رسم_حیات
از_خدیجہ_نور
قسط_نمبر_02
****************
وہ لائبریری میں ناول پڑھ رہی رہی تھی۔ جب ہی عادل نےاسکو دیکھا اور اسکی طرف بڑھا۔
”اسلام وعلیکم “۔۔۔ عادل نے مسکراتے ہوئے سلام کیا
”جی ۔۔۔ وعلیکم سلام۔“ سدرہ نے چہرہ اٹھا کر اسکی طرف دیکھا
”یہاں کیا کر رہی ہو “؟ عادل اسکے سامنے والی کرسی پہ بیٹھتے ہوئے بولا
”اب یہاں میں ڈانس تو کرونگی نہیں۔۔۔ ناول پڑھ رہی ہوں“۔ سدرہ نے مسکراکر جواب دیا
”ہاہاہاہا“۔۔۔۔ عادل نے بے اختیار قہقہہ لگایا
”ویسے آپ یہاں کیسے “؟ سدرہ نے عادل کو دیکھتے ہوئے کہا
”ڈانس کرنے آیا تھا“۔ عادل نے ہنسی روکتے ہوئے کہا
سدرہ نے مسکراکر سر جھٹکا اور پڑھنے میں مصروف ہوگئی۔
”ویسے مجھے بھی ناولز بہت پسند ہیں“۔ عادل نے سائیڈ پہ رکھا ناول اٹھاتے ہوئے کہا
سدرہ خاموشی سے ناول پڑھ رہی تھی اور عادل اسکے سامنے بیٹھا اسے دیکھ رہا تھا
صاف رنگت، لمبی پلکوں والی آنکھیں، گلابی ہونٹ، نفاست سے سیٹ کیےہوئےحجاب میں وہ بہت خوبصورت اور معصوم لگ رہی تھی۔ عادل کے لیے اسکے چہرے سے نظر ہٹانا مشکل ہو رہا تھا۔
”ویسے تم کو کس طرح کے ناول پسند ہیں؟“عادل نے خاموشی تورتے ہوئے کہا
”اسلامی“۔۔۔سدرہ نے مختصر سا جواب دیا اور دوبارہ پڑھنے لگی
”ہاں مجھے بھی بہت پسند ہیں“۔ عادل نے سدرہ کو دیکھتے ہوئے جواب دیا
”ویسے تم سے ایک بات پوچھ سکتی ہوں میں“؟ سدرہ نے عادل کو دیکھتے ہوئے کہا
”ہاں بلکل پوچھو“۔۔۔ عادل نے پوری طرح سدرہ کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے کہا
”تم الٹا ناول کیسے پڑھتے ہو“؟ سدرہ نے ہنسی روکتے ہوئے کہا
”کیا“۔۔۔عادل نےایک نظر اپنے سامنے رکھے ناول کو دیکھا جو الٹا پڑا ہوا تھا اور پھر سدرہ کو جو اب ہنس رہی تھی
”ایک بات بولوں“؟ عادل نے سدرہ کو دیکھتے ہوئے کہا
”کیا؟ “ سدرہ نے ہنستے ہوئے کہا
”تم ہنستی ہوئی بہت خوبصورت لگتی ہو سدرہ“ ۔۔۔ عادل نے بے اختيار کہا
سدرہ ایک لمحے کے لیے ٹھر گئی اور پھر بغیر کچھ کہے اٹھ کے جانے لگی
”سدرہ رکو “۔۔۔۔ عادل نے سدرہ کو روکا
”ہاں بولو “۔۔۔ سدرہ نے پلٹ کے عادل کو دیکھا
”مجھے تم سے کچھ کہنا ہے“۔۔۔ عادل نے سدرہ کے قریب آتے ہوئے کہا
”کہو “۔۔۔ سدرہ نے سنجیدگی سے جواب دیا
”سدرہ دیکھو جو میں کہنے والا ہوں اسکا جواب بہت سوچ کے دینا۔“ عادل بہت سنجیدگی سے بول رہا تھا
سدرہ نے ہاں میں سر ہلایا
”سدرہ میں تم سے محبت کرتا ہوں۔ مجھے نہیں پتا کہ محبت کیسے ہوئی؟ میں بس اتنا جانتا ہوں کہ میں تم سے محبت کرتا ہوں اور سچی محبت کرتا ہوں۔سدرہ میں کوئی لمبی چوڑی بات نہیں کر رہا اور نا ہی کوئی جھوٹے وعدے کر رہا ہوں میں بس صاف الفاظ میں اپنی محبت کا اظہار کر رہا ہوں“۔۔۔ عادل بہت سنجیدگی سے کہہ رہا تھا
سدرہ ساکت کھڑی اسکی بات سن رہی تھی
”سدرہ تمہارا جو بھی جواب ہوگا مجھے منظور ہوگا۔ میں تمہارے ساتھ کوئی زبردستی نہیں کررہا۔ تمہاری خوشی میں میری خوشی ہے۔ تم میری زندگی میں شامل ہوچکی ہو اب میں تم کو عزت کے ساتھ اپنی زندگی بنانا چاہتا ہوں۔ میں تمہارے جواب کا انتظار کرونگا“۔ عادل نے بہت سنجیدگی سے اپنی بات کہی اور وہاں سے چلا گیا۔
سدرہ وہیں ساکت کھڑی عادل کو دور جاتا دیکھتی رہی۔
♡♡♡♡♡
اسنے لائبریری سے آکر خودکو کمرے میں بند کرلیا تھا اسکو کچھ بھی سمجھ نہیں آرہا آرہاتھاکہ وہ کیا کرے اسکے سر میں شديد درد ہو رہا تھا۔
وہ بیڈ پہ بیٹھ کہ رورہی تھی جب ہی دروازے پہ کسی نےدستک دی۔۔۔
وہ آنسو صاف کرتے کرتےہوئے اٹھی اور دروازہ کھولا۔۔۔
بڑی بیبی آپکو کھانے کے لیے بلارہی ہیں۔ ملازمہ نے سدرہ کی آنکھوں کو دیکھتے ہوئےکہا جو رونے کی وجہ سے سرخ ہو رہی تھیں.
مجھے بھوک نہیں ہے۔ سدرہ نے کہا اور دروازہ بند کر کے واپس بیڈ پہ بیٹھ گئی
عادل کی باتیں اسکے ذہن میں گھوم رہی تھیں۔ عادل کا چہرہ باربار اسکی آنکھوں کے سامنے آرہا تھا۔
وہ نا چاہتے ہوئے بھی باربار عادل کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ وہ سوچتے سوچتے کب سو گئی اسکو پتا ہی نہیں چلا۔
**************
عادل لائبریری سے نکلنے کے بعد بے مقصد سڑک پہ ڈرائیو کر رہا تھا جب ہی اسکا فون رنگ ہوا۔ سمیر کی کال آرہی تھی اسنے کال ریسیو کرکے فون کان سے لگایا۔
”عادل بھائی کہاں ہو یار؟ گھر آجا کب سے تیرا انتظار کر رہا ہوں“۔۔۔دوسری طرف سمیر کی آواز ابھری تھی
”ہاں بس آرہا ہوں“ ۔۔۔ عادل نے جواب دیا اور کال کاٹ کہ گھر کا رخ کیا
عادل آیا تو سمیر اسکے گھر پہ ہی تھا۔
”یار کہاں تھا بھائی “؟سمیر نے عادل کو دیکھتے ہی کہا
”کہیں نہیں“ ۔۔۔ عادل نے مختصر سا جواب دیا
”بھائی اتنی دیرسے آپکا انتظار کررہی تھی میں، چلیں کھانا کھالیں“۔۔۔رمشا کچن سے نکلتے ہوئے بولی
”مجھے بھوک نہیں ہے تم لوگ کھالو“ ۔۔۔عادل نے کہا اور اپنے کمرے کی طرف جانے لگا
”بھوک کیوں نہیں ہے کچھ کھا کہ آیا ہے کیا اکیلے اکیلے“ ۔۔۔۔۔؟ سمیر مسکراتے ہوئے بولا
”دیکھ میں مذاق کے موڈ میں نہیں ہوں“ ۔عادل نے نے سپاٹ لہجے میں کہا
”بھائی پلیز کھالیں نا میں سب کچھ آپکی پسند کا بنایا ہے پلیز“ ۔۔۔ رمشا نے ضد کرتے ہوئے کہا
”اچھا ٹھیک ہے“ ۔۔۔عادل نے سمیر کو دیکھتے ہوئے کہا جو بہت غور سے عادل کو دیکھ رہا تھا۔
کھانا کانے کے دوران عادل اور سمیر کے درمیان کوئی گفتگو نہیں ہوئی لیکن سمیر نوٹ کر رہا تھا کہ عادل کا ذہن کہیں اور ہی ہے وہ کسی سوچ میں گم پلیٹ میں چمچ چلا رہا تھا۔
”میں نے تو کھا لیا آپ لوگوں کو کچھ چاہیئے ہو تو مجھے آواز دے دیجیئے گا“۔۔۔رمشا نے اٹھتے ہوئے کہا اور کسی کو میسج کرنے لگی
”اس ٹائم کس کو میسج کر رہی ہو ؟ صحيح سے کھانا تو کھالو“۔۔۔۔ عادل نے رمشا کو دیکھتے ہوئے کہا
”میں نے کھا لیا بھائی“۔۔۔ رمشا نے مختصر سا جواب دیا اور اپنے کمرے میں چلی گئی
”کچھ ہوا ہے کیا “؟رمشاکےجانےکے بعد سمیر نے بات کا آغاز کیا۔
”نہیں تو “۔۔۔ عادل نے پلیٹ میں چمچ ہلاتے ہوئے کہا
”اچھا۔۔۔ یہ سوپ کتنا مزے کا ہےنا “؟سمیر نے عادل کو دیکھتے ہوئے کہا
”ھھھم اچھا ہے“۔۔۔ عادل نے مصروف سا جواب دیا
”عادل تم ہوش میں تو ہو ؟ تمہاری پلیٹ میں چاول ہیں۔ سوپ نہیں“۔۔۔۔سمیر نے غصے سے بولا
عادل نے پلیٹ کو دیکھا اور پھر چمچ رکھ کر ٹائم دیکھنے لگا
”عادل یار بتانا۔۔۔ کیوں پریشان ہے میرے بھائی؟ کب سے دیکھ رہا ہوں۔ کسی اور ہی دنیا میں گم ہو تم“۔۔۔ سمیر نے عادل کو گھورتے ہوئے کہا
”یار میں نے اسکو اپنے دل کی بات بتادی“۔ عادل نے ٹیبل پہ رکھے گلاس کو دیکھتے ہوئے کہا
”کیا“۔۔۔۔۔؟ سمیر کا منہ کھلا رہ گیا
”ھھھھم “۔۔۔ عادل نے ہاں میں سر ہلایا
”کیسے؟ کب ؟ کہاں؟ کیا بولی وہ؟ اس نے ہاں کہا یا نا؟ اسنے تجھے تھپڑ تو نہیں مارا نا میرے بھائی“ ۔۔۔سمیر نے پھر سے اپنا سوالنامہ شروع کردیا تھا
”ایسا کچھ نہیں ہوا، اسنے جواب نہیں دیا ابھی“ ۔۔۔عادل نے سمیر کو دیکھتے ہوئے کہا
”کیوں“ ۔۔۔؟ سمیر نے حیرت سے پوچھا
”میں اسکو لائبریری میں اپنے دل کی بات بتائی تھی اور اسکو سوچنے کا وقت دیا ہے۔ اب اسکا جو فیصلہ ہوگا مجھے وہ منظور ہے“۔ عادل نے اداس لہجے میں کہا
”تو میرے بھائی اتنا سڑا ہوا منہ کیوں بنایا ہوا ہے؟ وہ ہاں ہی بولےگی دیکھ لےنا “۔۔۔سمیر نے عادل کا گلاس میں پانی نکالتے ہوئے کہا
”ھھھھم اﷲکرے ایسا ہی ہو“ ۔۔۔ عادل نے کچھ سوچتے ہوئے کہا
”اب نروس نہیں ہو یار کل کالج جاکر مل لینا اس سے“ ۔۔۔سمیر نے پانی کا گھونٹ پیتے ہوئے کہا
”ھھھم میں بھی یہی سوچ رہا تھا، اب مجھے بےصبری سے اسکے جواب کا انتظار ہے“۔ عادل نے اٹھتے ہوئے کہا
******
عادل اور سمیر کلاس سے باہر نکل رہے تھے ۔
”یارآج کا لیکچر تو میرے سر پہ سے گزر گیا“۔ سمیر نے عادل کو دیکھتے ہوئےکہا جو کہیں اور ہی گم تھا۔
عادل خاموشی سے چلتا رہا۔
”بھائی تو سن رہاہے نا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں“؟ سمیرنے عادل کو روکتے ہوئے کہا
”ھھھھھم“۔۔۔ عادل نے مختصر سا جواب دیا
”کیا ہے یار کب سے دیکھ رہا ہوں۔۔۔ یہ کریلے جیسا منہ کیوں بنا رکھا ہے“؟سمیر نے مصنوعی غصے سے کہا
”یار۔۔۔ پتا نہیں وہ کیا بولے گی“۔۔۔عادل نے کچھ سوچتے ہوئے کہا
”اوہو۔۔۔ ابے بھائی ڈر کیوں رہا ہے؟ اسکا جواب ہاں ہی ہوگا“۔ سمیر نے عادل کو حوصلہ دیتے ہوئے کہا
”اﷲ کرے ایسا ہی ہو“۔ عادل نے ہاتھ سے بال سیٹ کرتے ہوئے کہا
وہ دونوں اب کالج کے گراؤنڈ میں تھے تب ہی سامنے سے انس اور احمد آتے ہوئے دیکھے ۔ احمد نے عادل اور سمیر سے سلام کیا۔ جبکہ انس موبائل میں کسی سے میسج پہ بات کررہا تھا۔
اچانک انس کے فون پہ کسی کی کال آئی اس نے کال ریسیو کی اور دور جاکر بات کرنے لگا۔
عادل اور سمیر اب باہر کی طرف جارہے تھے احمد ان کو اﷲ حافظ بول کر انس کی طرف آیا۔
”کیا ہوا کس کی کال تھی“؟ احمد نے انس کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے کہا
”کچھ نہیں یار اسی لڑکی کی تھی۔ مجھے گرلز کالج جانا ہے اس سے ملنے۔۔۔ تو بھی چلے گا کیا“۔۔۔؟ انس نے احمد کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”نہیں. مجھے نہیں جانا تجھے جانا ہو تو جا۔۔۔“احمد نے نے انس کے کندھے سے ہاتھ ہٹاتے ہوئے کہا
”یار غصہ کیوں ہورہا ہے تو بھی بنالے کوئی گرل فرینڈ۔ اچھا ٹائم پاس ہوجائےگا تیرا بھی“ ۔۔انس نے لاپرواہی سے کہا
”میرے پاس کوئی فضول ٹائم نہیں ہے جو میں ان لڑکیوں کے پیچھے ضائع کروں“۔۔۔احمدنے انس کو دیکھتےہوئےکہاجو اب دوبارہ میسج میں مصروف ہوگیا تھا
”ھھم چل ٹھیک ہے میں تو چلا“ ۔۔۔انس نے کہا اور گیٹ کی طرف بڑھ گیا
احمد اسکو جاتا ہوا دیکھتا رہا۔۔۔
****
وہ صبح اٹھی تو اس کو ہلکا سا بخار تھا۔ وہ بیڈ پہ لیٹی کچھ دیر چھت کو گھورتی رہی۔ تب ہی اس کو عادل کا خیال آیا اور وہ فوراً سیدهے ہوکر بیٹھی اور اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپا لیا۔ وہ ابھی کچھ بھی سوچنا نہیں چاہتی تھی اسکا ذہن مسلسل عادل کی طرف جارہاتھا
”میں تم سے محبت کرتا ہوں “
عادل کی آواز اسکے کانو گونج رہی تھی ۔ اسکے کچھ بھی سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے۔ اسکی آنکھیں بھیگنے لگی تھیں۔
جب ہی دروازے پہ کسی نے دستک دی۔ اسنے آنسو صاف کئے اور دروازہ کھولا تو سامنے مسرت ناشتہ لیے کھڑی تھیں.
”کیا ہوا سدرہ تم رو رہی ہو“ ؟مسرت نے سدرہ کی آنکھوں کو دیکھتے ہوئے کہا
”نہیں تو۔ بس سر میں درد ہو رہا تھ“ا۔سدرہ نے خود کو نارمل کرتے ہوئے کہا
”اچھا ناشتہ کرلو میری جان ۔ تم نے رات کو کھانا بھی نہیں کھایا“۔۔۔ مسرت نے اندر آکر بیڈ پہ ناشتہ رکھتے ہوئے کہا
”نانی بس بھوک نہیں تھی“۔ سدرہ نے انکے قریب آتے ہوئے کہا
”اچھا۔۔۔ ایک ہفتے بعد میری دوست کی بیٹی کی شادی ہے۔ تم میرے ساتھ چلوگی نا“؟ انہوں نے بریڈ پہ مکھن لگاتے ہوئے کہا
”جی نانی“۔۔۔ سدرہ نے چائے کا کپ اٹھاتے ہوئے کہا
”ٹھیک ہے۔تم ابھی تک کالج کے لیے تیار کیوں نہیں ہوئی“؟ مسرت اب دوسری بریڈ پہ مکھن لگا رہی تھیں۔
”نانی میں آج کالج نہیں جارہی۔ دل نہیں کررہا“۔۔۔ سدرہ نے بریڈ اٹھاتے ہوئے کہا
”ٹھیک ہے بیٹا تم ناشتہ کرلو پھر آرام کر لینا“۔مسرت نے سدرہ کے سر پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا ”جی“ ۔۔۔۔ سدرہ نے ہاں میں سر ہلایا اور کسی سوچ میں گم ہوگئی
****
وہ کالج کے گراؤنڈ میں کھڑی تھی جب ہی اسکا فون رنگ ہوا۔ فون کی اسکرین پہ ایک میسج جگمگارہاتھا۔
”کہاں ہو؟ میں کالج کے باہرکھڑا ہوں“۔ اسنے میسج اوپن کرکے ریڈ کیا اور جواب لکھنے لگی۔
”بس آرہی ہوں رکو“۔۔۔اسنے میسج کا جواب دیا اور پھر اپنے اسکارف سے چہرے پہ نقاب لگا کر باہر کی طرف بڑھ گئی۔
**************
عادل کالج کے باہر کھڑا سدرہ کا انتظار کر رہا تھا۔ اسکی نظریں مسلسل سدرہ کو تلاش کر رہی تھیں۔ وہ بار بار اپنے فون میں ٹائم دیکھ رہا تھا اور دعا کر رہا تھا کہ بس سدرہ جلدی سے اسکے سامنے آجائے۔۔۔
”بھائی“۔۔۔ رمشا نے عادل کو آواز دی
”آگئ تم؟ چلو گاڑی میں بیٹھو “۔۔۔ عادل نے رمشا کے لیے گاڑی کا گیٹ کھولتے ہوئے کہا اور دوبارہ کالج کے گیٹ کی طرف دیکھنے لگ گیا
”چلیں نا بھائی“ ۔۔۔ رمشا نے موبائل دیکھتے ہوئے کہا
ھ”ھھھم “۔۔۔ عادل نے ایک نظر پھر سے گیٹ کو دیکھا اور گاڑی میں بیٹھ گیا
عادل کا دل کررہاتھاکہ زور زور سے روئے۔ لیکن خاموشی سے گاڑی اسٹارٹ کردی اور گاڑی کا رخ سڑک کی طرف کیا۔ گاڑی اب سڑک پہ آچکی تھی عادل نے ایک نظر پھر سے کالج کے گیٹ پہ دیکھا اور بے اختیار بریک لگایا۔ کالج کے گیٹ پہ عادل کو انس دکھائی دیا۔
”کیا ہوا بھائی“؟ رمشا نے عادل کو دیکھتے ہوئے پوچھا
”کچھ نہیں“ ۔۔۔عادل نے انس کو دیکھتے ہوئے کہا
”یہ یہاں کیا کر رہا ہے“؟عادل نے دل میں سوچا پھر سر جھٹک کہ ڈرائیو کرنے لگا
*****
عادل کالج سے آکر فوراً اپنے کمرے میں آگیا تھا۔ اسکے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے۔ اسنے وضو کرکے نماز ادا کی اور اﷲسے دعائيں کرنے لگا۔
”یااﷲ آپ جانتے ہیں کہ میری محبت سچی ہے یااﷲ اسکو میرے نصیب میں لکھ دیں اور اگر وہ میرا نصیب نہیں ہے مجھے اسکو بھولنے کی ہمت عطا کریں۔ یااﷲ سدرہ کو دنیا کی تمام خوشیاں نصیب کریں اسکی تمام پریشانیوں کو دور کردیں“۔۔۔
دعا کرتے کرتے اسکی آنکھیں بھیگ چکی تھیں۔
*************
رات کو کھانے کی ٹیبل پہ سمیر موبائل پہ کسی سے بات کررہا تھا اور عادل کسی سوچ میں گم تھا۔
”کیا ہوا؟ ایسے کیوں بیٹھے ہو“؟ سمیر نے فون کان سے ہٹاتے ہوئے کہا
”کچھ نہیں یار“ ۔۔۔ عادل نے سامنے رکھے گلاس کو دیکھتے ہوئےکہا
”اس لڑکی نے کیا جواب دیا“؟ سمیر نے عادل کو دیکھتےہوئے پوچھا
”وہ نہیں ملی مجھے“۔۔۔ عادل اب گلاس میں پانی ڈال رہا تھا
”مطلب“؟ سمیر نے حیرت سے پوچھا
”میں کالج گیا تھا۔ بہت انتظار کیا اسکا لیکن وہ آج کالج نہیں آئی“ ۔۔۔ عادل نے جگ رکھتے ہوئے کہا
”تو کوئی بات نہیں یار۔۔۔کل مل لینا“۔سمیر نے پانی کاگلاس اٹھاتے ہوئے کہا
”اگر نہیں ملی تو“؟ عادل نے سمیر کو دیکھتے ہوئے کہا
”کیوں فالتو باتیں کر رہا ہے یار؟ تیری محبت سچی اور پاک ہےتو وہ تجھےضرور ملےگی۔ تھوڑاصبر کر۔ ” بے شک اﷲ صبر کرنےوالوں کے ساتھ ہے“ ۔۔“ سمیر نےپانی کاگھونٹ پیتےہوئےکہا
رمشا اب ٹیبل پہ کھانا سرو کر رہی تھی۔
”بھائی اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو مجھے بتا دیجیئےگا“۔۔۔ رمشا نے چاول کی ڈش رکھتے ہوئے کہا
”اچھا تم تو کھالو“۔۔عادل نے رمشا کو دیکھتے ہوئے کہا
”نہیں بھائی۔۔۔مجھے بھوک نہیں ہے“۔رمشا نے گلاس میں پانی نکالتے ہوئے کہا
”کیوں“؟ عادل نےرمشاسےگلاس لیتے ہوئے کہا
”بس ایسے ہی“۔۔۔رمشا نے کہا اور کمرے کی طرف بڑھ گئی
******
وہ کمرے میں آکر بیڈ پہ گرنے والے انداز میں لیٹی تھی اسنے سائیڈ پہ رکھا موبائل اٹھایا اور میسج کرنے لگی۔
”سوری“۔۔۔ اسنے میسج سینڈ کیا اور جواب کا انتظار کرنے لگی
”کیا۔۔ سوری ؟ تمہارے کسی سوری کی ضرورت نہیں ہے مجھے۔ میں نے کہا تھا کہ میرے ساتھ چلنا“۔۔۔ دوسری طرف سے میسج کا جواب آیا
”دیکھو میری بات سمجھو پلیز میں ایسا نہیں کر سکتی۔ میں شادی سے پہلے تمہارے ساتھ نہیں جاؤنگی“ ۔ اسنے لکھ کے سینڈ کیا
”بھاڑ میں جاؤ تم۔۔۔ مجھے بھی تمہاری کوئی ضرورت نہیں ہے۔ جب تم میری اتنی سی بات نہیں مان سکتی تو تم مجھ سے شادی کیا کروگی ؟مجھے تو نہیں لگتا کہ تم مجھ سے محبت کرتی ہو“۔۔۔ دوسری طرف سے آیا جواب پڑھ کے اسکی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے
”تم ایسا کیسے بول سکتے ہو؟ میں بہت محبت کرتی ہوں تم سے“۔۔۔اسنے بھیگتی آنکھوں کے ساتھ لکھا
”اگر محبت کرتی ہو تو ثابت کرو۔۔۔ میری بات مانو۔۔۔ ورنہ مجھ سے بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے“۔ دوسری طرف سے جواب آیا
”لیکن یہ غلط ہے“۔۔۔ اسنے لکھ کے سینڈ کیا
”محبت میں کچھ صحيح اور غلط نہیں ہوتا۔ تم ساری زندگی صحيح غلط کا فیصلہ کرتی رہنا۔ تم نے دکھادی اپنی محبت۔ اب مجھ سے بات نہیں کرنا “۔۔۔ دوسری طرف سے جواب آیا
”میری بات تو سنو“ ۔۔۔۔ اسنے لکھا لیکن کوئی جواب نہیں آیا
اسنے تڑپ کے کال کی لیکن نمبر بند جارہا تھا۔
وہ چہرہ ہاتھوں میں چھپاکر رونے لگی۔
****
سدرہ تیں دن سے کالج نہیں گئی تھی۔ اسکا کسی بھی کام میں دل نہیں لگ رہا تھا۔ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی ہر وقت عادل کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ وہ لاؤنج میں ٹی وی کے آگے بیٹھی تھی اور ذہن عادل کے خیالوں میں گم تھا۔ اسکے کو نہیں پتا تھا لیکن وہ عادل کے بارے میں سوچتے ہوئے مسکرانے لگی تھی۔
”ایک تو پاکستان ہار رہاہےاور تم مسکرارہی ہو“؟ مسرت نے لاؤنچ میں آتے ہوئے کہا
سدرہ کے خیالوں کا سلسلہ ٹوٹ گیا تھا اسنے ایک نظر مسرت کو دیکھا اور پھر ٹی وی کو ۔
”نہیں نانی میں بس ایسے ہی“۔۔۔ سدرہ ہاتھ میں پکڑے ریموٹ کو دیکھتے ہوئے کہا
”میں مسکرارہی تھی“؟ سدرہ نے دل میں سوچا
”اچھا چلو آج مارکیٹ چلتے ہیں تین دن بعد شادی میں جانا ہے۔ کچھ سامان اور تحفے خرید لینگے“۔مسرت نے اٹھتے ہوئے کہا
”جی نانی میں عبایا پہن کے آئی“۔ سدرہ نے کہا اور کمرے کی طرف بڑھ گئی
******
عادل کمرے میں فیکٹری کی فائلز دیکھ رہا تھا جب ہی رمشا کمرے میں داخل ہوئی۔
”بھائی آپ فری ہیں“؟رمشا نے بیڈ پہ بیٹھتے ہوئے کہا
”ہاں۔۔۔ کیوں“؟ عادل نے فائلز کو ٹیبل پہ رکھتے ہوئے کہا
”بھائی مجھے مارکیٹ جانا ہے۔ آپ لے چلیں گے“؟رمشا نے عادل کو دیکھتے ہوئے کہا
”ہاں بلکل۔تم تیار ہوجاؤ پھر چلتے ہیں“۔۔۔عادل نے ٹائم دیکھتے ہوئے کہا
”تھینک یو بھائی“۔رمشا نے مسکراکر کہا اور کمرے سے چلی گئی
*****
ڈرائیو کے دوران بھی وہ سدرہ کے بارے میں سوچ رہا تھا اور دعا کر رہا تھا کے بس کسی طرح اسکو راستے میں سدرہ نظر آجائے لیکن ایسا نہیں ہوا۔
”چلو تم یہاں اترو میں گاڑی پارک کرکے آیا“عادل نے مارکیٹ کے سامنے گاڑی روکتے ہوئے کہا
”جی بھائی“۔۔۔ رمشا نے کہا ور گاڑی سے اترگئی
وہ گاڑی پارک کرکے رمشا کے پاس آیا
”چلو“۔۔۔ اسنے رمشا کے قریب آتے ہوئے کہا
”جی بھائی“ ۔۔۔ رمشا نے ہاں میں سر ہلایا اور چلنے لگی
”یااﷲ بس ایک بار سدرہ سے ملوادیں“۔ عادل نے دل میں دعا کی اور مارکیٹ میں جانے لگا
”کونسی شاپ پہ چلیں“ ؟عادل نے رمشا کو دیکھتے ہوئے کہا
”بھائی میری دوست کی شادی ہے اسکے لیے گفٹ لینا ہے“۔رمشا نے عادل کو دیکھتے ہوئے کہا
”چلو پھر گفٹ شاپ پہ چلتے ہیں“۔عادل نے ایک دکان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا
”جی بھائی“۔رمشا نے دکان کو دیکھتے ہوئے کہا
رمشا دکان میں گفٹ دیکھنے میں مصروف تھی۔ عادل ایک جگہ کھڑے دکان پہ رکھی مختلف چیزیں دیکھ رہا تھا جب ہی اسکی نظر سامنے والی دکان پہ پڑی۔
”رمشا تم یہیں رہنا میں ابھی آیا“۔ عادل رمشا کو کہہ کر سامنے والی دکان کی طرف بڑھ گیا۔
وہ ایک jwellery shop تھی۔ اسنے دکان میں رکھی مختلف چیزوں کو دیکھا اور پھر ایک طرف رکھی ایک ہیرے کی انگوٹھی اٹھائی۔ جس کے بیچ میں ایک بڑا ہیرہ لگا ہوا تھا جسکے اطراف میں چھوٹے ہیرے لگےہوئےتھے وہ بہت خوبصورت انگوٹهی تھی۔
”یہ میں تم کو منہ دکھائی میں دونگاسدرہ“ ۔عادل نے دل میں سوچا اور کاؤنٹر کی طرف بڑھ گیا۔
وہ کاؤنٹر پہ کھڑا ہیرےکی انگوٹهی دیکھ رہا تھا جب ہی اسکےبرابر میں آکر ایک لڑکی آکر کھڑی ہوئی۔
بھائی یہ پیک کردیں“۔۔۔ سدرہ نے کاؤنٹر مین سےکہا
”سدرہ“ ۔۔۔عادل نے بے اختیار سدرہ کی طرف دیکھا
”عادل تم یہاں“ ؟ سدرہ نے عادل کو دیکھتے ہوئے کہا
”تم کہاں تھیں اتنے دنوں سے؟ تم کو پتا ہے میں کتنا پریشان تھا؟ میں تین دن سے پاگلوں کی طرح کالج کے باہر کھڑا ہو رہا تھا۔ تم ایک دن بھی کالج نہیں آئی سدرہ “۔۔۔ عادل نے سدرہ کو دیکھتے ہوئے کہا
”میں آپ کو کیوں بتاؤں کہ میں کہاں تھی؟ مجھے آپ سے کوئی بات نہیں کرنی“۔ سدرہ نے کاؤنٹر کو دیکھتے ہوئے کہا
”مت بتاؤ۔۔لیکن میرے سوال کا جواب دو“۔ عادل نے سدرہ کو دیکھتے ہوئے کہا
”کونسا سوال“ ۔۔۔؟ سدرہ نے انجان بنتے ہوئے کہا
”کیا مجھے یاد دلانے کی ضرورت ہے“؟عادل نے سدرہ کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا
”م۔۔مجھے آپ سے کوئی بات نہیں کرنی“۔سدرہ نے نظریں چراتے ہوئے کہا
”کیا ہوا سدرہ؟ بولو نا“۔ عادل کا سدرہ کی آنکھوں سے نظریں ہٹانا مشکل ہورہا تھا اسکی آنکھیں عادل کو بے انتہا خوبصورت لگ رہی تھیں
”میں نےکہانا مجھے آپ سے کوئی بات نہیں کرنی۔“سدرہ نے پیسے دیے اور وہاں سے چلی گئی
عادل مسکراتاہوا اسکو دور جاتا ہوا دیکھتا رہا جب تک وہ آنکھوں سے غائب نہ ہوگئی
♡♡♡♡
وہ مارکیٹ سے گھر آئی اور لاؤنچ میں سامان رکھا۔ وہ مسلسل لاشعوری طور پہ مسکرا رہی تھی۔
”کیا ہوا سدرہ بیٹا بہت خوش ہو“ ؟ مسرت نے سدرہ کو دیکھتے ہوئے کہا
”نہیں تو۔ بس ایسےہی اتنے دنوں بعد مارکیٹ گئی تھی نا اسلیے“ ۔سدرہ نے کہااور کمرے کی طرف بڑھ گئی
”اﷲ تم کو ہمیشہ خوش رکھے میرے بچے“۔ مسرت نے سدرہ کو دعا دی۔
وہ کمرے میں آکر گرنے والے انداز میں بیڈ پہ بیٹھی اور ہاتھوں میں چہرہ چھپالیا۔ عادل سے مل کر اسکو ایک عجیب سا سکون ملا تھا۔ وہ باربار عادل کے بارے میں سوچ رہی تھی اور مسکرا رہی تھی۔
”میں کیوں بابر اسکو یاد کر رہی ہوں؟ کیوں اسکا چہرہ میری آنکھوں کے سامنے آرہا ہے؟ یہ کیا ہورہا ہے مجھے“؟
وہ سوچتے سوچتے لیٹ گئی اور نیند کی وادی میں چلی گئی۔۔۔
******
عادل نے مارکیٹ سے نکلتے وقت سمیر کو کال کی۔
”ہاں بول کیا ہوا“؟سمیر نے کال ریسیو کر کے پوچھا
”یار ابھی جلدی سے میرے گھر آجا“۔عادل نے پرجوش ہوکر کہا
”کیوں بھائی ہوا کیا ہے“؟ سمیر نے حیرت سے پوچھا
”یار زیادہ سوال نہیں کر۔ بس آجا“. عادل نے کہا اور کال کاٹ دی۔
عادل اپنے کمرے میں بیڈ پہ لیٹا ہوا کسی سوچ میں گم مسکرا رہا تھا۔
ک”یا ہوگیا یار“؟ سمیر نے کمرے میں آتے ہوئےکہا
”یار وہ مجھے آج مارکیٹ میں ملی“۔عادل نے اٹھتے ہوئے کہا
”کیا بولی وہ“؟ سمیر نے پرجوش انداز میں کہا
”یار اسنے کہا مجھے ”آپ“ سے بات نہیں کرنی۔“عادل نے مسکراتے ہوئے کہا
”کیا۔۔۔۔“؟سمیر جو کسی اچھے جواب کا منتظر تھا حیرت سے عادل کو دیکھنے لگا
”ہاں یار اسنے کہا کہ مجھے ”آپ“ سے کوئی بات نہیں کرنی“۔ عادل نے مسکراتےہوئے جملہ دہرایا
”جب اسنے تجھ سے بات ہی نہیں کی تو اتنا خوش کیوں ہورہا ہے“؟ سمیر نے حیرت سے پوچھا
”یار اسنے مجھے ”آپ“ بولا۔۔۔ وہ جب بھی مجھ سے بات کرتی تھی، وہ مجھے ”تم“ بولتی تھی۔ لیکن آج اسنے مجھے ”آپ“ کہا“۔عادل نے خوشی سے سمیر کو بتایا
”ارے واہ یار“ ۔۔۔۔ سمیر نے بھی خوشی کا اظہار کیا
”اسنے مجھے ہاں نہیں بولا، لیکن نا بھی نہیں بولا“۔عادل نے سمیر کو دیکھتے ہوئے کہا
”آج وہ ”تم“ سے ”آپ“ پہ آئی ہے، کل ان شااﷲ وہ ہاں بھی بول دےگی“ ۔ سمیر نے عادل کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے کہا
****
[04/12/2018 11:03 AM] Precious pearl: وہ صبح اٹھ کے کالج کے لیے تیار ہونے لگی۔وہ ڈریسنگ کے سامنے کھڑی بالوں میں برش کررہی تھی جب ہی دروازے پہ دستک ہوئی۔ اسنے سارے بالوں کو سمیٹ کر کندھے پہ ڈالا اور دروازہ کھولا۔
”بیٹا جلدی سے کچھ ضرورت کا سامان اور گفٹ وغیرہ پیک کرلو۔ ہمیں آمنہ کے گھر جانا ہے“۔مسرت اپنی دوست کےگھر جانے کا کہہ رہی تھیں۔
”کیوں نانی“ ؟سدرہ نے الجھتی ہوئی نظروں سے مسرت کو دیکھا
”بیٹا تین دن بعد آمنہ کی بیٹی کی شادی ہے۔ اب تم تو جانتی ہو کہ شادی والے گھر میں کتنا کام ہوتا ہے اسلیے اسکی مدد کروانا ہمارا فرض ہے۔ میں نے آمنہ کو فون پہ بتا دیا تھا کےہم لوگ کل سکے گھر آجائینگے ۔ اب تم جلدی سے تیار ہو جاؤ ۔ ہم کو دوپہر تک نکلنا ہے“ ۔ مسرت نے سدرہ کے سر پہ پیار کرتے ہوئے کہا اور چلی گئیں ۔
سدرہ کا موڈ ایک دم خراب ہوگیا تھا۔ سدرہ بجھے دل سے تیار ہونے لگی۔
☆☆☆
وہ کلاس روم سے باہر نکل رہی تھی جب ہی اسکا فون رنگ ہوا۔ سامنے اسکا میسج جگمگارہا تھا۔
”میں باہر ہوں اگر آج تم میرے ساتھ نہیں چلی تو پھر مجھ سے بات نہیں کرنا“۔ اسنے میسج اوپن کرکے ریڈ کیا اور جواب لکھنے لگی۔
”میں ابھی اپنے گھر پہ ہون آج جلدی چھٹی لے کر گھر آگئی تھی“۔ اسنے جھوٹ لکھ کہ سینڈ کیااور جواب کا انتظار کرنے لگی لیکن جب دوسری طرف سے کوئی جواب نہیں آیا تو وہ کالج کے گیٹ کی طرف بڑھ گئی۔
***********
عادل پچھلے تین دن سےکالج کے باہر سدرہ کا انتظار کر رہا تھا۔ لیکن سدرہ کالج نہیں آرہی تھی۔ عادل کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے۔ وہ باربار گھڑی میں ٹائم دیکھ رہا تھا۔ جب ہی اسکی نظر ایک شخص پہ پڑی عادل اسکو جانتا تھا۔ وہ انس تھا بلیک ٹی شرٹ اور جینس میں ہاتھ میں موبائل پکڑے وہ گرلز کالج کے باہر اپنی بائیک کے ساتھ کھڑا تھا۔ عادل نے انس سے بات کرنے کا سوچا لیکن پھر رمشا کو آتا دیکھ کر ارادہ ترک کردیا۔
”چلیں بھائی“۔۔۔ رمشا نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے کہا
”ھھھھم چلو“۔ عادل نے گاڑی میں بیٹھ کر گھر کا رخ کیا
وہ اب سڑک پہ ڈرائیو کررہاتھا۔
”بھائی آج میری دوست کی شادی ہے۔ آپ چلیں گےنا؟“ رمشا نے باہر دیکھتے ہوئے کہا
” میں وہاں جاکر کیا کرونگا “؟ عادل نے ڈرائیو کرتے ہوئے کہا
پلیز بھائی اسنے ہماری پوری فیملی کو دعوت دی ہے۔ ”پاپا تو چلینگے نہیں آپ چلو نا پلیز“۔رمشا نے عادل کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
”نہیں نا رمشا تمہاری دوست کی شادی ہے۔ میں وہاں بور ہوجاؤنگا“۔ عادل نے رمشا کو دیکھتے ہوئے کہا ۔
”بھائی پلیز نا۔۔۔ آپ وہاں اپنے لیے کوئی لڑکی پسندکر لینا“ رمشا نے شرارت والے انداز میں کہا
”رمشا“۔۔۔۔ عادل نے مصنوعی غصے سے سدرہ کو دیکھا
”بھائی پلیز آپ کو چلنا ہوگا “ رمشا نے ضد کرنے والے انداز میں کہا
”رمشا ضد نہیں کرتے۔ میں تم کو چھوڑنے جاؤنگا اور پھر لینے بھی آجاؤنگا لیکن شادی میں نہیں آؤنگا“۔عادل نے سامنے دیکھتے ہوئے کہا
”بھائی آپ بہت ضدی ہو“۔ رمشا نے ناراض ہوتے ہوئے کہا
”تم بھی کچھ کم نہیں ہو“۔ عادل نے مسکراتے ہوئے کہا اور ڈرائیو کرتا رہا
*****
سدرہ ایک ہفتے سے کالج نہیں گئی تھی۔ اسکا کسی بھی کام میں دل نہیں لگ رہا تھا۔ مہندی کی رسم میں بھی وہ ایک جگہ گم سم سی بیٹھی عادل کو یاد کر رہی تھی۔
آج دلہن کی رخصتی کا دن تھا اور پورے گھر میں افراتفری کا ماحول تھا۔
کوئی کپڑے لیے بھاگ رہا تھا تو کسی کو پالر جانے کی فکر تھی۔
بارات کا فنکشن ہال میں منعقد کیا گیا تھا۔
وہ شادی ہال کے سامنے گاڑی سے ٹیک لگائے کھڑا تھا۔ ڈارک بلوشرٹ اور بلیک جینس میں وہ کمال کا ہینڈسم لگ رہا تھا۔ برابر میں رمشا اپنی دوست سے کال پہ بات کررہی تھی۔
”بھائی یہی ہال ہے۔ میری دوست میرا انتظار کر رہی ہے۔ میں جاؤں“ ؟ رمشا نے کال کاٹتے ہوئے کہا
”ہاں جاؤ۔ مجھے کال کردینا میں تم کو لینے آجاؤنگا۔“ عادل نے ٹائم دیکھتے ہوئے کہا
”بھائی آپ بھی چلیں نا پلیز“۔۔۔ رمشا عادل کو دیکھتے ہوئے کہا
”نہیں نا۔ میں کیا کرونگا تمہاری دوست کی شادی میں“؟ عادل نے رمشا کو دیکھتےہوئے کہا
”جی بھائی“۔۔۔ رمشا نے اداس ہوتے ہوئے کہا اور اندر جانے لگی
وہ سر جھٹک کر گاڑی کی طرف مڑا۔ جب ہی اسکی نظر سامنے کھڑی لڑکی پہ پڑی۔ عادل لمحے بھر کے لیے بلکل ٹہر گیا۔
وہ ڈارک بلو کلر کی لمبی سی فراک پہنی ہوئی تھی۔ جسکے پنک بارڈر پہ گولڈن کام سے پھول بنے ہوئے تھے اور گلے پہ پنک اور لال پھول بنے ہوئے تھے۔ اسنے نفاست سے پنک دوپٹے کو سر پہ سیٹ کیا ہوا تھا۔ ہلکے سے میک اپ کے ساتھ وہ بہت حسین لگ رہی تھی۔
عادل کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ سدرہ اسکے سامنے تھی۔ وہ مسرت کے ساتھ ہال میں جارہی تھی۔
عادل نے کار کے شیشے میں اپنا عکس دیکھا اور پھر بالوں پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے ہال میں جانے لگا۔
*************
ہال میں سب لوگ اچھے سے تیار ہوئے ادھر ادھر گھوم رہے تھے۔ بارات آنے میں ابھی وقت تھا۔ وہ ہال میں کھڑا سدرہ کو تلاش کر رہا تھا۔ جو پتا نہیں کہاں غائب ہوگئی تھی۔
”بیگانی شادی میں عبداﷲ دیوانہ“۔۔۔ عادل نے آتے جاتے لوگوں کو دیکھتے ہوئے خود سے کہا
”بھائی عبداﷲ نہیں عادل دیوانہ بولیں۔“ رمشا نے عادل کے قریب آتے ہوئے کہا
”شکر ہےتم مل گئیں میں تم کو ہی ڈھونڈرہاتھا۔“عادل نے رمشا کو دیکھتے ہوئے کہا
”لیکن بھائی آپ تو بول رہے تھے کہ آپ کو شادی میں نہیں آنا۔؟“رمشانے عادل کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
”میں نے سوچا میری پیاری بہن نے مجھے اتنے پیار سے بولا ہے تو اسکی بات مان لینی چاہیئے“۔ عادل رمشا کو دیکھتے ہوئے کہا
”اچھا اب یاد آگئی آپکو اپنی پیاری بہن کی“؟رمشا نے منہ بناتے ہوئے کہا
”ہاں تو“۔۔۔عادل نے بھی رمشا کے انداز میں جواب دیا
”اچھا اب میں اپنی دوست کے پاس جارہی ہوں“۔ رمشا برائیڈل روم کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
”ہاں ٹھیک ہے جاؤ“۔۔۔ عادل نے پھر سے سدرہ کو ڈھونڈتے ہوئے کہا
”جی بھائی“۔ رمشا نے کہا اور وہاں سے چلی گئی۔
اور عادل کی نظریں دوباره سدرہ کو تلاش کرنے لگیں۔
************
وہ برائیڈل روم میں دلہن بنے بیٹھی تھی۔ عادل اسکے سامنے کھڑا اسے دیکھ رہا تھا جو کسی آسمان سے اتری پری کی طرح لگ رہی تھی۔
”آج سے سےتم صرف میری ہو سدرہ“۔ عادل نے اسکے قریب آتے ہوئے کہا
اسنے شرماکر پلکیں جھکائیں۔
عادل اب اسکا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے رہا تھا۔
”سدرہ“۔۔۔۔۔
”سدرہ “۔۔۔۔۔
”سدرہ“۔۔۔۔۔ مسرت کی آواز سے اسکے خیالوں کا سلسلہ اچانک ٹوٹ گیا۔
”کہاں گم ہو بیٹا؟ بارات آنے والی ہے۔ جب سے آئی ہو پتا نہیں کیا سوچ رہی ہو۔ چلو باہر مہمانوں کا استقبال کرنا ہے۔“
”جی نانی“۔۔سدرہ نے ہاں میں سر ہلایا۔
”یااﷲ میں یہ کیا سوچ رہی تھی“؟سدرہ نے مسکراکر سر جھٹکا اور باہر کی طرف بڑھ گئی
*************
وہ مسرت کے ساتھ برائیڈل روم سے نکل رہی تھی جب ہی رمشا اسکے قریب سے گزر کے برائیڈل روم میں چلی گئی سدرہ نے رمشا کو نہیں دیکھا تھا اور رمشا بھی سدرہ سے ناواقف تھی۔
”بیٹا تم وہاں جاکر ذرا پھولوں کی ٹوکرياں دیکھو، جب تک میں اسٹیج دیکھ کر آتی ہوں۔“ مسرت نے مسکراکر کہا
”نانی پھولوں کی ٹوکرياں کہاں رکھی ہیں“؟ سدرہ نے مسرت کو دکھتے ہوئے پوچھا
”وہ کونے والی ٹیبل پہ “۔۔۔ مسرت نے ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا
”جی نانی“۔۔۔ سدرہ نے ہاں میں سرہلایا اور وہاں سے چلی گئی
************
عادل سدرہ کو تلاش کر رہا تھا جب اسکی نظر ٹیبل پہ رکھے پھولوں پہ پڑی جو ٹوکريوں میں بہت خوبصورتی سے سجائے گئے تھے۔ عادل چلتا ہوا اس ٹیبل کے پاس آیا اور پھولوں کو دیکھنے لگا۔
”سنیں“۔۔۔ عادل کی پشت سے کسی لڑکی کی آواز آئی اسنے پلٹ کے دیکھا تو بے اختیار ٹھٹک کے رہ گیا۔
وہ ساکت کھڑی عادل کو دیکھ رہی تھی۔ جیسے کوئی خواب حقیقت بن گیا ہو۔
”آپ۔۔۔ یہاں “؟ سدرہ نے بمشکل کہا
”صرف تمہارے لیے سدرہ “۔۔۔ عادل نے سدرہ کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئےکہا
”مجھے یہ پھول لینے ہیں“۔۔۔ سدرہ نے نظرے چراتے ہوئے کہا
”مجھے میرا جواب دےدو سدرہ ۔۔۔ میں تمہاری زندگی کی راہوں کو پھولوں سے سجانا چاہتا ہوں“۔ عادل نے بےخودی میں کہا
سدرہ کو سمجھ نہیں آرہا تھا کے وہ کیا بولے۔ ہال میں مہمان آنا شروع ہوچکے تھے ۔
”م۔۔۔مجھے نانی بلارہی ہیں۔“ سدرہ نے کہااور وہاں سے جانے لگی
”رکو سدرہ۔۔۔ مجھے جواب دو پہلے“۔۔۔ عادل بے اختیار سدرہ کے پیچھے آیا
سدرہ نظریں جھکائے چلی جارہی تھی۔ اسےڈر تھا کہ اگر کسی نے اسے عادل کے ساتھ دیکھ لیا تو کیا ہوگا۔۔۔۔
عال سمجھ گیا تھا کہ سدرہ اس سے کیوں بھاگ رہی ہے اسلیے وہ خود ہی رک گیا۔ اور دور سےہی سدرہ کو دیکھنے لگا۔
سدرہ باربار عادل سے چھپ رہی تھی اور عادل مسکراتا ہوا سدرہ کو دیکھ رہا تھا۔
*************
بارات آچکی تھی۔ دلہا دلہن کا اسٹیج پہ نکاح پڑھایا جارہا تھا۔رمشا ایک طرف کھڑی دونوں کی تصویریں بنانے میں مصروف تھی۔ سدرہ اسٹیج پہ کھڑی دونوں کو دل میں دعائیں دے رہی تھی۔
”میرے نکاح میں آنا قبول کروگی“؟ عادل نے سدرہ کے پیچھے کھڑے ہوکر آہستہ سے سرگوشی کی
سدرہ نے پلٹ کر عادل کو دیکھا دونوں کی نظریں ملیں۔ سدرہ کی آنکھ سے ایک آنسو ٹوٹ کے گرا
اور اسنے آنسو صاف کرتے ہوئے دوسری طرف رخ کر لیا
عادل کو سدرہ کی آنکھیں بہت خوبصورت لگتی تھیں وہ کبھی بھی ان آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتا تھا۔
”یااﷲ سدرہ کو کبھی کوئی غم نہیں دینا اسکے چہرے پہ ہمیشہ مسکان رہے اور اس مسکان کی وجہ میں بنو“۔۔۔عادل دل میں سدرہ کے لیے دعا کرنے لگا
**********
Continue

0 تبصرے
ہم سے رابطہ کرنے کا شکریہ
ہم آپ سے بہت جلدی رابطہ کریں گے۔