے کہا

"آپ کو بهی نا ہر وقت مذاق لگارہتا ہے...جائے فریش ہوجائے ميں ناشتہ بناتی ہوں"سلمہ بیگم نے کہا اور روم سے باہر نکل گئی

"کیسی ہے میری گڑیا"کامران صاحب نے مسکراتے ہوئے مہک سے پوچها

"ہميشہ کی طرح اچهی"مہک نے مسکراتے ہوئے کہا

مہک جانتی تهی کہ رات بھر اس کے ماں باپ اس کی فکر ميں جاگتے رہے ہوں گے اس ليے وہ انہيں اور پریشان نہيں کرنا چاہتی تهی

سب اپنے ناشتے کے ساتھ انصاف کرنے ميں مصروف تهے

اور مہک خالی خالی نظروں سے پليٹ کو تکے جارہی تهی 

"ميں کون ہوں؟ميرے ماں باپ کون ہيں؟کہاں ہيں؟"

بار بار یہی سوال اس کے ذہن ميں گردش کررہے تهے

ناشتے کی ٹیبل پر گہری خاموشی تهی جسے وقار صاحب کی آواز نے توڑا

"کل کس چیز کا شور ہورہا تها ہال ميں؟"وقار صاحب نے بنا کسی کو مخاطب کیے کہا

سلمہ بیگم کا نوالہ ہاتھ ميں ہی رہ گيا تها انہوں نے پریشانی سے کامران صاحب کو دیکھا جو اطمينان سے ناشتہ کرنے ميں مصروف تهے

"بابا ميں بهی آپ سے کچھ بات کرنا چاہ رہا تها ليکن پہلے سب ناشتہ کرلے"کامران صاحب نے احترام سے کہا

سلمہ بیگم سے تو اب ایک نوالہ بهی حلق سے اتارنا مشکل ہوگيا تها وہ ناشتہ کی ٹیبل سے اٹھ کر اپنے کمرے ميں چلی گئی

اور مہک بهی ان کے پیچھے چل دی

جب مہک سلمہ بیگم کے کمرے ميں داخل ہوئی تو اس نے دیکها سلمہ بیگم بیڈ پر بیٹھی آنسو بہارہی تهی

"کيا ہوا مما آپ رو کیوں رہی ہيں؟آپ کی طبيعت تو ٹهيک ہيں نا؟''مہک نے فکر سے کہا

''ہاں میری جان ميں ٹهيک ہوں"سلمہ بیگم نے اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا

"مما میری وجہ سے آپ کو اور پاپا کو کتنی شرمندگی اٹھانی پڑی پھوپھو کے سامنے آپ مجهے معاف کردیں"مہک نے روتے ہوئے سلمہ بیگم کے سامنے ہاتھ جوڑے

"نہيں میری جان تم تو ہمارا فخر ہوں"

"تو پهر آپ رو کیوں رہی ہيں؟"مہک نے سوال کيا

"اس گهر ميں جو انس سال پہلے ہوا تها وہ سب دوبارہ نا دوہرایا جائے اس بات کا خوف ہے مجهے" سلمہ بیگم نے ماضی ميں کھوتے ہوئے کہا

مہک نے ناسمجھی سے سلمہ بیگم کو دیکھا

🌟🌟🌟🌟🌟🌟

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے