ناول : محبت سزائے موت
تحریر : از مہر خان
قسط نمبر 7
آخری قسط
"ميں اپنی بہن کو نہيں بچا سکا"کامران صاحب نے ٹوٹے ہوئے لہجے ميں کہا
مہک کا پورا چہرہ آنسو سے تر تها
"مجهے مما بابا کی قبر پہ جانا ہے"مہک نے اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا
"ٹهيک ہے پہلے ناشتہ کرلو پهر چلتے ہيں"کامران صاحب نے اپنے جذبات پر قابو پاتے ہوئے کہا
"بابا مجهے شہزاد سے شادی نہيں کرنی آپ جس سے بهی شادی کرنے کا کہيں گے ميں اف تک بهی نہيں کروں گی ليکن اب مجهے شہزاد سے شادی نہيں کرنی ميں بهی چاہتی ہوں فوزیہ پھوپھو اپنے بیٹے کو اپنی آنکهوں سے تڑپتا ہوا دیکھیں"
"مگر مہک"سلمہ بیگم نے کچھ بولنا چاہا مہک نے بات کاٹتے ہوئے کہا
"مما پلیز"مہک بس اتنا بولتی ہوئی کمرے سے باہر چلی گئی
مہک فلک اور عمر کی قبر پر جاکہ بہت روئی آج اسے لگ رہا تها وہ یتيم ہو گئی
وقت اپنی رفتار پہ دوڑ رہا تها اس واقعے کو گزرے ایک مہينہ ہو چکا تها
کہی نا کہی وقار صاحب اور فوزیہ بیگم کو بهی اس بات کا پچتاوہ ہو رہا تھاکہ فلک اور عمر کے ساتھ ان لوگوں نے ناانصافی کی تهی اور اب مہک اور شہزاد کے ساتھ کرنے جارہے تهے
مہک اب اپنے کمرے ميں ہی رہتی تهی اس نے شہزاد کے سامنے جانا بلکل بند کردیا تها شہزاد ہر روز انتظار کرتا کہ شاید آج مہک اپنے کمرے سے نکلے اور وہ مہک کو دیکھ سکے ليکن خود ہی ناامید ہو جاتا مہک نے وقار صاحب اور فوزیہ بیگم سے بهی مخاطب ہونا چھوڑ دیا تها
آج سلمہ بیگم کی لاکھ منت سماجت کرنے کے بعد مہک سب کے ساتھ بیٹھ کر شام کی چائے پی رہی تهی
'کامران اپنے بیٹے کی خوشی کی خاطر مہک کو اپنی بہو بنانے کے ليے تیار ہوں"فوزیہ بیگم نے کامران صاحب سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا
(انہيں بهی اس بات کا یقين ہو گيا تها کہ انہيں مہک سے اچهی بہو چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بهی نہيں ملے گی مگر یہ بات ظاہر نہيں کرنا چاہتی تهی)
"پھوپھو ميں آپ کے بیٹے سی شادی نہيں کرسکتی وہ کيا ہے نا شہزاد ميرا ائیڈیل نہيں ہے"مہک کہتے ہوئے اپنے کمرے ميں چلی گئی
شہزاد تو بےیقینی سے مہک کو دیکھ رہا تها
کامران فوزیہ بیگم نے حیرانگی سے کہا
آپا میری مہک جو فيصلہ کرے گی ميں اس کے ساتھ ہوںکامران صاحب بهی اپنے کمرے ميں چلے گئے
"مہک یہ کيا پاگل پنا ہے"شہزاد غصے سے مہک کے کمرے ميں آیا
''یہ کيا بدتمیزی ہے؟"مہک نے بیڈ سے اٹھتے ہوئے کہا
"اچھا تو یہ بدتمیزی اور جو تم کررہی ہو وہ کيا ہے"شہزاد نے مہک کا بازو دبوچتے ہوئے کہا
"چھوڑا ميرا ہاتھ مجهے درد ہو رہا ہے شہزاد"مہک نے اپنا ہاتھ چھوڑوانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا
"مہک پہلے ميرے سوال کا جواب دو تم مجھ سے محبت کرتی ہو یا نہيں"شہزاد نے مہک کو اپنے قریب کرتے ہوئے کہا
ميں تم سے محبت نہيں کرتی مہک نے نظریں چراتے ہوئے کہا
مہک میری آنکهوں ميں آنکهيں ڈال کر کہوںشہزاد نے مہک کی آنکهوں ميں دیکهتے ہوئے کہا
ميں تم سے نفرت کرتی ہوں سمجھے تم"مہک نے شہزاد کی آنکهوں ميں آنکهيں ڈالتے ہوئے کہا
شہزاد ایک قدم پیچھے ہوا اور کمرے سے چلا گيا
کامران صاحب کے دوست ایان صاحب نے اپنے بیٹے ابان کے ليے مہک کا پرپوزل بھیجا تها جسے مہک نے ایکسپٹ کرلیا تها
شہزاد بلکل ٹوٹ چکا تها پوری پوری رات جاگ کر سگریٹ پیتا رہتا تها اگر کوئی بهی اسے دیکهتا تو یقين ہی نہ کرتا کہ یہ وہی شہزاد ندیم ہے جس کے چہرے پر ہميشہ شرارتی سی مسکراہٹ رہتی تهی
فوزیہ بیگم کا دل کٹ کر رہ گيا تها اپنے بیٹے کو اس حال ميں دیکھ کر
سلمہ بیگم نے مہک کو بہت سمجھایا مگر مہک نے ان کی ایک ناسنی
مہک کی شادی کی ساری تیاریاں مکمل ہوگئی تهی کل جمعہ کی نماز کے بعد اس کا نکاح تها ابان سے....مہک شہزاد کے سامنے جانےسے گریز کر
رہی تهی وہ نہيں چاہتی تهی کہ وہ کمزور پڑ جائيں
آج فوزیہ بیگم مہک کے سامنے اپنی جھولی پہلائے اپنے بیٹے کی خوشیاں مانگ رہی تهی
مہک اس شادی سے انکار کردو ميرا بیٹا مر جائے گا تمہارے بغيرفوزیہ بیگم نے مہک کا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا
پھوپھو کوئی کسی کے بغير نہيں مرتا یہ شاید آپ کے ہی الفاظ تهےمہک نے فوزیہ بیگم کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ الگ کرتے ہوئے کہا
مہک تم مجهے معاف کردو تم تو فلک کی بیٹی ہو تمہارا دل بهی اسی کی طرح بڑا ہے مجهے معاف کردو ميرے بیٹے سے شادی کرلوفوزیہ بیگم نے روتے ہوئے کہا
مہک بنا کوئی جواب دیں وہاں سے چلی گئی
مہک پوری رات جاگتی رہی اور اپنے ہاتھوں سے اپنی محبت کا گلہ گھوٹنے پر آنسو بہاتی رہی فجر کے وقت پیاس لگی تو پانی پینے نیچے چلی گئی
مہک پانی پی کر اوپر آرہی تھی کہ شہزاد کی آواز پر روکی
روکو مہک آخری بار میری بات سن لوشہزاد نے مہک کے سامنے کھڑے ہوتے ہوئے کہا
جلدی بولو مہک نے سرسری انداز میں کہا
مہک پلیز اس شادی سے انکار کردو میں مر جاؤں گا تمہارے بغیر شہزاد نے بےبسی سے کہا
میں انتظار کروں گی مہک کہتی ہوئی اپنے کمرے میں چلی گئی
اور شہزاد غصے سے باہر چلا گیا
مہک نے لال رنگ کا بہت خوبصورت کام درا لہنگہ زیب تن کیا ہوا تھا اس کے ہم رنگ جیولری اور سلیقہ سے دوپٹہ سر پر سیٹ کیا ہوا تھا وہ دلہن بنی بہت خوبصورت لگ رہی تھی
مہک آئینے کے سامنے کھڑی اپنے اوپر ایک بھرپور نظر ڈالتے ہوئے سوچ رہی تهی
(کاش شہزاد ميں تمہارے ليے یہ سنگھار کرتی
کاش فوزیہ پھوپھو کو محبت کرنے والوں کی قدر ہوتی
"کوئی کسی کے ليے مر نہيں جاتا"فوزیہ پھوپھو فلک مما کو یہ نا کہتی)
مہک انگنت سوچوں ميں گھوم تهی کہ سلمہ بیگم پریشانی کے عالم ميں کمرے ميں داخل ہوئی
"کيا ہوا مما آپ اتنی پریشان کیوں لگ رہی ہيں"مہک نے سلمہ بیگم کا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا
"شہزاد کا ایکسیڈینٹ ہوگیا اس کی حالت بہت سریس ہے"مہک کے ہاتھ سے سلمہ بیگم ہاتھ چھوٹا اور وہ دو قدم پیچھے ہوئی
"مہک تم اتنی نےحس کب سے ہوگئی"مہک نے بھیگی آنکهوں سے سلمہ بیگم کو دیکها
"تم تو فلک کی بیٹی تهی جو ہميشہ سب کو خوش دیکهنا چاہتی تهی.......تم فوزیہ آپا جیسی کیوں ہوگئی.......اپنے انتیقام ميں اتنی اندھی ہوگئی کے شہزاد جس کا کوئی قصور نہيں تها اس کی زندگی داو پر لگا دی........تم جانتی تهی کہ شہزاد تم سے کتنی محبت کرتا ہے"سلمہ بیگم ناجانے اور کيا کيا بولے جارہی تهی مگر مہک کے کانوں ميں اپنے اور شہزاد کے لفظ گونج رہے تهے
"ميں تمہارے بغير مر جاؤں گا مہک"
"ميں انتظار کروں گی"
"ميں تمہارے بغير مر جاؤں گا مہک"
"ميں انتظار کروں گی"
مہک زمين بوس ہوگئی
"مہک....."سلمہ بیگم چیخی
"کوئی خطرے کی بات نہيں ہے ان کا بی پی شوٹ ہوگيا تها تھوڑی دیر آرام کریں گی تو بلکل ٹهيک ہو جائيں گی"ڈاکٹر سلمہ بیگم کو ہدایت دیتے ہوئے چلا گيا
سلمہ بیگم محبت سے مہک کا ہاتھ سیلانے لگی
مہک نے دھیرے دھیرے سے آنکهيں کھولی تھوڑی دیر پہلے کا سارا واقعہ اس کے دماغ ميں فلم کی طرح چلنے لگا
مہک ایک جھٹکے سے اٹھی اور باہر جانے لگی
"کہاں جارہی ہو مہک تمہاری طبيعت ٹهيک نہيں ہے"سلمہ بیگم نے فکریہ لہجے ميں کہا
"مما شہزاد مجهے چھوڑ کر نہيں جاسکتا مجهے اس کے پاس جانا ہوگا ميں اس سے کہوں گی تو وہ بلکل ٹهيک ہوجائے گا وہ میری ہر بات مانتا ہےمہک نے روتے ہوئے کہا
اور مہک دروازہ پار کرتی ہوئی گاڑی ميں بیٹھی مہک پورے راستے روتی رہی
مہک دلہن کے جوڑے ميں ہسپتال پہنچی
اس نے ریسیپشن پہ پوچها تو ریسیپشن بیٹھی لڑکی اسے دیکھا اسے دیکھ کر صاف ظاہر ہورہا تها اس کا کوئی عزیز زندگی اور موت کی کشمکش ميں ہے
مہک بھاگتی ہوئی ICU کی طرف گئی
وہاں موجود سب لوگ مہک کو دیکھ رہے تهے مگر اسے تو صرف شہزاد کی فکر تهی
"پلیز مجهے ایک بار ملنے دیں"مہک نے روتے ہوئے ڈاکٹر سے گزارش کی
"دیکهيں سمجھنے کی کوشش کریں وہ ابهی ہوش ميں نہيں ہيں ان کے سر پر گہری چوٹ لگنے کی وجہ سے انہيں ابهی تک ہوش نہيں آیا ہے ہم آپ کو ان سے ملنے کی اجازت نہيں دے سکتے"ڈاکٹر نے نرمی سے مہک سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا
کامران صاحب نے لاکھ منت سماجت کرکے مہک کو اندر بھیجا
مہک نے اندر قدم رکهتے ہی اسے لگا کسی نے اس کا دل مٹھی ميں جکڑ ليا ہو
شہزاد کو بہت چوٹے آئی تهی
مہک نے بیڈ کے پاس پڑے اسٹول پر بیٹھ کر شہزاد کا ڈریپ والا ہاتھ اپنے مہندی والے ہاتهوں ميں لیا
"شہزاد ميں بہت بری ہوں مجهے معاف کردو..........ميں تمہاری محبت کے لائق ہی نہيں ہوں...........مما سہی کہتی ہيں ميں بےحس ہوں مجهے معاف کردو..........ليکن مجهے چھوڑ کر مت جاؤں..........ميں مر جاؤں گی تمہارے بغير"
مہک نے روتے ہوئے کہا اور شہزاد کا ہاتھ اپنے لبوں سے لگایا
شہزاد نے دھیرے سے آنکهيں کھولی تو مہک ڈاکٹر کو بلانے کے ليے اٹھی
شہزاد نے مہک کا ہاتھ کھینچ کر اسے اپنے پاس کيا
"تمہيں تو انتظار تها نہ ميرے مرنے کا اب کیوں رو رہی ہوں"شہزاد نے آنکهيں گھوماتے ہوئے کہا
"شہزاد مجهے معاف کردو"مہک نے روتے ہوئے کہا
"مہک تم جانتی ہوں مجهے تمہارے آنسو کس قدر تکليف دیتے ہيں.....تم رو مت......تو مہک عمر کيا آپ مہک شہزاد بنا پسند کریں گی"
مہک نے شرم سے منہ نیچے کر ليا تو شہزاد کے چہرے پر خوبصورت سی مسکرائٹ چھاگئی
❤ختم شدہ❤
0 تبصرے
ہم سے رابطہ کرنے کا شکریہ
ہم آپ سے بہت جلدی رابطہ کریں گے۔