ناول: مدیحہ_کی_من_مانیاں ازقلم: صالحہ_منصوری قسط_نمبر_02 اگلے دن سحری کے وقت وہ سب کے ساتھ نہیں بیٹھی ، پھوپھو کے استفسار پر بتایا کہ وہ ان کے جاگنے سے پہلے کھا چکی ہے ، فارس نے اسے دیکھا ، جھکی ہوئی نظریں ، سہما ہوا لہجہ ۔۔ وہ کہیں سے بھی شوخ چنچل والی مدیحہ نہیں لگ رہی تھی ، " کاش ۔۔ کاش پہلے ہی ایک دو بار جھاڑ دیتا ۔۔ " فارس بس سوچ کر رہ گیا لیکن اس کے سحری نہ کرنے پر تھوڑا فکرمند بھی تھا کہ پندرہ گھنٹے کے روزے کو محترمہ کیسے رکھیں گی ۔؟ خیر سحری بعد وہ سب ایک آہستہ آہستہ اٹھ گئے ، البتہ فارس بیٹھا رہا ۔ " سحری کیوں نہیں کی ۔؟" سب کے جانے کے بعد سامان صحیح کرتی مدیحہ سے اس نے پوچھا جس کے متحرک ہاتھ اس کا سوال سن کر چند لمحوں کے لئے رکے اور پھر دوبارہ مصروف ہو گئے ۔ فارس کچھ دیر اسے دیکھتا رہا پھر خاموشی سے اٹھ کر چلا گیا ۔ صبح سارا دن وہ مصروف رہی ، اماں تو اس کی تبدیلی پر جہاں حیران تھیں وہیں شکر کا سجدہ کرتے نہ تھکتیں ، مدیحہ ابھی کچن میں موجود رول بنانے کی تیاری کر رہی تھی جب اس کے کانوں میں ارحم اور فارس کی ہنسنے کی آواز آئی ، نہ چاہتے ہویے بھی وہ سننے پر مجبور تھی کیوں کہ کچن ہال سے اٹیچ تھا ۔ " یار سچ میں کاش ماما نے اس کی جگہ تمہارا ہاتھ مانگا ہوتا ۔" یہ فارس کی آواز تھی ، مدیحہ کے ہاتھ رک گئے ۔ " اونہہ بڑا آیا ہاتھ والا ۔۔۔۔ اس جیسے بندے سے میں اپنی جوتی بھی نہ اٹھواوں ۔" وہ تلخی سے سر جھٹک کر رہ گئی ۔ " کم آن اسلام میں چار شادی جائز ہے ۔" یہ ارحم تھی ، مدیحہ کا تو دل کیا ان دونوں رومیو جولیٹ کو گھر کے باہر پھینک دے ، اس نے ساتھ کھڑی حنا کو دیکھا جو سنجیدہ سی اسے ہی دیکھ رہی تھی ۔ " یہ تم دیکھ لو میں آتی ہوں ذرا ۔" حنا کو اپنا کام تھما کر ادھر وہ کچن سے نکلی ادھر ارحم اور فارس آ گئے ۔ " کیا ہوا آواز آ رہی تھی کیا یہاں تک ۔؟" فارس نے پوچھا تو حنا نے ستائش سے کہا :- " آواز ۔۔۔؟ ایک دم رئیل ایکٹنگ کی تم دونوں نے ۔ " اس بات پر ارحم اور فارس نے ہاتھ پر ہاتھ مارا ۔ " دیکھتے ہیں اب فیوچر وائف کب تک ناراض رہتی ہیں ۔ " فارس نے سلیب سے ٹیک لگائے ہاتھ سینے پر لپیٹے مسکرا کر کہا ۔ *** مدیحہ بہت پریشان تھی ، ایک طرف تو فارس اور ارحم کی باتیں دوسری طرف اپنی کیفیت پر حیرانی ۔ اسی پریشانی کے عالم میں وہ اپنے کمرے میں چکر کاٹ رہی تھی جب حنا آہستگی سے آئی اور بیڈ پر بیٹھ کر سر ہاتھوں میں گرا لیا ۔ " آخر کیا ہوتا جا رہا ہے مجھے ، مجھے کیا وہ چار شادی کرے یا چالیس ، کون سا وہ میرا سالار سکندر ہے جو میں اتنا پریشان ہوں ۔" اس کی بڑبڑاہٹ حنا بخوبی سن سکتی تھی ۔ " سالار نہ صحیح تمہارا ایک مہینے بعد ہونے والا شوہر تو ہے ۔" حنا کی بات پر وہ رک کر اسے دیکھنے لگی ۔ " تو ۔۔؟ " اس نے ابرو اٹھائی ۔ " افف پاگل لڑکی یہاں آؤ ۔" وہ سر پکڑ گئی ۔" تم اپنی فضول سی عادت کی وجہ سے فارس کو گنوا دو گی ، نہیں مدیحہ تمہیں لڑنا چاہئے ارحم سے ، اسے ڈی گریٹ کرو ۔ " حنا اسے سمجھا رہی تھی ۔ " لیکن اس کے ساتھ کچھ محسوس ہی تو نہیں ہوتا ناں ۔۔ نہ وہ معیز جیسا ہے ، نہ افق کی طرح ہینڈسم ، نہ سالار کی کوئی خوبی ، نہ ہی اس نے مجھے عمر کی طرح کبھی کوئی گفٹ دیا ۔اور فارس سے رومینس ۔۔۔۔۔ یخ ۔۔۔۔ سوچ کر ہی منہ کڑوا ہو گیا ۔" وہ برے برے منہ بنا کر بولی ۔ " صرف نام ہی فارس ہے باقی تو کوئی فارس غازی والی خوبی نہیں ۔" وہ ہاتھ جھاڑ کر کھڑی ہو گئی ۔ " تو تم کون سی امامہ ، پریشے ، علیزہ اور زمر ہو ۔۔۔؟ دیکھو مدیحہ زندگی ناول کی دنیا سے بہت الگ ہے ، ناول انسان لکھتے ہیں اور ہماری زندگی کاتب تقدیر نے لکھی ہے اور یقین کرو ہماری لائف سب سے اچھی لکھی گئی ہے کیوں کہ یہ خالق نے لکھی ہے کسی مخلوق نے نہیں ۔" وہ اسے سمجھا رہی تھی ، چپ ہوئی تو مدیحہ کو گہری سوچ میں ڈوبا پایا ۔ " کیا سوچنے لگیں ۔؟" وہ پوچھ رہی تھی ۔ " سوچنے نہیں لگی ، سوچ چکی اور اب دیکھو میں ان دونوں کا کیا حال کرتی ہوں ۔" وہ تیز تیز قدم اٹھاتی کمرے سے باہر نکل گئی ۔ " اوہ اللّه کہیں ایکشن کا ری ایکشن نہ ہو جائے ۔" حنا سر پر ہاتھ مارتی اس کے پیچھے بھاگی ۔ ارحم پھوپھو اور اماں کے ساتھ بیٹھی باتیں کر رہی تھی جب مدیحہ ساتھ آبیٹھی ۔ " ارے ارحم یہاں کیوں بیٹھی ہو۔۔۔۔۔ بلکہ اماں اور پھوپھو جان آپ دونوں کو تو بلکل فکر نہیں ہے کہ ارحم یہاں بیٹھی ہے ۔" اس نے ایک ساتھ تینوں کو مخاطب کیا ۔ " کیا مطلب ۔؟" اماں نے اپنا چشمہ ٹھیک کرتے پوچھا تو وہ ان سے لگ کر بیٹھ گئی ۔ " اماں کتنا اچھا ہوتا ناں اگر ارحم کی بھی شادی میرے ساتھ ہو جاتی ، بیٹیاں بڑی ہو جائیں تو زیادہ دیر تک انہیں گھر میں رکھنا ٹھیک نہیں ۔" وہ کسی بڑی بوڑھی کی طرح کہہ رہی تھی ۔ جب کہ ارحم کے چہرے کا رنگ اڑ گیا ۔ " مدیحہ بہن دیکھو ۔۔۔ ایسی کوئی جلدی نہیں ہے ۔" ارحم نے کچھ کہنا چاہا تو وہ فوراً بات کاٹ کر بولی :- " جلدی تو میرے لئے بھی ہے لیکن کر رہی ہوں ناں ۔" " صحیح تو کہہ رہی ہے ، کوئی اچھا سا لڑکا مل جائے بس ارحم کا فرض بھی ادا ہو جاتا ۔" پھوپھو نے اس کی تائید کی اور وہ مسکرا کر اٹھ کھڑی ہوئی ۔ " مدیحہ سے پنگا ۔۔۔۔ دیٹس ناٹ چنگا ۔" ان سے دور آ کر اس نے ایک زور دار قہقہہ لگا کر اپنا پسندیدہ فقرہ دہرایا ، حنا جو کچھ دور ہی کھڑی یہ سب دیکھ رہی تھی حیران ہی رہ گئی ۔ " اس میں شیطان کی روح ہے ۔" پھر ارحم کو دیکھا جو پریشان سی اس راہ کو تکی جا رہی تھی جہاں سے مدیحہ ابھی ابھی گزری تھی ۔ *** فارس شام کو آیا تو ارحم کو بے چینی سے یہاں وہاں ٹہلتے پایا ۔ " ارحم کیا ہوا سب ٹھیک تو ہے ناں ۔؟" وہ اسکی طرف آیا ، ارحم جو اسی کا انتظار کر رہی تھی اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے اسے گھورتے دونوں بازو پکڑ کر بولی ۔ " تم تو ڈوبو گے مجھے بھی لے ڈوبو گے ، تمہاری والی میری شادی کے پیچھے پڑ گئی ۔" " وہاٹ ۔۔؟ لیکن کیسے ہوا یہ سب ۔؟" وہ حیران تھا ۔ جواب میں ارحم اسے سب بتاتی گئی ۔ فارس ہنس رہا تھا اتنا کہ اس کی آنکھوں سے آنسو نکل آے ۔ " مائی گاڈ میں سوچ نہیں سکتا ۔۔۔ مطلب جس لڑکی کو لڑنے اور سستی کے علاوہ کچھ نہیں آتا وہ اتنی زبردست پلاننگ کر بیٹھی ۔ " " ہنسو نہیں الو ۔ میرے لئے کچھ سوچو ابھی مجھے ڈیزائنر بننا ہے ۔" " اوکے پہلے میں اس کی تو خبر لوں ۔" " جا جلدی کر بھائی جو کرنا ہے ۔" وہ جھنجھلائی ہوئی تھی ۔ فارس ہنستا ہوا مدیحہ کے کمرے کی طرف بڑھ گیا ۔ " کیا سوچ کر ارحم کی شادی کی بات کی تم نے ۔" وہ کڑے تیور لئے پوچھ رہا تھا ۔ " پہلے مجھے میرا فون اٹھا کر دو ، وہ وہاں میز کے پاس رکھا ہے ۔" وہ پیر لمبا کر کے بیٹھی ہوئی تھی سو اشارے سے بتایا ۔ فارس نے دانت پیس کر اسے دیکھا پھر فون اس کے بیڈ پر رکھتے دوبارہ اپنا سوال دھرایا ۔ " میری مرضی ۔ " فارس کے تو ہاتھوں طوطے ہی اڑ گئے ۔ وہ لڑکی جو دو دن پہلے اتنی خائف تھی اس سے اچانک بے باکی سے باتیں کیسے کرنے لگی ۔ اس کی سمجھ نہیں آیا کہ کیا کہے وہ ہونقوں کی طرح اسے دیکھ رہا تھا جب کہ محترمہ ہینڈز فری کانوں میں ڈالے برابر گنگنا رہی تھی ۔ " یو لسن اپ شام ۔۔۔۔ یو تھنگ دیٹس آ سونگ ۔۔۔۔۔" اچانک گاتے گاتے وہ رک گئی اور گردن موڑ کر اسے دیکھا ۔ " میرے پاس پیسے نہیں ہے جو سر پر کھڑے ہو جاؤ کہیں اور ۔۔۔" یہ کہہ کر وہ رکی نہیں بھاگتی ہوئی کمرے سے نکل گئی ۔ وہ جانتی تھی کہ فارس اسے چھوڑے گا نہیں ، اور یہاں فارس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ کیا کر ڈالے وہ ساتھ ہی اس کے پیچھے لپکا ۔ *** ان دونوں کے جھگڑے ختم ہونے نہیں آ رہے تھے ، ارحم اور حنا ان کی دوریاں کم کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتیں لیکن کبھی فارس چڑ جاتا تو کبھی مدیحہ بی بی کے ہاتھوں سے کوئی حادثہ رونما ہو جاتا ۔ کبھی فارس کی شرٹ پریس کرتے مدیحہ سے کپڑے جل جاتے تو کبھی فارس اس کے کمرے میں کاکروچ چھوڑ کر دروازہ بند کر دیتا ، کبھی ارحم اور فارس ساتھ بیٹھے ہوتے تو مدیحہ کے ہاتھ سے پانی پودوں کی بجائے ان کی آبیاری کرنے لگتا ۔ پھر فارس کو غصّہ آتا تو مدیحہ کی بنائی ہوئی کھیر میں شیمپو ڈال کر چمچہ ہلا دیتا ۔ " کیا مسئلہ ہے تمہیں ۔؟" وہ چڑ کر پوچھتی تو وہ ایک شان بے نیازی سے شانے اچکا کر اسے مکمّل طور پر نظر انداز کرتا گزر جاتا اور وہ کڑھ کر رہ جاتی ۔ پھوپھو کے جانے میں ابھی دو دن باقی تھے اس لئے پھوپھو اور اماں ذرا شاپنگ پر نکلی ہوئیں تھیں ، پھوپھو نے اسے بھی چلنے کہا تو وہ افطار کی تیاری کا کہہ کر انکار کر گئی ۔ " تم نہیں چلو گی تو شاپنگ کیسے ہو گی ۔؟ آج کل کی لڑکیوں کا فیشن ہمیں کیا پتا ۔؟" پھوپھو نے کہا تو وہ ارحم کو ان کے سامنے کھڑا کرتے ہویے بولی :- " اسے لے جائیں ۔ اس کی پسند بہت اچھی ہے ۔" وہ زبردستی مسکرائی ۔ ( کون سا ان کا لایا ہوا سامان عید پر استعمال کرنا ہے ، لے آے جو اچھا لگے ۔) وہ دل ہی دل میں سوچے جا رہی تھی ۔ پھر وہ مان بھی گئیں اور اماں کے ہمراہ ارحم کو لے کر چلی گئیں ۔ حنا ابھی تک یونیورسٹی سے واپس نہیں آئی تھی اور ثانیہ اپنے کمرے میں بیٹھی کسی کتاب کی ورق گردانی کر رہی تھی ۔ مدیحہ نے اکتا کر ادھر ادھر دیکھا فون تو اوپر کمرے میں رکھا تھا ، اسے کوفت ہوئی ۔ لیکن بور ہونے سے اچھا تھا کہ دس بارہ زینے چڑھ کر اپنا فون لے آے ۔ وہ اٹھی اور پہلا قدم سیڑھی پر رکھا ہی تھا کہ فارس پر نظر پڑی جو نیچے اتر رہا تھا ۔ " فارس ۔۔۔ رک جاؤ اترنا نہیں ۔" اچانک وہ چیخی ۔ فارس اس کے اس طرح کرنے پر گھبرا گیا ۔ " کیا ہوا ۔؟" وہ اوپر ہی کھڑے کھڑے پوچھنے لگا تو مدیحہ نے ایک نرم مسکراہٹ اس کی طرف اچھالی ۔ " تم جانتے ہو تم بہت اچھے ہو ، ہینڈسم اور ڈیسینٹ سے ۔؟" فارس نے اسکی طرف یوں دیکھا جیسے اسے مدیحہ کی دماغی حالت پر شبہ ہو ۔ " مجھے لگتا ہے تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ۔" وہ آنکھیں سکوڑ کر بغور اسے دیکھنے لگا ۔ " وہ تو تمہیں دیکھ کر کبھی ٹھیک نہیں رہتی ۔" مسکراہٹ ہنوز اس کے چہرے پر تھی۔ " کیا کہا ۔؟" فارس نے اسے گھورا ۔ " نہیں ۔۔۔ نہیں ۔۔۔ نہیں ۔۔۔ نیچے مت آنا ۔۔" وہ اسے اترتا دیکھ کر دوبارہ بولی ۔ " آخر کیا پرابلم ہے ۔۔۔؟" فارس جھنجھلا گیا ۔ " فارس دیکھو آج صرف ایک بریڈ سحری میں کھایا پھر سارا دن کام بھی کرتی ہوں تم اتنا کرو کہ میرے کمرے سے فون لا دو پلیززززززززز ۔۔۔۔۔۔۔۔۔" اپنا مدعا بیان کرنے کے بعد آخر میں اس نے پلیز کافی کھینچ کر کہا ۔ فارس کی پیشانی پر موجود شکن یکسر طور پر غائب ہو گئی ، اس کی جگہ اب طنزیہ مسکراہٹ نے لے لی ۔ " اوہ تو اس لئے میں آج اچھا لگنے لگا ، کاہلوں کی ملکہ خود جاؤ ، میں شادی سے پہلے زن مرید نہیں بننا چاہتا ۔" وہ سیٹی بجاتا نیچے اترنے لگا ۔ " تو کیا شادی بعد کام کرو گے ۔؟ ہیں ۔۔۔ سچی ۔؟ " وہ دو زینے ہی طے کر پایا جب مدیحہ نے پوچھا ، اس کے بڑھتے قدم رک گئے ۔ " ہاں ارحم سے شادی کے بعد ، ورنہ تم مجھے زن مرید نہیں کام والا چپراسی بنا دو گی ۔" وہ ہنستے ہویے اسے کہہ رہا تھا اور مدیحہ کے رخسار اتنی عزت افزائی پر غصّے اور تحقیر سے سرخ ہو گئے ۔ وہ بغیر اسے دیکھے سیڑھیاں چڑھنے لگی ، آخر کے دوسرے زینے پر فارس نے اس کی آنکھوں میں ہلکی نمی اور چہرے پر غم و غصّہ دیکھنے کے بعد اس کا ہاتھ پکڑتے روکنا چاہا تو مدیحہ نے اس کے پیر کو اپنی ایڑی سے کچل دیا اور فارس کے پاؤں اس کے پیر سے الجھ گئے نتیجتاً اگلے ہی لمحے وہ دونوں نیچے گر پڑے ۔ " اندھے ہو , دیکھ کر چلنا نہیں آتا ۔؟" وہ اب زمین پر بیٹھی اس کی خبر لے رہی تھی ۔ فارس جو دوسری جانب زمین بوس تھا لیٹے لیٹے ہی بولا :- " میں اگر اندھا ہوں تو تمہاری آنکھیں تو سلامت تھیں ناں ، پیر کچل کر رکھ دیا میرا ، اب دیکھو چپٹا بھی ہو گیا ہوگا ۔" وہ فارس پر ازحد غصّہ تھی لیکن اس کی بات سنتے ہی ہنس پڑی ۔ " پیر چپٹا ہو گیا ۔" وہ ہنستی گئی ہنستی گئی ،فارس بس خاموش سا اسے دیکھ رہا تھا ۔ وہ فارس کی خاموشی سے اسے دیکھنے پر ایک دم رک گئی ۔ پھر اٹھ کر دوبارہ سیڑھیوں کی جانب بڑھی ۔ " کب تک ہم یونہی لڑتے رہیں گے مدیحہ ۔؟" وہ پوچھا رہا تھا ۔ مدیحہ بغیر مڑے رک گئی اور کچھ دیر بعد اس کی آواز ابھری :- " ہم دونوں بہت الگ ہیں فارس ۔۔ " اس کی آواز میں اداسی تھی ۔ مدیحہ کا چہرہ دیکھے بغیر بھی وہ کہہ سکتا تھا کہ اس وقت اگر وہ کچھ بولے گا تو وہ رو دے گی ۔ فارس خاموش ہو گیا اور مدیحہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی ۔ *** پھر پھوپھو بھی چلی گئیں ۔ فارس نے جاتے ہویے اسے خدا حافظ بھی نہیں کہا تھا ، ایک دن افطار بعد وہ اپنے کمرے میں بیٹھی ہوئی تھی جب حنا اس کے پاس آکر خاموشی سے بیٹھ گئی ۔ " اپ سیٹ کیوں ہو ۔؟" کچھ دیر بعد اس نے پوچھا ۔ مدیحہ نے نظر اٹھائی ، اور پھر نفی میں سر ہلا کر دوبارہ گردن جھکا دی ۔ " نہیں پتا ۔" " فارس بھائی تو چلے گئے اب تو تمہیں خوش ہونا چاہئے کہ وہ نہیں ہے ، زیادہ کام بھی نہیں کرنا پڑتا ۔" حنا استفسار کررہی تھی یا آگاہ کر رہی تھی ۔ مدیحہ اس بات کا فیصلہ نہ کر سکی ۔ " پتا نہیں حنا مت پریشان کرو ، اس منحوس کا تو نام ہی نہ لینا اور وہ ارحم ۔۔۔ دیکھا تم نے اس کے جانے کے بعد وہ بھی نہیں رکی ۔" اسے چڑ سی ہو رہی تھی ۔ " اوکے ۔۔۔ " حنا بی سمجھ کر سر ہلایا ۔" تو تم کیوں پریشان ہو ۔؟ " " میں پریشان نہیں ہوں ۔" اس نے سر جھٹکا ۔ " تو منہ کیوں لٹکا رکھا ہے اگر پریشان نہیں اور کوئی مسئلہ نہیں تو پھر ۔۔۔۔ کیا یہ تو نہیں کہ تم فارس بھائی کو مس کر رہی ہو ۔؟" آخر میں اس نے شرارت سے کہا اور ساتھ ہی مدیحہ نے بیڈ پر رکھی تکیہ اسے دے ماری ۔ " میں کیوں مس کروں گی۔؟" " وہ بھلا سا گانا تھا اس کا کیا نام ہے ۔۔۔ ہاں ۔۔۔ کچھ کچھ ہوتا ہے ۔ " مدیحہ حنا کی باتیں سن کر اور تپ گئی ۔ " کچھ بھی نہیں ہوتا ۔ اگر ہوتا تو میرے دل میں گھنٹی بجتی جو کہ فارس کو دیکھ کر کبھی نہیں بجی ۔" " تو کیا گھنٹا بجا تھا ۔؟" حنا نے سارے جہاں کی معصومیت اپنے چہرے پر سجا لی ۔ " تم کیا میری سوتیلی بہن ہو ۔۔۔ گھنٹی کی بچی ابھی بتاتی ہوں تمہیں ۔" وہ حنا کے پیچھے بھاگی جو اس کے خطرناک تیور دیکھ کر پہلے ہی کمرے سے نکل گئی تھی ۔ حنا نے صحیح کہا تھا اور اس کا ادراک اسے کافی دیر بعد ہوا تھا ۔ مگر فارس کے سامنے نارمل رہنا اس کے اختیار میں نہیں تھا ، ایک دن یہی بات اس نے حنا سے کہہ دی کہ میں فارس کو اس لئے مس کر رہی ہوں کہ اس کے سامنے میں نارمل نہیں رہتی اس کی شکل دیکھ کر ہی دل کرتا ہے کہ کچھ اٹھا کر اسے دے مارے ۔ " لیکن تم نے تو کہا تھا کہ کوئی گھنٹی نہیں بجی ۔؟" حنا کہاں چپ رہنے والی تھی ۔ " بجی تھی ۔۔۔۔ ایک بار ہی بجی تھی جب وہ منحوس میرے ساتھ گرا تھا ۔" مدیحہ نے بالآخر اعتراف کیا ۔ " منحوس ۔۔۔۔۔ " حنا نے اسے گھورا ۔" کم از کم اب تو کچھ اچھا نام دے دو ۔" مدیحہ نے اس بات پر غور نہیں کیا ۔" پہلے بتاؤ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ وہ سامنے آے تو کچھ اس کے سر پر توڑ دینے کا دل کرتا ہے ۔" وہ کھوئی کھوئی بولی ۔ " تمہارا پیار لگتا ہے ڈبلیو ڈبلیو ای کی سوغات ہے ۔" حنا نے جل کر کہا تو وہ بے ساختہ ہنس دی ۔ " اچھا سنو ۔۔۔ میرے پاس ایک آئیڈیا ہے ۔" حنا اپنی پین کو دانتوں میں دبا کر سوچتے ہویے بولی ۔ " کیوں نہ ہم انہیں سرپرائز کریں ۔" " مطلب ۔" اس نے ابرو اٹھائی ۔ " کہاں سر مارنے بیٹھ گئی میں بھی ۔۔۔۔ چاند رات کو فارس بھائی کی برتھ ڈے ہے انہیں سرپرائز دیتے ہیں ۔" حنا نے خفگی سے کہا ۔ " لیکن سرپرائز کیسے ۔۔۔ یار ۔۔۔ نہیں ۔۔۔" مدیحہ کا جملہ پورا ہونے سے پہلے ہی اس نے مدیحہ کے منہ پر ہاتھ رکھا ۔ " پہلے مجھے بول لینے دو ۔" پھر وہ دیر تک کانوں میں سرگوشیاں کرتیں رہیں ۔ *** جاری ہے ۔ ناول سے متعلق اپنی رائے کا اظہار ضرور کریں ۔ مولا سلامت رکھے ۔
0 تبصرے
ہم سے رابطہ کرنے کا شکریہ
ہم آپ سے بہت جلدی رابطہ کریں گے۔