رسم_حیات
از_خدیجہ_نور
قسط_نمبر_04

**************
 دو دن بعد: 
سدرہ معمول کی طرح چھٹی کے وقت عادل کو تلاش کررہی تھی لیکن وہ پچھلے دو دن سے کالج کے باہر نہیں آیا تھا۔ 
”شاید کسی کام میں مصروف ہونگے۔“ سدرہ نے دل میں سوچا اور گھر جانے لگی۔ جب وہ گھر پہنچی تو اسے کچھ عجیب سا محسوس ہوا۔ سدرہ نے ڈور بیل بجائی تو ملازمہ نے دروازہ کھولا۔ گھر میں ہر طرف خاموشی تھی۔سارے ملازم اپنے کام نپٹاکر اپنے کواٹرز میں جارہے تھے۔ جس ملازمہ نے دروازہ کھولا تھا سدرہ نے اسکو اپنے پاس بلایا۔ وہ اداس چہرہ لیے سدرہ کےسامنے آکھڑی ہوئی۔
”آج گھر میں اتنی خاموشی کیوں ہے؟ اور نانی کہاں ہیں“؟ سدرہ نے ملازمہ کو دیکھتے ہوئے سوال کیا
”وہ۔۔۔ “ملازمہ نے کہنا شروع کیا لیکن اسکی آنکھوں سے آنسو چھلک گئے 
”کیا ہوا ہے بتاؤ“۔۔۔۔ سدرہ نےحیرت سے ملازمہ کو دیکھتے ہوئے پوچھا
”وہ احمد صاحب کو پولیس لے گئی ہے۔ بڑی بی بی کی طبيعت اچانک خراب ہوگئی تھی۔ ہم نے فون کرکے ان کی دوست کو بلایا تھا وہ انکو ہاسپٹل لے کر گئی ہیں“۔ ملازمہ روتے ہوئے بتا رہی تھی 
”کونسے ہاسپٹل گئی ہیں وہ نانی کو لیکر“۔سدرہ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوچکے تھے جنہیں وہ باربار صاف کرنے کی ناکام کوشش کرہی تھی۔ 
”انہوں نے کہا تھا کہ وہ ہاسپٹل پہنچ کر فون کرینگی۔ وہ بہت جلدی میں تھیں اسلیے یہ نہیں بتایا“۔ ملازمہ نے ہتھیلی کی پشت سے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا 
سدرہ کو لگا جیسے کسی نے اسکے جسم سے جان نکال لی ہو۔ وہ کچھ بھی سمجھ نہیں پارہی تھی۔ وہ کچھ سمجھنا ہی نہیں چاہتی تھی۔ وہ وہیں فرش پر گھٹنوں کے بل گرنے والے انداز میں بیٹھ گئی۔ تیز رفتار سے آنسو اسکی آنکھ سے جاری ہوگئے۔ ملازمہ اسکو تسلی دے رہی تھی لیکن وہ کچھ نہیں سن رہی تھی وہ بس رو رہی تھی۔ 
***********
 وہ عشاء کی نماز کے بعد رو رو کر اﷲ سے دعائیں مانگ رہی تھی۔ جب اسکو ڈور بیل کی آواز سنائی دی۔ وہ بھاگ کر لاؤنچ کی طرف بڑھی۔ ملازمہ دروازہ کھول چکی تھی۔ مسرت اور آمنہ (دوست) اندر داخل ہورہی تھیں۔ سدرہ فوراً آکر مسرت سے لپٹ گئی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ مسرت کی بھی آنکھیں جھلک گئیں۔ 
”نانی کیا ہوا آپکو؟ آپ ٹھیک ہیں نا؟“ سدرہ روتے ہوئے مسرت سے پوچھ رہی تھی 
”چپ ہوجاؤ میری جان مجھے کچھ نہیں ہوا۔ میں ٹھیک ہوں۔“مسرت نے سدرہ کو دلاسا دیتے ہوئے کہا
”نانی بھائی ۔۔۔ بھائی کہاں ہے“؟ سدرہ نے مسرت سے الگ ہوتے ہوئے پوچھا
”بیٹا پتا نہیں پولیس اسکو کیوں لے کر گئی ہے۔ تم فکر نہیں کرو ہم اسکو چھڑا لینگے“۔ مسرت نے سدرہ کے آنسو صاف کرتے ہوئے تسلی دینے لگیں.
”نانی “۔۔۔سدرہ پھر سے مسرت کے گلے لگ کر رونے لگی۔۔۔
************
 تین دن ایسے ہی گزر گئے تھے۔ ایک دن سدرہ مسرت سے ضد کرکے احمد سے ملنے پولیس اسٹیشن بھی گئی تھی۔ لیکن وہاں بھی اسکو کسی نے نہیں بتایا کہ احمد کو کیوں اریسٹ کیا گیا ہے۔ مسرت طبيعت خراب ہونے کے باوجود باربار پولیس اسٹیشن کے چکر لگارہی تھی لیکن ابھی تک احمد کو رہائی نہیں ملی تھی۔ سدرہ باربار مسرت سے پوچھتی تھی کہ وہ لوگ بھائی کو کیوں لے کر گئے ہیں لیکن مسرت سدرہ کو ہربار ٹال دیتی وہ نہیں چاہتی تھیں کہ سدرہ احمد کی وجہ سے پریشان ہو۔ سدرہ کالج بھی نہیں جارہی تھی۔ اسکو عادل سے ملے ہوئے بھی کافی دن گزر گئے تھے۔ اگلے دن وہ ہمت کرکے کالج گئی۔ اسکا پڑھائی میں بلکل دل نہیں لگ رہا تھا وہ سارا وقت کلاس میں احمد اور عادل کے بارے میں سوچتی رہی تھی۔ چھٹی کے وقت وہ گیٹ کے پاس کھڑے ہوکر عادل کو تلاش کررہی تھی لیکن عادل اسکو کہیں بھی نظر نہیں آرہا تھا۔ وہ کافی دیر وہاں عادل کا انتظار کرتی رہی لیکن عادل نہیں آیا۔ سدرہ کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے تھے۔ نم آنکھوں کے ساتھ وہ گھر کی طرف بڑھی۔ گھر آکر وہ سیدھے اپنے کمرے میں آگئی اور دروازہ بند کرکے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ 

*************
وہ عصر کی نماز پڑھ کر فارغ ہوئی تھی جب ہی دروازے پہ دستک ہوئی۔ اسنے جائےنماز رکھی اور دروازہ کھولا۔ 
”بی بی جان آپ کو بلارہی ہیں“ ۔ ملازمہ نے سدرہ کو مسرت کا پیغام دیا 
”آرہی ہوں، چلو“۔۔۔ سدرہ نے ملازمہ سے کہا اور دروازہ بند کرکے لاؤنچ کی طرف بڑھ گئی۔ 
وہ ابھی لاؤنچ میں داخل ہی ہوئی تھی کہ اسکی نظر اس شخص پہ پڑی جو صوفے پر بیٹھا مسرت سے بات کررہا تھا۔ سدرہ ایک منٹ کے لیے سانس لینا ہی بھول گئی۔ مسرت نے جب سدرہ کو کھڑا دیکھا تو اسکے اپنے پاس آنے کا کہا۔ سدرہ خاموشی سے نظریں جھکائے مسرت کے ساتھ آکر بیٹھ گئی۔ وہ ابھی سدرہ کو ہی دیکھ رہا تھا۔
”سدرہ بیٹا انہوں نے مجھے سب کچھ بتا دیا ہے۔ یہ تم سے نکاح کرنا چاہتے ہیں۔ کیا تم راضی ہو اس رشتے سے“؟مسرت نے سدرہ کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
سدرہ کو سمجھ نہیں آرہا تھا کے وہ کیا کرے اس لیے وہ خاموش رہی۔
”سدرہ۔۔۔ میری جان پلیز بتاؤ نا“۔مسرت نے سدرہ کا ہاتھ تھامتے ہوئے نرمی سے کہا
سدرہ نے اثبات میں سر ہلایا۔
مسرت کی آنکھوں میں خوشی صاف جھلک رہی تھی۔
”آنٹی میں سدرہ سے تین دن بعد نکاح کرنا چاہتا ہوں“۔سامنے بیٹھے شخص نے کہا 
سدرہ نے سوالیہ نظروں سے اسکو دیکھا جو سدرہ کو ہی دیکھ رہا تھا۔ پھر سدرہ نے نظریں نیچے کرلیں
”لیکن بیٹا اتنی جلدی“۔۔مسرت نے فقره ادھورا چھوڑدیا
”آپ فکر نہیں کریں. نکاح بلکل سادگی سے ہوگا کسی دھوم دھام کی ضرورت نہیں ہے اور نکاح کے ساتھ ہی رخصتی بھی“۔ اسنے سپاٹ لہجے میں کہا
سدرہ نے حیرت سے سامنے بیٹھے شخص کو دیکھا جس کے چہرے پر کوئی تاثر نہیں تھا۔
”ٹھیک ہے بیٹا۔ میں بھی یہی چاہتی ہوں کہ سدرہ کی جلدازجلد شادی ہوجائے تاکہ وہ اپنے گھر میں خوش رہ “۔۔۔ مسرت نے آنکھ کا کنارا صاف کرتے ہوئے کہا۔
مسرت کے بعد سدرہ کا کوئی خیال رکھنے والا نہیں تھا۔ مسرت کی طبيعت اب زیادہ ٹھیک نہیں رہتی تھی۔ اور وہ نہیں چاہتی تھیں کہ سدرہ یہاں رہ کر احمد کی وجہ سے پریشان رہے اس لیے وہ بھی تین دن بعد نکاح کے لیے راضی ہوگئی۔ 
***************
 تین دن گزر چکے تھے آج نکاح کا دن تھا۔مسرت آج بہت خوش تھی۔ ان کو یقین نہیں آرہا تھا کہ سدرہ کا نکاح ہو رہا ہے۔ وہ گھر میں نکاح کی تیاریاں کررہی تھی۔ سدرہ اپنے کمرے میں بیڈ پہ اپنا وہ دوپٹہ ہاتھ میں لیے بیٹھی تھی جو عادل نے برائیڈل روم میں اسکے سر پہ اوڑھایا تھا۔ سدرہ بے حد نروس تھی۔ اسکی زندگی ایک نیا رخ لینے والی تھی۔ مسرت اسکے کمرے میں کھانا لے کر آئی اور اسکو اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلایا پھر سدرہ مسرت کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گئی اور کب سو گئی اسکو پتا ہی نہیں چلا۔ 
************ 
 نکاح کے بعد مسرت نے ڈھیر ساری دعاؤں کے ساتھ سدرہ کو رخصت کیا تھا۔ وہ اب عادل کے کے کمرے میں بیڈ پر بیٹھی تھی۔ ریڈ اور گولڈن کلر کی فراک کے ساتھ ہلکا سا میک اپ کیے وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔ نکاح سے اب تک عادل اور سدرہ کے درمیان کوئی بات نہیں ہوئی تھی اور اب سدرہ کو بے صبری سے عادل کا انتظار تھا۔ وہ اپنی اور عادل کی خوشگوار یادوں میں کھوئی ہوئی تھی۔ 
”کتنی دیر ہوگئی ابھی تک نہیں آئے“۔۔۔ سدرہ نے گھڑی دیکھتے ہوئے کہا جس میں ساڑھے دس ہو رہے تھے۔ وہ اٹھ کر بے مقصد کمرے کے چکر کاٹنے لگی پھر کچھ دیر بعد تھک کر بیڈ پر لیٹ گئی اور کب نیند کی وادیوں میں کھو گئی پتا ہی نہیں چلا ۔۔۔۔
*********
وہ سدرہ کو گھر چھوڑ کر بے مقصد سڑکوں پر ڈرائیو کرتا رہا۔ دور کہیں سے عشاء کی اذان کی آواز آرہی تھی۔ اسنے ایک مسجد کا رخ کیا۔ نماز ادا کرنے بعد وہ کافی دیر تک مسجد میں اﷲ کے آگے ہاتھ پھیلائے روتا رہا۔ جب وہ گھر پہنچا تو رات کے ساڑھے بارہ ہورہے تھے۔ وہ تھکا تھکا اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔ کمرے کا دروازہ کھولا تو بیڈ پر سدرہ کو سوتے ہوئے دیکھ کر آنسوؤں کا گولا اسکے گلے میں اٹک گیا۔ وہ کمرے میں داخل ہونے کے بجائے دروازہ بند کرکے دوسرے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔ 
*************
 ایک نئی صبح کا آغاز ہوچکا تھا۔ سورج کی دھوپ کھڑکی سے چھن کر کمرے میں داخل ہورہی تھی۔ اسنے آنکھیں کھولیں اور بے مقصد چھت کو گھورتی رہی۔ اسنے نظر پھیر کر کمرے کا جائزہ لیا عادل اب بھی کمرے میں موجود نہیں تھا۔
”یااﷲ ساڑھے ٩ ہوگئے“۔۔۔ سدرہ نے ٹائم دیکھتے ہوئے کہا پھر اٹھ کر فریش ہونے چلی گئی۔ جب وہ واپس آئی تو تب بھی کمرے کی حالت ایسی ہی تھی جیسے وہ چھوڑ کر گئی تھی۔ وہ آئینے کے سامنے خود کا جائزہ لینے لگی۔ شیفون کے پنک ڈریس میں وہ بہت پیاری لگ رہی تھی۔ یہ ڈریس مسرت نے سدرہ کو نکاح والے دن تحفے میں دیا تھا۔ وہ ابھی صرف اپنے تین ڈریسز اور کچھ ضرورت کا سامان لے کر آئی تھی۔ باقی سب ابھی مسرت کے گھر پر ہی تھا۔
”پتہ نہیں عادل کہا ہونگے؟ باہر جاکر دیکھتی ہوں“۔۔۔سدرہ نے دل میں سوچا اور باہر کی طرف بڑھ گئی۔
گھر میں مکمل خاموشی۔ وہ راہداری سے گزرتی ہوئی لاؤنچ میں داخل ہوئی جہاں عادل صوفے پر آنکھیں بند کرے بیٹھا تھا۔ سدرہ اسکو دیکھ کر فوراً اسکے قریب آئی۔
”عادل“ ۔۔۔ سدرہ نے عادل کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا
عادل نے چونک کر آنکھیں کھولیں اور فوراً سدرہ کا ہاتھ جھٹک کر کھڑا ہوگیا
”کیا ہوا عادل؟ آپ ٹھیک ہیں نا“؟سدرہ نے عادل کی سوجی ہوئی آنکھوں کو دیکھ کر کہا
”کچھ نہیں“ ۔۔۔ عادل نے مختصر سا جواب دیا اور باہر جانے لگا
”عادل آپ نے ناشتہ کیا؟ آپ ساری رات کہاں تھے ؟ میں نے آپکا بہت انتظار کیا“۔۔۔ سدرہ عادل کے پیچھے چلتی اس سے بولے جارہی تھی۔ 
”تم سے مطلب؟ میں کہیں بھی رہوں“؟ عادل نے پلٹ کر سدرہ کو سخت لہجے میں کہا
”عادل مجھ سے کیا کوئی غلطی ہوگئی ہے ؟ آپ مجھ سے ایسے بات کیوں کررہے ہیں“؟سدرہ کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے تھے۔ 
عادل بنا جواب دیئے باہر کی طرف بڑھ گیا۔ سدرہ اسکو باہر جاتا دیکھتی رہی۔  
***************
 دوپہر ہوچکی تھی۔ سدرہ گھر میں بے مقصد گھوم رہی تھی اسکا ذہن عادل اور احمد میں الجھا ہوا تھا۔ اسنے گھر فون کرنے کا سوچا اور کمرے میں آکر کال پر مسرت سے ڈھیر ساری باتیں کیں۔ مسرت سے بات کرکے اسکو بہت اچھا محسوس ہورہا تھا۔ اسنے کسی خیال سے کچن میں جانے کا سوچا اور باہر کی طرف بڑھ گئی۔ کچن میں ایک ملازمہ کھانا بنا رہی تھی جسکی خوشبو سے پورا کچن مہک رہا تھا۔
”کیا بنا رہی ہو؟“ سدرہ نے کچن میں داخل ہوتے ہوئے کہا
”صاحب نے کہا تھا کہ آپکے لیے دال چاول بنادوں“۔ ملازمہ نے دال میں چمچ چلاتے ہوئے کہا
”اچھا۔۔۔ نام کیا ہے تمہارا“ ؟ سدرہ نے چاول دیکھتے ہوئے پوچھا
”ایمن“۔۔۔ملازمہ نے دال میں تڑکا لگاتے ہوئے کہا 
”اچھا تو ایمن یہ بتاؤ گھر کے باقی لوگ کہاں ہیں؟ کوئی نظر ہی نہیں آرہا“۔ سدرہ نے سائیڈ پہ رکھے اسٹول پر بیٹھتے ہوئے کہا
”پتا نہیں بی بی جی ، مجھے تو صاحب نے کل ہی نوکری پر رکھا ہے۔ میری خالہ یہاں صفائی کرنے آتی ہیں۔ انہوں نے بتایا تھا کے صاحب کی ایک چھوٹی بہن تھیں اور والد صاحب ایک بہت بڑے بزنس مین ہیں لیکن اب پتا نہیں وہ کہاں ہیں“۔ ایمن نے چولہا بند کیا اور چاول دیکھنے لگی۔ 
”نکاح پر بھی کوئی نہیں آیا تھا۔ کہاں چلے گئے سب“۔۔۔ سدرہ نے دل میں سوچا اور ایمن کو کام کرتا دیکھنے لگی۔ 
”بی بی جی کھانا لگا دوں“؟ ایمن نے سدرہ کی طرف دیکھتے ہوئےکہا
”نہیں پہلے تمہارے صاحب کو آنے دو ان کے ساتھ ہی کھاؤنگی“ ۔ سدرہ نے مسکراکر کہا
”وہ نہیں آئینگے بی بی جی“۔۔ ایمن نے ہاتھ دھوتے ہوئے کہا
”کیا مطلب“؟سدرہ نے سوالیہ نظروں سے ایمن کو دیکھا
”انہوں نے کہا تھا کہ صرف آپ کے لیے کھانا بناؤں۔“ ایمن اب اپنے دوپٹے سے ہاتھ صاف کررہی تھی۔ 
”عادل نے ایسا کیوں کہا؟شاید کسی کام میں مصروف ہونگے“۔ اسنے دل میں سوچا۔ 
”اچھا تم لگادو“۔سدرہ نے اسٹول سے اٹھتے ہوئے کہا 
****************
 رات کے آٹھ بج رہے تھے۔ سارا دن عادل کا انتظار کرنے کے بعد وہ لاؤنج میں ٹی وی دیکھ رہی تھی۔ جب ہی عادل لاؤنچ میں داخل ہوا۔ سدرہ نے جیسے ہی عادل کو آتا ہوا دیکھا وہ فوراً ریموٹ رکھ کر کھڑی ہوگئی۔ عادل سدرہ کو نظرانداز کرکے اپنے کمرے کی طرف جانے لگا۔ 
”عادل آپ نے کھانا کھایا؟“ سدرہ نے عادل کے قریب جاتے ہوئے کہا
عادل خاموشی سے دروازہ کھول کر کمرے میں داخل ہوگیا اور وارڈروب سے کپڑے نکالنے لگا۔ سدرہ بھی عادل کے پیچھے کمرے میں آئی۔
”عادل آپ کو کچھ چاہیئے کیا“؟ سدرہ نے عادل کو دیکھتے ہوئے پوچھا 
عادل نے خاموشی سے کپڑے نکالے اور چینج کرنے چلا گیا۔ 
جب عادل چینج کرکے واپس آیا تو سدرہ نے کمرے میں ہی کھانا لگوادیا تھا۔ عادل بنا دیکھے ہی باہر کی طرف جانے لگا۔ 
”عادل کھانا کھالیں“۔۔۔ سدرہ نے عادل کو روکتے ہوئے کہا
”تم سے کس نے بولا تھا کھانا لگانے کو“؟ عادل نے ایک نظر سدرہ کو دیکھا پھر کھانے کو۔ پھر باہر کی طرف جانے لگا۔ 
”عادل۔۔۔ سنیں۔۔۔“ سدرہ اسکے پیچھے باہر کی طرف لپکی۔ 
”کیوں آرہی ہو میرےپیچھے“؟ عادل نے پلٹ کر کہا 
”عادل آپ مجھے اگنور کررہے ہیں“۔۔۔ سدرہ نے نم آنکھوں کے ساتھ کہا
”میرے سامنے یہ رونے کی ضرورت نہیں ہے۔ تم کو کھانا ہے تو کھالو۔ اور میرا انتظار نہیں کرنا“۔عادل نے سخت لہجے میں کہا اور پلٹ کر جانے لگا۔ 
”عادل میرے ساتھ ایسا کیوں کررہے ہیں“ ؟ سدرہ نے دل میں سوچا اور عادل کو جاتا دیکھتی رہی۔ 
***********
وو دو دن سے عادل کا انتظار کررہی تھی لیکن عادل گھر نہیں آیا تھا۔ وہ کبھی کبھی دل کو سکون دینے کے لیے مسرت سے باتیں کرلیتی۔ لیکن اسنے مسرت کو ابھی عادل کے behavior کے بارے میں نہیں بتایا تھا وہ نہیں چاہتی تھی کے مسرت اسکی وجہ سے پریشان ہوں۔ دوسری طرف احمد ابھی تک جیل میں تھا۔ سدرہ جب بھی مسرت سے احمد کے بارے میں پوچھتی مسرت بات بدل دیتیں ۔۔۔ 
وہ صبح فریش ہوکر لاؤنج میں بیٹھی تھی۔ اور ملازمہ کچن میں چائے بنارہی تھی۔ جب ہی باہر عادل کی گاڑی رکنے کی آواز آئی۔ سدرہ فوراً باہر کی طرف بڑھی۔ عادل اب اندر داخل ہورہا تھا۔ وہ بلکل عادل کے سامنے جاکر کھڑی ہوگئی ۔
”عادل آپ کہاں تھے دو دن سے؟ میں نے آپ کا بہت انتظار کیا۔ آپ کی طبیعت ٹھیک ہے نا؟“۔سدرہ نے عادل کو دیکھتے ہوئے کہا جو بکھرے بال اور بڑھی ہوئی شیو کے ساتھ بہت کمزور لگ رہا تھا۔ 
عادل بنا جواب دیئے سدرہ کو سامنے سے ہٹاکر کمرےکی طرف بڑھ گیا۔
 وہ صوفے پر سر ہاتھوں میں گرائے بیٹھا تھا۔ جب سدرہ چائے لیکر کمرے میں داخل ہوئی ۔۔۔ 
”عادل آپ مجھ سے بات کیوں نہیں کررہے آپکو پتا ہے میں سارا دن بور ہوجاتی ہوں گھر میں“۔سدرہ نے چائے کا کپ عادل کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا
عادل نے چائے کا کپ لے کر پوری قوت سے زمین پر پٹخ دیا۔ کپ کاکانچ ٹوٹ کر ہر طرف بکھر گیا۔ سدرہ ایک دم گھبراکر عادل کو دیکھنے لگی۔ 
”اگر اتنی ہی زیادہ بوریت ہوتی ہے تو گھر کے کام کرو۔ آج سے اس گھر کا ہر کام تم خود کروگی“۔ 
”عادل لیکن“ ۔۔۔۔۔ سدرہ عادل کو کچھ بول رہی تھی لیکن عادل بنا سنے ہی باہر نکل گیا۔ سدرہ اسکے پیچھے جانے لگی لیکن اس کے پیر میں کانچ چبھ گیا۔ سدرہ نے درد کی وجہ سے آنکھیں بند کرلیں۔ اب وہ عادل کو آوازدے رہی تھی لیکن عادل جا چکا تھا۔ 
**************
 عادل اور سمیر لاؤنج میں laptop پر کچھ کام کررہےتھے۔ جب سدرہ لاؤنج میں داخل ہوئی۔ اسکےپیر میں لگی ہوئی تھی چوٹ کی وجہ سےوہ کافی آہستہ چل رہی تھی۔ اسنےدورسےہی سمیرکو سلام کیا۔ عادل اور سمیر نے نظر اٹھاکر سدرہ کو دیکھا۔ سمیر نے مسکراکر جواب دیااور دوبارہ کام میں مصروف ہوگیا۔ جبکہ عادل سدرہ کو گھور کر دیکھ رہا تھا۔ جو چھوٹے چھوٹے قدموں سے اسکی طرف آرہی تھی۔ 
”جاؤ چائے بنا کر لاؤ“ ۔۔۔ جیسے ہی سدرہ عادل کےقریب آئی عادل نے حکم صادر کیا۔
”لیکن عادل“۔۔۔ سدرہ کومسرت نےبچپن سےہی کوئی کام نہیں کرنےدیا تھا۔ وہ عادل کوبتاناچاہتی تھی لیکن عادل نےاسکی بات کاٹ دی۔
”جاؤ۔۔۔۔۔اور چائےتم بناؤگی ملازمہ نہیں“۔عادل نے سختی سے کہا۔
”جی۔۔۔ “سدرہ بس اتنا ہی بول سکی اور نظریں جھکائے کچن کی طرف بڑھ گئی۔ 
”یار ان سب میں بھابھی کی کیا غلطی ان سے ایسے بات کیوں کررہا ہے“؟ سدرہ کے جانے کے بعد سمیر نے عادل کو مخاطب کیا
”یار جب بھی میں اسکو دیکھتا ہوں میرا خون کھول اٹھتا ہے۔ اسکو دیکھ کر مجھے بہت غصہ آتا ہے، بہت زیادہ “۔۔۔ عادل نے چہرہ ہاتھوں میں گراتے ہوئے کہا
”عادل۔۔۔“ سمیر نے عادل کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا
”یار یہ اس شخص سے جڑی ہے جس نے میری دنیا برباد کردی“۔ عادل نے نم آنکھوں سے کہا
سمیرآنسو ضبط کیے عادل کو دیکھتا رہا۔
”یار کیا ہوگیا یہ سب؟کیوں ہوگیا یہ سب؟ سب کچھ اچھا تھا یار اور پھر صرف چند دن میں میری دنیا اجڑ گئی یار“۔ عادل کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے
سمیر عادل کو تسلی دینا چاہتا لیکن کیا کہتا اسکا خود کا ضبط ٹوٹ چکا تھا اور اب وہ بھی ہاتھ کی پشت سے اپنے آنسو صاف کررہا تھا۔
 سدرہ اب کچن سے چائے لیکر آرہی تھی اسکو دیکھ کر دونوں نے اپنے آنسو صاف کئے اور دوباره laptop کی طرف متوجہ ہوگئے۔
”عادل چائے“ ۔۔۔سدرہ نے عادل کی طرف چائے بڑھاتے ہوئے کہا جو چائے کی جگہ جوشانده لگ رہی تھی۔
عادل نے ایک نظر چائے کو دیکھا اور پھر کپ اٹھا کر زمین پر پٹخ دیا۔ یہ دوسرا کپ تھا جو عادل نے توڑا تھا۔ سدرہ سہم کر عادل کو دیکھنے لگی۔
”یہ کیا بنایا ہے“؟ عادل زور سے سدرہ پر چلایا تھا۔
”عادل چھوڑ نا یار“ ۔۔۔سمیر نے عادل کو روکنے کی کوشش کی لیکن عادل غصے میں تھا۔ وہ کسی کی نہیں سن رہا تھا۔
”عادل مجھے گھر کا کوئی کام نہیں آتا“ ۔۔۔ سدرہ کی آنکھوں سے آنسو ٹوٹ کر گر رہے تھے۔ 
”نہیں آتا تو سیکھ لو لیکن اب سے سارا کام تم ہی کروگی“۔۔۔ عادل غصے سے سدرہ پر دھاڑا تھا۔ 
”جی۔۔۔“وہ منہ پر ہاتھ رکھ کر روتی ہوئی کمرے میں چلی گئی۔
یہ وہی آنکھیں تھیں جن میں وہ آنسو نہیں دیکھ سکتا تھا اور آج ان آنکھوں کے آنسوؤں کی وجہ بھی وہ ہی تھا۔ 
*************
باہر ہلکی ہلکی بوندا باندی ہورہی تھی۔ سدرہ لاؤنج میں ہاتھ میں جھاڑو پکڑے کھڑی تھی۔ اسکو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے۔ 
کیا یہ ہی اسکی زندگی تھی؟ کیا ساری زندگی اس سےکوئی پیار کرنےوالا نہیں تھا؟ لیکن پیار تو اسکو سب کرتے تھے لیکن کوئی اسکے ساتھ اچھا behavior کیوں نہیں رکھتا تھا؟ پہلے احمد اور اب عادل۔۔۔
کیا اسکے صبر کا پھل اسکو کبھی نہیں ملنا تھا؟ کیا اسکی یہ آزمائش کبھی ختم نہیں ہونی تھی؟ اور اگر ہونی تھی تو کب؟   
وہ ابھی کھڑے کھڑےسوچ رہی تھی کہ ڈور بیل رنگ ہوئی۔ اسنے جھاڑو رکھ کر دروازہ کھولا تو سامنے زبیدہ بیگم (ایمن کی خالہ)کھڑی تھیں۔ وہ ایک باتونی خاتون تھیں
”جی آپ کون“؟ سدرہ نے انکو دیکھتے ہوئے سوال کیا
”بی بی میں کام والی ہوں۔یہاں صفائی کرنے میں ہی آتی ہوں۔ صاحب نے مجھے چھٹی دے رکھی تھی لیکن گھر پر دل نا لگ رہا تھا میرا تو آگئی کام کرنے“ ۔۔۔زبیدہ نے سدرہ کا جائزہ لیتے ہوئے کہا
”اچھا۔لیکن آپ چلی جائیں سارا کام میں خود کر لونگی۔“سدرہ نے زبیدہ کو دیکھتے ہوئے کہا
”ہائے ہائے صاحب نے مجھے بھیج کر کوئی اور کام والی رکھ لی کیا؟ رکو زرا مجھے صاحب سے بات کرنی ہے“۔ زبیدہ گھر میں داخل ہوتے ہوئے بولی۔
”ارے نہیں آنٹی آپ غلط سمجھ رہی ہیں۔ میں انکی بیوی ہوں“۔۔۔۔ سدرہ نے زبیدہ کے پیچھے آتے ہوئے کہا
”کیا۔۔۔۔ صاحب نے شادی بھی کرلی؟ دیکھو تو زرا بہن کو گئے ہوئے وقت ہوا نہیں کے صاحب نے شادی بھی کرلی۔“ زبیدہ نےحیرت سےکہا۔
”بہن ۔۔۔ “ سدرہ کو جیسے کرنٹ لگا۔ 
زبیدہ غور سے سدرہ کو دیکھ رہی تھی۔
”انکی بہن کہاں ہیں“؟ سدرہ نے زبیدہ سے پوچھا۔
”ارے ابھی ایک مہینے پہلےکی تو بات ہے بہن غائب ہوگئی تھی صاحب کی۔ سننے میں آیا ہے کہ چھوڑ کر چلی گئیں وہ سب کو“۔زبیدہ نے جھاڑو اٹھاتے ہوئے کہا۔
سدرہ کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔ اسکے ذہن میں بہت سارے سوال آرہے تھے۔عادل کی بہن تو تھی لیکن وہ کہاں تھی اور گھر کے باقی لوگ کہاں تھے۔؟ اور نکاح پر بھی سمیر کے علاوہ کوئی کیوں نہیں آیا تھا۔؟ سدرہ وہیں سوچوں میں گم کھڑی رہی۔
**************
جاری ہے