ناول: محبت سزائے موت (قسط 4)

ناول : محبت سزائے موت
تحریر : از مہر خان
قسط نمبر 4

آج بهی خان پیلس بہت خوبصورت سجایا گيا تها
فلک نے لال اور سفيد رنگ کا لہنگا پہنا تها اور اور ہلکا سا میک اپ کيا ہوا تها اور ہم رنگ جیولری پہنی ہوئی تهی فلک آج بہت خوبصورت لگ رہی تهی 
عمر نے بهی سفيد رنگ کا کلف کاٹن کرتے پہ لال رنگ کی واس کوٹ پہنی تهی جس ميں وہ بہت ہنڈسم لگ رہا تها
بارات مغرب کے بعد آنی تهی اور ابهی عشاء کی اذان ہورہی تهی 
سب بارات کا انتظار کر کر کے تھک چکے تهے ليکن بارات کے آنے کا کچھ پتہ ہی نہيں تها
آخر کار بارات تو نا آئی ليکن مختیار صاحب کا پیغام ضرور آگيا تها
"بابا جان مختیار انکل کی کال آئی ہے وہ آپ سے کوئی ضروری بات کرنا چاہتے ہيں"وقاع صاحب نے ہال ميں آکر کہا
"ہم سب بہت شرمندہ ہيں ہم بارات نہيں لا سکتے زید آج صبح سے گهر سے غائب ہے ہم نے اسے پورے گاؤں ميں ڈھونڈ ليا مگر وہ نا ملا ہم آپ سب سے معذرت خواہ ہے اللہ حافظ"مختیار صاحب نے شکستہ لہجے ميں کہا

جب فرقان صاحب نے ہال ميں سب کو مختیار صاحب کا پیغام سنایا تو ہر طرف سناٹا چھا گيا فوزیہ کا تو رو رو کر برا حال تها اور فلک اسے چپ کروانے کی کوشش کررہی تهی
وقار صاحب نے سب مہمانوں سے معذرت کرکے انہیں روانہ کردیا تھا
خان پیلس میں ہر طرف گہرا سناٹا تھا
♥♥♥♥♥♥♥♥♥♥♥
وقت پر لگا کے اڑ گيا اس واقعے کو اب دو سال گزر چکے تهے
فوزیہ کی شادی کامران کے دوست ندیم سے ہوئی تهی اور اللہ نے فوزیہ کو اپنی نعمت سے بهی نوازا تها

خان پیلس کا کوئی بهی فرد اب جہانگير پیلس کے کسی بهی فرد سے نہيں ملتا تها دونوں گھرانوں ميں آنا جانا بلکل ختم ہو گيا تها

اب تو سب اس واقعے کو بھول چکے تهے
کل رات عمر امریکا سے واپس آیا تها اور فلک کب سے 
سلمہ کے پیچھے لگی ہوئی تهی کہ وہ بازار کا بہانہ بنا کے فلک کو عمر سے ملوانے لے جائيں
"فلک ضد مت کرو.....کسی کو پتہ چل گيا نا تو تمہارے ساتھ ساتھ ميں بهی پھس جاؤں گی"سلمہ نے جان چھڑانے والے انداز ميں کہا
"بھابھی آپ بھول رہی ہيں ميں بهی آپ کی اور بھائی کی چھپ چھپ کر ملاقات کرواتی تهی"فلک نے دھمکی دینے والے انداز ميں کہا
"فلک تم مجهے بلیک میل کررہی ہوں.........ویسے بهی اب کامران ميرے شوہر ہيں"سلمہ نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا
"بھابھی ميں بلیک میل نہيں کررہی ميں تو آپ سے گزارش کررہی ہوں.........عمر دو سال بعد آیا ہے اور اس نے مجهے ملنے بلایا ہے........پلیز بھابھی"فلک نے روہاسنی ہوتے ہوئے کہا
"اچها اچها.....چلو ليکن جلدی مل لینا ہميں مغرب سے پہلے گهر آنا ہوگا......جلدی سے تیار ہو جاؤں ميں خالہ کو بتاکر آتی ہوں"سلمہ نے کمرے سے نکلتے ہوئے کہا
❄❄❄❄❄❄❄❄❄❄❄❄❄❄❄❄
"فلک اتنی دیر لگادی تم نے آنے ميں...ميں کب سے تمہارا انتظار کررہا تها"عمر نے بےتابی سے کہا
"اتنی مشکل سے بھابھی کو مناکر لائی ہوں"فلک نے جواب دیا
"اچها جلدی سے آنکهيں بند کرو"عمر نے فلک کی آنکهوں پہ ہاتھ رکھتے ہوئے کہا
"مجهے پتہ ہے تم ہميشہ کی طرح دھکا دے کر بھاگ جاؤں گے"فلک نے عمر کا ہاتھ ہٹاتے ہوئے کہا
"فلک وہ بچپن کی بات ہے......اور تمہيں لگتا ميں تم سے اتنے وقت کے بعد مل رہا ہوں اور ایسی بچکانی حرکت کروں گا"عمر نے بھنویں اچکاتے ہوئے کہا
"اچها....."فلک نے آنکهيں بند کرتے ہوئے کہا
عمر نے اپنی جیب ميں سے ایک بہت خوبصورت لاکٹ (جس ميں دل کے اندر ایف اور اے لکھا ہوا تها)فلک کے گلے ميں پہنایا
"فلک آنکهيں کھولو"عمر نے لاکٹ پہناتے ہوئے کہا
"واو یہ تو بہت خوبصورت ہے"فلک نے لاکٹ کو دیکهتے ہوئے کہا
"شکریہ میڈم"عمر نے مسکراتے ہوئے کہا
"عمر وہ دیکهو مجهے گول گپے کھانے ہے"فلک نے گول گپے کے اسٹول کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا
"تمہيں تو ہر وقت کھانے کی ہی لگی رہتی ہے...بھوکی....
اتنا کھاتی ہوں پھر بهی لکڑی جیسی ہوں"عمر نے شرارت سے کہا
"ميں جارہی ہوں تمہيں کھانے ہو تو آجانا"فلک کہتے ہوئے اسٹول کی طرف بڑھی
عمر بهی مسکراتا ہوا اس کے پیچھے چل دیا
❄❄❄❄❄❄❄❄❄❄❄❄❄❄❄❄
"بھابھی یہ دیکهيں عمر نے مجهے دیا ہے"گھر آکر فلک نے سلمہ کو لاکٹ دیکھاتے ہوئے کہا
"یہ تو بہت پیارا ہے اللہ تم دونوں کو خوش رکھے"سلمہ نے فلک کو پیار کرتے ہوئے کہا
"بھابھی عمر کہہ رہا تها وہ کل اپنے گهر والوں کو بھیجے گا ہماری شادی کی ڈیٹ فکس کرنے"فلک نے خوش ہوتے ہوئے کہا
"سلمہ..."صدف بیگم نے سلمہ کو آواز دی
"خالہ بلارہی ہيں ميں تم سے بعد ميں بات کرتی ہوں"سلمہ فلک کو کہتے ہوئے نیچے چلی گئی
❄❄❄❄❄❄❄❄❄❄❄❄❄❄❄❄
"دادا جان آپ ميری شادی کی ڈیٹ فکس کرنے کب جائيں گے"سب کھانا کھانے ميں مصروف تهے جب عمر نے مختیار صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا
"عمر کيا تمہيں لگتا ہے زید نے جو فوزیہ کے ساتھ کيا اس کے بعد وہ فلک کو اس گهر کی بہو بنائیں گے"مختیار صاحب نے سادھے لہجے ميں کہا
"دادا جان اگر انہيں میری اور فلک کی شادی سے کوئی اعتراض ہوتا تو وہ یہ منگنی دو سال پہلے ہی ختم کردیتے"عمر نے ادب سے کہا
"عمر ميں تمہيں ایک بات بتادوں ميں سب کچھ برداشت کر سکتا ہوں مگر کوئی میری بےعزتی کرے یہ بلکل بهی نہيں اگر فارق نے یا اس کے گهر ميں سے کسی نے بهی کچھ بهی کہا تو.....یہ یاد رکهنا فلک میرے گهر کی بہو کبھی نہيں بنے گی"مختیار صاحب نے عمر کو سمجھانے والے لہجے ميں کہا
اور سب اپنے کھانے کے ساتھ انصاف کرنے ميں مصروف ہوگئے
پوری رات فلک اور عمر ایک دوسرے کے بارے ميں سوچتے رہے اور شدت سے صبح ہونے کا کررہے تهے

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے