رسم_حیات
از_خدیجہ_نور
قسط_نمبر_03

**************
 عادل سدرہ کو ہر جگہ تلاش کررہا تھا جو پتا نہیں کہاں چھپ گئی تھی۔ آج عادل کو کسی بھی حال میں سدرہ کا جواب سنناتھا۔ وہ سدرہ کو ڈھونڈتے ہوئے برائیڈل روم کی طرف بڑھ گیا۔۔
 برائیڈل روم میں اس وقت سدرہ کے علاوه کوئی نہیں تھا۔ اسنے دوپٹہ گلے میں یو شیپ میں پھیلایا ہوا تھا۔ لمبے بال کمر پہ پڑے ہوئے۔ وہ آئینےکےسامنے بالوں میں برش کرنے میں مصروف تھی۔ اچانک اسکے ہاتھوں کی حرکت تھم گئی اور برش اسکے ہاتھ سے چھوٹ کرنیچےگرگیا۔
عادل اب سدرہ کے پیچھے کھڑا ہوا تھا اور آئینے میں دونوں کا عکس دیکھ رہاتھا۔ سدرہ کو ٹھنڈے پسینےآنےلگےتھے۔ دونوں کے درمیان مکمل خاموشی تھی۔ جب ہی گیٹ کھلا اور ایک خاتون اندر داخل ہوئی۔ عادل فوراً سے پیچھے ہوگیا۔ 
”ماشااﷲ۔۔۔ ماشااﷲ کتنی پیاری جوڑی ہے دونوں کی ۔۔۔ لگتا ہے ابھی نئی نئی شادی ہوئی ہے تم دونوں کی “۔۔خاتون نے سدرہ اور عادل کو دیکھتے ہوئے کہا 
عادل اور سدرہ نے ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر ان خاتون کو جو آئینے کی سائیڈ والی ٹیبل سے گفٹس اٹھارہی تھیں ۔
”چلو بیٹا اﷲ خوش رکھے۔ جوڑی سلامت رکھے تم دونوں کی “۔۔۔ خاتون نے عادل اور سدرہ کی بلائیں لیتے ہوئے کہا اور چلی گئیں۔
سدرہ اور عادل ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے ہنسنے لگے۔
”دیکھو اب تو آنٹی نے بھی دعا دےدی اب تو جواب دے دو یار“ ۔۔۔عادل نےمسکراتےہوئے سدرہ سےکہا
سدرہ نے مسکراکر سر جھکالیا 
”سدرہ مجھ پہ بھروسہ کرتی ہونا“؟ عادل نے سدرہ کے قریب آتے ہوئے کہا جو نظریں جھکائے خاموش کھڑی تھی
” میری محبت قبول کروگی“؟ عادل سدرہ سامنے کھڑا پوچھ رہا تھا 
سدرہ نے آہستہ سے ہاں میں سر ہلایا۔
”میری زندگی بنوگی؟“
سدرہ نے نظریں جھکائے ہاں میں سر ہلایا
”میرے نکاح میں آنا پسند کروگی“؟
سدرہ نے مسکراتے ہوئے ہاں میں گردن ہلائی
عادل کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں تھا۔
”میں تم سے بہت محبت کرونگا سدرہ تمہیں کبھی تکلیف نہیں ہونے دونگا۔“ سدرہ کی آنکھ سے ایک آنسو ٹوٹ کے گرا۔
عادل نے سدرہ کے قریب ہوتے ہوئے اسکا دوپٹے کا کورنر اپنے ہاتھ میں لیا اور بہت پیار سے سدرہ کے سر پہ اوڑھانےلگا۔
سدرہ کادل زور سے دھڑک رہا تھا وہ بلکل ساکت عادل کو دیکھ رہی تھی جو بہت احتياط سے اسکے سر پہ دوپٹہ ڈال رہا تھا۔
”اسی طرح عزت و احترام سے تم کو اپنی دلہن بنا کر لے جاؤنگا“۔عادل نے مسکراتے ہوئے کہااور وہاں سے جانے لگا 
سدرہ ساکت کھڑی اسکو دیکھتی رہی۔۔
**************
 عادل سدرہ کا جواب سن کر بہت خوش تھا وہ جلد سے جلد سدرہ کو اپنی دلہن بنانا چاہتا تھااور اسکی یہ خواہش بہت جلد پوری بھی ہونے والی تھی لیکن کیسے ۔۔۔۔۔۔۔

وہ اور رمشا گھر کے لاؤنچ میں داخل ہو رہے تھے پورا لاؤنچ اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔ 
”اتنا اندھیرا کیوں ہے بھائی“؟ رمشا نے عادل کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا 
”پتا نہیں۔۔۔ شاید لائٹ نہیں ہے“۔ عادل نے اپنی جیب سے موبائل نکالتے ہوئے کہا
ابھی عادل فون کی ٹارچ اون کر ہی رہا تھا کہ اچانک کسی نے لائٹ اون کردی اور پورا لاؤنچ روشنی سے بھر گیا۔
فرقان صاحب سامنے کھڑے مسکرارہے تھے۔وہ کچھ دنوں سے کراچی سے باہر گئے ہوئے تھے۔
”پاپا“۔۔۔۔ رمشا باپ کو دیکھتے ہی انکے سینے سے جالگی۔
”پاپا آپ کب آئے“؟ عادل نے انکے قریب آتے ہوئے کہا
”بس ابھی تھوری دیر پہلے آیا تھا۔ملازموں نے بتایا کہ تم لوگ شادی میں گئےہو۔ تو میں نےسوچا کہ کیوں نا تم دونوں کو سرپرائز دیاجائے“۔ 
”پاپامیں نے آپ کو بہت مس کیا۔ آپ تھک گئے ہونگے نا میں آپ کے لیے چائے بناؤں“؟ رمشا نے فرقان صاحب سے الگ ہوتے ہوئے کہا 
”نہیں بیٹا میں ٹھیک ہوں۔ تم لوگ بھی تو تھک گئے ہوگے تم لوگ آرام کرو، میں بھی اپنے کمرے میں جارہا ہوں“ ۔۔۔ فرقان صاحب نے دونوں کو سر پہ ہاتھ پھیرا اور اپنے کمرے کی طرف چلے گئے
♡♡♡♡♡
عادل مسکراتا ہوا اپنے کمرے کی طرف بڑھنے لگا۔
”بھائی“ ۔۔۔ رمشا نے عادل کو آواز دی 
”ھممم بولو “۔۔۔ عادل نے پلٹ کہ رمشا کو دیکھا جو بہت غور سے عادل کو دیکھ رہی تھی 
”بھائی یہ جو آپ باربار مسکرارہےہو,کیا خوشی ہے جس کو چھپارہے ہو“؟ رمشا نے فلمی انداز میں عادل سے کہا 
” پاپا آئے ہیں اس لیے خوش ہوں“ ۔۔۔ عادل نے رمشا کو دیکھتے ہوئے کہا
”اوہ۔۔۔ اچھا۔۔۔ مجھے لگا کہ آپ اس اس لڑکی کی وجہ سے خوش ہو“ ۔۔۔رمشا نے کہا اور اپنے کمرے کی طرف پلٹ گئی 
”کیا“۔۔۔عادل کے چہرے کا رنگ اچانک اڑ گیاوہ فوراً رمشا کے پیچھے لپکا
”کون لڑکی؟ کس لڑکی کی بات کررہی ہو تم “۔۔۔۔؟ عادل نے رمشا کو روکتے ہوئے کہا 
”وہی لڑکی“ ۔۔۔۔ رمشا نے اتراتے ہوئے کہا
”بتاؤ مجھے کون لڑکی “۔۔۔؟ عادل نے مصنوعی غصے سے کہا
”وہ لڑکی جسکو آپ پوری شادی میں گھور رہے تھے“۔ رمشا نے مسکراتے ہوئے کہا
”کون؟ بتاؤ مجھے“ ۔۔۔؟ عادل نے انجان بنتے ہوئے کہا
”وہ لڑکی جس کے ساتھ آپکی تصویر لی ہے میں نے“ ۔۔۔ رمشا اتراتے ہوئے کہا 
”دکھاؤ مجھے وہ تصویر“ ۔۔۔عادل کہ چہرے کا رنگ ایک دم بدل گیا 
”کیوں دکھاؤں“۔۔۔؟رمشا نے ڈھیٹ بنتے ہوئے کہا
”رمشا دکھاؤ“ ۔۔۔۔ عادل نے مصنوعی غصے سے کہا 
”اچھا ایک شرط پہ “۔۔۔۔ رمشا نے گال پہ انگلی رکھ کر سوچنے والے اندز میں کہا
”کیا ہے“ ؟عادل نے منہ بناتے ہوئے کہا
”آپ مجھے اس لڑکی کے بارے میں سب سچ سچ بتائینگے“؟۔۔ رمشا عادل کو دیکھتے ہوئے کہا
”ٹھیک ہے۔ اب مجھے وہ تصویر دکھاؤ “۔۔۔ عادل نے ضبط کرتے ہوئے کہا
رمشا نے اپنے فون میں ایک تصویر لگاکر فون عادل کو دے دیا
تصویر دیکھتے ہی عادل کی آنکھیں پھٹی رہ گئیں ۔وہ سدرہ اور عادل کی تصویر تھی جو دلہن دلہا کے نکاح کے وقت اسٹیج پر لی گئی تھی۔ جس میں سدرہ اور عادل ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے ۔
”یہ تم نے کب لی“؟ عادل نے تصویر کو دیکھتے ہوئے حیران کن لہجے میں کہا
”جب آپ دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں کھوئے ہوئے تھے“ ۔۔۔ رمشا نے فلمی انداز میں کہا
”رمشا “۔۔۔۔ عادل نے مصنوعی غصے سے رمشا کی طرف دیکھا
”اب بتائیں یہ کون ہے“؟ رمشا نے عادل کو دیکھتے ہوئے کہا 
”کیوں بتاؤں“۔۔۔؟عادل نے ڈھیٹ بنتے ہوئے کہا
”ٹھیک ہے پھر میں پاپا کو بتا دیتی ہوں کہ بھائی شادی میں لڑکیوں کو گھور رہے تھے۔“ رمشا نے اتراتے ہوئے کہا
”رمشا“۔۔۔۔ عادل نے مصنوعی غصے سے کہا 
”جی بھائی“۔۔۔رمشا نے مسکراکر کہا 
”تم پہلے یہ تصویر ڈیلیٹ کرو“ ۔۔۔ عادل نے رمشا کے فون کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
”وہ تو میں کردونگی لیکن پہلے بتائیں، کون ہے یہ“؟ رمشا نے عادل سے موبائل لیتے ہوئے کہا
عادل نے ایک لمبی سانس لی اور رمشا کو سدرہ کے بارے میں بتایا۔
”تو بھائی انہوں نے ہاں کردی ہے تو آپ پاپا کو بتا کر انکے گھر پروپوزل بھیج دیں“۔۔۔ رمشا نے سوچتے ہوئے کہا
”ہاں بھیج دونگا لیکن ابھی نہیں بعد میں“ ۔۔۔ عادل نے کچھ سوچتے ہوئے کہا 
”اوکے ۔۔۔ best of luck my dear brother“ رمشا نے کہا اور اپنے کمرے میں چلی گئی۔ عادل وہیں لاؤنچ میں بیٹھا سدرہ کے بارے میں سوچنے لگا
*****************
دلہن کی رخصتی کے بعد سارے مہمان جاچکے تھے اور لڑکی والے بھی اپنے گھر جانے کی تیاری کر رہے تھے۔ مسرت اپنی دوست سے بات کر رہی تھیں۔ سدرہ مسرت سے کچھ فاصلے پہ گم سم سی کھڑی تھی۔ 
”سدرہ بیٹا اپنے بھائی کو کال کرلو ہم یہاں سے سیدهے اپنے گھر جائینگے“۔مسرت نے سدرہ کے پاس آتے ہوئے کہا 
”جی نانی میں کال کر لیتی ہوں آپ بھائی کو بلالیں“۔ سدرہ نے ہاں میں سر ہلایا اور پھر اپنے فون میں اسکا نمبر ڈائل کرنے لگی۔ 
”یہ لیں نانی “۔۔۔۔سدرہ نے مسرت کی طرف فون بڑھاتے ہوئے کہا 
تیسری گھنٹی پہ کال ریسیو کرلی گئی۔ مسرت نے اس کو ہال کا پتہ بتاکر وہاں آنے کو کہا اور کال کاٹ دی۔ 
”بھائی آرہے ہیں لینے“؟ سدرہ نے مسرت سے فون لیتے ہوئے پوچھا
”ہاں۔ وہ بس 10 منٹ میں آرہا ہے چلو گیٹ کے پاس چل کر انتظار کرتے ہیں“ ۔۔۔ مسرت نے سدرہ کو دیکھتے ہوئے کہا اور دونوں گیٹ کی طرف بڑھ گئیں۔
**************
 اندھیری رات میں ستارے آسمان پہ جگمگارہے تھے اور چاند اپنے چاندنی پھیلائے چمک رہاتھا۔ روشن آسمان پہ بادل روئی کی طرح بکھرے ہوئے تھے۔کبھی کوئی بادل چاند کے آگے آجاتا تو چاند کی روشنی سمٹ جاتی۔ سڑک پہ صرف چند افراد گزر رہے تھے۔ سدرہ اور مسرت ہال کے باہر کھڑی تھیں۔ سدرہ نے اب اپنے دوپٹے سے حجاب کرلیا تھا۔ سدرہ نے دو لوگوں کو اپنی طرف آتے ہوئےدیکھا۔ مسرت بھی ان لوگوں کو دیکھ رہی تھی جو ٹھیک انہی کی طرف بڑھ رہے تھے۔
”میڈم آپ کو کہیں جانا ہے“؟ ان میں سے ایک نے مسرت سے پوچھا جبکہ دوسرا سدرہ کا سر سے پیروں تک جائزہ لے رہا تھا۔ سدرہ کو اسکی نظریں خطرناک لگ رہی تھیں۔ سدرہ نے فوراً سے مسرت کا ہاتھ تھام لیا۔
”نہیں“۔۔۔ مسرت نے مختصر سا جواب دیا اور سدرہ کو ہال میں چلنے کا اشارہ کیا۔ 
ابھی وہ دونوں جانے ہی لگی تھیں کہ ان میں سے ایک آدمی نے سدرہ کا ہاتھ پکڑلیا۔ سدرہ نے پوری طاقت سے اپنا ہاتھ چھرانے کی کوشش کی لیکن اسکی پکڑ بہت مضبوط تھی۔
”یہ کیا بدتمیزی ہے؟ ہاتھ چھوڑو“۔۔۔مسرت نے ہاتھ چھڑواتے ہوئے غصے سے کہا
”چپ کر بڑھیا“۔۔۔ ان میں سے ایک نے مسرت کو دھکیلتے ہوئے کہا۔
مسرت جھٹکاکر پیچھے ہوئیں۔ سدرہ کی آنکھوں سے آنسوں لڑیوں کی صورت میں گر رہے تھے۔ 
”چل چل جو کچھ بھی ہے جلدی نکال“۔۔۔ایک آدمی نےمسرت کی طرف بڑھتے ہوئے کہا جبکہ دوسرا آدمی سدرہ سے اسکے زیور چھین رہا تھا۔ سدرہ نے دینے سے انکار کیا تو اسنے ایک تھپڑ کھینچ کر سدرہ کے منہ پہ مارا۔ سدرہ اس کے لیے تیار نہیں تھی اسلیے زمین پہ گر گئی۔
”ہاتھ مت لگاؤ میری بچی کو۔ تم لوگوں کو خدا کا خوف نہیں ہے کیا“۔۔۔مسرت چلاتے ہوئے سدرہ کی طرف لپکی۔ اور سدرہ کے پاس بیٹھتے ہوئے سدرہ کو سہارا دیا۔ 
مسرت اور سدرہ نے سارے پیسے اور زیور ان کے حوالےکردیا۔ وہ لوگ سب کچھ لے کر وہاں سے جانے لگے۔ 
سدرہ زمین پہ بیٹھی رو رہی تھی۔ مسرت نے فوراً سدرہ کو اپنے گلے لگایا۔
 ”اﷲ بہتر کریگا۔ رو نہیں میری جان“ ۔۔۔مسرت نے سدرہ کے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا
” یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا کوئی حساب نہیں ہوگا۔ دنیا میں چاہے یہ لوگ کچھ بھی کرلیں لیکن آخرت میں تو ان کو اﷲ کے سامنے حاظر ہونا ہے۔وہاں اﷲ انصاف کے ساتھ ان میں فیصلہ کردےگا “
گاڑی ٹھیک دس منٹ بعد ہال کے سامنے رکی۔ وہ گاڑی کا گیٹ کھول کر باہر نکلا اور سامنے کا منظر دیکھ کر اسکو ایک جھٹکا لگا۔ 
سدرہ مسرت کے گلے لگ کر رورہی تھی۔ 
”کیا ہوا ہے اسکو؟ آپ دونوں یہاں ایسے کیوں کھڑے ہو“؟ احمد نے سخت لہجے میں پوچھا 
”بیٹا ان لوگوں نے ہمارے پیسے اور زیور چھین لیے“۔ مسرت نے ان دو آدمیو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا وہ دونوں ابھی زیادہ دور نہیں گئے تھے اس لیے نظر آرہے تھے۔ 
”تو بولا کس نے تھا آپ کو کہ اتنی رات کو اسکو لے کر باہر کھڑی ہوجاؤ ؟ اور اچھا ہوا اس سے چھین لی اسکی چیز یہ بھی تو میری ہر چیز چھین لیتی ہے۔ سب کچھ چھین لیا اسنے میرا۔“ احمد نے غصےسے سدرہ کی طرف دیکھتے ہوئےکہا 
بچپن میں سدرہ احمد سے ٹافیاں چھین کر کھاتی تھی پھر اور ٹافیاں دوسری لاکر احمد کے بیگ میں چھپا دیتی تھی۔ احمد اس سے بہت غصہ ہوتا تھا لیکن احمد کو بھی سدرہ کی یہ حرکت پسند تھی وہ جان بوجھ کر سدرہ کے سامنے اپنی چیزیں کھایا کرتا تھا۔ لیکن جب سے احمد نے برے لڑکوں کی صحبت اختیار کی وہ سدرہ سے دور ہوتا چلا گیا۔ والدین کےانتقال کے بعد جب مسرت نے احمد کو اسکا حصہ دینے سے انکار کردیا تو وہ سدرہ سے اور بدگمان ہوگیا۔ احمد کو لگتا تھا کہ سدرہ نے سب کچھ اپنے نام کروالیا ہے لیکن ایسا نہیں تھا۔ مسرت نے انصاف کے ساتھ جائیداد تقسیم کی تھی۔ بڑی بہن اور سدرہ کو ان کا حصہ دے دیا تھا اور احمد کا حصہ اس لیے رکھا تھاکہ جب وہ برے لڑکوں کی صحبت چھوڑ دیگااور اپنی ذمہ داری کو سمجھنے لگےگا تب اسکو وہ حصہ دے دیا جائیگا لیکن احمد اس بات سے انجان تھا۔
”چلو اب یہاں سے“۔۔۔ احمد نے سدرہ کو گھورتے ہوئے کہا۔ مسرت اور سدرہ احمد کے پیچھے گاڑی کی طرف چلنے لگیں۔ 
”کتنی بری طرح مارا ہے میری بچی کو“۔ مسرت نے سدرہ کا گال دیکھتے ہوئے کہا 
”مارا ہے انہوں نے تجھے“ ؟ احمد نے فوراً پلٹ کے سدرہ کو دیکھا 
سدرہ سہم کر احمد کو دیکھ رہی تھی۔
”بول مارا ہے انہوں نے تجھے “؟احمد زور سے چلایا 
سدرہ نے روتے ہوئے ہاں میں سر ہلایا 
”گاڑی میں بیٹھو“۔ احمد نے ان دونوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
مسرت اور سدرہ گاڑی میں بیٹھ گئیں۔ احمد نے گاڑی میں بیٹھ کر گاڑی اسٹارٹ کی اور ان دو آدمیوں کے پاس لاکر روک دی۔ 
”احمد بیٹا کیا کر رہے ہو گھر چلو“ ۔۔ مسرت نے احمد کو دیکھتے ہوئے کہا 
احمد نے مسرت کی بات نہیں سنی اور گاڑی سے باہر نکلا۔
”کیا ہے بھئی کون ہو تم“؟ ان میں سے ایک آدمی بولا
”میری بہن کو ہاتھ کیسے لگایا تو نے“؟احمد نے غصے سے انکی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
”بیٹا چھوڑو واپس آجاؤ گھر چلتے ہیں“ ۔مسرت نے گاڑی میں سے کہا لیکن احمد کسی کی نہیں سن رہا تھا۔ 
 ان میں سے ایک نے احمد کا گریبان پکڑلیا۔ 
احمد نے اسکے منہ پر پوری قوت سے گھونسا مارا۔ دوسرے آدمی نے احمد پہ ہاتھ اٹھایا لیکن احمد نے اسکا ہاتھ روک لیا اور ان دونوں آدمیوں کو مارنے لگا۔ سدرہ گاڑی میں ساکت بیٹھی احمد کو دیکھ رہی تھی۔ جو ان دونوں کو مارتے ہوئے باربار یہ جملہ دہرارہا تھا۔ ” میری بہن کو ہاتھ کیسے لگایا تونے؟“ 
کیا یہ وہی احمد تھا جو سدرہ سے نفرت کرتا تھا؟ یا وہ احمد جو سدرہ کی فکر کرتا تھا؟ وہ سدرہ کو صرف اتنا زچ کرتا تھا جتنا سدرہ برداشت کر سکتی تھی۔ اسنے کبھی سدرہ کو حد سے زیادہ تکلیف نہیں دی تھی۔کوئی اور سدرہ کو تکلیف دے یہ اسے برداشت بھی نہیں تھا۔ 
سدرہ یہ دیکھ کر حیران تھی کہ وہ اسکی فکر کررہا تھا۔ ” میری بہن “ سدرہ یہ لفظ سننے کے لیے ترس گئی تھی اور آج وہ باربار یہ لفظ دہرارہا تھا۔ سدرہ کی آنکھیں ایک بار پھر آنسو سے بھر گئیں لیکن اس بار یہ آنسو خوشی کے تھے۔ 
***************
 صبح کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں کھڑکی سے کمرے میں داخل ہو رہی تھیں اور مسجدوں سے اذان کی آوازیں بلند ہو رہی تھیں۔ آسمان سے لیکر زمین تک ہر شے ﷲ کی حمد کرنے میں مصروف تھی۔ وہ نماز پڑھ رہی تھی۔ نماز کے بعد اسنے قرآن کھولا اور پڑھنے لگی۔ 
”اور ان کے دلوں میں الفت پیدا کردی۔ اگر تم دنیا بھر کی دولت خرچ کرتے تب بھی ان کے دلوں میں الفت پیدا نہ کرسکتے تھے۔ مگر خدا ہی نے ان کے دلوں میں الفت ڈال دی۔ بےشک وہ زبردست حکمت والا ہے۔“ (سورۃ انفال : ٦٤)
ایک آنسو اسکی آنکھ سے ٹوٹ کر گرا۔ بے شک ﷲ ہی تو دلوں میں محبت ڈالتا ہے اور ﷲ ہی نے احمد کے دل میں سدرہ کے لیے محبت ڈالی
 تھی۔ اسکی دعائيں قبول ہورہی تھیں۔ اسکو اسکے صبر کا پھل مل رہا تھا۔ وہ بہت خوش تھی۔ ایک طرف عادل تھا جو اسکو دل و جان سے چاہتا تھا اور دوسرا اسکا بھائی احمد جو اسکی فکر کرنے لگا تھا۔ 
وہ آنسوؤں کے ساتھ ﷲ کا شکر ادا کر رہی تھی۔ 

***********
وہ کالج کے گراؤنڈ میں کھڑا سمیر کا انتظار کر رہا تھا۔ جب ہی اسکا فون رنگ ہوا۔ اسنے اپنی جیب سے فون نکالا تو سامنے سمیر کا میسج جگمگارہا تھا۔
”یار باہر آجاؤ، میں گاڑی میں تمہارا انتظار کررہا ہوں ۔ آج لنچ کہیں باہر کرتے ہیں“۔ عادل نے میسج اوپن کرکے ریڈ کیا۔
” رک آرہا ہوں“۔۔۔عادل نے رپلائے دیا اور گیٹ کی طرف بڑھ گیا۔
گیٹ سے نکلتے ہوئے اسکی ملاقات انس اور احمد سے ہوئی۔ انس معمول کی طرح موبائل ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا۔ احمد نے عادل سے سلام کیا، عادل نے بھی مسکراکر جواب دیا۔ انس کے فون پہ لگاتار کسی کے میسجز آرہے تھے لیکن انس آج ریپلائے نہیں کررہاتھا۔ ان تینوں کی کچھ دیر بات ہوئی پھر عادل الوداعی کلمات کہہ کر باہر کی جانب بڑھ گیا اور انس اور احمد وہیں کھڑے رہے۔
”کیا ہوا یار؟ کب سے میسجز آرہے ہیں، ایک بار دیکھ تو لو“۔۔۔عادل کے جانے کے بعد احمد نے انس کو مخاطب کیا
”کرنے دے اسکو میسج، میں بات نہیں کرونگا نا تب اسکو پتا چلے گا“۔۔۔ انس نے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا 
”کیا لڑائی ہوگئی“؟ احمد نے انس کو دیکھتے ہوئے پوچھا
”نہیں یار۔۔۔بس ایسے ہی۔۔۔ چل آجا کہیں اور چلتے ہیں“۔انس نے ٹالنے والے انداز میں کہا اور دونوں وہاں سے چلے گئے۔
**************
 عادل کالج کے گیٹ سے باہر نکلا تو سامنے گاڑی میں سمیر ڈرائیونگ سیٹ پہ بیٹھا تھا۔ عادل سمیر کو دیکھ کر ہلکا سا مسکرایا اور گاڑی کی طرف بڑھا۔ 
”کہاں لگادی اتنی دیر“۔۔۔؟سمیر نے عادل کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا
”کچھ نہیں یار بس انس اور احمد مل گئے تھے“۔عادل نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے کہا
”اچھا“۔۔۔سمیر نے گاڑی اسٹارٹ کرتے ہوئے کہا 
”تو کہاں چلنے کا پروگرام ہے“؟عادل نے بیک مرر میں دیکھتے ہوئے کہا 
”یار کسی اچھے سے ریسٹیورنٹ میں چلتے ہیں “۔سمیر نے عادل کو دیکھتے ہوئے کہا
”ٹھیک ہے لیکن پہلے گرلز کالج چلو, وہاں سے رمشا کو لیتے ہیں پھر چلیں گے“۔عادل نے اپنی گھڑی میں ٹائم دیکھتے ہوئے کہا
گاڑی اب مین روڈ پر آچکی تھی۔
”ٹھیک ہے۔۔۔ اور گرلز کالج سے یاد آیا کے آپکی انہوں نے ہاں کی یا نہیں“؟سمیر نے شرارت والے اندازمیں کہا 
عادل نے ایک نظر سمیر کو دیکھا اور پھر باہر کی جانب دیکھنے لگا
”بتاؤ نا یار دوبارہ ملاقات ہوئی یا نہیں“؟سمیر نے اصرار کیا
”اسنے ہاں کردی ہے یار“۔۔۔ عادل نے باہر دیکھتے ہوئےکہا 
”کیا۔۔۔؟ سچ۔۔۔“؟سمیر نے خوشی سے کہا 
”ھمم۔۔۔۔“ عادل ہلکا سا مسکرایا
”مطلب اب میرا بھائی دلہا بنے گا“۔۔۔۔سمیر نے پرجوش ہوکر کہا
”لیکن“ ۔۔۔عادل نے فقره ادھورا چھوڑ دیا
”لیکن کیا“۔۔۔؟سمیر نے حیرت سے پوچھا 
”مجھے تم سے ایک بات کرنی ہے سمیر“ ۔۔۔عادل نے سمیر کو دیکھتے ہوئے کہا
”ہاں تو۔۔۔ ابھی تک ہم یہاں کیا مچھر مار رہے تھے“؟سمیر نے مزاق والے انداز میں کہا
”یار میں اس وقت سیریس ہوں“۔۔۔ عادل نے فکرمندی سے کہا 
”اچھا بولو کیا بات ہے“؟سمیر نے بھی سیریس ہوکر کہا
”اب جو میں تم سے پوچھ رہا ہوں اسکا صحيح جواب دینا۔“عادل نے سمیر کو دیکھتے ہوئے کہنا شروع کیا
کیا 
”تم رمشا کو پسند کرتے ہو“؟ عادل نے سمیر کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا
سمیر کو عادل سے اس سوال کی توقع نہیں تھی اسنے اچانک بریک لگایا اور گاڑی ایک جھٹکے کے ساتھ رکی۔ عادل سوالیہ نظروں سے سمیر کو دیکھ رہا تھا جو اس وقت ہکابکا بیٹھا تھا۔
”کیا تم رمشا سے شادی کروگے“ ؟ عادل نے سمیرکو دیکھتے ہوئے کہا 
”میں۔۔۔ وہ ۔۔۔ “سمیرکو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا جواب دے
”رمشا میری ذمہ داری ہے، مجھے پہلے اسکی شادی کا سوچنا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ تم رمشا کو پسند کرتے ہو مجھے اس رشتے سے کوئی اعتراض نہیں ہے بلکہ مجھے تو خوشی ہوگی کہ میری بہن کو تم جیسا اچھا شوہر ملے۔ اور اب یہ سڑا ہوا منہ نہیں بناؤ “۔۔۔عادل نے سمیر کر کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا 
”یار لیکن کیا رمشا اس رشتے سے خوش ہوگی؟سمیر “نے عادل کو دیکھتے ہوئے فکرمندی سے پوچھا
”کیوں نہیں ہوگی یار ۔۔۔وہ بھی تو تم کو کافی عرصے سے جانتی ہے مان جائیگی وہ بھی ۔۔۔ چلو اب دیر ہورہی ہے“۔عادل نے ٹائم دیکھتے ہوئے کہا 
”ھمم۔“ سمیر نے خود کو تسلی دیتے ہوئے گاڑی اسٹارٹ کی اور گرلز کالج کا رخ کیا۔
**************
 وہ دونوں کالج کے باہر گاڑی سے ٹیک لگائے کھڑے رمشا کا انتظارکر رہے تھے۔ 
”یار ویسے میری ہونے والی بھابھی کہاں ہیں“ ۔سمیر نے شرارتی انداز میں عادل سے پوچھا 
”جب وہ میری وائف بنے گی نا تب دیکھ لینا“۔عادل نے سمیر کو دیکھتے ہوئے کہا 
”یار ملوا تو دو“۔۔۔ سمیر نے مصنوعی ناراضگی سے کہا 
”ابھی نہیں بعد میں“۔۔۔ عادل نے گیٹ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
سدرہ گیٹ سے باہر نکل کر عادل کو دیکھ رہی تھی لیکن عادل کے ساتھ سمیر کو کھڑا دیکھ کر اسکے قریب نہیں گئی۔ عادل بھی سدرہ کو دیکھ چکا تھا۔ دونوں کے درمیان مسکراہٹ کا تبادلہ ہوا پھر سدرہ وہاں سے چلی گئی۔ عادل اسکو دیکھتا رہا جب تک وہ نظروں سے اوجھل نہیں ہوگئی۔
”چلو آگئی رمشا۔“سمیر نے رمشا کو آتا دیکھ کر کہا
”ھممم چلو“۔۔۔ عادل نے دوسری طرف سے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے کہا۔ 
رمشا اب گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھ چکی تھی۔ سمیر نے ایک نظر عادل کو دیکھا پھر گاڑی میں بیٹھ گیا اور ریسٹورنٹ کا رخ کیا۔ 
***********
 اگلے دن عادل کالج سے باہر نکل رہا تھا جب اسکا فون رنگ ہوا۔ اسنے جیب سے موبائل نکال کر دیکھا تو رمشا کا میسج تھا۔
”بھائی میری دوست کی امی کی طبيعت خراب ہے۔ میں اسکےساتھ اسکے گھر چلی جاؤں؟ شام تک آجاؤنگی“ ۔۔۔ عادل نے میسج اوپن کرکے ریڈ کیا
”ٹھیک ہے جاؤ، اور اپنا خیال رکھنا“۔۔۔ عادل نے reply دیا اور گاڑی میں بیٹھ کر گھر کا رخ کیا۔ وہ اب مین روڈ پر ڈرائیو کررہا تھا۔ سدرہ کا خیال آتے ہی اسنے گرلز کالج جانے کا سوچا اور گاڑی گرلز کالج طرف موڑ لی۔ وہ اب گرلز کالج کے باہر کھڑا تھا۔ معمول کی طرح وہاں بہت لڑکے لڑکیاں گزر رہے تھے۔ اسکی نظر سدرہ کو تلاش کررہی تھی۔ 
”عادل“۔۔۔ کسی نے اسکو پیچھے سے آواز دی۔ عادل اس آواز کو پہچانتا تھا۔ یہ سدرہ کی آواز تھی۔ عادل نے پلٹ کر سدرہ کو دیکھا اور پھر ہلکا سا مسکرادیا۔ سدرہ نے عادل کو دیکھ کر نظریں جھکالیں۔ عادل اسی طرح سدرہ کو دیکھ رہا تھا۔
”آپ یہاں کیا کررہے ہیں“؟ سدرہ نے عادل کو دیکھتے ہوئے کہا
”تمہارا انتظار کررہاتھا“۔ عادل نے سدرہ کی آنکھوں میں دیکھ کر کہا۔ سدرہ نے نظریں چرالیں اور دوسری طرف دیکھنے لگی۔ 
”اچھا تم گھر جاؤ اور دھیان سے جانا“۔ عادل نے بھی دوسری طرف دیکھتے ہوئےکہا 
”جی۔۔۔آپ اپناخیال رکھیے گا۔ اﷲحافظ“۔ سدرہ نے عادل کو دیکھتے ہوئے کہا اور وہاں سے جانے لگی۔ عادل اسکو جاتا ہوا دیکھ کر عجیب سا محسوس ہوا اسکا دل چاہ رہاتھا کہ وہ سدرہ کو روک لے لیکن وہ اسکو جاتا ہوا دیکھتا رہا۔ کسے خبر تھے کہ آج کے بعد وہ کبھی ایسے نہیں ملیں گے۔ کسے خبر تھی کہ آگے ان کی زندگیوں میں کیا ہونے والا تھا۔ کسے خبر تھی کہ انکے لیے کیا آزمائش آنے والی تھی ۔۔۔۔
*************
جاری ہے