رسم_حیات
از_خدیجہ_نور
قسط_نمبر_01
*****************
*******
رسم حیات از خدیجہ نور
رات کا طوفان اب ختم ہو چکا تھا صبح کی دھوپ اب ہر طرف پھیل چکی تھی وہ کمرے میں صوفے سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا بکھرے بال ماتھے پہ پڑے تھے. آنکھیں بلکل سرخ ہورہی تھی جیسے وہ ساری رات روتا رہا ہو.
جبھی اچانک مین ڈور پہ کسی نے دستک دی وہ اٹھ کے دروازے کی طرف بڑھا. راہداری سے گزرتے ہوۓ اسکی نظر اسکے کمرے پہ پڑی . اسکا دروازہ بند تھا اور ہر طرف خاموشی تھی.وہ سر جھٹک کر آگے بڑھ گیا . جبھی دروازے پہ دوبارہ دستک ہوئی اس نے دروازہ کھولا تو سامنے ایک ضعیف آدمی ایک لفافہ پکڑے کھڑا تھا .
”آپ کون ؟“ اس نے سوال کیا ..
”میں ڈاک آفس سے آیا ہوں .“ آدمی نے جواب دیا ...
”جی بولیں “...
”عادل صاحب کے نام خط ہے“...
”جی میں عادل ہی ہوں“ ...
آدمی نے عادل کو لفافہ دے دیا۔۔۔
”شکریہ“..... عادل نے اسکا شکر ادا کیا اور دروازہ بند کر کے واپس کمرے میں آگیا.
اسنے لفافہ کھول کہ خط نکالا . خط کو دیکھتے ہی اسکی آنکھوں سے آنسوں جاری ہو گئے....
اسلام و علیکم !
بھائ جان ................
وہ اب خط کو واپس لفافہ میں ڈال رہا تھا آنسوں مسلسل اسکی آنکھوں سے جاری تھے. وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور خط کو ایک ڈائری میں رکھا اور دروازےکی طرف لپکا راہداری سےہوتےہوئے وہ اسکے کمرے کی طرف بڑھا. اس نے کمرے کا دروازہ کھولا تو کمرے میں ہر طرف اندھیرا تھا. اس نے جلدی سے لائٹ آن کی تو ہر طرف روشنی پھیل گئ
وہ فرش پہ بےہوش پڑی تھی. اسکا ہونٹ کنارے سے پھٹا ہوا تھا آنکھیں سوجی ہوئی تھیں اور چہرے پہ نیل کے نشان تھے. وہ اسکے قریب فرش پہ بیٹھ گیا عادل کے آنسوں اب سدرہ کے چہرے پر گر رہے تھے...
”م...مج...مجھے معاف کردو“ ۔۔. اسنے کانپتے ہونٹوں سے کہنا شروع کیا۔
”میں نے تمہارےساتھ بہت برا کیا میں نے بہت ظلم کئے تم پر“...
”مجھے معاف کردو“...
”میں وعدہ کرتاہوں میں اب تم کو کوئی بھی ۔۔۔۔تکلیف نہیں دونگا“
”میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں یار“
”میں نے کیوں کیا یہ سب میں کیسے معافی مانگوں تم سے اب“.....؟
” مجھے پتا ہے میں نے بہت تکلیف دی ہے تم کو پلیز مجھے معاف کردو ۔ میں سب ٹھیک کردونگا۔“
اس نے ہاتھوں کی پشت سے آنسوں صاف کئے اور جلدی سے سدرہ کو اٹھایا ۔۔۔
*******
کالج کا آخری سال تھا وہ B.SC Part II کا اسٹوڈنٹ تھا۔ ماتھے پہ آتے ہوئےنفاست سے کٹے ہوئے گہرے بھورے بال،اور گہری بھوری چمکتی آنکھیں ، گرے شرٹ اور بلیک جینس میں وہ کمال کا ہیندسم لگ رہا تھا۔
وہ اپنے دوستوں کے ساتھ کالج سے باہر نکل رہا تھا۔ جب ہی اسکو انس آتا ہوا نظرآیا ۔ کالے سیاہ بکھرے ہوئےبال، گلے میں ایک باریک سی چین ڈالے ، سیاہ ٹی شرٹ کے اوپر براؤن جیکٹ پہنے، سیاہ جینس میں وہ ایک چھچورا لیکن ہینڈسم لڑکا لگ رہا تھا۔
”ہائے یار کیسا ہے “؟ انس نے مسکراکر عادل سے ہاتھ ملایا
”ٹھیک ہوں یار تو سنا “۔۔۔ عادل نے آگے بڑھ کے انس کو گلے لگاتے ہوئے کہا۔
”آجا یار کہیں گھم پھرکر آتےہیں“ ۔۔۔ انس نے عادل کو اپنے ساتھ چلنے کو کہا
”نہیں یار مجھے گرلز کالج جانا ہے“ ۔۔
”کیوں بھائی گرلز کالج کیوں “؟
”یار اپنی بہن کو لینے جانا ہے ، ویسے تو اپنی کو لینے نہیں جائےگا کیا “؟ عادل نے یاد دلانے والے انداز میں کہا
”نہیں یار وہ خود آجاتی ہے، اب کیا سارا ٹائم ان بہنوں کے چکر میں ہی لگے رہیں ہم ، ہماری بھی کوئی زندگی ہے، کیا ہم بہنوں کے ڈرائیور بن کر رہیں “۔۔۔اونہہ ۔۔ انس نے لاپرواہی سے جواب دیا
”یار بہنوں کی عزت کرنی چاہئیے انکا خیال رکھنا ہمارا فرض ہے اور تو ہے کہ “۔۔۔
” یار اب تو یہ اپنا فضول لیکچر اپنےپاس رکھ ۔۔۔ تو جا اپنی بہن کو لینے۔ میں تو چلا“ ۔۔۔ انس نے عادل کی بات کاٹ کر کہا اور وہاں سے چلا گیا
”پتا نہیں اس کا کیا ہوگا “۔۔۔ عادل اسکو دور جاتا دیکھتا رہا ۔۔۔
****
”وہ سیاہ عبائے میں نقاب لگائے کالج سے باہر نکل رہی تھی۔دراز پلکوں والی آنکھیں نیچے جھکی تھیں۔ کالج سے باہر نکلتے ہی اسکی نظر اس پہ پڑی۔
”یا اﷲ یہ آج پھر آگیا۔ ان فالتو لڑکوں کے پاس کوئی کام نہیں ہوتا کیا۔ آج تو مجھے اسکی کلاس لینی ہی پڑے گی۔ سمجھتا کیا ہے یہ خود کو“۔۔۔ وہ اسکو دیکھتے ہوئےخود کلامی کر رہی تھی
وہ گرلز کالج کے باہر کار سے ٹیک لگائے کھڑا تھا۔ اسکی نظریں اس لڑکی کو ڈھونڈ رہی تھیں ۔ جب ہی اسکو دور سے وہ خوبصورت آنکھوں والی لڑکی دِکھی۔ وہ پل بھر کو بلکل حیران سارہ گیا تھا۔ وہ اب لڑکی اسی کی طرف آرہی تھی ۔
”کیا ہے ؟ تمہارے پاس کوئی کام وام نہیں ہے کیا؟ ایک ہفتے سے دیکھ رہی ہوں تم کو ۔۔۔ تم روز یہاں آکر کھڑے ہوجاتے اور مجھے گھورنے لگتے ہو “ وہ ایک ہی سانس میں جلدی جلدی بول رہی تھی۔
”تمہارےساتھ مسئلہ کیاہے ؟ کیوں آتے ہو یہاں روزانہ ؟ دیکھو میں تم جیسے لڑکوں کو اچھی طرح جانتی ہوں زیادہ اسمارٹ مت بنو ۔۔ اب کچھ بولوگے بھی یا نہیں ؟ “ وہ اب اس سے سوال کر رہی تھی ۔۔۔۔۔
”تم کجھ بولنے دوگی تب ہی تو میں ۔۔۔۔۔۔۔ “ وہ جو اب تک مسکراتا ہوا اسکو دیکھ رہا تھا اب اسنے کہنا شروع کیا
”کیا ؟ میں تم کو کچھ بولنے نہیں دے رہی ۔۔؟ اب تک تو تم ہی بول رہے تھے میں نے بولا کیا ہے ابھی تک ؟ کب سے تو تم بولے جا رہے ہو اور اب بول رہے ہو کہ میں تم کو بولنے نہیں دے رہی ۔۔۔؟ اب بولو نا جواب دو “ وہ اسکی بات کاٹ کہ بولی
”میں کیا بولوں سب تو تم نے ہی بول دیا “۔۔۔ اس نے مسکراکر کہا
”میں نے کیا بولا ؟ اپنے آپ کو بہت بڑا ہیرو سمجھتے ہو تم ؟ تم یہ بتاؤ تم کرنے کیا آتے ہو یہاں ؟ اور مجھے کیوں گھورتے رہتے ہو ؟ تم جیسے سارے لڑکوں کے پاس کوئی کام نہیں ہوتا کیا ؟ تم۔۔۔۔۔۔۔“ وہ نون اسٹاپ بولے جارہی تھی
”چپ ۔۔۔ چپ ۔۔۔ اب بہت بول لیا تم نے ، اب مجھے بولنے دو “ وہ اسکی بات کاٹ کے بولا
”پر میں نے تو“ ۔۔۔۔۔اسنے پھر سے کہا
”کہا نا چپ ۔۔۔۔۔انگلی رکھو اپنے منہ پہ ۔۔۔۔ جلدی“۔۔۔۔ اسنے تیزی سے اسکی بات کاٹی
وہ اب اپنے منہ پہ انگلی رکھے اسکی بات سن رہی تھی
”دیکھو میں یہاں اپنی بہن کو لینے آتا ہوں ۔۔۔اور میں کو ئی ایسا ویسا لڑکا نہیں ہوں میرے پاس لڑکیوں کے علاوہ اور بھی بہت کام ہیں ۔۔ نام کیا ہے تمہارا ؟ “ اسنے مسکراتے ہوئے اس سے پوچھا ۔۔۔۔
”سدرہ“ ۔۔۔۔
”اچھا ۔۔۔ تم کو کوئی لینے نہیں آتا“ ۔۔۔؟ اسنے سوال کیا
”نہیں میں اکیلی ہی جاتی ہوں ۔۔۔ اور اگر اب تم مجھے لفٹ کی آفر کرنے والے ہو تو سن لو ۔۔۔ میں کوئی تمہارے ساتھ نہیں جانے والی“
”ہاہاہاہاہا ۔۔۔۔ میں نے کب کہا ایسا ۔۔۔“؟ اسنے سدرہ بات پہ بے اختیار قہقہہ لگایا۔
” میں نے ناول میں پڑھا ہے مجھے پتا ہے تم سب لڑکے ایسے ہی کرتے ہو پہلے نام پوچھتے ہو اور پھر لفٹ کی آفر کر دیتے ہو اور پھر نمبر ہی مانگ لیتے ہو ۔ میں جا رہی ہوں میرے پاس کوئی فالتو ٹائم نہیں ہے“ ۔۔۔ اسنے کہا اور پلٹ کےجانے لگی
”میں تم کو کبھی لفٹ نہیں دونگا ان شا اﷲ تم کو پورے حق کےساتھ اپنی گاڑی میں بٹھاؤں گا اپنی وائف بنا کر“ ۔۔۔ عادل نے مسکراتے ہوئے خود سے کہا
”بھائی جان چلیں دیر ہورہی ہے“ ۔۔
وہ مسکراتا ہوا اسکو دور جاتا دیکھ رہا تھا تبھی اچانک اسکی بہن نے اس کو آواز دی
”رمشا ۔۔۔ آگئی تم ؟ چلو“۔۔ عادل نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے بولا
عادل نے گاڑی اسٹارٹ کی اورگھر کا رخ کیا۔ تب ہی اسکی نظر دور کھڑے انس پہ پڑی وہ گرلز کالج کے باہر کسی کو میسج کر رہا تھا ۔۔۔
ویسےتو بول رہا تھا کہ مجھے گرلز کالج نہیں جانا اور اب جناب یہیں پہ ہیں ۔۔۔۔ عادل نے خود سے کہا اور ڈرائیو کرنے لگا ۔۔۔
*****
عادل ایک سیدھا اور سلجھاہوا لڑکا تھا۔ اسکی ایک بہن تھی۔ عادل کے والد فرقان صاحب ایک بزنس مین تھے اور انکی تین فیکٹریاں تھیں۔ عادل کالج کے بعد فرقان صاحب کےساتھ فیکٹری میں کام کرتا تھا۔ وہ لوگ ایک خوبصورت بنگلے نما گھر میں رہتے تھے۔ عادل اپنی بہن رمشا سے بہت محبت کرتا تھا اور رمشا گھر میں سب ہی کی لاڈلی تھی۔
”چلو تم گھر میں جاؤ مجھے فیکٹری جانا ہے آج بہت کام ہے “۔۔۔ اسنے گھر کے سامنے گاڑی روکتے ہوئے کہا
”پر بھائی آپ کھانا تو کھالیں“۔۔۔ رمشا نے فکرمندی سے کہا
”نہیں گڑیا میں فیکٹری میں ہی کھا لونگا تم پریشان نہیں ہو“ ۔۔۔ عادل نے رمشا کی پریشانی دور کرتے ہوئے کہا
”ٹھیک ہے بھائی جان اپنا خیال رکھئیے گا اﷲحافظ“۔۔۔۔ رمشا نے کہا اور گھر کی طرف چل پڑی ۔
****************
سدرہ ٢٥ منٹ سے گھرکی ڈور بیل بجارہی تھی اب اسے غصہ آرہا تھا لیکن وہ جانتی تھی کہ اس غصہ کا کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ یہ روز کا معمول تھا اسکی آنکھوں میں آنسو آرہے تھے
اچانک کسی نے زور سے دروازہ کھولا
”کیا ہے؟ کیا صبر نہیں ہوتا تجھ سے ؟ کیون دماغ خراب کر رہی ہے“ ۔۔۔؟ وہ سامنے کھڑا زور زور سے چلارہا تھا۔۔۔
سدرہ نے انگلی کی پشت سے آنکھوں کا کنارہ صاف کیا۔ اور خاموشی سے اندر آگئی
ایک حادثے میں سدرہ کے والد اور والدہ کا انتقال ہوگیا تھا اس وقت سدرہ ٩ سال کی تھی۔
سدرہ کا ایک بھائی تھا اور ایک بڑی بہن جس کی شادی پہلے ہی چکی تھی۔
والدین کے انتقال کے بعد سدرہ اور اسکے بھائی بہن کی پرورش اسکی نانی نے کی تھی
وہ بہت ضعیف تھیں اور چاہتی تھیں کہ جلد سے جلد سدرہ کی شادی کسی اچھے گھر میں ہوجائے لیکن سدرہ شادی کے لئے تیار نہیں تھی
اسنے آہستہ سے کمرے کا دروازہ کھولا اور اندر داخل ہو گئی
”آگئیں بیٹا “۔۔۔؟ بیڈ پربیٹھی مسرت نےبولا
”جی نانی “۔۔۔ اسنے اپنا سامان ایک طرف رکھا اور آکر نانی کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گئی
”تھک گیا میرا بچا ۔“۔۔؟ وہ اسکے بالوں میں ہاتھ پھیر رہی تھیں
”جی۔“۔۔ اسنے انگلی کی پشت سے آنکھوں کا کنارہ صاف کرتے ہوئے کہا
”بیٹا اب تم شادی کرلو ۔۔میں اپنی زندگی میں تم کو دلہن بنے ہو ئے دیکھنا چاہتی ہوں۔ میری عمر کاکوئی بھروسہ نہیں ہے۔ کیا پتہ کب بڑھیا کا وقت آجائے “۔۔۔ انہوں نے مصنوعی مسکراہٹ کے ساتھ بولا
”آپ ایسی باتیں کیوں کر رہی ہیں نانی ایساکچھ نہیں ہوگا “۔۔۔ وہ فوراً اٹھ کر مسرت ساتھ لپٹ گئی
☆☆☆☆
وہ لاؤنچ میں بیٹھا ٹی وی دیکھ رہا تھا جب سدرہ اسکے پاس آئی
”بھائی مجھے کالج کے نوٹس بنانے کے لئے بکس چاہیئے آپ مجھے لائبریری لیں چلیں گے “؟ سدرہ نے اسکے قریب آتے ہوئے کہا
”میں کیوں لے کر جاؤں تیرے پیر نہیں ہیں کیا خود نہیں جا سکتی “ ۔۔۔؟ اسنے ٹی وی سے نظریں ہٹائے بغیر کہا
لے جاؤ نا بیٹا ۔۔۔ بہن کو تم لیکر نہیں جاؤگے تو کون لے کر جائےگا “؟ مسرت نے لاؤنج میں آتے ہوئے کہا
”آپ تو چپ ہی رہیں ۔۔۔ چلی جائےگی یہ خود ویسے بھی تو کالج سے آتی ہے نا اکیلی“ ۔۔۔۔ اسنے سدرہ کو گھورتے ہوئے کہا
”بیٹا کالج کی بات الگ ہے ویسے بھی لڑکیوں کو اکیلے باہر نہیں جانا چاہیئے “۔۔ مسرت نے اسکو سمجھانے کی کوشش کی
”اس بے شرم کو کہاں کی شرم “۔۔۔۔ اس نے طنزیہ لہجے میں کہا
”بیٹا ایسے نہیں بولتے وہ بہن ہے تمہاری“ ۔۔۔ مسرت نے فوراً اسکی بات کاٹی
وہ وہاں خاموشی سے کھڑی ساری باتیں سن رہی تھی اسکا چہرہ آنسو سے تر ہو رہا تھا
”رہنے دیجیئے نانی میں خود چلی جاؤں گی“ ۔۔۔ اسنے ہاتھ کی پشت سے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا اور باہر کی طرف جانے لگی
”بیٹا آرام سے جانا “۔۔۔ مسرت نے اسے دیکھتے ہوئے کہا
*****
سدرہ کے والدین نے ساری جائیداد سدرہ کی نانی کے نام کردی تھی اور انکو ہدایات کی تھی کہ وہ یہ جائیداد تینوں بہن بھائی میں تقسیم کردے لیکن سدرہ کابھائی اس وقت چھوٹا اور نا سمجھ تھاوہ امیر ماں باپ کا بگڑاہوا لڑکا تھا اور آہستہ آہستہ اسنے برے لڑکوں کی صحبت بھی اختيار کرلی تھی مسرت کےلاکھ سمجھانے پر بھی وہ نہیں مانا تو مسرت نے جائیداد کہ دو بڑے حصوں کو دونوں بہنوں میں تقسيم کردیا اور تیسرا اور آخری حصہ اسکےلئے رکھااس سےاسکے دل میں عورت کےلئےانتہا کی نفرت پیدا ہوگئی تھی وہ اب کسی بھی عورت کی عزت نہیں کرتا تھا وہ ہر چیز میں عورت کی ہی غلطی مانتا تھا وہ سمجھتا تھاکہ دنیا میں جتنا بھی فساد ہے سب عورت کی وجہ سے ہی ہے۔ سدرہ اپنے بھائی سے بہت محبت کرتی تھی اس لئے اسکی ہر بات خاموشی سے سن لیا کرتی تھی لیکن وہ اکیلے میں بہت رویا کرتی تھی وہ اﷲ سے بہت دعائیں کیا کرتی تھی کہ کبھی تو اسکا بھائی اسکو پیار کرے اسکا خیال رکھے لیکن شاید یہ اسکے نصیب میں نہیں تھا۔۔۔
****
وہ فیکٹری سے فارغ ہوکر پارک میں اپنے دوستوں کے ساتھ آیا تھا۔ جب ہی اسکی نظر دور بیٹھی سدرہ پہ پڑی۔
”یارتم لوگ یہیں رکو میں ذرہ ابھی آتا ہوں“۔۔۔ عادل نے ٹائم دیکھتے ہوئے کہا
”کیا یار کہا جارہا ہے بھائی“ ۔۔۔۔سمیر(دوست)نے کہا
”بس یار ابھی آیا “۔ عادل نے کہا اور سدرہ کی طرف جانے لگا
وہ پارک کی ایک بینچ پہ کتاب گودمیں رکھ کر بیٹھی ہوئی تھی آنکھوں سے آنسو ٹوٹ کر مسلسل اسکی کتاب پہ گررہےتھے۔عادل اسکے قریب آیا تو اسکی بھیگی پلکیں دیکھ کہ پریشان ہوگیا
”کیا ہوا تم رو رہی ہو “؟ اسنے عادل کی آواز پہ چونک کہ اسکی طرف دیکھا
”کیا ہوا بولو رو کیوں رہی ہو“ ؟ وہ اب بینچ پہ اس سےتھوڑےفاصلےپہ بیٹھاتھا
”کچھ نہیں “۔۔اسنے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا
”بتاؤ نا۔۔۔ کیوں رو رہی ہو ؟“ اسنے فکرمندی سے پوچھا
”کہا نا کچھ نہیں اور تم کو کس نے بولا کہ میں رو رہی ہوں ؟ تم جاؤ یہاں سے“۔۔۔ سدرہ نے مصنوعی غصے سے کہا
”دیکھو اگر تم کو لگتا کہ میں تمہارے اس طرح غصہ کرنے سے یہاں سے چلا جاؤنگا تو تم غلط ہو۔ جب تک تم مجھے بتاؤگی نہیں میں نہیں جاؤنگا اس لیے پلیز بتاؤ کیا ہوا ہے کیوں رو رہی ہو “؟ عادل اب بہت پریشان ہورہاتھا
”تم جاؤ یہاں سے میں روؤ یا نہیں اس سے تم کو کیافرق پڑتا ہے “؟ سدرہ نے روتے ہوئے کہا
”پتا نہیں ۔۔۔ لیکن تمہارے آنسو مجھ سے برداشت نہیں ہو رہے“۔۔۔عادل نے سدرہ کو دیکھتے ہوئے کہا
وہ اب بےیقینی کے عالم میں عادل کو دیکھ رہی تھی
”دیکھو ۔۔۔ مجھے نہیں پتا کہ تم کیوں رو رہی ہو لیکن کبھی بھی اسطرح روتے نہیں ہیں ہم کو اﷲ پر بھروسہ ہونا چاہیئےوہ ہم کوکوئی تکلیف نہیں دیتا اﷲ اپنے بندوں سے بہت محبت کرتاہے اگرتم کو کوئی پریشانی ہےتوتم اﷲ پربھروسہ رکھواﷲسب ٹھیک کر دیگا “ ۔۔۔ عادل نے سدرہ کو سمجھاتے ہوئے کہا
سدرہ بلکل ساکت بیٹھی کسی سوچ میں گم تھی اسکے آنسو اب تھم چکے تھے
”ایک بات بولوں؟ “ عادل نے سدرہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
”کیا ؟ “ سدرہ نے پوچھا
”تم رویا نہیں کرو ورنہ“ ۔۔۔۔۔
”ورنہ کیا“ ؟
”ورنہ تمہارا کاجل پھیل جائےگااور میں تم کو دیکھ کہ ڈر جاؤنگا“۔۔۔ عادل نے مسکراہٹ دباتے ہوئے کہا
”ڈیش تم بہت ڈیش ہو“۔۔۔ سدرہ بھیگی آنکھوں سے مسکرائی
”ڈیش ۔۔۔“؟ عادل نے سوالیہ نظروں سے سدرہ کو دیکھا
”ہاں۔۔۔ کیو نکہ مجھے تمہارا نام نہیں پتا نا اس لیے ڈیش“۔۔۔۔ سدرہ نے معصوميت سے کہا
” ہاہاہاہاہا۔۔۔ تو تم پوچھ لو میرا نام مجھ سے“۔عادل نے ہنستے ہوئے کہا
”میں کیوں پوچھوں ۔۔“۔؟ سدرہ نے مسکراتے ہوئے کہا
”اچھا تو میں خود ہی بتادیتا ہوں۔ میرا نام عادل ہے ویسے تم کو کہیں جانا تھا کیا“؟ اسنے کھڑے ہوتے ہوئے کہا
”ہاں لائبریری جارہی تھی بس۔۔۔ اور مجھے لفٹ نہیں چاہیئے میں خود ہی چلے جاؤں گی۔۔“ سدرہ بھی اٹھ کے اب اسکے سامنے کھڑی تھی
”اچھا اچھا۔۔۔ نہیں دونگا تم کو لفٹ۔۔۔ دیہان سے جانا “۔۔۔ عادل نے مسکراتے ہوئے کہا اور جانے لگا
”سنو۔۔۔“ سدرہ نے بے اختیار عادل کو آوازدی
”ہاں بولو “؟ اسنے پلٹ کر پوچھا
”تھینکس۔“۔۔ سدرہ نے مسکراکر کہا
”کس لئے “؟
”پتا نہیں بس تھینکس“ ۔۔۔
”میں فری میں کسی کا تھینکس نہیں رکھتا “۔۔
م”یں فری میں کسی کو تھینکس بولتی بھی نہیں“ سدرہ نے کہا اور پلٹ گئی عادل اسکو دور جاتا دیکھتا رہا
**
عادل سمیر کے ساتھ کالج کی سیڑھیوں پہ بیٹھا تھا۔ سمیر عادل کا بہت اچھا دوست تھا اسنے کمپیوٹرائزیشن کا مکمل کورس کیا ہوا تھا۔ عادل دل کا صاف لڑکا تھا اور کبھی کسی کو نقصان نہیں پہنچاتاتھا اور اسکی دوستی بھی ایسے ہی لڑکوں سے تھی اسکے برعکس انس ایک چھچھورا لڑکا تھا۔ انس عادل کا ہم جماعت تھا اور عادل کے ساتھ اسکے تعلقات صرف سلام دعا تک ہی تھے۔
عادل اور سمیر دور سے انس اوراسکےدوست کو دیکھ رہے تھے
”یار یہ لڑکا میری سمجھ میں نہیں آتا۔۔۔ اس دن بول رہا تھا کہ مجھے گرلز کالج نہیں جانا اور پھر یہ مجھے گرلز کالج کے باہر دکھا تھا“۔ عادل نے انس کو دیکھتے ہوئے کہا
”ہاں یار آئے دن یہ کالج سے غائب رہتا ہے اور سیگریٹ بھی پیتا ہے۔ “ سمیر نے بھی انس کو دیکھتے ہوئے کہا
”خیر۔۔۔ اﷲبچائے ایسے لڑکوں سے“۔ عادل نے سر جھٹک کہ کہا اور ہاتھ میں پکڑے نوٹس کی طرف متوجہ ہوگیا
اُدھر:۔
انس موبائل میں مصروف کسی سے sms پہ بات کر رہاتھا۔
”کیا ہے یار کب سےدیکھ رہاہوں تو اسی کے ساتھ لگاہواہے ہم کو بھی بتادے کون ہے یہ ؟“ احمد(دوست)نے انس کے موبائل کو دیکھتے ہوئے کہا
”ابےگرل فرینڈ ہےیار“۔۔۔۔ انس نے ہاتھ ہلاتے ہوئےکہا
”اوہو۔۔۔۔۔ بھائی کیا اتنی جلدی شادی کرنےکاارادہ ہے “؟ احمد نے مسکراتے ہوئےکہا
”نہیں یار“ ۔۔۔ انس نے منہ بناتے ہوئے کہا
”تو پھر“۔۔۔۔۔؟ احمد نےانس کو دیکھتےہوئے کہا
”یار ابھی کہاں شادی ۔۔۔ یہ تو صرف ٹائم پاس ہےیار۔ایسے ہی تھوڑی ناکوئی میرے دل میں آسکتی ہے ۔“ انس نے موبائل میں دیکھتے ہوئے کہا
”تو اسکا کیا کریگا “؟
”ابےاسکاکیاہے؟ چھوڑ دونگاجب دل بھر جائیگاتو “۔۔۔ انس احمد کی طرف دیکھ کر مسکرایا
”ویسےیہ لڑکیاں ہوتی بہت معصوم ہیں۔“ احمد نےمسکراتےہوئےکہا
”لڑکیاں معصوم نہیں بےوقوف اور بےوفا ہوتی ہیں“۔ انس اپنا فون جیب میں ڈالتے ہوئے کہااورپھروہ دونوں وہاں سے چلے گئے
”لڑکیاں بے وقوف نہیں معصوم ہوتی ہیں اس لیے ان کو لڑکے بہت آرام سے بےوقوف بنالیتے ہیں۔ ان سے دو پیار کی باتیں کرلو تو چنےکےجھاڑ پہ چڑ جاتی ہیں، ذرا سی تعریف کردو تو خود کو پری سمجھنے لگتی ہیں۔ ان سے تھوڑاسا غصہ ہوجاؤتو منانے کہ لئے سب کچھ کر سکتی ہیں لوگ کہتے ہیں کہ لڑکیاں ہمیشہ بےوفا ہوتی ہیں۔۔۔ ہاں صحيح تو کہتے ہیں ۔۔۔ جب ان کو کسی سے محبت ہوتی ہے تو اسکےلئے سب کچھ کرتی ہی اسکےلئے زمین آسمان ایک کرنے کو تیار ہوجاتی ہیں تب ان کو بیوقوف کےخطاب سے نوازا جاتاہے اس وقت یہ اﷲسے بےوفائی کر رہی ہوتی ہیں پھر یہ اپنے ماں باپ سے بے وفائی کرتی ہیں پھر جب انکو ٹھوکر لگتی ہے اور وہ توبہ کرکے سنورنے کی کوشش کرتی ہیں اور سچے دل سے اﷲ سے وفاداری کرنا چاہتی ہیں تب وہ اپنی محبت سے بےوفائی کرتی ہیں ۔ لڑکیاں بے وفا ہی ہوتی ہیں ہر ایک سے وفا کرنا چاہتی ہیں پر ہر بار ان سے بےوفائی ہوجاتی ہے۔“
*****
عادل اورسمیرکالج سےباہرنکل رہے تھے۔
”یار کوئی کام تو نہیں ہے نا ابھی تجھے “؟سمیرنےعادل کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا
”نہیں کیوں “۔۔۔ ؟عادل نےبے فکری سےجواب دیا
”پھر میرےگھرچل, آج دونوں ساتھ کھانا کھاتے ہیں۔“ سمیرنےپرجوش انداز میں کہا
”نہیں یارمجھے گرلزکالج جانا ہے“۔۔۔عادل نے انکارکیا
”پر صبح توبول رہا تھا کہ آج تیری بہن کالج نہیں گئی“ ۔۔سمیر نے مشکوک نظروں سے عادل کو دیکھا
”ہاں وہ نہیں گئی لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔“عادل نے بولتے ہوئے نچلا لب دانتوں میں دبا لیا جیسے کچھ غلط بول دیا ہو
”لیکن کیا“ ۔۔۔۔۔؟ سمیر اب عادل کو گھور رہا تھا
”کچھ نہیں یار“ ۔۔۔ عادل نے بات کوٹالنےکی کوشش کی
”نہیں ۔۔۔ اب تو تجھے بتانا پڑےگا میرے بھائی۔“۔۔ سمیرنے ڈھٹائی سے مسکراتے ہوئے کہا
”کہانا یار کچھ نہیں بس ایسے ہی، آجا تیرے گھر چلتے ہیں, کھانا کھانے مجھے بہت بھوک لگی ہے یار“ ۔۔۔ عادل نے بات بدلنے کی کوشش کی
”یار بات مت گھما اب۔۔۔۔ سچ سچ بتا“سمیر نے ڈھٹائی سے کہا
”یار کیا بتاؤں۔۔۔“؟ عادل نے نظریں چراتے ہوئے کہا
”کیوں جانا ہے گرلز کالج ؟ اور جھوٹ مت بولنا کیونکہ مجھے تیرا جھوٹ پکڑنے میں دیر نہیں لگتی۔“ سمیر نے مسکراکر کہا
”یار مجھے ایک لڑکی سے محبت ہوگئی ہے“۔ عادل نے لمبی سانس خارج کرتے ہوئے کہا
”ارے واہ ۔۔۔۔۔ یعنی میرا شک صحیح تھا۔ میرایار اب دلھا بنےگا۔“سمیر نے پرجوش ہوکرکہااور فوراً عادل کے سامنے سوالوں کی لائن لگادی
”کیسی ہے“؟
”کون ہے“؟
”کیا کرتی ہے “؟
” کہاں رہتی ہے“؟
” مجھے کچھ نہیں پتا۔“ عادل نے سنجیدگی سے کہا
”کیا۔۔۔۔۔؟ تجھے کچھ نہیں پتا؟ نام تو پتا ہوگانایار “؟ سمیرنے حیرت سے پوچھا
”ہاں صرف نام پتا ہے۔“ عادل ہلکاسا مسکرایا
”خوبصورت ہے“؟ سمیر نے ایک اور سوال کیا
”ہاں خوبصورت تو ہوگی“۔۔۔ عادل نے مسکراکر کہا
”ہوگی.....، مطلب “؟ سمیر کچھ حیران ہوا
م”یں نے ابھی تک اسکا چہرہ نہیں دیکھا۔“ عادل نے سمیر کی طرف دیکھتے ہوئےکہا
”کیا۔۔۔۔۔؟ جب تو نے اسکو دیکھا بھی نہیں ہے، تجھے یہ نہیں پتا کہ وہ کون ہے؟ کیسی ہے ؟ کہاں رہتی ہے ؟ اسکی فیملی کیسی ہے ؟ تو تجھے اس سے محبت کیسے ہوسکتی ہے یار “۔۔۔؟ سمیر کی حیرت کی کوئی انتہا نہیں تھی
”کیوں نہیں ہوسکتی ؟ محبت کے لیےان چیزوں کا ہونا ضروری نہیں ہوتا، نا گھر، نا خاندان، نا کام، نا اور کچھ ۔۔۔ محبت چہرے سے نہیں روح سے ہوتی ہے مجھے زندگی اسکے ساتھ گزارنی ہے اسکی فیملی کے ساتھ نہیں ، محبت تو ہوجاتی ہے پتا بھی نہیں چلتا“۔ عادل نے بےخودی میں کہااور جانے لگا
سمیر اسکو دور جاتا دیکھتا رہا
****************
عادل گاڑی میں بیٹھا دور سے اسکو دیکھ رہا تھا۔ وہ کالج کےباہرکھڑی کسی لڑکےسےبات کررہی تھی۔ اس لڑکےکی پشت عادل کی طرف تھی اس لیےعادل اسکاچہرہ نہیں دیکھ سکتاتھا۔ سدرہ نے اس لڑکےسےبات کر کے گھر کارخ کیا۔ وہ اب عادل کی گاڑی کے پاس سے گزر رہی تھی۔ جب ہی عادل نےگاڑی سےنکلتےہوئےاسےروکا۔
”سدرہ رکو“۔۔۔
اسنے پلٹ کے عادل کو دیکھا۔
”سدرہ تم رو رہی ہو ؟ کیا ہوا“ ؟اسنے سدرہ کی نم آنکھوں کو دیکھتے ہوئے پوچھا
”نہیں تو “۔۔۔ سدرہ نےخودکونارمل کرتے ہوئے کہا
”کون تھاوہ جس سے تم بات کر رہی تھیں“؟ عادل نے اس لڑکےکو ڈھونڈتےہوئے کہا۔ وہ لڑکا اب وہاں سے جاچکاتھا۔
”تمہیں کیوں بتاؤں کہ کون تھا وہ “۔۔۔؟
”دیکھو اگر کوئی تم کو پریشان کر رہاہے توتم مجھ سے شیئر کرسکتی ہو سدرہ “۔۔۔
”مجھے کوئی پریشانی نہیں ہے اورتم پلیز اپنے کام سے کام رکھو عادل ۔“
”چلو مان لیا کہ تم کو کوئی پریشانی نہیں ہے۔ اچھا یہ بتاؤکہ تم chewing gum کھاتی ہو ؟“ اسکو پتا تھا کہ سدرہ نہیں بتائےگی اس لیے بات بدلتے ہوئے بولا
”ہاں ۔۔۔ کیوں “ ؟ سدرہ نے سوالیہ نظروں سے عادل کو دیکھا
”یہ لو ۔۔۔“ عادل نے جیب سے ایک chewing gum نکالی اور سدرہ کی طرف بڑھائی۔
”میں کیوں لوں تم سے یہ“ ؟ سدرہ نے انکار کرتے ہوئے کہا
”لےلونایار پلیز“۔۔۔
”نہیں میں نہیں لونگی“ ۔۔۔
”کیوں “؟
”اگر تم نے اس میں بےہوشی کی دوا ملائی ہوئی تو “۔۔۔؟
”کیا ۔۔۔؟ میں کیوں ملاؤنگااس میں بےہوشی کی دوا “؟
”اگر تم کو مجھے کڈنیپ کرنا ہوا تو تم اس میں بےہوشی کی دوا ڈال کے مجھے دوگے تاکہ میں یہ کھاکر بےہوش ہوجاؤں اور تم مجھے کڈنیپ کرلو “۔۔۔۔سدرہ نے معصوميت سےکہا
”ہاہاہاہا۔“۔۔۔ عادل نے سدرہ کی بات پہ بےاختیار قہقہہ لگایا
”نہیں پاگل ایسا کچھ نہیں ہےلےلو“۔۔۔
”میں کیسے یقین کرلوں کہ ایسا کچھ نہیں ہے“؟ سدرہ نے مشکوک نظروں سے عادل کو دیکھتے ہوئےکہا
”اچھا ایک کام کرو تم یہ لے لو اور گھر جاکر کھا لینا ابھی نہیں کھانا اوکے“ ؟ عادل نے ہنسی روکتے ہوئےکہا
”ہاں یہ ٹھیک ہے“ ۔۔۔ سدرہ نے chewing gum لیتے ہوئے کہا
۔chewing gum لیتے ہوئے سدرہ نے بہت احتياط کی تھی تاکہ اسکاہاتھ عادل کہ ہاتھ سے ٹچ ناہو۔ عادل نے یہ بات نوٹ کرلی تھی اور عادل کو سدرہ کی یہ بات بہت پسند آئی تھی۔
”اب میں جاؤں“۔۔؟سدرہ نے عادل کو دیکھتے ہوئے کہا
”ہاں جاؤاور دھیان سے جانا“۔۔۔ عادل نے مسکراتے ہوئے کہا
سدرہ اﷲحافظ کہہ کر جانے لگی
”دل تو بلکل نہیں چاہتا تم کو اس طرح جانے دینے کا۔۔۔ ایک دن تم کو اپنے گھرلےکر جاؤنگا، اپنی دلہن بنا کے ۔“ عادل نےدل میں سوچا اور پھر گاڑی میں بیٹھ گیا
*****
وہ دونوں کھانے کی میز پہ بیٹھے کھانا کھا رہے تھے
”رمشا پانی لانا “۔۔۔۔ عادل نے رمشا کو آواز دی
”جی بھائی لارہی ہوں“ ۔۔۔ رمشاکچن میں تھی
عادل اور سمیر رات کا کھانا عموماً ساتھ کھایا کرتے تھے۔ سمیر رمشا کو پسند کرتا تھا اور عادل نے یہ بات محسوس کرلی تھی۔ عادل کو بھی اس رشتے سے کوئی اعتراض نہیں تھا کیونکہ وہ سمیر کو کافی ٹائم سے جانتا تھا اور وہ اسکا سب سے اچھا دوست بھی تھا لیکن عادل نے سوچا تھا کہ پہلے رمشا کی پڑھائی پوری ہوجائے پھر اس سے اس سلسلےمیں بات کی جائے تاکہ اسکی پڑھائی متاثر نہ ہو۔
رمشا نے پانی لاکر رکھا اور واپس کچن میں چلی گئی
عادل پانی پی رہا تھا جب ہی اسکا فون رنگ ہونے لگا اور وہ اٹھ کہ کمرے سے باہر چلا گیا۔
”کیا ہے یار بھائی کے دوست آئے ہوئے ہیں ان کو کھانا دے رہی تھی،تم تھورا تو صبر کرلیا کرو، ہاں، ہاں آؤنگی کل“۔۔۔۔ رمشا فون پہ کسی سے سرگوشی کررہی تھی
”کہاں جانے کی بات ہورہی ہے“ ؟سمیر نے کچن میں آتے ہوئے کہا
”وہ۔۔۔وہ کالج نہیں گئی تھی نا آج اس لیے دوست پوچھ رہی تھی کہ کل آؤگی یا نہیں“؟ رمشا نے کال کاٹتے ہوئے کہا
”اچھا“۔۔۔سمیر نے مسکراکر جواب دیا
”آپ یہاں کیوں آئے کچھ چاہیئے تھا تو آواز دے دیتے میں آجاتی“۔ رمشا نے پانی کی بوتل اٹھاتے ہوئے کہا
”نہیں میں بس ہاتھ دھونے آیا تھا۔“ سمیر کہہ کر واش بیسن کی طرف بڑھا
”بھائی کہیں گئے ہیں کیا؟“ رمشا اب گلاس میں پانی ڈال رہی تھی
”ہاں , فیکٹری سے کال آئی تھی تو وہ بات کر رہا ہے۔“۔۔سمیرنے نل کھولا ٹھنڈا پانی اب اسکے ہاتھوں کو بھگورہا تھا
”اچھا“ ۔۔۔رمشا نے پانی کا گلاس منہ سے لگاتے ہوئےکہا
”کالج ختم کرنے کے بعد کیا ارادہ ہے تمہارا“؟ سمیر نے نل بند کرتے ہوئے کہا
”ابھی تک کچھ سوچا نہیں ہے“۔ رمشا نے گلاس رکھتے ہوئےکہا جب ہی اسکے فون کی اسکرین چمکی
”اچھا وہ “۔۔۔۔۔۔ سمیر کچھ بولنے والا تھا
”میری دوست کا میسج ہے اگر آپ کو کچھ چاہیئے ہو تو مجھے آواز دے دینا۔“رمشا نےتیزی اسکی بات کاٹی اور کچن سے باہر چلی گئی
*****
سدرہ کمرے میں میز پہ کتابیں پھیلائے نوٹس تیار کررہی تھی جو تقریباً مکمل ہو ہی چکے تھے۔ تب ہی کسی نے اچانک زور سے دروازے پہ دستک دی۔ اس نے چونک کہ دروازے پہ دیکھا پھر اٹھ کر دروازے کی طرف بڑھی۔
دروازے پہ مسلسل کوئی زور زور سے دستک دے رہا تھا اسنے دروازہ کھولا تو وہ سامنے کھڑا تھا غصے سے اسکی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔
”چارجر کہا ں ہے میرے فون کا “؟ وہ غصے سےبولا
”میرا چارجر خراب ہوگیا اس لیے تمہارے“ ۔۔۔۔ سدرہ نے ڈرتے ہوئے کہا
”کس سے پوچھ کہ لیا تو نے میرا چارجر“ ۔۔۔؟ اس نے غصے سے سدرہ کی بات کاٹی
سدرہ خاموشی سے اسکو دیکھ رہی تھی
”بول نا۔۔۔ اب گھور کیوں رہی ہے ، بول کس سے پوچھ کہ لیا تو نے“۔۔۔؟اس نے دونوں ہاتھوں سے سدرہ کو جھنجھورتے ہوئے کہا
سدرہ کی آنکھوں سے دو آنسو ٹوٹ کہ گرے
”تو نے ہاتھ کیسے لگایا میری چیز کو ؟ اب تو دیکھ میں کیاکرتا ہوں تیرے ساتھ“۔۔۔ اسنے غصے سے سدرہ کو چھورا اور اسکی کتابوں کے پاس آکر نوٹس اٹھائے
سدرہ فوراً اسکے پیچھے لپکی
”تیری ہمت کیسے ہوئی میری چیز کو ہاتھ لگانے کی؟ اب دیکھ تیری ساری کتابوں کا میں کیا حال کرتا ہوں“۔۔۔ اسنے ایک ایک کر کے نوٹس کے صحفے پھاڑنے شروع کر دئے
سدرہ کی ساری دن کی محنت اسکی آنکھوں کے سامنے برباد ہورہی تھی اور وہ کچھ نہیں کر سکتی تھی وہ بس خاموش کھڑی روتی رہی۔
”آئندہ اگر میری کسی چیزکو ہاتھ بھی لگایا نا تو اس سے برا حال کرونگا“۔۔۔ وہ غصے سے کہتا باہر چلا گیا۔
****
مسرت کسی کام سے بازار گئی ہوئی تھیں جب وہ گھر میں داخل ہوئی تو ہر طرف خاموشی تھی ۔
”سدرہ“ ۔۔۔۔ مسرت نےسدرہ کو آواز دی
”اتنی خاموشی کیوں ہے سدرہ کہاں ہے“ ؟ مسرت نے ملازمہ سے پوچھا
”جی وہ سدرہ بی بی اپنے کمرے میں ہیں“ ۔۔۔ ملازمہ نے جواب دیا
”اچھا تم یہ سامان اندر رکھو۔۔۔“مسرت نے ملازمہ کو سامان دیتے ہوئے کہا اور سدرہ کے کمرے کی طرف بڑھ گئیں
وہ اب اپنے نوٹس کےبکھرے ہوئے صفحوں کے سامنے گٹھنوں کے بل بیٹھی بے آواز رو رہی تھی۔وہ باربار اپنے آنسوں صاف کررہی تھی ، لیکن آنسوں تھے کہ تھم ہی نہیں رہے تھے
مسرت کمرے میں داخل ہوئی تو سدرہ کو دیکھ کر انکا دل پسیج گیا وہ فوراً اسکے پاس آکر بیٹھی۔
”سدرہ۔۔۔ میرا بچہ کیا ہوا ؟ رو کیوں رہی ہو“ ؟ انہوں نے سدرہ کو اپنے سینے سے لگایا
”کیا ہوا میرا بچہ بتاؤتو، اپنی نانی کو نہیں بتاؤگی کیا“؟ انہوں نے سدرہ کو پیار کرتے ہوئے پوچھا
”ک۔۔کچھ نہیں“ سدرہ نے کانپتے ہونٹوں سے کہا
”میرا بچہ مجھے بتاؤ نا بیٹا۔۔۔ کسی نے کچھ کہا ہے کیا تم کو “؟ مسرت نے سدرہ کے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا
وہ۔۔۔ بھائی ۔۔۔۔ ” سدرہ نے پھر سے مسرت کے گلے لگ کر رونا شروع کردیا
”نہیں سدرہ روتے نہیں ہیں۔ تم کو ﷲ پر بھروسہ ہے نا؟“انہوں نے پیار سے سدرہ کے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا
سدرہ نے ہاں میں سر ہلایا
” حضرت یوسف علیہ السلام کےبھائیوں نے انکو کنوئیں میں ڈال دیا تھا۔ اور حضرت یعقوب علیہ السلام کو بول دیا تھا کہ انکو بھیڑیا کھا گیا ہے ۔پھر حضرت یوسف علیہ السلام کو مصر کہ بازار میں بیچا گیا تھا۔ وہ سب سے دور تھے لیکن انکو اﷲ پہ بھروسہ تھا پھر انہیں بے گناہ ہونے کہ باوجود بھی قید خانے میں ڈال دیا گیا۔ قید خانے کی تنہائی اور اندھیرے میں بھی انہوں نے اﷲ کی ذات پہ بھروسہ رکھا اور اسی سے دعا کی۔ پھر ایک دن وہ قید سے رہا بھی ہوگئے اور انکی بےگناہی بھی ثابت ہوگئ اور اﷲ نے ان کو حضرت یعقوب علیہ السلام سے بھی ملا دیا ۔ “مسرت سانس لینے کے لیے رکیں۔
”بیٹا ایک نا ایک دن تو سب ٹھیک ہو ہی جاتا انسان کو کبھی ہمت نہیں ہارنی چاہیئے اور صبر کرنا چاہیئے اس طرح رونے سے سب بہتر نہیں ہوگا تم اﷲ سے دعا کرو اور اﷲ پہ بھروسہ رکھو جس نے یوسف علیہ السلام کے لیے سات دروازے کھولے تھے وہ تمہارے لیے بھی دروازے کھول دیگا۔“۔۔ مسرت نے اسکے سر پہ پیار کیا
سدرہ اب رو نہیں رہی تھی
”بیٹا آجاؤ ساتھ کھانا کھاتے ہیں“ ۔۔۔ مسرت نے اٹھتے ہوئے کہا
”نانی آپ جائیں میں ابھی آتی ہوں۔“۔۔ سدرہ نے بکھرے صفحوں کو سمیٹتے ہوئے کہا
”اچھا جلدی آنا“۔مسرت نے کہا اور کمرےسے نکل گئیں
اسنے وضو کرکے قرآن کھولا اور تلاوت کرنے لگی۔
”مومنوں خدا اور اسکے رسولﷺ کا حکم قبول کرو۔ رسول اﷲﷺ تمہیں ایسے کام کے لیے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی بخشتا ہے اور جان رکھو کہ خدا آدمی اور اسکے دل کے درمیان حائل ہوجاتا ہے اور یہ بھی کہ تم سب اسکے روبرو جمع کیے جاؤگے“۔ (سورتہ الانفال آیت: 24)
قرآن سے اسکے دل کو سکون مل رہا تھا۔ اسنے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے، آنسوں لڑی کی صورت میں آنکھوں سے جاری ہوگئے تھے۔ دعا کرتے کرتے وہ وہیں سو گئی۔
******
جاری ہے

0 تبصرے
ہم سے رابطہ کرنے کا شکریہ
ہم آپ سے بہت جلدی رابطہ کریں گے۔