رسم_حیات
از_خدیجہ_نور
قسط_نمبر_05
****************
وہ اپنی سوچوں میں گم بیڈ پر بیٹھی ہوئی تھی کہ اچانک عادل دروازہ کھول کر روم میں داخل ہوا۔ سدرہ نے اپنی سوچوں سے باہر آکرایک نظر عادل کو دیکھا اور پھر کچھ سوچنے لگی۔ باہر کا موسم خراب ہورہا تھا ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے ابھی طوفان آنے والا ہے۔
عادل نے صوفے پر بیٹھ کر آنکھیں بند کرلیں تھی۔سدرہ اٹھ کر اسکے برابر میں بیٹھ گئی۔ عادل کو پتا تھا کے سدرہ اسکے برابر میں بیٹھ چکی ہے لیکن اسنے پھر بھی آنکھیں نہیں کھولیں تھیں۔ سدرہ ٹیبل سے جگ اٹھا کر گلاس میں پانی نکالتی ہے۔
”عادل پانی“ ۔۔۔ سدرہ نے پانی کا گلاس عادل کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا
عادل نے آنکھیں کھول کر سدرہ سے گلاس لیا اور ایک گھونٹ بھرا
”عادل آپ سے ایک بات پوچھوں“۔۔۔؟ سدرہ نے نرمی سے کہا
عادل بنا جواب دئیے خاموش رہا۔
”عادل آپ کی بہن کہاں ہے“؟ سدرہ عادل کو دیکھتے ہوئے پوچھتی ہے۔
عادل نے کرنٹ کھاکر سدرہ کو دیکھا ہے اور ایک جست میں کھڑا ہوا ۔
”عادل بتائیں نا۔ گھر کے باقی لوگ کہاں ہیں“؟ سدرہ بھی کھڑے ہوتے ہوئے پوچھ رہی تھی
عادل بنا جواب دئیے باہر کی طرف بڑھتا ہے لیکن سدرہ اس بار اسکا ہاتھ پکڑ لیتی ہے۔
”عادل میں آپ سے کچھ پوچھ رہی ہوں۔۔۔“۔سدرہ اس بار تھوڑی اونچی آواز میں بول رہی تھی۔
باہر تیز ہوائیں چلنا شروع ہو چکی تھیں ۔
”میں تمہارے سوالوں کا جواب دینا ضروری نہیں سمجھتا۔“ عادل نےسختی سے کہہ کر اپنا ہاتھ چھڑا لیا۔
”کیوں کررہیں آپ میرے ساتھ ایسا؟ کیا کیا ہے میں نے جو آپ مجھ سے جانوروں کی طرح ٹریٹ کررہے ہیں“ ؟ سدرہ نے اس بار غصے سے کہا
”چپ ہوجاؤ سدرہ ورنہ ۔۔۔“ عادل نے ضبط کرتے ہوئے کہا۔
باہر کی ہوائیں اب اور تیزی اختیار کر چکی تھیں۔
”آپ نے جب سے مجھ سے نکاح کیا ہے آپ نے دو منٹ بات تک نہیں کی مجھ سے عادل“۔۔سدرہ کی آنکھوں سے دو آنسو ٹوٹ کر اسکے گال پر گرے۔
باہر تیز بارش شروع ہوچکی تھی۔
عادل وہیں خاموشی سے کھڑا اسے دیکھ رہا تھا۔
”عادل آپ سب مرد ہمیشہ ایسا کیوں کرتے ہیں ؟ ہر بات میں ہم لڑکیوں پر ہی ظلم کیوں کرتے ہیں ؟ ہم کو ہی ہر چیز کا ذمہ دار کیوں ٹھراتے ہیں؟“ سدرہ نے عادل کا کندھا پکڑتے ہوئے کہا عادل نے فوراً سدرہ کا ہاتھ جھٹک کر ہٹا دیا
”اکیلے اس گھر میں دم گھٹتا ہے میرا۔ بتاتے کیوں نہیں کہ کہاں ہیں باقی سب“؟
بادل اب زور سے گرجے تھے۔ بارش اور تیز ہوچکی تھی۔ وقفے وقفے سے بجلی چمک رہی تھی۔
”سدرہ چپ ہوجاؤ میرے صبر کاامتحان نہیں لو“ ۔۔۔ عادل دانت پیستے ہوئے کہا
”عادل آپ کہہ کیوں نہیں دیتے کے آپکی بہن چھوڑ کے چلی گئی آپکو۔ بھاگ گئی وہ“۔۔۔۔سدرہ بس اتنا ہی بول پائی تھی کہ عادل نے ایک زور دار تھپڑ سدرہ کے منہ پر رسید کیا۔ سدرہ لڑکھڑاتی نیچے گر یاور اسکا سر صوفے کے کونے سے لگا ۔۔۔۔
”میری بہن کے بارے میں ایک لفظ بھی بولا تو جان لےلونگا تمہاری “۔۔۔ عادل نےغصے میں کہا اور باہر کی طرف بڑھ گیا۔ سدرہ مدحوشی کے عالم میں عادل کو دیکھ رہی تھی اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا اسکا ذہن اندھیرے میں ڈوب رہا تھا اور آہستہ آہستہ وہ بے حوش ہورہی تھی۔
باہر کا طوفان اب شدت اختيار کرچکا تھا اور سدرہ وہیں بےحوش پڑی تھی۔
***************
اسنے آنکھیں کھولیں تو وہ روم میں بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی۔ وہ بےمقصد چھت کو گھورتی رہی۔ اسنے نظر دوڑا کر کمرے کا جائزہ لیا وہاں اسکے علاوه کوئی نہیں تھا۔ اسکے سر پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔اسنے ہمت کرکے اٹھنا چاہا لیکن اسکے سر میں شدید درد کی ٹیس اٹھی۔ وہ دوبارہ لیٹ گئی۔ اچانک گیٹ کھول کر کوئی اندر داخل ہوا۔ سدرہ نے رخ پھیر کر دیکھا تو وہ سانس لینا بھول گئی۔ وہ اب سدرہ کے برابر میں بیڈ پر بیٹھا تھا۔
”بھائی۔۔۔۔“ سدرہ بس اتنا ہی بول سکی۔
”سدرہ، تم ٹھیک ہو نا۔ اب درد تو نہیں ہورہا؟“ احمد نے سدرہ کا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا
سدرہ نے نفی میں سر ہلایا اور پھر احمد کے سہارے سے بیٹھ گئی۔
”لو یہ پی لو“۔۔۔ احمد نے سائیڈ ٹیبل سے جوس کا گلاس اٹھا کر سدرہ کی طرف بڑھایا
”بھائی آپ کب آئے اور عادل کہاں ہیں“؟سدرہ نے بےچینی سے پوچھا
”بتاتا ہوں پہلے یہ پیو“۔۔۔ احمد نے گلاس سدرہ کے ہونٹوں سے لگایا
سدرہ نے ایک گھونٹ پیا پھر سوالیہ نظروں سے احمد کو دیکھنے لگی۔
”بھائی پولیس آپ کو کیوں لے کر گئی تھی۔ اور آپ یہاں کیسے آئے اور عادل سے ملے آپ؟“ سدرہ نے احمد کے سامنے سوالوں کی لائن لگادی تھی۔
”میں عادل سے مل چکا ہوں وہ یہیں ہے تم پریشان نہیں ہو“۔ احمد نے سدرہ کو تسلی دیتے ہوئے کہا
”بھائی مجھے سمجھ نہیں آرہا یہ سب کیا ہورہا ہے۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا“۔ سدرہ نے نم آنکھوں کے ساتھ کہا
”سدرہ دیکھو میں اب جو تم کو بتانے والا ہوں اسکو بہت دھیان سے سننا۔“ احمد نے سدرہ کا ہاتھ اپنی گرفت میں لیتے ہوئے کہا۔
*************
ماضی۔۔۔
ہمیشہ کی طرح اس دن بھی وہ گرلز کالج کے باہر کھڑا لڑکیوں کو تاڑ رہا تھا۔
مگر آج اسکو کوئی بھی اچھی نہیں لگ رہی تھی۔
آج اسکا دن صlبح سے خراب جا رہا تھا۔
اسکی اتنی ساری گرل فرینڈز میں سے کسی سے بھی رابطہ نہیں ہورہا تھا۔دو لڑکیاں اسکو چھوڑ چکی تھیں۔ اور ایک کو اسنے چھوڑ دیا تھا۔ وہ شروع سے ہی لڑکیوں کے ساتھ ٹائم پاس کرنے کا عادی تھا۔ اور اسکو اب اپنا وقت گزارنے کے لیے کسی نئی لڑکی کی ضرورت تھی۔ وہ امیر باپ کی بگڑی ہوئی اولاد تھا۔ آج اسکے ڈیڈ نے اسکو دھمکی دی تھی کے اگر اس نے پندرہ دن کے اندر اندر آفس جوائن نہیں کیا تو وہ اسکو گھر سے نکال دیں گے۔ لیکن اسے ان سب سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ وہ سارا دن عیاشی میں گزارتا تھا۔ اور آج بھی وہ اپنے آپکو فریش کرنے کے لیے گرلز کالج کے باہر کھڑا تھا۔
رمشا اپنے سلکی عبائے سے الجھتی ہوئی کالج سے باہر نکل رہی تھی۔ عبائے سے الجھتے الجھتے اسکی ساری چیزیں زمین بوس ہو چکی تھی۔
وہ جھنجھلائی۔۔”افففففف“
وہ اسکی مدد کے ارادے سے آگے بڑھا اور جھک کے اسکی چیزیں اٹھانے میں مدد کرنے لگا۔
مدد کرنے کے چکر میں جب اس نے رجسٹر اٹھانے کے لیے ہاتھ بڑھایا اسی وقت رمشا نے بھی رجسٹر پکڑا اور رجسٹر پکڑنے کے چکر میں رمشا کا ہاتھ اس کے ہاتھ میں آگیا جسکو اس نے بہت محبت سے تھام لیا اور اسکو گھورنے لگا چند لمحے تو رمشا نے انتظار کیا کہ وہ ہاتھ چھوڑ دے گا لیکن جب اس نے ہاتھ نہیں چھوڑا تو اس نے اسکو کو پکارا۔
”ہیلو مسٹر؟؟؟“
”مسٹر ایکس وائے زی!!“
رمشا نے اپنا ہاتھ نکالنے کی بہت کوشش کی لیکن سامنے والے کی گرفت مضبوط تھی۔
اس نے اسکو وارفتگی سے گھورتے ہوئے کہا۔
”کتنا مکمل حسن ہو تم۔۔۔تمہاری آنکھیں،اف خدایا خدا نے بھی کیا چن کے انہیں بنایا ہے“.
رمشا نےکچھ بھی سوچے سمجھے بنا الٹے ہاتھ سے ایک زور دار تھپڑ اسکے منہ پر مارا۔ وہ اس حملے کے لیے تیار نہیں تھا اس لیے ایک جھٹکے سے پیچھے ہوا۔ آس پاس کے سب ہی لوگ ان دونوں کی طرف متوجہ ہوچکے تھے۔ رمشا نے اپنی چیزیں اٹھائیں اور کھڑی ہوگئی۔ اتنے میں وہ بھی کھڑا ہوچکا تھا۔
”آئندہ اپنی اوقات میں رہنا۔“ رمشا نے اسکو کھاجانے والے انداز میں کہا اور پلٹ کر جانے لگی۔
اسکو آج تک کسی لڑکی نے اس طرح تھپڑ نہیں مارا تھا۔ آس پاس کی کچھ لڑکیاں اسکو دیکھ دیکھ کر ہنس رہی تھیں۔
”تم نے مجھے یہ تھپڑ مار کر اچھا نہیں کیا لڑکی۔ اس بےعزتی کا بدلہ میں ضرور لونگا۔ مجھے میری اوقات میں رہنے کا بول کر گئی ہے نا۔ تجھ کو تیری اوقات یاد نہیں دلادی تو میرا نام بھی“ ۔۔۔۔۔
اسنے خود سے سرگوشی کی اور پھر رمشا سے بدلہ لینے لی ترکیب سوچنے لگا۔
*********
آج رمشا مال آئی ہوئی تھی عادل کے لیے شاپنگ کرنے۔ اسکی سالگرہ آنے والی تھی اور اس نے ابھی تک عادل کے لیے کوئی گفٹ نہیں لیا تھا۔
وہ ایک بوائز آئٹم کی شاپ میں داخل ہوئی اور چیزیں دیکھنے لگی۔
ایک دم اسکی نظر دکان دار کے ساتھ کھڑی شخصیت پر پڑی اسکی آنکھیں ایک دم بڑی ہو گئیں اور ماتھے کی رگ غصے کی وجہ سے پھڑپھڑانے لگی۔ وہ شخصیت کوئی اور نہیں بلکہ سب کے جانے پہچانے فلرٹی نمبر ون تھے۔ وہ بھی رمشا کو کودیکھ چکا تھا اور اوراسکو کچھ دن پہلے کا تھپڑ یاد آگیا تھا۔
وہ غصہ میں شاپ سے باہر جا رہی تھی کے دکاندار نے اسے دیکھ لیا۔
”ارے ارے رمشا! کدھر جا رہی ہو؟ ابھی توتم نے کچھ لیا بھی نہیں؟ “ وقار نے رمشا کے قریب آتے ہوئے کہا۔
”نہیں وقار بھائی مجھے ایک ضروری کام یاد آگیا ہے میں بعد میں آؤنگی“۔
”ارے یار میں نے اتنے سارے نیو آئٹم نکال کے رکھیں ہیں سارےکے سارے عادل کی پسند کو مد نظر رکھتے ہوئے نکالے ہیں پہلے دیکھ لو۔ اور اب ٹائم ہی کتنا ہے اسکی سالگرہ میں۔۔آجاؤ چندا۔“وقار نے رمشا کے سر پر ہاتھ رکھتےہو ئے کہا۔
وقار عادل کا دوست تھا ۔۔۔ وقار کو اپنے باپ کے بزنس میں کوئی دلچسپی نہیں تھی جسکی وجہ سے اسکے باپ نے اسکو اسکے فرمائش پر مال میں بوائز کے سامان کی شاپ کھلوادی تھی۔ رمشا عادل کے ساتھ اکثر ادھر آتی رہتی تھی اس لیے وقار اسکو جانتا تھا۔وہ رمشا کو اپنی چھوٹی بہن کی طرح سمجھتا تھا۔ جبھی رمشا نے اسکو پہلے ہی کال کر کے کہ دیا تھا کہ آپ گفٹس کی چیزیں نکال کے رکھیں میں آکے دیکھتی ہوں۔
”اچھا چلیں“ رمشا کو ہار مانتے ہی بنی۔
وقار رمشا کو سامان دکھانے لگا وہ بہت غور سے ساری چیزوں کو دیکھ رہی تھی وہ چیزیں دیکھنے میں اتنی مگن تھی کے اسے ارد گرد کا کچھ یاد نہیں رہا تھا۔
”وقار بھائی یہ ڈریس ٹھیک ہے لیکن آپ اسکو بلیک کلر میں پیک کر دیں“رمشا نے ایک خوبصورت سے کرتے شلوار پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
”سو سوری گڑیا! یہ والا ابھی بلیک میں نہیں ہے کل صبح تک آئے گا تو میں تمہیں صبح بھجوا دوں گا“وقار نے معذرت کرتے ہوئے کہا۔
”نہیں وقار بھائی!آپ گھر نا بھجوانا بلکہ مجھے کال کر لینا میں خود آکر لے جاؤں گی“
”اوکے میں کال کر لوں گا نمبر تو ہے ہی میرے پاس تمہارا“
وقار بھائی! میں نے نمبر تبدیل کر لیا ہے میرا وہ والا سیل ٹوٹ گیا تھا آپ میرا نیو نمبر سیو کر لیں آپ گھر کے لینڈلائن پر کال نہ کرنا ورنہ بھائی کو پتا چل جائے گا“
”اوکے! لاؤ دو نمبر“وقار نے موبائل نکالتے ہوئے کہا۔
رمشا اسکو نمبر لکھوانے لگی۔۔۔مگر وہ یہ بالکل بھول گئی تھی کے اس شاپ میں وہ بھی موجود تھا جواسکا نمبر اپنے پاس سیو کر رہا تھا۔
اور یہیں سے رمشا کی زندگی کے برے دن شروع ہورہے تھے۔....
************
رمشا اپنے کمرے میں بیٹھ کر اسٹڈی کررہی تھی جب اسکا سیل رنگ ہوا ۔ اسنے موبائل اٹھا کر اسکرین کو دیکھا وہاں کوئی unknown نمبر چمک رہا تھا اسنے کال ریسیو کرکے فون کان سے لگایا۔
”ہیلو کون؟“رمشا نے الجھتے ہوئے سوال کیا
دوسری طرف مکمل خاموشی تھی۔
”ہیلو“۔۔۔۔ رمشا نے دوباره کہا۔
اس بار بھی دوسری طرف سے کوئی جواب نہیں آیا تو رمشا نے کال کٹ کردی اور پھر سے پڑھائی کی طرف متوجہ ہوگئی۔
اسکا موبائل دوبارہ رنگ ہوا۔ اسنے دوبارہ فون اٹھایا تو وہی نمبر تھا۔ اسنے دوبارہ کال ریسیو کی
”کون ہے کیوں باربار کال کررہے ہو“؟رمشا نےتنگ آکر کہا
دوسری طرف سے کسی نے کال کاٹ دی رمشا فون رکھ کر پڑھنے لگی۔ اب تیسری بار سدرہ کا فون رنگ ہوا اسنے کال ریسیو کی۔
”کیا مسئلہ ہے۔۔؟“رمشا نے جھنجھلا کر کہا
”ہائے۔۔۔ مسئلہ تو دل کا ہے“۔دوسری طرف سے کسی نے کہا
”کون ہو تم۔۔۔“؟رمشا نے تجسس سے پوچھا
”جو بھی ہوں صرف آپکا ہوں“۔ دوسری طرف سے اسنے ہلکا سا مسکراکر کہا
”بکواس بند کرو“۔۔۔رمشا نے غصے سے کہا اور فون کاٹ کر سائلنٹ پر لگا دیا اور پڑھائی کی طرف متوجہ ہوگئی۔
***********
وہ باربار رمشا کو کال کرکے تنگ کرتا تھا۔ شروع شروع میں تو رمشا تنگ آکر فون بند کردیتی تھی لیکن پھر آہستہ آہستہ وہ لاشعوری تور پر اسکی باتوں کا جواب دینے لگی۔
”کون ہو تم ۔۔۔؟ رمشا نے جھنجھلاکر کہا
”آپکا ہیرو۔۔۔۔“ اسنے ڈھٹائی سے جواب دیا
”اچھا تو مسٹر ہیرو آپ کا نام کیا ہے“؟رمشا نے بالوں کی لٹ کو انگلی پر لپیٹتے ہوئے پوچھا۔
”پہلے میں آپ کا نام جاننا چاہونگا۔۔۔“ اسنے مسکراکر کہا
”نہیں پہلے آپ اپنا نام بتاؤ“۔ رمشا نے بالوں کی لٹ کو چھوڑتے ہوئے کہا جب ہی عادل نے رمشا کو آواز دی۔ اس سے پہلے وہ کچھ کہتا رمشا نے اﷲحافظ کہہ کر فون کاٹ دیا اور عادل کے پاس چلی گئی۔ دوسری طرف وہ موبائل کی اسکرین کو دیکھ کر کمینگی سے مسکرایا۔
**********
رمشا عادل کے ساتھ لاؤنج میں ٹی وی دیکھ رہی تھی۔ جب اسکا فون رنگ ہوا۔ رمشا نے اسکرین دیکھی تو اسی کا نمبر تھا۔ رمشا بہانا بنا کر لاؤنج سے کمرے میں آگئی اور تقریباً گرنے والے انداز میں بیڈ پر بیٹھی۔ اور کال ریسیو کرکے بات کرنے لگی۔
”کیوں فون کیا“؟
”تم سے بات کرنی تھی اس لیے“۔
”کیوں بات کرنی تھی“؟
”کیوں تم سے بات کیے بنا میں رہ نہیں سکتا“۔
”کیوں نہیں رہ سکتے“؟
”کیونکہ میں تم کو پسند کرنے لگا ہوں“۔
”کیا“۔۔۔رمشا کو لگا اسنے کچھ غلط سنا ہے
”ہاں۔۔۔ میں شاید تم سے محبت کرنے لگا ہوں۔“ دوسری طرف وہ انتہائی نرمی سے بولا
رمشا نے ہڑبڑا کر فون کاٹ دیا۔ وہ اب رمشا کو دوبارہ کال کررہا تھا۔ لیکن رمشا کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ اب اس سے کیا بولےگی اس لیے رمشا نے فون اوف کردیا۔
************
اگلے دن رمشا نے اپنا دل مضبوط کرلیا تھا کہ وہ آج سے اس سے بات نہیں کرےگی ۔ اور اگر اسنے کال کی تو وہ اسکو منع کردیگی۔ لیکن رمشا لاشعوری طور پر اسکی کال کا ویٹ کررہی تھی۔ وہ باربار فون چیک کررہی تھی۔ لیکن اسکا نا تو کوئی میسج آرہا تھا اور نا ہی کوئی کال۔
وقت گزر رہا تھا تین دن گزر چکے تھے۔ اسنے رمشا کو کال نہیں کی تھی اور نا ہی کوئی میسج کیا تھا۔ رمشا کا دل ہر چیز سے اچاٹ ہوچکا تھا۔ اب نا اسکا گھر کے کام میں دل لگتا تھا اور نا ہی پڑھائی میں۔ وہ اپنے کمرے کی بیڈ شیٹ ٹھیک کررہی تھی جب اسکا فون رنگ ہوا۔ وہ بیڈ شیٹ کو چھوڑ کر جلدی سے فون کی طرف لپکی۔ اسنے اٹھاکر دیکھا تو اسی کا نمبر تھا۔ رمشا کی آنکھوں میں بے اختيار آنسو آگئے جن کو دیکھ کر وہ خود بھی حیران تھی۔ اسنے ہاتھ کی پشت سے آنسو صاف کرتے ہوئے کال ریسیو کی۔
” تم نے تین دن سے فون کیوں نہیں کیا“۔دوسری طرف مکمل خاموشی تھی۔ اسلیے بات کا آغاز رمشا نے ہی کیا
”تو کیا تم میرے فون کا انتظار کررہی تھیں“؟”دوسری طرف اسنے کمینگی سے مسکراتے ہوئے کہا
”نہیں میں کیوں کرونگی تمہارے فون کا انتظار“؟رمشا نے ڈھٹائی سے کہا
”ٹھیک ہے تو مت کرنا۔ اب میں تم کو کبھی کال نہیں کرونگا“۔ اسنے لاپرواہی سے کہا
”کیوں نہیں کروگے تم مجھے کال؟“ رمشا کی آنکھ سے ایک آنسو ٹوٹ کے گرا
”کیونکہ میں تم سے محبت کرتا ہوں لیکن تم مجھ سے محبت نہیں کرتی نا“۔۔۔ اسنے نرمی سے کہا
”کس نے کہا کہ کے میں تم سے محبت نہیں کرتی“رمشا نے روتے ہوئے کہا
”کیا۔۔۔ تو کیا تم بھی مجھ سے محبت کرتی ہو؟ “ اسنے حیرانی سے پوچھا
”ھمممم۔۔۔“ رمشا نے ہاں میں سر ہلایا
”تو شادی کروگی مجھ سے“؟اسنے سوال کیا
”ھممم۔۔۔“ رمشا نے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا
”ویری گڈ چلو اب رونا تو بند کرویار“۔۔۔۔ اسنے ہلکا سا مسکراکر کہا۔
”آپ کا نام کیا ہے“؟ رمشا نے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا
”احمد۔۔۔ اور تمہارا نام کیا ہے؟ میری ہونی والی“۔۔۔۔۔۔ اسنے جملہ ادھورا چھوڑ دیا
”رمشا۔۔۔“ رمشا ہلکا سا مسکرائی
”تم کو ایک بات بتاؤں؟“ اسنے اتراتے ہوئے کہا
”کیا؟“رمشا نے دلچسپی سے کہا
”تم بہت خوبصورت ہو“۔اسنے مسکراکر کہا
”لیکن آپ نے مجھے کب دیکھا“؟رمشا نے حیرت سے پوچھا
”جس دن تم نے کالج کے باہر مجھے تھپڑ مارا تھا اس دن۔“ اسنے فوراً جواب دیا
”کیا؟؟؟؟؟“رمشا کے ہاتھ سے فون گرتے ہوئے بچا
”آپ یہ کیا بول رہے ہیں“۔ رمشا نے حیرت سے کہا
”میں تو اسی دن سے تمہارا دیوانہ بنا ہوا ہوں جس دن تم نے مجھے تھپڑ مارا تھا۔“دوسری طرف اسنے اپنے گال پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا
”وہ آپ تھے احمد؟“رمشا حیرت کی انتہا پر تھی۔
”جی بلکل“۔۔اسنے سپاٹ لہجے میں کہا
”اوہ نو۔۔۔ آئم سو سوری احمد۔ پلیز مجھے معاف کردیں“۔ ۔۔رمشا کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے۔
”نہیں یار معافی کی کوئی بات نہیں ہے۔ اب تو تم مجھ سے محبت کرتی ہو نا۔ تو بس چھوڑو اس بات کو“۔ اسنے لاپرواہی سے کہا
(معافی نہیں پورا حساب لونگا تجھ سے میں)اسنے دل میں سوچا۔
”آئم سوری احمد مجھ سے غلطی ہوگئی تھی۔ اگر مجھے پتا ہوتا تو میں کبھی آپکو اس طرح نہیں مارتی“۔رمشا کی آنکھ سے دو موتی ٹوٹ کر گرے
”کوئی بات نہیں میری جان۔ میں کل کالج کے باہر تمہارا ویٹ کرونگا“۔۔ اسنے نرمی سے کہا
”کالج کے باہر کیوں“؟ رمشا نے حیرت سے کہا
”تاکہ تم کودیکھ سکوں بس اس لیے۔“اسنے لاپرواہی سے کہا
”ٹھیک ہے“۔ رمشا نے جواب دے کر کال کاٹ دی تھی اور اب وہ اسکے بارے میں سوچ کر مسکرارہی تھی۔ لیکن اسکو نہیں پتا تھا کہ اسکی زندگی میں اب کیا ہونے والا تھا۔
***********
جاری ہے

0 تبصرے
ہم سے رابطہ کرنے کا شکریہ
ہم آپ سے بہت جلدی رابطہ کریں گے۔