ناول: محبت سزائے موت (قسط 6)

ناول : محبت سزائے موت
تحریر : از مہر خان
قسط نمبر 6
سکینڈ_لاسٹ_قسط

کامران نے گاڑی مولوی صاحب کے گهر پر روکی....جہاں عمر ان کا انتظار کررہا تها
"اسلام علیکم"کامران نے گهر ميں داخل ہوتے ہوئے کہا
"وعلیکم سلام"سب نے یک زبان ہوکر کہا
کامران پہلے ہی مولوی صاحب کو ساری صورتحال سے اگاہ کر چکا تها اور انہوں نے عمر اور فلک کا نکاح پڑھانے کی رضامندی دے دی تهی اور اپنے بیٹے اور بہو گواہ بنے کو کہا تها
"پہلے ہی بہت دیر ہو گئی ہے میرا خيال جلدی سے نکاح پڑھا ليا جائے"مولوی صاحب نے کہا
"جی بلکل"کامران نے بھی ہامی بھری
فلک سلمہ اور مولوی صاحب کی بہو کے ساتھ کمرے ميں بیٹھی تهی

"لو آج ہم تم سے نکاح عشق کرتے ہيں

ہميں تم سے محبت ہے,محبت ہے,محبت ہے"

فلک خان........ولد وقار خان.........کيا آپ کو یہ نکاح
عمر جہانگير..........ولد کاشف جہانگير...........سے نکاح قبول ہے

"قبول ہے"

فلک خان........ولد وقار خان.........کيا آپ کو یہ نکاح
عمر جہانگير..........ولد کاشف جہانگير...........سے نکاح قبول ہے

"قبول ہے"

فلک خان........ولد وقار خان.........کيا آپ کو یہ نکاح
عمر جہانگير..........ولد کاشف جہانگير...........سے نکاح قبول ہے

"قبول ہے"

عمر جہانگير........ولد کاشف جہانگير.........کيا آپ کو یہ نکاح
فلک خان..........ولد وقار خان...........سے نکاح قبول ہے

"قبول ہے"

عمر جہانگير........ولد کاشف جہانگير.........کيا آپ کو یہ نکاح
فلک خان..........ولد وقار خان...........سے نکاح قبول ہے

"قبول ہے"

عمر جہانگير........ولد کاشف جہانگير.........کيا آپ کو یہ نکاح
فلک خان..........ولد وقار خان...........سے نکاح قبول ہے

"قبول ہے"
دونوں کے نکاح کے بعد سب نے ایک دوسرے کو مبارک باد دی مولوی صاحب کی بہو نے سب کا منہ میٹھا کروایا
"تم دونوں کراچی چلے جاؤں ميں نے اپنے ایک دوست سے
بات کرلی ہے دو تين دن تم اس کے گهر رکھ سکتے ہوں"کامران نے فلک کو گلے لگاتے ہوئے کہا
"بھائی آپ بهی مجھ سے ناراض ہيں"فلک نے معصومیت سے کہا
"نہيں میری گڑیا ميں کیوں تم سے ناراض ہوں گا ميں جانتا ہوں عمر تمہيں ہميشہ خوش رکھے گا"کامران نے فلک کے ماتھے پر بوسہ دیتے ہوئے کہا
"بھائی مجهے آپ کی بھابھی کی اور سب کی بہت یاد آئیگی"فلک نے روتے ہوئے کہا
"فلک روتے نہيں ہيں اور تم خوش رہوں گی ہمارے ليے یہی بہت ہے"سلمہ نے فلک کے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا
"بھائی ميں آپ کی فلک سے فون پہ بات کروادیا کروں گا اور نیا گهر لیکر آپ کو ایڈریس سینڈ کردوں گا آپ اور بھابھی ہم سے ملنے آجائیں گا"عمر نے کامران کے کندھے پر ہاتھ رکهتے ہوئے کہا
"نہيں عمر....تم یہاں سے جانے کے کسی سے کوئی رابطہ رکهنے کی ضرورت نہيں ہے نا ہی مجھ سے....تم اپنی اور فلک کی الگ دنيا بنانا اور دونوں ہميشہ خوش رہنا"کامران نے عمر کو گلے لگایا
فلک سلمہ اور کامران کے گلے لگ کر خوب روئی اور پهر عمر کے ساتھ چل پڑی اپنی زندگی کے نئے سفر پر اس بات سے انجان کے اب ان کی زندگی انہيں کس موڑ پہ لائے گی
❄❄❄❄❄❄
فجر کی اذان کی آواز مہک کے کانوں ميں پڑی تو اسیے اندازہ ہوا کے پوری رات اس نے ڈائری پڑھنے ميں گزار دی ہے
مہک نے نماز پڑھ کر دوبارہ ڈائری پڑھنی شروع کردی 
پوری گزر چکی تهی مگر مہک کی آنکهوں سے نیند کوسوں دور تهی وہ آج اپنے ماں باپ کی پوری کہانی پڑھنا چاہتی تهی
❄❄❄❄❄❄
آج ایک سال گزر چکا ہے مجهے ڈائری لکھے ہوئے اس ایک سال ميں مجهے کبھی وقت ہی نہيں ملا کے ميں ڈائری لکھوں ليکن آج بہت دل کررہا ہے کہ آج اس ميں اپنی ہر خوشی لکھو جو عمر نے مجهے دی ہے اللہ کا جتنا احسان مانو اتنا کم ہے اس نے مجهے عمر جیسا شریک حیات دیا اور اپنی رحمت "مہک" سے بهی نوازا عمر کہتا ہے مہک بلکل ميرے جیسی ہے
ميں جب بهی مہک کو دیکھتی ہوں مجهے سلمہ بھابھی بہت یاد آتی ہيں سلمہ بھابھی کو بهی بچے بہت پسند تهے پتہ نہيں اللہ نے انہيں بهی اپنی نعمت سے نوازا ہوگا یا نہيں مجهے کامران بھائی بهی بہت یاد آتے ہيں اگر وہ نا ہوتے تو ميں کبھی یہ قدم نہيں اٹها پاتی.......ميں ہميشہ کامران بھائی اور سلمہ بھابھی کی شکر گزار رہوں گی
عمر بہت اچهے ہيں انہوں نے مجهے بہت ہوصلہ دیا ورنہ یہ خوف ميرے اندر کے کبھی بهی دادا جان ہم ڈھونڈ لیں گے اور.......ميں اس سے اگے کچھ سوچ بهی نہيں سکتی صرف ميں خوشی کی خاطر ہم آج امریکا شفٹ ہو جائے گے ہميشہ ہميشہ کے ليے وہاں نہ کوئی خوف ہوگا 
ميں عمر مہک ہم اپنی نئی دنيا بسائے گے وہاں صرف اور صرف خوشیاں ہوں گی......
"اور میری زندگی کے سارے دکھ اختیتام کو پہنچے"
❄❄❄❄❄❄
ڈائری کے باقی سارے صفحے کورے تهے 
" پهر کيا ہوا تها ہم تو امریکا جارہے تهے کيا ہوا تها انیس سال پہلے مجهے جاننا ہوگا ماما پاپا جاگ رہے ہوں گے"مہک نے خود کلامی کرتے ہوئے کہا
مہک نے دروازے پہ دستک دی
"کيا ہوا مہک تم ابهی تک جاگ رہی ہوں سوئی نہيں"سلمہ بیگم نے فکریہ لہجے ميں کہا
"مما ميں اندر آ جاؤں"مہک نے سوال کیا
"ہاں آؤ میری جان"سلمہ نے جواب دیا
کیا ہوا مہک کامران صاحب نے مہک کو اپنے پاس بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا
"بابا جان کيا ہوا تها انیس سال پہلے"مہک نے بیٹھتے ہوئے کہا
❄❄❄❄❄❄
بابا جان کيا ہوا آپ اتنے غصے ميں کیوں ہيں"وقار صاحب نے فارق صاحب سے کہا جو کسی سے فون پہ بات کرتے ہوئے بہت غصے ميں نظر آرہے تهے
تمہاری لاڈلی کا پتہ چل گيا ہے چلو اب ميں بتاؤں گا ان دونوں کو میری عزت پہ کیچڑ اچھالنے کا انجام"فارق صاحب نے غصے سے کہا
دروازے پر دستک ہوئی فلک جو کب سے عمر کا انتظار کررہی تهی 
کون ہےفلک نے دروازہ کھولتے ہوئے پوچها
دروازہ کھولے عمر صاحب نے بھیجا ہےمقابل نے کہا
فلک نے دروازہ کھولا تو حیران رہ گئی
دادا جان آپ فلک نے خوف سے کاپنتی ہوئی آواز سے کہا
فارق صاحب نے گهر ميں داخل ہوتے ہی فلک کے منہ پر زوردار تھپڑ رسید کيا اور وہ جو اس کے ليے بلکل تیار نہيں تهی زمين پر گر گئی
مستقبل مہک کے رونے کی آواز آرہی تهی
"بابا مجهے مہک کے پاس جانے دیں وہ بہت رو رہی ہے"فلک نے روتے ہوئے کہا
دروازے پر دستک ہوئی فلک جانتی تهی کون آیا ہوگا
پلیز عمر چلے جاؤں ورنہ یہ لوگ تمہيں بهی ماردیں گےفلک اپنے دل ميں عمر سے مخاطب تهی
دروازے پر دوبارہ دستک ہوئی اس بار فارق صاحب کے گارڈ نے دروازہ کھولا
فلک عمر کے گلے لگ گئی وہ بری طرح ڈری ہوئی تهی
"عمر...."فلک اس سے پہلے کچھ بولتی فارق صاحب نے بات کاٹتے ہوئے کہا
تم دونوں شاید بھول گئے تهے کہ تمہاری سزا ابهی باقی ہے اب تم دونوں کو سزا پنچائیت دے گی
عمر اور فلک گاؤں آگئے تهے اور پنچائیت نے فیصلہ بهی سنادیا تها
کل فجر کے بعد دونوں کو سرعام پھانسی دینے کی سزا ملی تهی اور مہک کو کسی یتیم خانے ميں بھیج دینے کا حکم دیا تها
"بابا یہ غلط ہے ان دونوں نے شادی کی ہے اور شادی کرنا کوئی جرم نہيں ہے"کامران اپنے باپ کو سمجھانے کی کوشش کررہا تها
"بھاگ کے شادی کرنا جرم ہی ہے اور ہر جرم کی کوئی نا کوئی سزا ضرور ہوتی ہے اور ان دونوں کو بهی سزا بھگتنی پڑے گی"وقار صاحب نے بلکل نارمل انداز ميں کہا
"بابا آپ تو فلک سے بہت محبت کرتے تهے آپ کیسے فلک کو مرنے دے سکتے ہيں"کامران نے تاسف سے کہا
"فلک ایک سال پہلے ہی مرگئی تهی اب تو بس دفنانا ہے"وقار صاحب کے لہجے ميں فلک کے لیے بےانتہا نفرت تهی
"آپ ایسا نہيں کرسکتے اگر فلک کو کچھ بهی ہوا تو ميں سب کچھ برباد کردوں گا"کامران نے غصے سے چیختے ہوئے کہا
"کامران....."وقار صاحب نے زوردار تھپڑ کامران کے منہ پر رسید کيا
ہال ميں خاموشی چھاگئی تهی اور سب پر یہ رات قیامت کی طرح گزری
صبح فلک کامران کے پاس آئی
"بھائی پلیز آپ ميرے لیے پاپا سے مت لڑے بس ميں آپ کے سامنے ہاتھ جوڑتی ہوں آپ میری مہک کو اپنی پناہ ميں لے لیں ميں پرسکون ہو کے مرنا چاہتی ہوں مجھ سے وعدہ کرے میری مہک کو ہميشہ اپنے بچوں کی طرح محبت دیئے گے اور ویسے بهی ميں عمر کے ساتھ جی نہيں سکتی تو کيا ہوا عمر کے ساتھ مر تو سکتی ہوں بس میری مہک کا ہميشہ خیال رکھیئے گا"فلک نے روتے ہوئے مہک کے ماتھے پر بوسہ دیا اور اسے سلمہ کی جھولی ميں ڈال دیا
فلک اور عمر کو سرعام پھانسی دی جارہی تهی پورا گاؤں موجود تها ہر ایک آنکھ نم تهی 
مگر فلک اور عمر کے چہرے پر اطمينان تها ان دونوں نے ساتھ مرنے جینے کی جو قسمیں کھائی تهی وہ پوری کررہے تهے
فلک اور عمر کو پھانسی دی جاچکی تهی 
آج آسمان بهی رو رہا تها دو محبت کرنے والوں کو محبت کرنے کی سزا ملی تهی 
"محبت سزائے موت سنائی گئی تهی"
کامران نے سب سے لڑ جھگڑ کر مہک کو اپنے پاس رکھ ليا تها
صدف بیگم اپنی بیٹی کی موت کا صدمہ برداشت نہيں کر پائی اور اسی دن چل بسی
ان انیس سالوں ميں سب کچھ بدل گيا تها فارق صاحب بهی اپنے خالق حقیقی سے جاملے تهے سب اب کراچی شفٹ ہوگئے تهے فوزیہ بهی بیوہ ہوگئی تهی اور اب وقار صاحب کے ساتھ ہی رہتی تهی
جاری ہے

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے