رسم_حیات
از_خدیجہ_نور
قسط_نمبر_07
آخری_قسط
*****************وہ گھر آکر سیدھے اپنے کمرے میں گھس گئی۔ اسنے اپنے سر سے چادر اتار کر زور سے پھینکی اور پھر گرنے والے اندز میں فرش پر بیٹھ کر ہنسنے لگی۔ وہ زاروقطار ہنس رہی تھی۔وہ اتنا ہنسی کہ اسکی آنکھوں سے آنسو آنا شروع ہوگئے تھے۔ پھر وہ رونے لگی۔ روتے روتے وہ اچانک اٹھ کر واش روم میں چلی گئی۔ واش بیسن کے آگے اسنے خود کو مرر میں دیکھا۔ آنسو اب بھی اسکی آنکھوں سے جاری تھے۔ وہ نل کھول کر اپنے منہ پر پانی چھینٹے مارنے لگی۔ کچھ دیر بعد خود کو نارمل کرکے وہ روم میں آگئی اور دراز میں سے پیپر اور پین نکال کر ٹیبل پر رکھا اور ایک خط لکھنے لگی۔
اسلام وعلیکم !
بھائی جان ۔۔۔ آپکی بہن بہت بری ہے۔ بہت بری یا اس سے بھی زیادہ بری۔ میں نے اس انسان پر بھروسہ کرکے اپنی زندگی کی سب سے بری غلطی کردی۔ میں نے آپ سے جھوٹ بولا جس کی سزا مجھے ملی۔ اس انسان نے میری زندگی برباد کردی۔ میں نے آپکا بھروسہ توڑا، پاپا کا مان توڑا۔ اس انسان کے لیے جس نے مجھےاپنا اصلی نام تک نہیں بتایا۔ ہاں ۔۔۔ اسکا اصلی نام احمد نہیں, انس ہے۔ انس ہے,جس نے مجھے دھوکا دیا۔ آپ لوگوں نے جس کو اریسٹ کروایا ہے وہ احمد ہے سدرہ کا بھائی۔ ہاں ۔۔۔ اسی سدرہ کا بھائی جس سے آپ محبت کرتے ہیں۔ محبت تو میں نے بھی کی تھی۔ لیکن انس نے کبھی مجھ سے محبت نہیں کی۔ وہ تو مجھ سے تھپڑ کا بدلہ لےرہا تھا وہ بھی احمد کےنام سے۔ انس نے نا صرف مجھے بلکہ احمد کو بھی دھوکا دیا ہے۔ بھائی جان مجھے میری محبت نہیں ملی۔ اب میرے لیے زندہ رہنے کا کوئی مقصد نہیں۔ لیکن بھائی جان آپ پلیز اپنی محبت کو کچھ نہیں ہونے دینا۔ آپ سدرہ کو بہت خوش رکھنا اور اسکے بھائی احمد کو رہا کروادینا۔ مجھے یقین ہے کہ آپ سدرہ کو کوئی تکلیف نہیں دینگے اور سب کاخیال رکھیں گے لیکن یہ سب دیکھنے کے لیے میں یہاں نہیں ہونگی مجھے معاف کردی گا بھائی جان میں اب ایک اور گناہ کرنے جارہی ہوں لیکن اس گناہ سے مجھے تکلیف نہیں سکون ملےگا۔
اﷲحافظ
آپکی بہت بری بہن
رمشا
آنسو مسلسل اسکی آنکھوں سے نکل رہے تھے۔ اسنے خط لکھ کر لفافے میں ڈالا اور عبایا پہن کر اسکو پوسٹ کرنے چلی گئی۔
*************
عادل لاؤنج میں کھڑا سمیر سے کال پربات کررہا تھا۔ جب ہی رمشا اپنے کمرے سے نکل کر کچن کی طرف بڑھی۔ فرقان صاحب نے گھر کے سارے ملازموں کو چھٹی دی ہوئی تھی۔ عادل نے کال پر پربات کرتے ہوئے ایک نظر رمشا کو دیکھا جس کا چہرہ سپاٹ تھا۔ کچھ دیر بات کرنے کے بعد عادل نے کال کاٹ کر چکن کا رخ کیا۔ وہ ابھی کچن کے گیٹ پر ہی تھا کہ اندر کا منظر دیکھ کر اسکی روح کانپ گئی۔ وہ بے اختیار چلاتے ہوئے رمشا کی طرف بڑھا جو فرش پر نیم جان کی حالت میں پڑی ہوئی تھی۔ اسکے ایک ہاتھ میں چھری تھی۔ اسکی ہاتھ کی نس کٹی ہوئی تھی جس میں سے خون بہہ رہا تھا۔
”رمشا پاگل ہوگئی ہو کیا؟ یہ کیا کر دیا۔۔۔“؟ عادل نے چلاتے ہوئے کہا اور فوراً رمشا کو اٹھاکر کر باہر جانے لگا۔ لاؤنج میں عادل نے فوراً فرسٹ ایڈ باکس سے بیندیج نکال کر رمشا کے ہاتھ پر باندھی۔
”بھائی۔۔۔ اح۔۔احمد ۔۔ سدرہ کا ۔۔۔ بھائی“۔۔۔ رمشا کی آنکھیں بند ہورہی تھیں۔ اسکا ذہن اندھیرے میں ڈوب رہا تھا۔ عادل نے اسکو اٹھا کر کار میں بٹھایا اور فوراً ہسپتال کا رخ کیا۔ ڈرائیو کرتے ہوئے عادل نے فرقان صاحب اور سمیر کو فون کیا۔ وہ دونوں بھی ہسپتال پہنچ گئے۔ فرقان صاحب نے جب رمشا کو دیکھا تو ان کی طبيعت خراب ہوگئی۔ ان کے سینے میں اچانک درد اٹھا اور و زمین پر گر گئے۔ سمیر نے فوراً فرقان صاحب کو اٹھایا جبکہ عادل رمشا کو لےکر ہسپتال کے اندر لے کر جارہا تھا۔
************
وہ آپریشن تھیٹر کے باہر بینچ پر سر ہاتھوں میں گرائے بیٹھا تھا سمیر بھی اسکے برابر میں بیٹھا اسکو تسلیاں دے رہا تھا۔جب ڈاکٹر آپریشن تھیٹر سے باہر آئے عادل اور سمیر فوراً ان کی طرف بڑھے۔ لیکن ڈاکٹر نے معذرت کرلی۔ رمشا کی ڈیتھ ہوچکی تھی۔ اور فرقان صاحب کی حالت بھی بہت سریس تھی۔ عادل کسی آخری امید کے ساتھ فرقان صاحب کے روم کی طرف بڑھا لیکن ڈاکٹر وہاں بھی ناامید ہوچکے تھے۔ عادل پر جیسے قیامت ٹوٹ پڑی تھی۔ سمیر کو بھی جھٹکا لگا تھا۔ وہ عادل کو اب کس بات کی تسلی دیتا۔ عادل پوری طرح سے ٹوٹ چکا تھا۔
”بھائی۔۔۔ احمد۔۔۔ سدرہ ۔۔کا۔۔بھائی۔۔۔ہے“۔۔۔
رمشا کے الفاظ مسلسل عادل کے کان میں گونج رہے تھے۔
”اسنے میری بہن کو تکلیف دی ہے۔ میں اسے زندہ نہیں چھوڑوں گا۔ اسکی ساری خوشیاں چھین لونگا اس سے۔“عادل نے دل میں سوچا تھا۔
*****
رمشا اور فرقان صاحب کے کفن دفن کے بعد عادل نےسدرہ کے گھر جاکر مسرت سے سدرہ اور اپنے نکاح کی بات کرلی تھی اور تین دن بعد نکاح بھی کرلیا۔ اب وہ احمد کا سارا غصہ سدرہ پر وقتا فوقتانکال رہاتھا۔
*****
وہ بیڈ پر احمد کا ہاتھ تھام کر بیٹھی تھی۔ احمد اسکو سب کچھ بتا چکا تھا۔ آنسو مسلسل اسکی آنکھوں سے جاری تھے۔
”بھائی اتنا سب ہوگیا تھا۔ آپ نے مجھے کچھ بتایا بھی نہیں اور عادل نے بھی نہیں بتایا۔ کیا گزری ہے انکے دل پر یہ میرے ساتھ شیئر تو کرسکتے تھے نا“
”نہیں سدرہ رو نہیں دیکھو اب سب ٹھیک ہو جائے گا۔“ احمد نے سدرہ کو دلاسہ دیتے ہوئے کہا
”بھائی عادل کہاں ہیں؟ مجھے ان سے بات کرنی ہے۔“سدرہ نے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا
”وہ ابھی تھوڑی دیر میں آجائے گا تم آرام کرو۔ مجھے بھی اب نانی کے پاس گھر جانا ہے وہ گھر پر اکیلی ہونگی“۔ احمد نے سدرہ کے سر پر ہاتھ پھیرا اور پھر اٹھ کر جانے لگا۔ سدرہ آنسو صاف کرتی اپنے بھائی کو جاتا دیکھتی رہی۔ یہ وہی بھائی تھا جو چند مہینے پہلے سدرہ کو زچ کرتا تھا لیکن اب دل سے سدرہ کی فکر کررہا تھا۔
*******
شام ہو چکی تھی۔ ستارے آسمان پر جگمگارہے تھے۔ چاند بھی اپنی روشنی پھیلائے آسمان پر چمک رہا تھا۔ وہ کھڑکی کے سامنے کھڑی نم آنکھوں سے چاند کو دیکھ رہی تھی۔ شام کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں اسکی زلفو کو اڑارہی تھیں جن کو وہ باربار کان کے پیچھے اڑس رہی تھی۔ اب اسکو عادل کا انتظار تھا۔ اسکو پتا تھا کہ اب عادل کمرے میں آنے والا ہے اور ایسا ہی ہوا چند لمحے ہی گزرے ہوں گے کہ عادل دروازہ کھول کر کمرے میں داخل ہوا۔ سدرہ نے مڑ کر نہیں دیکھا۔ عادل اب آہستہ سے چلتے ہوئے اسکے قریب آیا۔ وہ بلکل اسکے پیچھے کھڑا ہوا تھا۔
”سدرہ“۔۔عادل نے نرمی سے اسکو پکارا۔
سدرہ جو اپنا نام عادل کے منہ سے سننے کے لیے ترس گئی تھی جیسے ہی عادل نے اسکو پکارا اسکی آنکھیں لبالب آنسوؤں سے بھر گئیں۔
”جی“۔۔۔ اسنے بنا پلٹے بھرائی ہوئی آواز میں کہا
”آئی ایم سوری“۔ اب عادل کا ضبط ٹوٹ چکا تھا مانا وہ مرد تھا مگر تھاتو ایک انسان ہی نا اسکے پاس دل بھی انسانوں والا ہی تھا اس وقت اسکو کسی اپنے کی تلاش تھی اور سدرہ کے علاوہ اس وقت کوئی اسکا اپنا نہیں تھا ا وہ روتے ہوئے بول رہا تھا۔
” مجھے معاف کردو پلیز سدرہ میں نے بہت برا کیا تمہارے ساتھ میں بدلہ لینے کے چکر میں اندھا ہوگیا تھا“۔
”عادل آپ ایسا نہیں بولیں پلیز عادل آپ ایسا نہیں بولیں۔ آپ کی کوئی غلطی نہیں ہے عادل“ ۔ سدرہ پلٹ کر عادل کو دیکھتے ہوئے کہا جو باربار آنسو صاف کررہا تھا۔
”میں اب کبھی تم پر ہاتھ نہیں اٹھاؤنگا کبھی بھی نہیں ۔ میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں سدرہ۔ مجھے معاف کردو“۔
”نہیں عادل آپ معافی نہیں مانگے پلیز آپکا حق ہے مجھ پر“۔ سدرہ کی آنکھوں سے دو آنسو ٹوٹ کر گرے۔
”سدرہ مجھے سب چھوڑ کر چلے گئے پلیز تم مجھے کبھی نہیں چھوڑنا“۔عادل نے سدرہ کو اپنے حصار میں لیتے ہوئے کہا
”عادل آپ ایسا کیوں بول رہے ہیں میں ہونں آپکے ساتھ اور ہمیشہ رہونگی“۔سدرہ نے عادل کے سینے پر سر رکھتے ہوئے کہا
عادل نے بہت محبت سےاسکو گلے لگا لیا۔
اب دونوں ایک دوسرے کے آنسو پونچھ رہے تھے دونوں کے غم تقریبا ایک جیسے ہی تھے۔
احمد جو سدرہ کا سگا بھائی ہوتے ہوئے بھی سوتیلوں کا سا رویہ رکھتا تھا وہ سدرہ کو جیتے جی مار دیتا تھا۔
اور
رمشا جو عادل کو اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز تھی وہ بھی اسے چھوڑ کر جا چکی تھی۔
دونوں اپنے اپنے غم ایک دوسرے سے شیئر کر رہے تھے۔
رات گزرتی جا رہی تھی غم دھلتے جا رہے تھے۔
دونوں ایک دوسرے کی ذات میں گم ہو چکے تھے۔
دور کھڑا چاند بھی ان دونوں کو دیکھ کے مسکرا دیا۔
***********
3 سال بعد۔
گھر مین ہر طرف رونق چھائی ہوئی تھی۔ مسرت نے آج سب ہی خاندان والوں کو گھر پر بلالیا تھا۔ کچن میں سے لذیذ لذیذ کھانوں کی خوشبوئيں آرہی تھیں۔ جب ہی چھوٹی سی ۲ سال کی گڑیا مسرت کی طرف دوڑتی ہوئی آئی۔
”نانو۔ نانو ۔۔ مما پاپا کب آئیں گے“؟ ابیہا نے مسرت کے گلے میں ہاتھ ڈالتے ہوئے کہا
”بس آنے والے ہونگے۔ تمہارے ماموگئے ہیں نا انکو ائرپورٹ لینے“۔ مسرت نے ابیہا کو گود میں اٹھاتے ہوئے کہا
اتنے میں سدرہ اور عادل احمد اور سمیر کے ساتھ مین ڈور سے داخل ہوئے مسرت فوراً انکی طرف بڑھیں۔
” السلام وعلیکم آگئے تم دونوں۔ عمرہ مبارک“۔ مسرت نے ابیہا کو گود سے اتارتے ہوئے کہا اور ابیہا فوراً عادل سے لپٹ گئی۔
”کیسی ہے میری چھوٹی سی گڑیا۔“عادل نے سلام کاجواب دینے کے بعد ابیہا کو پیار کرتے کرتےہوئے کہا ۔ سدرہ مسرت کے گلے لگ گئی ۔
سمیر کی بھی منگنی ہوچکی تھی۔ مسرت نے احمد کو جائداد میں سے اسکا حصہ دےدیا تھا اور اسکا ایک اچھی جگہ رشتہ طے کردیا تھا۔ اور اگلے مہینے احمد کی بھی شادی ہونے والے تھی۔ عادل اور سدرہ ابھی عمرہ ادا کرکے آئے تھے اور ان کی ایک چھوٹی سی بیٹی تھی جسکا نام ابیہا تھا۔ اب انکی فیملی ایک مکمل اور خوشحال فیملی تھی۔
******** *ختم شدہ* ********

0 تبصرے
ہم سے رابطہ کرنے کا شکریہ
ہم آپ سے بہت جلدی رابطہ کریں گے۔