ناول: مدیحہ_کی_من_مانیاں ازقلم: صالحہ_منصوری قسط_نمبر_03 آخری_قسط فارس گھر آیا تو بہت تھکا ہوا تھا ۔ وہ اکثر آفس میں ہی افطار کرتا تھا اور نماز بعد واپس آتا ۔ آج وہ گھر آیا تو خلاف معمول گھر میں ممانی جان کی آمد سے رونق تھی ۔ " ممانی جان آئیں ہیں ۔؟ پتا نہیں چڑیل آئی بھی ہو یا نہیں ۔" وہ خود کلامی کرتا جا کر اماں سے ملا ۔ " اور کیسے ہو ۔؟ سالگرہ بہت بہت مبارک ہو ۔" وہ اس کی پیشانی چومتی بہت پیار سے کہہ رہی تھیں ۔ اس نے ادھر ادھر نظریں گھمائی ۔ چڑیل نہیں آئی تھی ۔ اسے ایک عجب سی مایوسی ہوئی ۔ " تھینک یو ممانی ، میں ذرا چینج کر لوں پھر آتا ہوں ۔" وہ اجازت لے کر اٹھ گیا ۔ کمرے میں داخل ہوا تو گھپ اندھیرے نے اس کا استقبال کیا ۔ اسے حیرت ہوئی کیوں کہ پھوپھو ہمیشہ عصر بعد ہر کمرے کی لائٹ آن کر دیتی تھیں تو آج کیوں نہیں کیا ۔ جیسے ہی اس نے سوئچ پر ہاتھ مارا پورا کمرہ روشنی میں نہا گیا ۔ اس کے سفید بڑے سے بیڈ پر جابجا سرخ سرخ خون کے دھبے موجود تھے اور سامنے دیوار پر کسی انسانی ہاتھ کا خون سے نشان بنا ہوا تھا ۔ سرہانے رکھی میز پر ایک موٹی سی چھپکلی اور زمین پر دو تین چوہے ادھر ادھر بھاگ رہے تھے ۔ پورے کمرے کا حلیہ اتنا اجڑا اور بکھرا ہوا تھا کہ بے اختیار اسے کراہیت آئی ۔ وہ مڑا تو کسی نے دروازے سے اسے دھکا دے کر گرا دیا اور خود بھی اندر آکر دروازہ مقفل کر دیا ۔ " کون ہو تم ۔؟" وہ فوراً اٹھ کھڑا ہوا ۔ مقابل کی پشت اس کی طرف تھی سو وہ اس کا سیاہ بھوتوں والا چغہ ہی دیکھ سکا ، مقابل آہستہ سے مڑا ۔ اس کا چہرہ چھپا ہوا تھا صرف ہلکے ہلکے سرخ ہونٹ جھانک رہے تھے جو اس کی گوری رنگت کے باعث اور زیادہ نمایاں ہوتے ۔ اسے دیکھ کر فارس کو اندازہ ہوا کہ وہ کوئی عورت ہے ۔ اس سے پہلے وہ کچھ کہتا ایک اور شخص سیاہ چغہ والا بالکونی سے نمودار ہوا ۔ اس کے ہاتھ میں چاقو تھی جو اس نے پہلے والے کو دے دی۔ اس کے بعد تیسرا شخص اس کے بیڈ کے نیچے سے نکلا اور فارس کے سامنے بھاگتے ہویے چوہے کو ٹھوکر ماری ۔ وہ چوہا بیچارہ اٹیچ باتھ روم کے دروازے سے ٹکرا کر اپنے ہوش و حواس سے بےگانا ہو گیا ۔ تبھی واش روم کا دروازہ کھلا اور ایک چوتھا شخص اس کے سامنے آیا جو ان تینوں سے قدرے چھوٹا لگ رہا تھا ۔ ان کے چہرے چھپے ہویے تھے اور وہ آہستہ آہستہ اپنا دائرہ فارس کے گرد تنگ کرتے گول گول چکر لگا رہے تھے ۔ " کیا چاہتے ہو تم ۔۔۔۔ آخر کچھ بولتے کیوں نہیں ۔" وہ پہلے ہی تھکا ہوا تھا اور اب اسے ان سب سے گزرنا محال لگ رہا تھا کہ ایک شخص جس کے ہاتھ میں چاقو تھا اس کی باتیں سن کر آگے بڑھا اور فارس کے گلے پر چاقو رکھ کر بولا :- " ہیپی برتھ ڈے فارس ۔" اور پھر اس نے فارس کو ہلکا سا دھکا دیا ۔ وہ ہنس رہی تھی ۔ فارس حیران ہوا کیوں دوسرے شخص نے اپنا ماسک ہٹا دیا ۔ " ارحم ۔۔۔" اس کے منہ سے نکلا ، ارحم گردن پیچھے کئے ہنستی ہی جا رہی تھی جب ایک اور ماسک ہٹا اب کی حنا نے اسے کہا :- " ہیپی برتھ ڈے فارس بھائی ۔" ہنستے ہنستے وہ بھی بےحال تھی ۔ پھر تیسرا ماسک ثانیہ کے چہرے سے ہٹا ۔ " ہاہاہاہاہا ۔۔۔۔ڈراونی ہیپی برتھ ڈے فارس بھائی ۔" فارس نے مدیحہ کی طرف دیکھا جس نے ابھی تک ماسک نہیں ہٹایا تھا ۔ " مجھے تو پہچان چکے ہوں گے ۔" وہ پوچھ رہی تھی ۔ " جی نہیں ۔۔ ماسک کا کیا بھروسہ ۔۔۔" وہ منہ بنا کر بولا ۔ " اچھا جی لیکن تم سے پہلے میں نے کہہ رکھا تھا کہ عیدی تو بچے لیتے ہیں ۔۔ میں تو منہ دکھائی لوں گی ۔ اس لئے ہم اپنا چہرہ آپ کو نہیں دکھا سکتے ۔ سوری ۔" وہ بنا رکے بولتی گئی اور فارس حیرت کے سمندر میں غرق ہوتا گیا ۔ " میرے کمرے میں کیا کچھ کر ڈالا ہے تم لوگوں نے ظالم عورتوں ۔" اس نے دہائی دی تو ثانیہ کھلکھلا اٹھی ۔ " یہ واٹر کلر ہے ۔" اس نے بیڈ پر پڑے خون کی طرف اشارہ کیا ۔ " اور وہ پینٹ کیا ہوا ہے اگر آپ ذرا سا غور کرتے تو دیوار الگ اور کاغذ الگ دکھتا ۔" اس نے ہاتھ بڑھا کر خونی ہاتھ کا نشان اتار کر کاغذ لہراتے ہویے کہا ۔ " اور یہ چوہے ، چھپکلی ۔؟" فارس نے استفسار کیا تو اس مرتبہ ارحم نے تیزی سے بھاگتے ایک چوہے کو اٹھا کر ہوا میں اچھال کر کیچ کیا ۔ " تین مصنوعی چوہے کے ساتھ ایک مصنوعی چھپکلی بلکل مفت ۔" اس نے چھپکلی کی طرف اشارہ کیا ۔ " اور آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ یہ سب ڈرامہ ہماری بہن اور آپ کی ہونے والی فیوچر وائف مس مدیحہ شاہ نے ارینج کیا ہے ۔" حنا نے اپنے ہاتھ سینے پر رکھ کر ذرا جھکتے خالص چینیوں کی طرح کہا ۔ فارس نے مدیحہ کو دیکھتے نفی میں گردن ہلائی اور سر پکڑ کر بیڈ پر بیٹھ گیا ۔ " تم کبھی نارمل نہیں ہو سکتی ۔" بیچارگی سے کہتے مدیحہ کو اس وقت وہ بہت پیارا لگا ۔ وہ آہستہ آہستہ ایک ایک قدم اٹھاتی اس تک آئی پھر اچانک اپنی مصنوعی چاقو فارس کے گلے پر رکھی ۔ " بتاؤ تمہارے دل میں گھنٹی بجتی ہے یا نہیں ۔؟" وہ پوچھ رہی تھی اور پیچھے کھڑی ارحم اور حنا کی ہنسی چھوٹ گئی ۔ " گھنٹی ۔؟ " وہ حیران ہوا ۔ " وہ ۔۔ گھنٹی مطلب تم اسے لائک کرتے ہو یا نہیں ۔" ارحم نے ہنسی روکتے بمشکل کہا ۔ " افف ۔۔۔۔ ہاں بہن بجتی ہے گھنٹی ، گھنٹا ، وائلن ، پیانو ، گٹار سب بجتا ہے ۔" وہ تھکا تھکا ہلکا سا مسکرا کر کہہ رہا تھا ۔ مدیحہ پہلے تو خوش ہوئی اور اسے چھوڑ کر الگ کھڑی ہوئی پھر جب الفاظ پر غور کیا تو ایک دم مڑی ۔ " اے بہن کس کو بولا ۔" وہ غراتے ہویے پوچھ رہی تھی ۔ فارس نے بھاگ نکلنے میں ہی عافیت جانی اور کپڑے لے کر جلدی سے واش روم میں گھس گیا ۔ وہ کپڑے بدل کر باہر آیا تو کمرے کا حلیہ ٹھیک ہو چکا تھا اور وہ چاروں غائب تھیں ۔ فارس مسکراتا ہوا نیچے آیا تو سب کو اپنا منتظر پایا ۔ مدیحہ بھی وہیں اورینج رنگ کے خوبصورت سے فراک میں ملبوس تھی البتہ سر سے دوپٹہ آگے کر کے رکھا ہوا تھا جس سے اس کی پیشانی اور ناک کا کچھ حصّہ چھپ گیا تھا ۔ اس کے آنے پر سب نے اسے وش کیا پھر ممانی جلد ہی چلی گئیں تو اس نے دروازے پر مدیحہ کو آہستہ سے چڑیل کہا ۔ وہ اسے گھورتی ہوئی نکل گئی پھر یہ سوچ کر خوش ہو گئی کہ کاہلوں کی ملکہ سے تو اچھا ہی ہے کہ چڑیل کہے ۔۔۔۔لیکن کیوں ۔؟ کیا کبھی کچھ اچھا نہیں کہہ سکتا ۔؟ وہ پھر سے منہ بنا کر بیٹھ گئی ۔ *** عید کے دن فارس اس کے گھر آیا تو حیران ہی رہ گیا ۔ پورے گھر کو نہایت خوبصورتی سے سجایا ہوا تھا ، ادھر ادھر نظریں گھمائی تو ممانی جان کچن میں دکھائی دیں ۔ وہ سیدھا انکی طرف آیا ۔ " السلام علیکم ممانی جان … عید مبارک ۔" وہ انہیں گلے لگا کر بولا ۔ " وعلیکم السلام ۔۔ خیر سلامت ، خوش رہو ، اکیلے آے ہو ۔؟" انہوں نے استفسار کیا ۔ " جی گھر پر مہمان آ گئے تھے ۔ " وہ اماں کو بتا کر ایک ایک ڈش چیک کرنے لگا ۔" ارے واہ آج تو بہت زیادہ ہی بہترین کھانے نظر آ رہے ہیں کیا بات ہے ۔۔ " " ہاں صبح ہی مدیحہ نے بنا دئے اتنے سارے کھانے ۔۔۔ اب تم بتاؤ بیٹا یہ سبزی خور لڑکی نے اتنے اہتمام کر ڈالے کون کھائے گا خود تو کھاتی نہیں ۔" اس سے پہلے ان کی شکایتں اور بڑھتی وہ ہلکا سا مسکرا کر بولا " دیکھتے ہیں ناں ممانی جاں کب تک یہ محترمہ نخرے کرتی ہیں ۔" وہ ہنس کر کچن سے نکل گیا ۔ " ارے واہ میری کاہلوں کی ملکہ کام کاجو ہو گئی ۔؟" وہ اسے سوچتا سیڑھیاں چڑھ رہا تھا جب وہ نائٹ سوٹ میں ملبوس اپنے الجھے کھلے ہویے بالوں کو ایک ہاتھ سے سہلاتی اور دوسرے ہاتھ سے جمائی روکتی نیچے آتے ہویے فارس سے ٹکرا گئی ۔ " آوچ ۔" اس نے اپنی آدھی نیند میں ڈوبی آنکھوں کو پوراکھول کر مقابل کو دیکھا جو اپنی ناک پر ہاتھ رکھے کھڑا تھا ۔ " توڑ دو میری ناک ۔" وہ غصّے سے بولا۔ " ابے ہٹ ۔" وہ شاید آدھے خواب میں تھی اس لئے غور کئے بغیر اترنے لگی پھر ایک دم کچھ یاد آنے سے جھٹکے سے مڑی اور اپنے منہ کو دونوں ہاتھوں سے چھپا کر کمرے کی طرف دوڑ گئی ۔ " عیدی تو بچے لیتے ہیں جی میں تو منہ دکھائی لوں گی ۔" جاتے جاتے اس نے فارس کو چھیڑا تو جواباً فارس نے ہانک لگائی ۔ " پہلے تیار تو ہو لو عید کے دن بھی نائٹ سوٹ میں ہی گھوم رہی ہو ۔" مگر وہ جا چکی تھی اور فارس یہاں مسکراتا کھڑا رہ گیا تبھی ثانیہ اپنے کمرے سے نکل آئی ۔ " اوہو فارس بھائی عید مبارک ۔" گلابی فراک میں ملبوس چشمش آج بھی پیاری لگ رہی تھی ۔ " خیر سلامت تمہاری بہن تیار نہیں ہوتی کیا ۔؟" وہ جواب دے کر پوچھنے لگا تو ثانیہ نے ہنس کر اپنا چشمہ ٹھیک کرتے کہا :- " کہاں رہتے ہیں آپ بھائی ۔؟ مدیحہ آپی نے کھانا بنایا ،پھر تیار ہو کے ایک دو ۔۔۔نہیں بلکہ ایک سو سیلفی لی پھر واپس نائٹ سوٹ پہن کر سو گئی ۔" " سو گئی ۔؟" اس نے حیرت زدہ ہو کر پوچھا۔ " ہاں ناں ۔" ثانیہ نے اثبات میں سر ہلایا ۔" اب عصر بعد تیار ہوگی شام میں مہمان آتے ہیں ناں۔" وہ بتا کر سیڑھیاں اتر گئی اور یہاں فارس ٹھنڈی سانس بھر کر رہ گیا ۔ *** عید کے دو ہفتے بعد ان کی شادی کے سارے فنکشن شروع ہو گئے ۔ پھر شادی کے دن جب اس نے عروسی لباس دیکھا تو آنکھیں پھیل گئی ۔ " نہیں پہنوں گی میں یہ ۔" اس نے احتجاج کیا ۔ " مدیحہ ۔۔۔۔ بہن کیا ہوا ۔۔؟ کیوں نہیں پہننا ۔؟" حنا تو گھبرا ہی گئی ۔ " یہ یہ پہن کر میں چل بھی سکوں گی ۔۔۔۔۔ ؟؟؟؟" وہ بھاری بھرکم لہنگے کو دیکھ کر ہی خوفزدہ تھی ۔ " اوہ اللّه ۔۔۔۔۔ عقل بٹ رہی تھی تو تم کر کیا رہی تھی ۔۔۔ نہیں آج تم بتا ہی دو ۔۔۔ بیوقوف عورت شادی پر شادی کا کپڑا نہیں پہنوں گی تو کیا ہسپتال سے تمہیں مریضوں کا لباس لا دیں ۔ نرم اور آرام دہ ۔" حنا پھٹ پڑی ۔ " لیکن حنا میں کیسے ۔۔۔۔" وہ منمنائی تو ارحم نے اسے واش روم میں ڈھکیلا ۔ " کچھ نہیں ہوتا مدیحہ جلدی کرو بس۔" کچھ دیر بعد مدیحہ بی بی سرخ و سبز رنگ کے عروسی جوڑے میں ملبوس ان کے سامنے کھڑی تھیں ۔ خیر کسی طرح ان سب نے اسے تیار کیا پھر جب سینڈلز کی باری آئی تو مدیحہ نے جھٹ سے ایک باکس کھولا اور اس میں موجود سفید رنگ کے جوگرز نکال کر اپنے پاؤں میں پہن لئے ۔ " یہ کیا ہے ۔؟" ارحم کا منہ کھل گیا البتہ ثانیہ نے اپنے دانت چھپانے کو چہرہ موڑ لیا لیکن ہنسی کی آواز مدیحہ کے کانوں سے ٹکرا گئی ۔ " اسے جوگرز کہتے ہیں اور ثانیہ بی بی تمہیں بڑی ہنسی آرہی ہے ۔" اس نے دونوں کو ایک ساتھ جواب دیا ۔ " شادی پر جوگرز کون پہنتا ہے مدیحہ ۔؟" حنا اب تھک گئی تھی اسے سمجھا سمجھا کر ۔ " حنا بہن پلیز یار پہلے ہی لہنگے کے بوجھ تلے دبی جا رہی ہوں یہ ہیل پہن کر نہیں چل سکوں گی اور ویسے بھی جوتے چھپ گئے ہیں ۔" ان نے اپنے پاؤں کی طرف دیکھا ۔ جوتے واقعی نظر نہیں آ رہے تھے ۔ " اوکے ۔" ارحم نے مسکرا کر حنا کو اشارہ کیا کہ اسے رہنے دے جب جوتے نظر نہیں آ رہے تو ٹھیک جیسی مرضی کرے ۔ کچھ دیر بعد وہ ہال میں موجود سٹیج پر تھی اور لوگوں سے چہک چہک کر شادی کی مبارک بعد کے ساتھ تحفے وصول رہی تھی ۔ " مدیحہ دلہن تھوڑی شرماتی ہے ۔" لوگ منتشر ہویے تو اس کے ساتھ بیٹھے فارس نے آہستہ سے کہا ۔ " ہاہاہا ۔۔۔ اچھا ۔۔۔۔ سوری ۔" مدیحہ نے اسے دیکھا پھر کچھ سوچ کر اپنے پاؤں کی جانب دیکھا جو لمبے لہنگے سے چھپا ہوا تھا ۔ " ایسے کیا دیکھ رہی ہو ۔؟" اس نے مدیحہ کی نظروں کا تعاقب کیا ۔ تو مدیحہ نے اپنے پاؤں ذرا سے باہر نکالے ۔ " جوگرز ۔۔۔۔ " فارس کا لفظ اس کے حلق میں ہی کہیں اٹک گیا اسے کھانسی کا شدید دورہ پڑ گیا یہ حقیقت دیکھ کر ۔ " ہاں ناں ۔۔۔۔ میرا تو دل چاہ رہا ہے تمہاری گھوڑی پر بیٹھ کر پورے شہر میں گھوموں ۔" وہ کچھ زیادہ ہی خوش تھی۔ فارس ہنستے ہنستے نفی میں سر ہلا کر رہ گیا اور اس لمحے ان دونوں کو محظوظ دیکھ کر ارحم نے اپنے فون میں ان کی پک سیو کی پھر فوٹو ایڈیٹر سے اس کا کیپشن لکھا :- " مسٹر اینڈ مسز سائیکو ۔" اور فوٹو فارس کو سینڈ کر دی ۔ فارس کا فون آف تھا لیکن اسے یقین تھا وہ جب بھی دیکھے گا ضرور خوش ہوگا ۔ انہوں نے اسی طرح ہنستے کھیلتے شرارتیں کرتے رہنا تھا اتنا تو طے تھا کہ مدیحہ اپنی کاہلی تو چھوڑ دے گی مگر اپنی من مانیاں کبھی نہیں چھوڑنے والی آخر کو وہ بھی اب مسز فارس جو بن گئی تھی ۔ ختم شد ۔ *** ناول سے متعلق اپنی رائے کا اظہار ضرور کریں ۔ مولا سلامت رکھے ۔
0 تبصرے
ہم سے رابطہ کرنے کا شکریہ
ہم آپ سے بہت جلدی رابطہ کریں گے۔