ناول: محبت سزائے موت (قسط 3)

ناول : محبت سزائے موت
تحریر : از مہر خان
قسط نمبر 3

اور عمر کا حال بهی فلک سے کم نا تها
دروازے پہ دستک ہوئی
"کون ہے؟"مہک نے ڈائری بند کرتے ہوئے پوچها
"مہک بی بی آپ کو سلمہ بی بی کھانے پہ بلارہی ہيں" ملازمہ نے جواب دیا
"اچها تم جاؤں ميں آرہی ہوں"مہک نے ڈائری سائیڈ ميں رکھتے ہوئے کہا
"جی ٹهيک ہے"ملازمہ نے جاتے ہوئے کہا
مہک کمرے سے باہر آئی تو سب ڈائینگ ٹیبل پر بیٹھے تهے
وہ بهی چپ چاپ اپنی جگہ پر آکر بیٹھ گئی
سب خاموش تهے 
مہک کھانے کے دوران بهی صرف فلک کے بارے ميں سوچ رہی تهی
"فلک مما اور عمر بابا کا رشتہ تو سب کی مرضی سے طے ہوا تها تو ایسا کيا ہوا تهاکہ دادا جان ان کا نام بهی لینا پسند نہيں کرتے اور فوزیہ پھوپھو فلک مما سے اتنی نفرت کیوں کرتی ہيں"
سب کھانا کھانے کے بعد اپنے اپنے کمروں ميں چلے گئے
مہک بھی اپنے کمرے ميں جارہی تهی کہ پیچھے سے شہزاد کی آواز آئی
"مہک روکا"شہزاد نے پیچھے سے مہک کے کندھے پر ہاتھ رکهتے ہوئے کہا
"شہزاد مجهے تم سے کوئی بات نہيں کرنی"مہک نے بنا پیچھے مڑے کہا اور اپنے کمرے ميں چلی گئی
⭐⭐⭐⭐⭐⭐
آج ميں بہت اداس ہوں آج عمر کو گئے ہوئے گیارہ مہينے ہوگئے ہيں ایسا لگتا ہے میری تو آنکهيں ترس گئی ہيں عمر کو دیکهنے کے ليے ان گیارہ مہينوں ميں ہم کبهی کبهی سب کے سونے کے بعد ٹیلیفون پر بات کرلیتے ہيں
اب بس ایک مہينے بعد عمر واپس آئے گا فوزیہ آپی اور زید بھائی کی شادی ميں دل چاہ رہا ہے جلدی سے یہ ایک مہينہ گزر جائے اور عمر ميرے سامنے ہوں❤

آج کامران کی منگنی تهی اپنی خالہ زاد سلمہ سے سب بہت خوش تهے خاص طور پر کامران اور سلمہ.....فلک کی بهی خوشی کم نہ تهی فلک کو بچپن سے سلمہ بہت پسند تهی اور کامران اور سلمہ کی جوڑی بهی بہت خوبصورت لگ رہی تهی........کامران اور سلمہ کی شادی ایک مہينے بعد 
کی طے پائی تهی فوزیہ کی مہندی والے دن کامران کا نکاح تها
اور ایک مہينہ پر لگا کے اوڑھ گيا 
آج فوزیہ کی مہندی اور کامران کا نکاح تها 
آج کا فنکشن خان پیلس کے گارڈن ميں رکها گيا تها گارڈن کو بہت خوبصورت سجایا گيا تها
آج فلک بہت خوبصورت لگ رہی تهی اس نے نارنگی اور پیلے رنگ کا لہنگہ پہنا تها اور بالوں کی آگے کرکے چوٹیاں بنائی تهی اور کانوں ميں ہم رنگ چھوٹے آویزے پہنے تهے اور میک اپ کے نام پر بس ہونٹوں پہ نیچرل پینک کلر کا لپ لو لگایا تها وہ بہت خوبصورت لگ رہی تهی
عمر آج شام ہی امریکا سے آیا تها اس نے پیلے رنگ کا کرتا پہنا تها جو اس پہ بہت جچ رہا تها
پہلے کامران اور سلمہ کا نکاح ہوا اور پهر ان دونوں کو اسٹیج پر بٹھایا گيا.....
زید اور فوزیہ کو اسٹیج پر بیٹھاکر ساری رسمے کی گئی
عمر کب سے فلک کو ڈھونڈ رہا تها کیونکہ ان دونوں ميں شرط لگی تهی کہ پہلے کون کس کو ہلدی لگائے گا......مگر فلک اسے کہی نہيں دیکھی تهی 
"آمنہ بوا آپ نے فلک کو کہی دیکها ہے؟"عمر نے ملازمہ سے پوچها
"عمر بابا وہ چھت پر ہيں"ملازمہ نے جواب دیا
"اچها"عمر اپنے ہونٹوں پہ شیطانی مسکرائٹ ليے سڑھیوں کی طرف بڑھا
جیسے ہی عمر نے چھت کی آخری سڑھی پر قدم رکها ہلدی سے بھرا ہوا پیالا فلک نے عمر کی طرف پھینکا 
عمر جو کب سے سوچ رہا تهاکہ فلک اس سے چھپ کر چھت پر بیٹھی ہيں تاکہ وہ اسے مہندی نہ لگا سکے ایک دم سے اس ردعمل پہ غصے ميں آگيا
"یہ کيا حرکت تهی فلک میرا پورا کرتا خراب ہوگيا"وہ غصے سے کہتا ہوا ہال کی طرف بڑھا
"عمر ميں تو مذاق کررہی تهی"فلک نے معصومیت سے کہا
"عمر میری بات تو سنو؟"
"عمر؟"
"عمر رکو "
فلک پیچھے سے آوازیں دیتی رہ گئی ليکن عمر نے اس کی ایک نا سنی
جب فلک ہال ميں پہنچی تو مختیار صاحب کی فیملی کی روانگی جہانگير پیلس کی تهی
"عمر کہاں تهے تم؟اور یہ کيا ہوا ہے تمہارے کپڑوں کو؟"کاشف صاحب نے عمر کے ہلدی والے کرتے کو دیکهتے ہوئے کہا
فلک نے التجائیہ نظر سے عمر کو دیکھا
''ميں تو یہی تها اور ایک بدتمیز بچے نے کپڑے خراب کردئیے گهر جاکے صاف کرلو گا اب چلیں""عمر فلک کو غصے سے گھورتا ہوا چلا گيا
فلک پوری رات روتی رہی اور عمر کو کال کرتی رہی مگر مجال ہے عمر نے کال پک کی ہو
فلک فجر کی نماز پڑھ کر لیٹی اور ناجانے کب نیند کی وادیوں ميں کھوگئی
چھ بجے عمر کھڑکی کے راستے سے فلک کے کمرے ميں آیا اس نے دھیرے سے فلک کے چہرے پر سے چادر ہٹائی تو دیکھا فلک کی آنکھیں رونے کی وجہ سے سوجی ہوئی تھی
فلک کو کسی کی موجودگی کا احساس ہوا تو اس نے آنکھیں کھولی اپنے پاس کسی کو کھڑا پایا تو چیخنے ہی والی تھی کہ عمر نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھا
"فلک میں ہو عمر چلاؤں مت ورنہ سب آجائیں گے"عمر نے اپنا ہاتھ ہٹاتے ہوئے کہا
"تم......تم یہاں کیا کررہے ہو؟تم آئے کہاں سے میرے کمرے کا تو دروازہ لاک تھا؟"فلک نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا
کھڑکی سےعمر نے اطمینان سے کہا
"کھڑکی سے! پاگل تو نہیں ہو کچھ ہوجاتا تو"فلک نے غصے سے کہا
"کچھ ہوا تو نہیں نا اور یہ دیکھو"عمر نے کہتے ہوئے اپنے پیچھے چھپاہی ہوئی ہلدی فلک کے منہ پر لگادی
"عمر....."فلک نے عمر کو گھورا
"تمہاری آنکھیں کیوں سوجی ہوئی ہیں فلک تم روئی تھی"عمر نے فکریہ لہجے میں کہا
"تم مجھ سے ناراض کیوں ہوگئے تھے تم جانتے ہو نا میں تم سے کتنی محبت کرتی ہو"فلک نے روتے ہوئے کہا
"فلک ميں تو مذاق کررہا تها...ميں تم سے کبھی ناراض ہوسکتا ہوں"عمر نے فلک کے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا
دروازے پر دستک ہوئی
"کون ہے؟"فلک نے گھبراتے ہوئے پوچها
"فلک ميں ہوں دروازہ کھولو"صدف بیگم نے کہا
"اوہ شٹ ماما عمر تم جلدی سے الماری ميں چھپ جاؤں اگر کسی کو پتہ چل گيا تو عذاب آجائے گا"فلک نے خوف سے گھبراتے ہوئے کہا
"فلک دروازہ کھولنے ميں اتنی دیر کیوں لگادی اور یہ تمہارے چہرے پر ہلدی کیوں لگی ہوئی ہے"صدف بیگم نے کمرے ميں داخل ہوتے ہوئے کہا
"ماما ميں سورہی تهی اور....وہ...ہاں ميں نے سوچا اچها ہے ميرے چہرے پر بهی تھوڑا نکھار آجائے گا"فلک نے خود پر قابو پاتے ہوئے کہا
"میری بیٹی تو ایسے ہی اتنی پیاری ہے"صدف بیگم نے فلک کو پیار کرتے ہوئے کہا
"ماما آپ کو کوئی کام تھا"فلک نے سوال کيا
"ہاں یہ کپڑے ميں نے سوچا تمہاری الماری ميں رکھ دوں"صدف بیگم نے الماری کی طرف بڑھتے ہوئے کہا
"ماما آپ یہاں رکھ دیں ميں خود رکھلوگی"فلک نے گھبراتے ہوئے کہا
"نہيں ميں رکھلوگی تم جلدی سے تیار ہوجاؤں"صدف بیگم نے الماری کا دروازہ کھولتے ہوئے کہا
"ماما......"فلک چیخی
"کہا ہوا چیخ کیوں رہی ہوں"صدف بیگم نے فلک کو دیکهتے ہوئے کہا 
"ماما آپ کو نیچے کوئی بلا رہا ہے"فلک نے گھبراتے ہوئے کہا
"اچها ميں جارہی ہوں تم یہ کپڑے رکھ کر جلدی نیچے آؤ"صدف بیگم کہتے ہوئے دروازے کی جانب بڑھی
فلک نے فورا دروازہ بند کرکے سکون کا سانس لیا
"عمر جلدی نکلو"فلک نے الماری کا دروازہ کھولا
"یہ کتنا اچها سوٹ ہے یہ ميں لے لو"عمر نے فلک کی میکسی کو دیکهتے ہوئے شرارت سے کہا

"عمر تمہيں مذاق آرہا ہے اگر دادا جان کو پتہ چل گيا نا تو ہم دونوں کو پھانسی پہ چڑها دیں گے....گاؤں کا قانون ہے اگر دو لڑکا لڑکی ایک دوسرے سے محبت کرتے ہيں تو انہيں سزائے موت سنائی جاتی ہے یہ تو شکر ہے بڑوں نے ہی ہمارا رشتہ طے کردیا"فلک نے بنا رکے کہا
بس بس تم تو لیکچر دینے ہی بیٹھ گئی....اچها ميں جارہا 
ہوں....رات ميں ملتے ہيں"عمر کہتا ہوا کھڑکی کی طرف بڑها
عمر کے جاتے ہی فلک تیار ہو کر نیچے چلی گئی
جاری ہے

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے