ناول : محبت سزائے موت
تحریر : از مہر خان
قسط نمبر 2
"سلمہ بی بی آپ کو بڑے صاحب بلارہے ہيں"ملازمہ نے پیغام دیا
سلمہ بیگم اور مہک ٹی وی ہال ميں آئے جہاں پہلے سے سب موجود تهے
"بولو کامران تمہيں کيا بات کرنی تهی؟"
"بابا ميں چاہتا ہوں آپا مہک کو شہزاد کی دلہن بنا لیں" "کامران صاحب نے ادب سے کہا
ایسا کبھی نہيں ہوسکتا"وقار صاحب نے گرجدار آواز ميں کہا
"کیوں نہيں ہوسکتا آخر کيا کمی ہے ميری مہک ميں" کامران صاحب نے دھیمے لہجے ميں کہا
"بابا ميں تو کہتی تهی اس کو کسی یتیم خانے ميں دےدیں مجهے پتہ تها یہ بهی بڑی ہوکر اپنی ماں کی طرح گل کہلائے گی"فوزیہ بیگم نے نفرت سے مہک کو دیکھتے ہوئے کہا
"آپا...."کامران صاحب نے ضبط کرتے ہوئے کہا
"کامران تیز چلانے سے حقيقت نہيں بدل جائے گی....اور یہ سب تمہاری غلطی ہے تمہيں ہی انس سال پہلے ناجانے کونسی محبت جاگی تهی لو اب بھگتو"فوزیہ بیگم نے طنزیہ لہجے ميں کہا
"آپا بس کردیں پہلے بهی آپ کی نفرت ميری فلک کو کھا گئی ليکن ميں مہک پر ایک انچ نہيں آنے دوں گا یہ ميں نے وعدہ کيا تها فلک سے'کامران صاحب نے اداس لہجے ميں کہا
"بس کردو بہت ہوگيا تم کس لہجے ميں فوزیہ سے بات کررہے ہوں صرف تمہاری ضد کی خاطر ہم نے اس لڑکی کو اپنے گهر ميں رہنے کی اجازت دی تهی اور ميں نے منع کيا تها اس گهر ميں کوئی بهی کبھی بهی اس بدذات کا نام نہيں لے گا"وقار صاحب نے گرجدار آواز ميں کہا
"بابا بہت ہوگيا آپ نے انس سال پہلے بهی چیخ کر مجهے چپ کروادیا تها ليکن آج نہيں اگر انس سال پہلے ميں نے تھوڑی ہمت کی ہوتی تو آج ميری فلک زندہ ہوتی خوش ہوتی آپ کی انا اور آپا آپ کے انتیقام کی آگ ميں میری فلک جل کے راگ ہوگئی آپ دونوں قاتل ہيں میری فلک کے"کامران صاحب نے تیز آواز ميں کہا اور دو موتی ان کی آنکھ سے ٹوٹ کر زمين پر گرے
ایک زوردار تھپڑ وقار صاحب نے کامران صاحب کے منہ پر رسید کيا
کامران صاحب نے بے یقینی سے اپنے باپ کو دیکھا
ہال ميں خاموشی چھاگئی تهی جسے کامران صاحب کی آواز نے توڑ
"کاش ميں انس سال پہلے بهی تھپڑ کھا کے چپ نہ ہوتا تو آج ميری فلک زندہ ہوتی کاش"کامران صاحب نے دکھ سے کہا
"پاپا پلیز چلے یہاں سے"مہک نے روتے ہوئے کہا
"مہک بیٹا تم جاؤں یہاں سے مجهے بات کرنے دو کچھ بهی ہوجائے ليکن ميں تمہيں تمہارے حصے کی ساری خوشياں دوں گا"کامران صاحب نے محبت سے مہک کے سر پہ ہاتھ رکهتے ہوئے کہا
"پاپا ميرے ليے آپ سے بڑھ کر کچھ بهی نہيں ہے اور آپ کے خاطر ایسے ہزاروں شہزاد قربان ہے"مہک نے وقار صاحب کو دیکھتے ہوئے کہا اور کامران صاحب کو لے کر وہاں سے چلی گئی
⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐
کمرے ميں مکمل خاموشی تهی
کامران صاحب نظریں جھکائے کرسی پر بیٹھے تهے مہک ان کے قدموں بیٹھ کر اپنا سر ان کے گھٹنوں پہ رکها ہوا تها اور سلمہ بیگم کونے ميں کھڑی تهی
"پاپا مجهے کچھ نہيں چاہيے ميرے ماں باپ کون تهےکہاں ہيں مجهے کچھ نہيں جانا......ميں تو بس اتنا جانتی ہوں کے اللہ نے مجهے آپ اور مما جیسے بےانتہا محبت کرنے والے ماں باپ دیے ہيں اور ان کی محبت پر ہزاروں شہزاد قربان ہيں بس ميں چاہتی ہوں آپ ہميشہ سر اٹها کر چلیں کبھی یوں نظریں نہ جھکائے"مہک نے کہہ کر سر اٹھا کر کامران صاحب کو دیکھا جو ابھی بهی نظریں جھکائے بیٹھے تهے
"پاپا کيا ہوگيا ہے آپ کو پلیز دیکھیے میری طرف"مہک نے ان کے ہاتھ کو محبت سے تھامتے ہوئے کہا
تو انہوں نے مہک کو گلے سے لگا کر خوب روئے
"مہک ميں چاہتی ہوں تم اپنی ماں کے بارے ميں سب جانو! یہ ڈائری فلک کی ہے اس ميں وہ اپنے دل کی ہر بات لکھتی تهی"سلمہ بیگم نے مہک کو ڈائری تھماتے ہوئے کہا
مہک نے ڈائری کو دیکھا جو بہت خوبصورتی سے سجائی گئی تهی ليکن بہت پرانی تهی اس کی حالت دیکھ کر آسانی سے بتایا جاسکتا تهاکہ اسے کہی سالوں سے کسی نے ہاتھ تک نہيں لگایا
مہک نے ڈائری کھولی جس ميں بہت خوبصورتی سے پہلے صفے پر "فلک" لکها ہوا تها
"مما یہ ميں اپنے کمرے ميں جاکر پڑھ لوں"یہ کہہ کر مہک اپنے کمرے کی طرف بڑھی
مہک نے بیڈ پر بیٹھ کر ڈائری پڑھنا شروع کی
⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐
"ميں فلک وقار خان"
فارق صاحب اپنےگاؤں کے بڑے زمينداروں ميں سے ایک تهے وہ ایک مغرور اور اناپرست انسان تهے..........فارق صاحب کے دو بیٹے تهے بڑا بیٹا فرقان اور چھوٹا بیٹا وقار فارق صاحب نے اپنے دونوں بیٹوں کی شادی اپنی بھانجیوں سے کی تهی.........فرقان صاحب کو اللہ نے اپنی رحمت(فوزیہ) سے نواز تها اور وقار صاحب کو اللہ نے نعمت(کامران) سے نوازا تها ليکن وقار صاحب کو پہلی بیٹی کی خواہش تهی انہيں بہت دعائيں اور منتوں کے چار سال بعد اللہ نے ایک بیٹی دی فلک.........فلک اس ليے سب کی بہت لاڈلی تهی اور سب سے زیادہ کامران کی کامران تو اپنی چھوٹی بہن پر جان چھڑکتا تها اور فلک بهی اپنے بھائی کی دیوانی تهی..........جب فوزیہ پانچ کی تهی تو فرقان صاحب اپنی بیگم کے ساتھ ایک روڈ اکسیڈینٹ ميں اپنے خالق حقیقی سے جاملے...........فوزیہ بہت چھوٹی تهی تو وقار صاحب نے اس کے سر پر ہاتھ رکها اور فاہزہ بیگم نے اسے ممتا کا پیار دیا جب فلک صرف ایک سال کی تهی اس ليے وہ سمجھتی تهی کہ فوزیہ اس کی سگی بہن ہے کیونکہ کبھی ان تینوں ميں وقار صاحب نے فرق نہيں کيا تها...........مختیار جہانگير اور فارق خان دونوں گاؤں کے بڑے زميندار تهے اور ان کی دوستی بهی
بہت پرانی اور گہری تهی دونوں گهروں ميں بہت آنا جانا تها
مختیار جہانگير کا صرف ایک بیٹا تها کاشف جہانگير......کاشف جہانگير کی شادی مختیار جہانگير نے اپنے بھائی کی بیٹی سے کی تهی اللہ نی کاشف جہانگير کو دو بیٹے دیں تهے بڑا بیٹا زید اور چھوٹا بیٹا عمر......پہلا بیٹا کامران کا ہم عمر تها اور دوسرا بیٹا فلک کا ہم عمر تها
زید بہت سنجيدہ تها وہ کم ہی کسی سے بات کرتا تها اس کے برعکس عمر بہت ہی شرارتی اور باتونی تها
فوزیہ ہر وقت زید کے آگے پیچھے گھومتی ریتی تهی جب کے زید اس کی طرف دیکهتا بهی نہيں تها
فلک اور عمر بچپن سے گہرے دوست تهے
خان پیلس اور جہانگير پیلس ميں ہر وقت فلک اور عمر کی آواز گونجتی رہتی تھی
وقت اپنی رفتار کے ساتھ دوڑ رہا تها
عمر اور فلک کی دوستی اب چاہت کے رنگ ميں ڈھلتی جارہی تهی
آج فلک کی خوشی دیکهنے لائق تهی اس کے تو خوشی سے پاؤں زمين کو ہی نہيں چھورہے تهے
آج مختیار جہانگير اپنی دوستی کو رشتےداری ميں بدلنے آئے تهے
مختیار جہانگير اپنے دونوں پوتوں کا رشتہ فارق خان کی دونوں پوتیوں کے ليے لے کر آئے تهے
زید اور فوزیہ کی شادی ایک سال بعد کی طے کی تهی جبکہ عمر اور فلک چھوٹے تهے اس ليے صرف ان دونوں کی منگنی کی تهی وقار صاحب تو منگنی کے بهی حق ميں نہيں تهے ان کا کہنا تهاکہ فلک ابهی چھوٹی ہے ليکن مختیار جہانگير چاہتے تهے کہ ابھی ان دونوں کی منگنی ہوجائے اس ليے آج فلک نے عمر کے نام کی آنگوٹھی پہن لی تهی فلک اور عمر کے تو دل کی سب سے بڑی خواہش پوری ہوگئی تهی
اس منگنی سے سب خوش تهے سوائے زید کے
عمر تین سال پڑهنے کے ليے امریکا جا رہا تها
دونوں ہی بہت اداس تهے عمر امریکا جا چکا تها اور پوری رات فلک روتی رہی تهی ہیہی سوچ سوچ کر کے وہ کیسے رہے گی تین سال تک بنا عمر کو دیکھے
جاری ہے
0 تبصرے
ہم سے رابطہ کرنے کا شکریہ
ہم آپ سے بہت جلدی رابطہ کریں گے۔