رسم_حیات
از_خدیجہ_نور
قسط_نمبر_06
سکینڈ_لاسٹ_قسط
*****************
وقت گزرنے لگا اور رمشا اس پر پہلے سے زیادہ بھروسہ کرنے لگی۔ وہ دونوں سارے دن میسج پر باتیں کرتے تھے۔روٹھنا منانا سب ہوتا تھا۔وہ کبھی کبھی کالج کے کےباہر رمشا سے ملنے بھی آتا تھا۔دونوں کے درمیان تحفے تحائف کا تبادلہ بھی ہوا۔ چند مہینے بعد اسنے رمشا کو اپنے ساتھ باہر جانے کے لیے کہا لیکن رمشا نے انکار کردیا۔ وہ رمشا پر باربار اپنے ساتھ چلنے کے لیے زور دیتا رہا لیکن رمشا منع کرتی رہی پر بالاآخر رمشا اسکے ساتھ چلنے کے لیے راضی ہوگئی۔ دو دن بعد کالج سے باہر نکلتے وقت رمشا نے عادل کو میسج کیا کہ وہ اپنی دوست کے گھر جارہی ہے۔
وہ کالج کے باہر ایک خوبصورت وائٹ کار میں بیٹھا اسکا انتظار کررہا تھا۔ وہ اسکی کار کے پاس آئی اور مسکراکر کار میں بیٹھ گئی۔
”احمد نے مجھے ڈر لگ رہا ہے“۔۔۔ رمشا نے گھبراتے ہوئے کہا
”کس بات کا“؟اسنے گاڑی اسٹارٹ کرتے ہوئے پوچھا
”میں پہلے کبھی اس طرح گھر سے جھوٹ بول کر نہیں گئی“۔رمشا نے اسکو دیکھتے ہوئے کہا
”چھوڑو نایار اب تم گھر کی باتیں کرکے ہماری ڈیٹ خراب کررہی ہو“۔ اسنے لاپرواہی سے کہہ کر میوزک آن کردیا۔
گاڑی اب مین روڈ پر تھی۔
”ویسے ہم جا کہاں رہے ہیں“؟ رمشا نے باہر کی جانب دیکھتے ہوئے پوچھا
”اتنی جلدی کیا ہے۔ آج میں تم کو ایک بہت بڑا سرپرائز دونگا“۔ اسنے مسکراتے ہوئے کہا
”کیسا سرپرائز “؟ رمشا نے دلچسپی سے پوچھا
”بس دیکھتی جاؤ“۔ اسنے کمینگی سے مسکراکر کہا اور ایک سنسان سڑک کی طرف گاڑی موڑ لی۔ یہ راستہ کراچی سے ٹھٹہ کی طرف جاتا تھا جہاں کی سڑک اکثر سنسان رہتی تھی۔
”احمد یہ آپ کونسی جگہ لیکر جارہے ہو“؟ رمشا نے باہر سڑک کو دیکھتے ہوئے کہا
وہ بنا کچھ کہے ڈرائیو کرتا رہا۔
”احمد یہ کیسا راستہ ہے مجھے ڈر لگ رہا ہے“۔ رمشا نے اسکی طرف دیکھتے ہوئے کہا جو بغیر کچھ کہے ڈرائیو کرنے میں مصروف تھا۔
”احمد مجھے پلیز گھر چھوڑ دیں“۔رمشا نے التجا کی۔
”چپ چاپ بیٹھی رہو“۔۔۔اسنے رمشا کو گھورتے ہوئے کہا
”احمد پلیز دیکھیں ہم پھر کبھی چل لینگے۔ پلیز مجھے گھر جانا ہے“۔ رمشا کی آنکھوں سے آنسو بہنا شروع ہوگئے تھے۔
”اور رو تم کو روتا دیکھ کر مجھے بہت سکون مل رہا ہے۔“ اسنے قہقہہ لگایا اور ایک طرف گاڑی روک دی۔ رمشا نے خوف سے اسکو دیکھا جو اس وقت رمشا کے سامنے ڈرنک کر رہا تھا۔
”لو تم بھی پیلو۔۔۔“اسنے رمشا کی طرف ڈرنک بڑھاتے ہوئےکہا
رمشا فوراً گیٹ کھول کر باہر نکلی اور ادھر ادھر دیکھنے لگی۔
”کس کو دیکھ رہی ہو؟ یہاں کوئی نہیں آئے گا تمہاری مدد کے لیے“۔ اسنے کار سے نکلتے ہوئے کہا
”احمد پلیز مجھے گھر لیں چلیں“۔ وہ اسکے قدموں میں بیٹھ گئی تھی۔
”واہ۔۔۔ بہت سکون مل رہا ہے تم کو اسطرح دیکھ کر۔ مجھے میری اوقات میں رہنے کا کہا تھا نا تم نے اب تم خود دیکھ لو اپنی اوقات“۔۔۔ اسنے کمینگی سے مسکراتے ہوئے کہا
”مجھے چھوڑ دو پلیز“۔۔۔ رمشا کھڑے ہوکر اسکے آگے گڑگڑائی۔
”ایسے نہیں میری جان پہلے میں تم سے اپنا بدلہ تو پورا کرلوں“۔۔۔اسنے رمشا کے قریب ہوتے ہوئے کہا
”کیا۔۔۔ کرینگے۔۔۔ آپ۔۔۔ میرے۔۔۔ ساتھ “۔۔۔ رمشا کے آنسو کی جگہ اب خوف نے لےلی تھی۔
”کچھ زیادہ نہیں بس تم کو یہاں اکیلا چھوڑ کر چلا جاؤنگا پھر بلاتی رہنا جسکو بلانا ہو.“ اسنے اپنے بالوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا
”نہیں پلیز“ ۔۔۔ وہ بس اتنا ہی بول پائی تھی کہ اسنے ایک زوردار تھپڑ رمشاکے منہ پر مارا. وہ لڑکھڑا کر نیچے گر گئی پھر ایک۔۔ دو۔۔ تین۔۔ وہ رمشا پر تھپڑ برساتا رہا اور رمشا منہ چھپائے روتی رہی۔
اسنے رمشا کا اسکارف اتار کر ایک طرف پھینک دیا پھر اسکو بالوں سے پکڑ کر کھڑا کیا۔ رمشا درد سے بلک رہی تھی تھی۔
”آئندہ تم اپنی اوقات یاد رکھنا۔“اسنے رمشا کو دھکا دیا وہ سڑک کے کنارے زور سے گری۔ پتھروں سے اسکے ہاتھ چھل گئے تھے۔ اور زمین پر سر لگنے کی وجہ سے سر سے خون جاری ہوچکا تھا۔ وہ اپنا سر پکڑے اسکو آواز دے رہی تھی۔ جو اب گاڑی کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اسنے گاڑی میں بیٹھ کر گاڑی اسٹارٹ کی اور رمشا کی آنکھوں سے غائب ہوگیا۔ رمشا سر پکڑے وہیں بیٹھی روتی رہی اور روتے رورتے بےحوش ہوگئی۔
” پتا نہیں کیوں ہم کسی پر اتنا بھروسہ کرلیتے ہیں کہ کوئی ہمارے بھروسے کا فائده اٹھائے۔ کسی پر بھروسہ کرنا غلط نہیں ہے لیکن کبھی کسی کو یہ موقع نہیں دو کہ وہ آپکے بھروسے کا قتل کرکے آپکو نقصان پہنچائے۔ محبت کرنا غلط نہیں ہے۔ لیکن محبت میں بہک جانا غلط ہے۔“
***************
وہ سڑک پر بےہوش پڑی تھی۔ وہاں سے ایک وین ٹرپ پر ٹھٹھہ جارہی تھی۔ وین ڈرائیور نےاسکو دیکھ کر گاڑی روک لی۔ وین میں موجود لڑکے لڑکیوں نے شور مچانا شروع کردیا۔ وین ڈرائیور نے بتایا کہ سڑک پر کوئی بےہوش لڑکی ہے تو وہ سب وین سے اتر کے باہر آگئے۔ انہوں نے رمشا کو اٹھایا اور وین میں بیٹھا کر ٹھٹھہ کے ایک ہسپتال لے گئے۔ وین میں موجود ایک لڑکے نے رمشا کا فون دیکھا جو گرنے کی وجہ سے اوف ہوگیا تھا۔ اسنے فون اون کیا تو اس پر عادل کی بہت ساری مس کال اور میسج آئے ہوئے تھے۔ اسنے عادل کا نمبر دائل کیا اور اسکو رمشا کی حالت سے آگاہ کردیا اور ٹھٹہ کے ہسپتال آنے کو کہا۔
************
عادل لاؤنج میں laptop پر کوئی کام کررہا تھا۔ جب ہی فرقان صاحب لاؤنچ میں داخل ہوئے۔ اور عادل کے سامنے والے صوفے پر بیٹھ گئے۔ عادل نے فرقان صاحب کو مسکراکر دیکھا اور دوباره کام کی طرف متوجہ ہوگیا۔
”رمشا۔۔۔ چائے لانا بیٹا“۔ فرقان صاحب نے رمشا کو آواز دی۔
”پاپا وہ گھر پر نہیں ہے۔ اپنی دوست کے گھر پر ہے۔“ عادل نے laptop سے نظریں ہٹائے بنا کہا
”دوست کے گھر پر“؟ فرقان صاحب نے حیرت نے پوچھا۔
”جی پاپا اسکی دوست کی امی کی طبيعت خراب تھی اس لیے کالج سے سیدهے وہاں چلی گئی“۔ عادل اب بھی laptop پر مصروف تھا۔
”لیکن بیٹا اب تک تو آجانا چاہیئے نا“۔فرقان صاحب نے فکرمندی سے کہا
”ہاں پاپا میں اسکو کال کرتا ہوں“۔۔ عادل نے ٹائم دیکھتے ہوئے کہا
”ٹھیک ہے“۔ فرقان صاحب کہہ کر اپنے کمرے کیطرف بڑھ گئے۔
عادل نے رمشا کو کال کی لیکن اسکا فون اوف جارہا تھا۔ عادل نے اسکی ساری دوستوں کے گھر فون کیا تو پتا چلا کہ رمشا اپنی کسی دوست کے گھر نہیں ہے۔ عادل پریشان ہوگیا اور فرقان صاحب کے کمرے میں جاکر ان کو ساری بات بتادی۔ فرقان صاحب کو ایک جھٹکا لگا پھر وہ دونوں رمشاکو ڈھونڈنے باہر چلے گئے۔ وہ رمشا کو کافی دیر تک ڈھونڈتے رہے لیکن رمشا کا کوئی پتا نہیں چلا۔ رات کے ڈھائی بج رہے تھے۔ عادل کراچی کی سڑکوں پر رمشا کو ڈھونڈ رہا تھا۔ جب اسکا فون رنگ ہوا۔ اسنے فون دیکھا تو سامنے رمشا کا نمبر تھا۔ عادل نے فوراً کال ریسیوکی 5 منٹ کال پر بات کرنے کے بعد عادل نے فوراً ٹھٹھہ کی طرف روانہ ہوگیا۔
***********
عادل جب تک ہسپتال پہنچا وین وہاں سے روانہ ہوچکی تھی۔ عادل reception پر پتا کر کے فوراً رمشا کے وارڈ میں آیا۔ رمشا کو بیڈ پر بےہوش دیکھ کر عادل کو زور کا جھٹکا لگا اسنے بےاختیار اپنے منہ پر ہاتھ رکھا۔ رمشا بہت زخمی حالت میں تھی۔ ڈاکٹر نے عادل کو باہر جانے کہا اور رمشا کا ٹریٹمنٹ کرنے لگے۔ عادل باہر بینچ پر بیٹھ کر رمشا کے لیے دعائیں کررہا تھا۔ ڈاکٹر نے آکر بتایا کہ رمشا کو ہوش آگیا ہے۔ عادل فوراً رمشا کے پاس آیا اور اسکا ہاتھ تھام کر بیٹھ گیا۔ عادل کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوچکے تھے۔ جن کو ضبط کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ رمشا نے مسکراکر عادل کو دیکھا۔ کچھ دیر بعد رمشا نے عادل کو سب کچھ سچ سچ بتادیا۔عادل خاموشی سے اسکی ساری بات سن رہا تھا۔ رمشا باربار عادل کو کہہ رہی تھی۔ بھائی احمد نے مجھے برباد کردیا۔
اگلے دن عادل رمشا کو گھر لے آیا۔ عادل فرقان صاحب کو فون کرکے پہلے ہی سب کچھ بتا چکا تھا۔ جس کو سن کر فرقان صاحب کی طبيعت خراب ہوگئی تھی۔ وہ لاؤنج میں عادل اور رمشا کا انتظار کررہے تھے۔ ان دونوں کو آتا ہوا دیکھ کر فوراً کھڑے ہوئے۔ رمشا ان کی جان تھی۔ فرقان صاحب کو دیکھ کر فوراً ان سے لپٹ گئی۔ بیٹی کو اس طرح زخمی حالت میں دیکھنا ان کے لیے ناقابل برداشت تھا۔
اگلے دن عادل نے پولیس کو انفارم کردیا تھا اور پولیس رمشا کا بیان لینے اسکے گھر پر آگئی تھی۔ لیکن رمشانے ڈر کی وجہ سے بیان دینے سے منع کردیا۔ لیکن عادل اور فرقان صاحب کے کہنے پر وہ راضی ہوگئی۔ رمشا نے پولیس کو احمد کے بارے میں سب کچھ بتادیا تھا۔ اگلے دن پولیس نے احمد کو اسکے گھر جاکر گرفتار کرلیا لیکن احمد اپنا گناہ قبول نہیں کررہا تھا۔
رمشا کو جب پتا چلا کہ احمد اب جیل میں ہے تو اسنے ایک آخری بار احمد سے ملنے کا سوچا وہ احمد سے پوچھنا چاہتی تھی کہ یہ سب کر کے اسکو کیا ملا۔ وہ عادل کو بنا بتائے پولیس اسٹیشن چلی گئی۔
**********
رمشا خود ڈرائیو کر کے پولیس اسٹیشن آئی تھی۔
وہ اسٹیشن کے اندر داخل ہوئی۔ اور انسپکٹر صاحب کے پاس جا کر احمد کے بارے میں استفسار کیا۔انسپکٹر نے کافی پس و پیش کے بعد اسے احمد سے ملنے کی اجازت دے دی۔
جب وہ اسکو اس جیل کے پاس لے کر گئے جس میں احمد تھا تو وہ حیران رہ گئی کیونکہ وہ احمد نہیں تھا کو ئی اور تھا۔اس نے انسپکٹر سے کہا۔
”سر! مجھے اس احمد سے ملنا ہے جسکو میرے بھائی نے اریسٹ کروایا تھا“۔۔
”میڈم جی! یہ وہی ہے۔اگر ملنا ہے تو ملو ورنہ گھر جاؤ“
”اچھاٹھیک ہے ٹھیک ہے“ رمشا نے احمد کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔وہ ابھی تک بے یقین تھی کہ اس شخص کو کیوں قید کیا گیا ہے؟ انسپکٹر صاحب جا چکے تھے۔ وہ جیل کے قریب آکر کھڑی ہوئی اور اسکو پکارا۔
”سنیں“۔!؟؟؟
”تم کون ہو؟ اور یہاں مجھسے ملنے کیوں آئی ہو؟۔“اس نے رمشا کو غصے سے دیکھتے ہوئے کہا۔
”میں ایک بہت بدنصیب لڑکی ہوں۔لیکن آپ کون ہو؟اور آپ یہاں کیسے آئے؟ پولیس نے آپکو یہاں قید کیوں کیا ہے؟“ رمشا نے اداسی سے پوچھا
”میں احمد ہوں۔ مجھ پر ایک لڑکی کو اغوا کرنے کا الزام ہے۔ لیکن میں نے اسکو اغوا نہیں کیا۔ مجھے تو یہ تک نہیں پتا کہ اس لڑکی کا نام کیا ہے؟“ احمد نے بےبسی سے کہا
”اس لڑکی کا نام رمشا ہے۔ میں ہی وہ لڑکی ہوں“۔ رمشا کی آنکھ سے دو آنسو ٹوٹ کر گرے
”کیا۔۔۔ تم نے مجھ پر یہ الزام کیوں لگایا؟ میں تو جانتا بھی نہیں ہوں تم کو۔ پھر تم نے مجھے اس کیس میں کیوں پھنسایا؟ میں نے کیا بگاڑا ہے تمہارا“ ؟ احمد نے غصے سے کہا
”میں نے تم کو اریسٹ نہیں کروایا۔ میں تو خود اسکو دیکھنے یہاں آئی تھی جس نے مجھے کڈنیپ کیا تھا“۔رمشا نے ہاتھوں میں چہرا چھپاتے ہوئے کہا
”کون ہے وہ“؟ احمد نے حیران ہوتے ہوئے کہا
”یہ “رمشا نے اپنے موبائل میں سے ایک تصویر دیکھاتے ہوئے کہا۔
”یہ تو انس ہے۔میرا دوست۔۔مگر آپ اسکو کیسے جانتی ہو؟“ احمد نے حیرانیت سے کہا۔
”یہ انس کیسے ہوسکتا ہے؟یہ تو احمد ہے“ رمشا نے حیران ہوتے ہوئے کہا۔
”میں ٹھیک کہہ رہا ہوں یہ انس ہے“ احمد نے پھر سے اپنی بات کو دھراتے ہوئے کہا۔
”یہ انس کیسے ہوسکتا ہے ؟یہ وہی احمد ہے جس نے مجھے کڈنیپ کیا تھا“ رمشا کی حیرانیت کسی طور کم نہیں ہو رہی تھی۔
”نہیں۔۔۔ یہ انس ہے میرا دوست “احمد نے اب کے جھنجھلاتے ہوئے کہا۔
ساری باتیں اب صاف ہوچکی تھیں۔ انس نے رمشا کو اپنا نام احمد بتایا تھا تاکہ وہ اپنا بدلہ پورا کرکے فرار ہوجائے اور سارا الزام احمد کے سر آئے۔
احمد کو بھی اب سب سمجھ آگیا تھا۔ جس دوست پر وہ بہت بھروسہ کرتا تھا اسی دوست نے احمد کے بھروسے کا قتل کردیا تھا۔ آج اسکو مسرت کی ساری نصیحتیں یاد آرہی تھیں۔
رمشا کی آنکھوں میں اسکی بات سن کے ڈھیروں آنسوں جمع ہوگئے۔
اس نے اپنے ہاتھوں کی پشت سے آنسوں صاف کیے اور بغیر کچھ کہے فورا سے باہر آفس کی طرف بڑھی۔
اتنے میں مسرت سدرہ کے ہمراہ پولیس اسٹیشن میں داخل ہوئیں۔
سدرہ فورا سے بھائی کو پکارتی ہوئی احمد کی طرف دوڑی۔
جب رمشا کی نظر سدرہ پر پڑی تووہ حیران رہ گئی۔
”ارےیہ تو وہی لڑکی ہے جسکو بھائی پسند کرتے ہیں یہ ادھر کیا کر رہی ہے؟“ رمشا نے دل میں سوچااور سدرہ کی طرف بڑھی۔ لیکن جب اس نے یہ دیکھا کہ سدرہ احمد کو بھائی پکار رہی ہے تو وہ سمجھ گئی کہ احمد رمشا کا بھائی ہے۔
وہ واپس انسپکٹر کے پاس گئی اور ان سے کیس واپس لینے کے لیے کہا لیکن وہ مان ہی نہیں رہے تھے اس نے عادل کو کال ملائی مگر وہ بھی نہیں مل رہی تھی اس نے اپنے دماغ میں کچھ سوچا اور باہر کی طرف بڑھ گئی
**********
جاری ہے

0 تبصرے
ہم سے رابطہ کرنے کا شکریہ
ہم آپ سے بہت جلدی رابطہ کریں گے۔