ناول : سفر کے بعد
از قلم : منظر امام
قسط : 3 اور آخری قسط
وجاہت نے ڈائری سے نظریں ہٹا کر اپنے آپ کو دیکھا۔۔۔
کم از کم یہ بات تو غلط تھی۔۔۔ وہ آئینے میں اپنے آپ کو دکھائی دے رہا تھا ۔ ۔ اپنے واہمے پر اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی۔۔۔ ایک لرزتی ہوئی خوفزدہ مسکراہٹ۔۔۔
اس نے پھر ڈائری پر نگاہیں جمادیں۔۔ اس میں لکھا تھا۔۔۔
شاید تم کو یقین نہیں آرہا ہوگا کیونکہ تم ابھی تک میری طرح غائب نہیں ہوئے ہو۔۔۔۔ تم اپنے آپ کو آئینے میں دیکھ سکتے ہو۔۔ اس لیے تم میری بات کو غلط سمجھ رہے ہوگے۔۔ تمہاری مرضی۔۔۔۔ لیکن بہتر تو یہی ہے کے میں نے جو کچھ تحریر کیا ہے تم اسے پوری طرح پڑھ لو۔۔۔ ایک کہانی سمجھ کر۔۔۔۔ ایک دلچسپ داستان سمجھ کر۔۔۔
ہاں ہاں پڑھ تو رہا ہوں۔۔۔۔۔ وجاہت ڈائری سے مخاطب ہوا۔۔۔۔۔۔
تو میں غائب ہوگیا۔۔۔ وہ دونوں باپ بیٹی ہنس رہے تھے۔۔۔ مجھے ان کی آوازیں سنائی دے رہی تھی۔۔۔ میں نے بوکھلا کر دروازے کی طرف دوڑ لگا دی۔۔۔ میں اس گھر سے بھاگ جانا چاہتا تھا۔۔۔ لیکن مجھ سے دروازہ نہیں کھل سکا۔۔۔۔ میری تمام تر کوشش کے باوجود میں نے کھڑکی کی طرف دیکھا۔۔۔ کھڑکی میں مضبوط سلاخیں لگی ہوئی تھی۔۔ میں ان سلاخوں کا بھی کچھ بگاڑ نہیں پایا۔۔۔ پھر اچانک وہ کمرہ لوگوں سے بھرگیا۔۔۔ نہ جانے کہاں سے اتنے لوگ چلے آئے تھے۔۔۔ سب کے سب نوجوان تھے۔۔۔ پریشان حال، میں ان کو دیکھ کر بری طرح گھبرا گیا تھا۔۔۔
خوش آمدید۔۔۔ ان میں سے ایک نے کہا۔۔۔۔ تم ہمارے نئے ساتھی ہو۔۔۔۔ ہم تمہیں اپنے درمیان دیکھ کر خوش بھی ہورہے ہیں اور ہمیں افسوس بھی ہورہا ہے۔۔۔۔
کو.......کون ہو تم لوگ۔۔۔ میں نے پریشان ہوکر پوچھا۔۔۔ اس کمرے کے قیدی۔۔ ایک نے جواب دیا۔۔۔ ہمارے ساتھ وہی سب کچھ ہوا ہے۔۔ ہم بھی بارش کی رات میں پناہ لینے کے لیے یہاں آئے اور ان باپ بیٹی کے چنگل میں گرفتار ہوکر رہ گئے۔۔۔۔
خدا جانے ہمارے گھر والوں پر کیا گز رہی ہو گی۔۔۔ دوسرے نے کہا۔۔۔
اگر ہم یہاں سے نکل بھی جائیں تو بھی کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔۔۔ پہلے والا بولا۔۔۔۔ کیونکہ ہم غائب ہوچکے ہیں۔۔ کوئی ہمیں دیکھ نہیں سکتا۔۔۔ ہم کسی کو نظر نہیں آتے۔۔۔۔ جب خود آئینہ ہمارا عکس قبول نہیں رہا۔۔۔۔۔تو پھر کون ہمیں دیکھے گا۔۔۔
آخر ۔۔۔۔۔۔ آخر یہ سب کیا ہے۔۔۔۔ میں نے ان غائب نوجوانوں سے دریافت کیا جو مجھے دکھائی دے رہے تھے۔۔۔
خدا جانے۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم ابھی تک کچھ نہیں جان سکے ہیں۔۔ یہ دونوں باپ بیٹی آخر چاہتے کیا ہیں۔۔۔۔
کیا تم لوگوں نے کسی کو متوجہ کرنے کی کوشش نہیں کی۔۔۔۔
میں نے پوچھا
ایک بار میں نے کوشش کی تھی۔۔۔ ایک نوجوان نے بتایا۔۔۔
کھڑکی کے باہر ایک آدمی آکر کھڑا ہوگیا تھا۔۔۔ میں نے اسکے پاس پہنچ کر اسے آوازیں دیں۔۔۔ زور زور سے پکارتا رہا لیکن اس نے میری آواز ہی نہیں سنی اور نہ ہی وہ مجھے دیکھ سکا۔۔۔ کیونکہ میں تو غائب ہوچکا تھا۔۔۔
کیا ہم سب مل کر یہاں سے نکلنے کی کوشش نہیں کرسکتے ؟؟؟؟ میں نے دریافت کیا۔۔۔
کس طرح ؟؟ ہم تو غیر ہو چکے ہیں۔۔۔ ہم تو ٹھوس چیز کو محسوس بھی نہیں کرسکتے۔۔۔ ٹھوس چیزیں ہمارے ہاتھوں کی گرفت سے نکل جاتی ہیں۔۔۔
نہیں۔۔۔ یہ تو بہت بھیانک جرم ہے۔۔۔یہ ہمارے ساتھ ظلم ہوا ہے۔۔۔ میں نے کہا کہ ۔ ۔ ۔ میں ان دونوں باپ بیٹی کو ایسا کرنے نہیں دوں گا۔۔ دونوں بھوت ہیں۔۔۔۔۔۔۔بری روحیں ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ میں ان کو ان کے ارادوں میں کبھی کامیاب نہیں ہونے دوں گا ۔۔۔۔۔۔
لیکن تم ان دونوں کا کچھ نہیں کرسکتے۔۔۔ ہم سب مل کر بھی کچھ نہیں کرسکتے۔۔۔ کیونکہ وہ دونوں بہت طاقت ور ہیں۔۔۔
میں اس مکان میں آنے والے کسی نوجوان کو بچانے کی کوشش کروں گا۔۔ میں نے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سے کہوں گا اسے سمجھاؤں گا کہ بھاگ جا یہاں سے۔۔۔۔ یہاں موت ہے یہاں اندھیرا ہے۔۔۔۔۔۔ اگر تو یہاں رہا تو ہماری طرح غائب ہوجائے گا۔۔۔۔۔۔
لیکن سمجھاؤ گے کس طرح۔۔ کون تمہاری آواز سنے گا۔۔۔ تم تو کسی کو دکھائی بھی نہیں دوگے۔۔۔۔
وہ لوگ کہتے رہے۔۔۔۔ لیکن میرا ارادہ پختہ تھا۔۔۔ میرے ساتھ جو ہوا سو ہوا۔۔۔۔ لیکن دوسروں کے ساتھ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔۔۔ میری کامیابی اس میں ہوگی کہ میں کسی اور کو اس مکان کے پھندے میں آنے سے روک سکتا۔۔۔ لیکن کس طرح۔۔۔۔ یہ مجھے سوچنا تھا۔۔ اور اس پریشانی کا حل بھی نکالنا تھا۔۔۔ پھر مجھے ایک ڈائری رکھی ہوئی دکھائی دے گئی۔۔۔ ایک قلم بھی موجود تھا۔۔۔۔ میں سوچا میں اگر اس ڈائری پر اپنے اوپر گزرے والی داستان لکھ دوں تو شاید وہ شخص محفوظ رہ جائے۔۔۔۔۔ جو کسی بارش کی رات میں یہاں پناہ لینے آیا ہو۔۔۔۔۔۔
میں نے قلم کو ہاتھ لگانا چاہا۔۔۔ لیکن میں اسے اپنی گرفت میں نہیں لاسکا۔۔۔ میرا ہاتھ جیسے دھواں بن کر اس قلم کے درمیان سے گزرگیا تھا۔۔۔ اور یہ بہت مایوس کن صورتِحال تھی۔۔۔ پھر مجھے انگریزی فلم یاد آگئی۔۔۔ شاید گھوسٹ نام تھا اس کا۔۔ اس میں بھی کچھ ایسی ہی صورتحال تھی ایک نوجوان ہے جو اپنی موت کے بعد بھی اپنی محبوبہ سے بے پناہ محبت کررہا ہے۔۔ وہ اپنی محبوبہ کو دشمن سے بچانا چاہتا ہے لیکن مصیبت یہ ہے کہ وہ اس سے کچھ کہہ نہیں سکتا کیونکہ محبوبہ اس کی آواز نہیں سن سکتی بہرحال وہ اپنی قوت ارادی سے کام لے کر چیزوں کو گرفت میں لینے کی کوشش میں کامیاب ہو جاتا ہے۔۔۔
میں بھی ایسا کرسکتا تھا میری قوت ارادی یہاں کام آجاتی اس کمرے میں موجود غائب لوگ میرا مذاق اڑاتے رہے لیکن میں نے اپنی ساری توجہ قلم اور ڈائری پر مرکوز رکھی تھی۔۔ یا ہوسکتا ہے کے خود قدرت بھی اس سلسلے میں میری مدد کررہی ہو۔۔ بہرحال ہوا یہ کہ کئی بار کی کوششوں کے بعد میں نے قلم کو اپنی گرفت میں لے لیا۔۔ اس کمرے میں موجود غائب نوجوان میرا یہ کارنامہ دیکھ کر بہت خوش ہوگئے تھے۔۔۔ وہ سب مجھے شاباش کہہ رہے تھے۔میری اس کامیابی کو سراہ رہے تھے۔۔ پھر میں نے کسی نہ کسی طرح ڈائری کو بھی قابو میں لے لیا
تم یہ نہ سمجھو کہ یہ کام ایک آدھ گھنٹے میں ہوگیا تھا۔۔۔ نہیں۔۔۔۔ مجھے تقریباً ایک ہفتہ لگ گیا تھا۔۔ میں سات دنوں تک مسلسل کوشش کے بعد اس نکتے تک پہنچ سکا تھا پھر میں نے وہ سب کچھ لکھنا شروع کیا جو تم اس وقت پڑھ رہے ہو۔۔ تم اپنے آپ کو آئینے میں دیکھو۔۔۔۔ اگر تم غائب نہیں ہوئے ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کے تمہارے بچ نکلنے کے امکانات موجود ہیں اس لیے بہتر یہی ہے کے تم یہاں سے بھاگ نکلو۔۔۔ جتنی دور ہوسکے۔۔۔ اس بات کی پروا مت کرو کے رات بھیانک ہے۔۔۔۔ یا بہت تیز بارش ہورہی ہے۔۔ جان ہے تو جہان ہے اور باہر نکل کر یہ اشتہار چھپوا دو کہ کوئی بھی اس مکان کی طرف نہ آئے۔۔۔۔۔
وہ ڈائری وجاہت کے ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے گر پڑی تھی۔۔۔ اس نے بوکھلا کر آئینے کی طرف دیکھا وہ اب تک آئینے میں دکھائی دے رہا تھا۔۔۔ یعنی وہ ابھی غائب نہیں ہوا تھا۔۔۔ اس کے بچ نکلنے کے امکانات موجود تھے وہ دونوں باپ بیٹی ابھی تک دوسرے کمرے میں تھے۔۔۔ اس نے دروازے کی طرف بڑھنا شروع کردیا اور دروازے کے پاس پہنچا ہی تھا کہ کسی کی آواز اس کو منجمد کر کے رکھ دیا۔۔ وہ آواز اس لڑکی کی تھی۔۔ ارے۔۔۔ کیا ہوگیا ہے آپ کو ؟؟ اس وقت کہاں جارہے ہیں ؟؟؟
وجاہت نے مڑ کر دیکھا وہ لڑکی کمرے سے باہر آگئی تھی۔۔ اس کے ہونٹوں پر ایک عجیب سی مسکراہٹ تھی
وجاہت کا رنگ اس وقت فق ہورہا تھا۔۔۔۔۔ اس کے ہونٹ کانپ رہے تھے۔۔ اس نے بہ مشکل جواب دیا۔۔۔۔۔ میں جارہا ہوں۔۔۔۔
کیوں ابھی تو بارش بھی نہیں رکی؟؟ لڑکی نے کہا۔ ایسی بارش اور اندھیرے میں کہا جائیں گے؟؟
اس کا باپ بھی دوسرے کمرے سے باہر آگیا۔۔ اس نے بھی وجاہت کی گھبراہٹ اور اس کے خوف کو محسوس کرلیا تھا۔۔
برخوردار۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا تم نے کہیں اس شریر کی ڈائری تو نہیں پڑھ لی؟؟ اس نے پوچھا۔۔۔
جی۔۔۔۔ وجاہت حیران رہ گیا تھا۔۔۔۔۔۔ ....جی.... جی ہاں۔۔۔۔ ڈائری۔۔۔۔
لڑکی بے تحاشہ ہنس پڑی۔۔۔ اس کا باپ بھی مسکرا رہا تھا۔۔۔۔ جبکہ وجاہت ہونق بن کر دونوں کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔ پھر اس آدمی نے وجاہت سے کہا۔۔۔ یہاں یہ جو لڑکی ہے نا۔۔۔۔۔۔ یہ اس قسم کی شرارتیں کرتی رہتی ہے۔۔۔ اور مجھے بھی ذبردستی اپنی شرارتوں میں شامل کر لیتی ہے۔۔۔ تم نے اگر اس کی ڈائری پڑھ لی ہے۔۔ اور اس سے گھبرا کر جارہے ہو تو یقین کرو وہ سب بکواس ہے۔۔۔۔ وہ سب کچھ اس نے لکھا ہے۔۔۔۔
جی جناب۔۔۔۔ لڑکی چہک کر بولی۔۔۔ اور آپ کو اندازہ ہوگیا تھا کہ میں ایک اچھی افسانہ نگار بن سکتی ہوں ۔ میرا خیال ہے میری تحریر میں جان ہوتی ہے۔۔۔
ایسی ویسی۔۔۔۔۔۔۔۔ وجاہت بھی مسکرا دیا۔۔۔ اتنی جان ہوتی ہے کہ دوسروں کی جان نکل جاتی ہے۔۔۔۔
دونوں باپ بیٹی ہنس پڑے اس دوران اچانک روشنی ہوگئی بجلی واپس آگئی تھی۔۔۔۔۔۔۔ اس روشنی میں وجاہت نے جب اس لڑکی کے دمکتے ہوئے چہرے کو دیکھا تو اس وقت یہ فیصلہ کرلیا کے چاہے بارش ہو یا نہ ہو۔۔۔ وہ یہاں آتا رہے گا۔۔۔
ایسا محسوس ہوا جیسے اس لڑکی نے بھی اس کے چور خیالات کو پڑھ لیا ہو۔۔۔۔ اس لیے اس نے شرما کر اپنی گردن جھکالی تھی
ختم شد

1 تبصرے
کیا منظر امام کے سارے ناول مل سکتے ہیں..؟
جواب دیںحذف کریںخاص طور پر جو ناول گزشتہ 50 سالوں میں ماہنامہ چہار رنگ اور ہزار رنگ میں چھپے ہیں.
پیشگی شکریہ ❤
ہم سے رابطہ کرنے کا شکریہ
ہم آپ سے بہت جلدی رابطہ کریں گے۔