ناول: مدیحہ کی من مانیاں (قسط 1)


ناول: مدیحہ_کی_من_مانیاں
ازقلم: صالحہ_منصوری  
قسط_نمبر_01

" آیا تھا فون جناب کا____!
میرے سوہںنے نواب کا..
بعداز سلام مُسکرانے لگے____!!
ساتھ کچھ گُنگنانے لگے..
میں نے کہا فرمائیے____!!
بے وجہ نہ مُسکرائیے..
فون کیا ہے کس لئے____!
اصل مُدعے پر آئیے..
کہنے لگے اِتراؤ مت_____!!
ذیادہ نخرے دکھاؤ مت..
آجکل مجھے ہیں کام بہت_____!!
بندے کا ہے نام بہت..
مجھے کیا پڑی فون کروں_____!!
برباد اپنا سکون کروں..
رسم ایک نبھانی تھی______!!
عیدی تمھیں بھجوانی تھی..
سوچا کہ تم سے پوچھ لوں_____!!
عیدی دوں تو کیا میں دوں..
مگر تمھارے مزاج تو____!!
اُف خدایا کیا میں کہوں..
بولو گی کچھ یا پھر میں____!!
فون رکھ دوں..
سُن کر میں مُسکرانے لگی____!!
اور اپنی ہنسی دبانے لگی..
بولی کہ سُنئیے بات میری____!!
چاہئیے مجھے سوغات میری..
جلد سے جلد شرافت سے آئیے____!!
آکر مجھے لے جائیے..
آئے نہ آپ تو دُہائی دوں گی_____!!
عیدی تو بچے لیتے ہیں جی..
میں تو مُنہ دِکھائی لوگی ۔۔۔۔۔ " 

     حنا اور ثانیہ نے ایک دوسرے کو کن انکھیوں سے دیکھا پھر مزے سے گنگناتی مدیحہ کو ، جو آستین کہنیوں تک چڑھائے کمر کے گرد دوپٹہ لپیٹ کر اسٹول پر چڑھی صفائی کرنے میں مگن تھی ۔ رمضان المبارک کی آمد سے قبل ہی اماں جان کا حکم کہ بچیاں گھر کا حلیہ تھوڑا ٹھیک کر دیں ۔ مدیحہ یہ سنتے ہی بستر میں جا گھسی ۔

" ہائے اماں قسم لے لیں اتنا سر درد کر رہا ہے کہ بخار دماغ پر چڑھ گیا ہو جیسے ۔" اس نے نکمّے پن کے سارے اگلے پچھلے ریکارڈ توڑتے کہا ۔

" سب سے پہلے تو تو ہی اٹھ ، دو مہینے بعد شادی ہے اور بےفکری دیکھو ۔ میں تو کہتی ہوں کہ یہی حال رہا تو ساس دو دن بعد ہی چٹیا پکڑ کے باہر نکال دے گی ۔" اماں جان کی نان اسٹاپ گفتگو ہمیشہ کاموں سے شروع ہو کر ساس پر ختم ہو جاتی تھی ۔ مدیحہ جھنجھلا کر اٹھ بیٹھی ۔

" آپی میں تو کہتی ہوں آپ گنج کروا لیں نہ رہے گی چوٹی نہ پکڑے گی ساس ۔" ثانیہ اپنے موٹے چشمے کو پہنے چپس کھاتی اماں کے ساتھ آبیٹھی ۔ 

" در فٹے منہ تیرا ثانیہ اس سے پہلے تم اپنی آنکھوں کا علاج کروا لو ۔ " مدیحہ اپنے بالوں کی بہت پرواہ کرتی تھی اور اس کے بال تھے بھی ویسے ، گھنے سیاہ لمبے سیدھ میں کمر تک آتے بال میں اس کی جان بستی تھی ۔ اماں ان دونوں کو لڑتے دیکھ کر سر پکڑ گئیں ۔ اتنے میں حنا بھی یونیورسٹی سے واپس آچکی تھی وہ اماں کے پاس بیٹھ کر پوچھنے لگی تو اماں اسے روداد بتاتی اٹھ گئیں ۔ 

" اب ان مہارانیوں سے بھی کام کروا لینا اکیلے نہ کرنا ۔" اماں حنا کو گویا وارن کرگئیں ۔ ان کے جاتے ہی مدیحہ دوبارہ بستر پر ڈھیر ہو گئی ۔ 

        عالم شاہ کی تین بیٹیاں تھیں ۔ مدیحہ ، حنا اور ثانیہ ۔ مدیحہ نے گریجویٹ کرنے کے بعد پڑھائی بس کر دی اور یہاں ان کی تعلیم کے ختم ہونے کا اعلان ہوا نہیں کہ پھوپھو اپنے بیٹے فارس کا رشتہ لے کر آگئیں ۔ اماں تو بس جیسے انتظار ہی میں بیٹھی تھیں نہ کچھ کہا نہ کچھ سنا بس جھٹ پٹ رشتہ طے کر دیا ۔ وہ شوخ چنچل سی اور موڈی طبیعت کی لڑکی تھی ، کام کرتی تو بہت اچھا کرتی لیکن جب اس پر سستی طاری ہوتی تو مجال ہے کوئی کام کروا لے ۔ وہ لیٹی ہوتی اور اگر پیاس لگ جائے تو اٹھ کر پانی نہیں پیتی بلکہ حنا یا ثانیہ کا انتظار کرتی کہ کب وہ نظروں سے گزریں اور وہ انہیں حکم دے ۔ حنا اس سے ایک سال ہی چھوٹی تھی لیکن پڑھنے کی شوقین ہونے کی بنا پر ابھی تک بچی ہوئی تھی حنا اس سے بلکل مختلف تھی مزاج میں نرمی اور سنجیدگی تھی ، دوسروں کا خیال رکھتی ،بغیر ضرورت کسی سے بات نہیں کرتی اس لئے کچھ کے نزدیک تھوڑی گھمنڈی کہی جاتی تھی ۔ البتہ ثانیہ ابھی ہائی اسکول میں تھی ۔ وہ چشمش کیوٹ سی اور پورے گھر میں ادھم مچا کر رکھ دینے والی تھی ، سکون تو اسے چھو کر نہیں گزرا تھا ۔ 

  خیر تو مدیحہ بی بی بہت ہی مزے سے اسٹول پر چڑھی گنگنا رہی تھیں جب ثانیہ نے مسکراہٹ دبا کر پوچھا :- 
" فارس بھائی کو اپنی شامت کروانی ہے جو آپ کو کال کر لی ۔" 

اس سوال پر اس کا متحرک ہاتھ ساکت ہو گیا ہلکا سا مڑ کر اپنی چھوٹی بہن کو دیکھا جو حنا کے ساتھ مل کر سامان صحیح سے رکھ رہی تھی ۔ 

" عیدی تو بچے لیتے ہیں میں تو منہ دکھائی لوں گی ۔" وہ آنکھ مار کر بولی ۔

" توبہ ہے بھئ کیسے بے شرمی سے اپنی شادی کی باتیں کر رہی ہیں ، ارے کچھ تو خیال کریں ابھی خبر آئی ہے کہ فارس بھائی کل پرسوں میں آنے والے ہیں ۔" ان کی ماموں زاد بہن حرا نے کمرے میں داخل ہوتے ہویے کہا ۔ پورے خاندان میں وہ سب کی خبر رکھتی تھی ۔ 

" اوہو ۔۔ تمہیں یہ خبر کہاں سے ملی ۔؟" ثانیہ نے اپنے چشمے پر انگلی رکھتے اسے تھوڑا اونچا کیا ۔ 

" ویل ۔۔۔ آپ کی اماں جان کے کمرے سے میں گزر رہی تھی تو تھوڑا سا خود بخود ۔۔۔۔۔ یو نو سن لیا ۔" اس نے جھپٹ کر ثانیہ کی چپس اٹھا لیں ۔

" خود بخود ۔۔۔۔۔ ؟؟ خود کو بہارے گل مت سمجھو بھوکی اور یہ میرا چپس جو کھا رہی ہو ناں ویسے ہی لا کر بھی دے دینا ۔ " ثانیہ اب مکمّل طور پر کام چھوڑ چکی تھی ۔ 

" ایک منٹ فارس کیوں آرہے ہیں ۔؟" مدیحہ نے الجھ کر پوچھا تو حنا اپنا سر پیٹ گئی ۔ 

" یار ان کی ممانی ہیں یہاں ۔ وہ آیں یا جائیں کام کرو اپنا ۔" 

" اوہ ۔۔۔۔ لیکن میں ذرا پوچھ کر آتی ہوں ۔" وہ بہانہ بنا کر کمرے سے نکل گئی اور حنا پیچھے سے اسے آوازیں دیتی رہی ۔

***

       دوسرے دن شام میں پھوپھو آگئیں ۔ ان کے آنے سے قبل کوئی سیکڑوں بار اماں اسے اپنی زبان بند کر کے رہنے کا کہہ چکی تھیں ۔ 

" اماں ایک بار بولو گی تو بھی سن لوں گی دو دو کان دئے ہیں اللّه نے ۔" وہ چڑ کر بولی ، بار بار ایک ہی چیز کی تکرار سے وہ کافی بے زار ہو جاتی تھی ۔

" چپ کر ، میں جا کر باہر بیٹھتی ہوں تو ناشتہ لے آنا ۔" وہ اسے حکم دیتی باہر نکل گئی ۔ " افف ۔۔" اس نے سر پکڑ لیا ۔ 

     سب باتوں میں مگن تھے جب وہ ناشتہ لے آئی ۔ 

" اہم ۔۔۔۔۔ السلام علیکم ۔" اس نے میز پر ٹرے رکھتے ہویے کہا ۔ 

" وعلیکم السلام بیٹا کیسی ہو ۔ ؟ اور سب ٹھیک ۔؟" پھوپھو نہایت ملائمت سے بولیں تو وہ دوپٹہ شانوں پر ٹھیک کرتی منہ بنا کر بولی :- 

" جی ۔۔۔ سب ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا پھر پھوپھو آ گئیں ۔۔۔۔۔۔۔"وہ اتنا کہہ کر رک گئی اور حنا کی جانب دیکھا جس کا منہ کھل گیا ، پھر اماں کو جو سرخ انگارہ جیسی آنکھ لئے اسے ہی دیکھ رہی تھیں اس کے بعد فارس کو دیکھا جس کے منہ سے چائے باہر آگئی تھی ۔

 " اور خوشی دوگنی ہو گئی ۔" جلدی سے جملہ پورا کرتے وہ انکے گلے لگ گئی ۔ ثانیہ نے حنا کو کہنی مار کر کہا :- 

" اس ڈرامے باز کے آگے تو اینجلینا جولی بھی فیل ہو جائے ۔" 

" شش ۔۔۔" حنا اسے چپ رہنے کا اشارہ کرتی اپنا چہرہ جھکا گئی تاکہ مسکراہٹ اماں نہ دیکھ لیں ورنہ شامت یقینی تھی ۔

*** 

       پھوپھو ایک ہفتے کے لئے آئی ہوئی تھیں اس لئے اسے بہت زیادہ کام کرنا پڑ رہا تھا ورنہ اماں پھوپھو کے جانے کے بعد جو حال کرتیں وہ سوچ کر ہی اس کی طبیعت بدمزہ ہو گئی ۔ ناشتے کے بعد اس نے اپنا فون چارج پر رکھا اور خود کچن میں بیٹھ کر سبزیاں کاٹنے لگی ۔ اتفاقاً فارس کسی کام سے وہاں گزرا تو اسے اکیلے دیکھ کر کچھ بات کرنے کے ارادے سے رک گیا ۔ مدیحہ اپنی دھن میں مگن سبزیاں کاٹ رہی تھی جب فارس نے اسے آواز دی :-

" مدیحہ ۔" 

مدیحہ بی بی ایک دم سے چاقو سامنے کئے مڑی ۔ " ہاں بولو ۔ ؟" فارس کی آنکھیں پھیل گئی ، چاقو بلکل اس کے قریب تھا ۔ مدیحہ نے اس کی نگاہوں کے تعاقب میں دیکھا تو چاقو نیچے کرتے دوبارہ پوچھا :- 

" ارے ۔۔۔ کیا ہوا بولو ۔؟ کچھ چاہئے تھا ۔؟" 

" نہیں کچھ نہیں ۔" وہ بیچارہ نہ جانے کیا کیا رومانٹک سا سوچ کر آیا تھا اور اب خوفزدہ سا نفی میں سر ہلاتا مڑ گیا ۔ 

" اسے کیا ہو گیا ۔؟" وہ شانے اچکا کر دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہو گئی ۔ 

" ممانی جان مجھے اپنا فون چارج کرنا ہے کہاں کروں ، میں اپنا چارجر بھول آیا ہوں ۔" وہ مدیحہ کے پاس سے سیدھا اماں کے پاس چلا آیا ۔ 

" لو اس میں کون سی بڑی بات ہو گئی ، مدیحہ کے کمرے سے لے لو ۔" انہوں نے اجازت تو دے دی لیکن مدیحہ کا نام سن کر اس کا حلق کڑوا ہو گیا ، پھر بھی وہ دل پر جبر کرتا مسکرا کر اس کے کمرے میں آیا اور اس کا فون چارج سے اتار کر میز کے کونے میں رکھ دیا پھر چارجر لے کر چلتا اپنے کمرے میں آ گیا ۔

" اس لڑکی سے محبت کرنا تو دور دوستی کا احساس نہیں ہوتا ایک عمر کیسے گزرے گی ۔؟" وہ سر جھٹک کر رہ گیا ۔ دوسری جانب مدیحہ اپنا کام ختم کر کے کمرے میں آئی تو چارجر غائب اور فون کی بیٹری صرف چوبیس پرسنٹ تھی ۔ 

" میرے ہی گھر میں ، میرے ہی کمرے سے ۔ میرا ہی چارجر چوری ۔۔۔۔ مدیحہ سے پنگا ۔۔۔ دیٹس ناٹ چنگا ۔" وہ پیر پٹک کر اماں کے پاس آئی ، اور ان کے سر پر کھڑی استفسار کرنے لگی ۔

" ارے فارس لے گیا ہے تھوڑی دیر بعد دے دیگا کون سا کھا جانا ہے اس نے ۔؟" اماں کے جواب پر وہ بظاہر اثبات میں مسکرا کر سر ہلاتی تیز تیز قدموں سے فارس کے کمرے میں آئی ۔ غصّے سے آگ بگولہ تو پہلے ہی تھی اب سامنے موصوف پر نظر پڑی تو اس کے اوسان خطا ہو گئے ۔ فارس واش روم سے ابھی نہا کر نکلا تھا اور جسم ٹراوزر کے علاوہ باقی کپڑوں سے محروم تھا ۔ 

" ہاں ۔۔۔۔" مدیحہ نے اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیا اور منہ دوسری طرف کر کے کھڑی ہو گئی ۔ " کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے لیکن تم کیا جانو وہ کیا ہوتی ہے ۔ بدتمیز ایسے کسی لڑکی کے سامنے آتے ہیں ۔ توبہ توبہ ۔" وہ رخ پھیر چکی تھی سو توبہ توبہ کرتے کانوں کو بھی ہاتھ لگایا ۔

فارس نے ٹاول سے سر کے بالوں کو رگڑتے اسے دیکھا ، پھر ایک نظر خود کو ۔ 

" بلکل ۔۔۔۔ اور کسی کے کمرے میں ناک کئے بنا آنا کس زمرے میں آتا ہے مائی فیوچر وائف ۔،"  

" وہاٹ ۔۔۔" اس نے اپنے ہاتھ کانوں سے ہٹا لئے البتہ مڑنا ابھی تک گوارا نہیں کیا تھا ۔" میں تو ۔۔۔ میں تو بس اپنا چارجر لینے آئی تھی جو تم نے میرے کمرے سے چرایا ہے ۔" 

" اچھا ۔۔۔" پہلے تو وہ مسکرایا پھر لفظ پر جو غور کیا تو رک سا گیا۔" ایک منٹ ۔۔ کیا کہا تم نے ۔۔۔۔۔ چرایا سے کیا مراد ہے ۔؟" 

" تم نے بغیر میری اجازت کے لیا تو چرانا ہی ہوا اب دے دو واپس ۔ " وہ نخوت سے بولی تو فارس کا دماغ بھک سے اڑ گیا ۔

" تم کیا اپنے آپ کو توپ سمجھتی ہو ۔؟" اس کے ماتھے پر شکن در آئی ۔

" نہیں میں اپنے آپ کو توپ نہیں سمجھتی ، میں اپنے آپ کو وہ ایٹمی میزائل سمجھتی ہوں جو ہیروشیما اور ناگاساکی پر گرا تھا ۔ اس لئے مجھ سے تو دور ہی رہنا ورنہ جس دن میرا غصّہ تم پر اترا ناں اس دن تمہارا سر بالوں سے محروم ہو جائے گا اور آنکھ چینیوں کی طرح اندر دھنس جائے گی ۔" وہ دروازہ دھاڑ سے بند کرتی چلی گئی اور یہاں فارس منہ کھولے کھڑا کا کھڑا رہ گیا ۔

" حد ہے اپنے ہونے والے شوہر سے کوئی ایسے بات کرتا ہے ۔؟ لاحول ولاقوة ۔" وہ سر پکڑ کر بیٹھ گیا ۔ 

     دوپہر کے کھانے کے وقت وہ خفا خفا سا تھا ، اماں اس کی ناز برداری میں کوئی کمی نہیں ہونے دینا چاہتی تھیں ، وہ ان کا لاڈلا بھی تو تھا ، اور یہی وجہ مدیحہ کی چڑ کے لئے کافی تھی ۔

" یہ کباب لو ناں بیٹا مدیحہ نے بہت محنت سے بنایا ہے ۔" انہوں نے اس کے آگے پلیٹ کی ۔ فارس مروتاً مسکرا کر رہ گیا ، دل تو چاہا کہہ دے کہ آپ کی بیٹی کا نام سن کر میں خود جل بھن کر کباب ہو رہا ہوں لیکن مصلحت کے طور پر بیچارہ صبر کا گھونٹ پی گیا ۔ 

***

      آج رمضان کا چاند دیکھنے وہ سب چھت پر جمع تھے ، سو ارحم بھی آ گئی تھی ۔ ارحم ان کی سیکنڈ کزن تھی اس وجہ سے وہ فارس اور مدیحہ دونوں ہی سے واقف تھی ، فارس کی اچھی دوست جب کہ مدیحہ کو ایک نظر نہیں بھاتی تھی ۔ اور وجہ کیا تھی ۔؟ 

فارس !! 

جی ہاں ، ارحم جب بھی آتی فارس سے چپک سی جاتی اور دونوں کی بے کار لا یعنی باتیں ختم ہی نہ ہوتیں ، مدیحہ پہلے ہی فارس کی وجہ سے خود کو خواہ مخواہ ہی پریشان کئے پھر رہی تھی اب ارحم کے آ جانے سے گویا اس کی موجودگی محسوس ہی نہیں ہوتی ۔

" ارے مدیحہ ۔۔۔۔۔" ارحم نے اسے اکیلا دیکھا تو ساتھ آبیٹھی ۔" اکیلے کیوں بیٹھی ہو ، وہ بھی بغیر کسی مصروفیت کے ۔؟" 

" کیوں تمہیں کوئی پرابلم ہے ، یا تمہیں کوئی کام آپڑا جو فارس کی بجاے مجھے یاد کرنے لگیں ۔" صبح سے دونوں کی باتیں سن سن کر اس کا سر درد کرنے لگا تھا سو چٹخ کر بولی ۔  

" ایسے کیوں کہہ رہی ہو ۔۔۔۔ میں تو ۔۔۔۔" اس سے پہلے وہ اپنی صفائی دیتی فارس کی آواز نے ان دونوں کو چونکا دیا ۔

" انف ارحم ۔۔۔۔۔ جسے رشتوں کا پاس رکھنا نہیں آتا اس کے سامنے صفائی دینے کی ضرورت نہیں ۔" وہ ایک قہر آلود نظر مدیحہ پر ڈالتا گزر گیا ۔ مدیحہ نے پہلی مرتبہ اسے اتنے غصّے میں دیکھا تھا وہ اپنے آپ میں سمٹ سی گئی ۔  

" مدیحہ ۔۔۔" ارحم نے کچھ کہنا چاہا تو وہ اٹھ کھڑی ہوئی اور دوڑتے ہویے اپنے کمرے میں چلی گئی ۔

***

جاری ہے ۔
اپنی قیمتی رائے کا اظہار ضرور کریں ۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے