جنت کے پتے از نمرہ احمد (قسط 9)


ناول؛ جنت کے پتے
قسط 09


چوکهٹ میں کهڑا شخص چهوٹے چهوٹے قدم اٹهاتا، اس کی طرف بڑهنے لگا۔
حیا نے نیم اندهیرے میں آنکهیں پهاڑ پهاڑ کر وہ تختی پڑهی۔
"سکندر شاه" اس نے بے اختیار رینک دیکها۔ وه کرنل کی نشاندہی کر رہا تها۔
وہ شرٹ ہاتھ میں پکڑے کسی الجهن میں گرفتار پلٹی اور ایک دم جهٹکے سے پیچهے ہٹی۔
اس کے عقب میں جہاں نہیں تها۔ وه کوئی اور تها۔
دراز قد، کنپٹیوں اور پیشانی سے جهلکتے سفید بال، سخت نقوش، نائٹ گاؤن میں ملبوس، وه کڑی نگاہوں سے اسے دیکهتے قریب آ رہے تهے۔
وه سانس روکے انہیں دیکهے گئی۔
وه عین اس کے سر پر آۓ، اور ایک جهٹکے سے اسکی گردن دبوچی۔
"میری جاسوسی کرنے آئی ہو؟" 
اسکے گلے کو دبوچتے وه غراۓ تھء۔
بے اختیار اس کے لبوں سے چیخ نکلی۔ شرٹ اس کے ہاتھ سے پهسل گئی۔ اس نے اپنی انگلیوں سے گردن کے گرد جکڑے ان کے ہاتھ کو ہٹانے کی کوشش کی، مگر بے سود۔
"پاکستانیوں نے بهیجا ہے تمہیں؟ اپنے مالکوں کو بولو، انہیں بلیو پڑنٹس کبهی نہیں ملیں گے۔
"چهوڑیں مجهے۔" وه زور سے کهانسی۔ اس کا دم گهٹنے لگا تها۔ وه اس کا گلا دبا رہے تهے۔
"کوئی مجھ تک نہیں پہنچ سکے گا، کبهی نہیں، ہر چیز آگے دے دی گئی ہے، ہر چیز۔" انهوں نے اسے گردن سے دبوچے اس کا سر کهلے صندوق پہ جهکایا۔ وه تڑپنے، چلانے لگی۔
"چهوڑیں مجهے۔" وه اپنے ناخن ان کے ہاتھ میں چبهو کر ان کو ہٹانے کی ناکام سعی کر رہی تهی۔
"تمہیں واپس نہیں جانے دوں گا۔ وه بلیو پڑنٹس تمہیں کبهی نہیں ملیں گے"
حیا کا سانس رکنےلگا۔ وه اس کا سر صندوق میں دے کر اوپر سے ڈھکنا بند کر رہے تھے، اسے لگا وه مرنے والی ہے۔
"امی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امی۔۔۔۔۔۔۔!" وه وحشت سے چلانے لگی۔ وه اس کو گردن سے دبوچے، اس کا سر منہ کے بل اندر دے رہے تهے۔ گرد سے اٹے صندوق میں اسکا سانس اکهڑنے لگا۔
*
چھوڑیں۔"دھاڑ سے دروازہ کھلا اور کوئی غصے چلاتا اندر آیا۔ اس کی گردن کے گرد جکڑےہاتھ کو کھینچ کر الگ کیا اور ادھ کھلا ڈھکن پورا کھول کر دوہری ہو کر اوندھی جھکی حیا کو بازو سے پکڑ کر پیچھے ہٹایا۔
"کیا کر رہے تھے آپ؟ وہ آپ کی بیٹی کی طرح ہے، ایک بات میری دھیان سے سنیں۔ آئندہ اگر آپ نے اسے نقصان پہنچانے کی کوشش کی تو اچھا نہیں ہوگا۔"
انگشت اٹھا کر سختی سے وہ انہیں تنبیہہ کر رہا تھا۔جہان کو دیکھ کر وہ دو قدم پیچھے ہٹ کر خاموشی سے اسے سنتے گۓ۔
"اور تم!" وہ حیا کی طرف پلٹا۔ ایک غصیلی نگاہ اس پر ڈالی، اور کہنی سے پکڑ کر کھینچتا باہر لایا۔ "اوپر کیوں آئی تھیں؟ کس نے کہا تھا ادھر آؤ؟"
سیڑھیوں کے دہانے پہ لا کر اس نے حیا کا چہرہ دیکھا۔ اسکی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ دہشت سے چہرے کا رنگ لباس کی مانند زرد پڑ چکا تھا۔گردن پہ انگلیوں کے سرخ نشان پڑے تھے۔ وہ ہولے ہولے کانپ رہی تھی۔
"وہ پھپھو نے۔۔۔۔۔۔۔"
"پھپھو کا بیٹا مر گیا تھا جو انہوں نے تمہیں بھیجا؟منع بھی کیا تھا، مگر یہاں کوئی سنے تو۔" وہ غصے میں بولتا، اسے کہنی سے پکڑے نیچے سیڑھیاں تیزی سے اترنے لگا۔ وہ اس کے ساتھ کھنچی چلی آ رہی تھی۔ پھپھو پریشان سی آخری سیڑھی کے پاس کھڑی تھیں۔
"میں بکواس کر کے گیا تھا نا، مگر میری سنتا کون ہے اس گھر میں؟ دو دن کے لیے نہ ہوں تو سارا نظام الٹ جاتا ہے۔ پورے گھر کو پاگل کر دیا ہے انھوں نے۔"
وہ آگے بڑھا اور سنٹر ٹیبل پہ رکھی میز سے پانی کی بوتل اٹھا کر لبوں سے لگائی۔ (پانی کی ضرورت تو حیا کو نہیں تھی؟)
وہ سہمی ہوئی کھڑی تھی۔ جہان کو اتنے شدید غصے میں اس نے پہلی دفعہ دیکھا اور اتنی شستہ اردو بولتے ہوۓ بھی۔
"میں۔۔۔۔۔میں انھیں دیکھتی ہوں۔" پھپھو پریشانی سے کہتے ہوۓ اوپر سیڑھیاں چڑھ گئیں۔
وہ گھونٹ پہ گھونٹ چڑھاتا گیا۔ بوتل خالی کر کے میز پہ رکھی اور اسکی طرف دیکھا۔
"باہر آؤ مجھے تم سے بات کرنی ہے۔" وہ کہہ کر روازہ کھول کر باہر نکل گیا۔ وہ ڈری، سہمی ہوئی چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی اس کے پیچھے آئی۔
وہ بیرونی دروازے کے آگے بنے اسٹیپس پہ بیٹھا تھا۔ حیا نے دروازہ بند کیا اور اس کے ساتھ آ بیٹھی۔ زرد فراک پھسل کر اس کے ننگے پاؤں کو ڈھانپ گیا۔ باہر سردی تھی، مگر اسے نہیں لگ رہی تھی۔
"جو بھی ہوا، میں اس کے لیے معذرت خواہ ہوں۔" وہ سامنے دیکھتے ہوۓ کہہ رہا تھا۔
نیلی جینز کے اوپر پہنے بھورے سویئٹر کو عادتاً کہنیوں سے ذرا آگے موڑے، وہ ہمیشہ کی طرح وجیہہ اور اسمارٹ لگ رہا تھا۔ غصہ اب کہیں نہیں تھا۔ وہ پہلے والا دھیما سا اور سنجیدہ جہان بن گیا تھا۔
"ابا کی طبیعت ٹھیک نہیں رہتی۔ وہ اپنے حواسوں میں نہیں ہوتے۔ کئی دفعہ انہوں نے ممی کو بھی مارنے کی کوشش کی ہے، مگر مجھے کچھ نہیں کہتے۔ ڈرتے نہیں ہیں، شاید نفرت کرتے ہیں۔"
سامنے سبزہ تھا۔ اس سے آگے سفید لکڑی کی باڑ اور باڑ سے ہی بنا گیٹ، باڑ کے تختوں کی درزوں سے باہر گیلی سڑک دکھائی دیتی تھی۔ نم ہوا گھاس پر سے سرسراتی ہوئی گزر رہی تهی۔ وه گهٹنوں کے گرد بازوؤں کا حلقہ بناۓ چہره جہان کی جانب موڑے بیٹھی تهی۔ فراک کا فرش کو چهوتا دامن ہوا کی لہروں سے پهڑپهڑاتا ہوا اوپر اٹھ جاتا تو پاجامے کی تنگ چوڑیوں میں مقید ٹخنے اور پاؤں چهلکتے۔
"میرا بهی دل کرتا ہے کہ میں پاکستان جاؤں۔ اپنے رشتہ داروں کے درمیان رہوں۔ اپنا آبائی گھر دیکهوں۔ مگر ہم پاکستان نہیں جاتے اور تم اس دن ممی کو طعنہ دے رہی تهی ہم پاکستان نہیں آتے۔" (افف۔۔۔۔۔ اتنا جھوٹ)
"نن۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں۔" وه گڑبڑا گئی، مگر وه سن نہیں رہا تها۔
"حیا! ہم کبھی پاکستان واپس نہیں جا سکتے۔"
مگر کیوں؟ وه سناٹے میں ره گئی۔ وه چند لمحے چپ رہا، پهر آہستہ سے کہنے لگا۔
میرے دادا اپنے کاروبار کے سلسلے میں استنبول آیا کرتے تهے۔ اس گھر کی انہوں نے ہی خریدی تھی بعد میں ابا نے ادھر گھر بنوایا۔ تب وه پاکستان آرمی کی طرف سے یہاں پوسٹڈ تهے۔ میں استنبول میں ہی پیدا ہوا تھا اور ابا کی دوباره اسلام آباد پوسٹنگ ہونے کے بعد بھی میں اور ممی ادھر دادا کے ساتھ رہتے تهے۔ میرے دادا بہت اچهے، بہت عظیم انسان تهے۔ انهوں نے مجهے بہت کچھ سکهایا تها۔ دین، دنیا، عزت، بہادری اور وقار سے جینے اور شان سے مرنے کا سبق انهوں نے ہی مجهے دیا تها۔ میں آٹھ سال کا تھا، جب وہ فوت ہوئے تو میں اور ممی کچھ عرصہ کے لیے پاکستان آگئے۔ اور تب ہی وه واقعہ ہوا، جس نے ہماری زندگی بدل دی۔"
حیا کا سانس رک گیا۔ تب ہی تو ان کا نکاح ہوا تھا، تو کیا وہ باخبر تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟ (حیا کی خوش فہمیاں۔۔۔۔۔)
"جن دنوں میں اور ممی پاکستان میں تهے، بلکہ تمهارے گھر میں تهے، ابا آناً فاناً ترکی فرار ہو گۓ۔ فرار اس لیے کہ انھوں نے ایک حساس مقام کے بلیو پرنٹس ان کو بیچ دیۓ تهے جو ہمیشہ خریدنے کے لیۓ تیار رہتے ہیں۔ ثبوت انہوں نے کوئی نہیں چهوڑا، مگر تفتیش شروع ہوئی تو بہت کچھ کهلنے لگا۔ ابا نے ترکی سے هہی اپنا استعفی بھجوا دیا۔ پیچھے عدالت میں مقدمہ چلا اور وه غدار ٹهہراۓ گۓ۔ ان کے جرائم کی فہرست خاصی طویل تھی۔ ان کو سزاۓ موت سنا دی گئی اور انهوں نے ترکی میں سیاسی پناه حاصل کر لی۔ کچھ تعلقات کام آۓ اور کچھ رشوتیں، ابا کو ترک حکومت کبھی ڈی پورٹ نا کر سکی، نا ہی انٹر پول نے کوئی قدم اٹهایا۔ قصہ مختصر، ابا جس دن پاکستان کی سرزمین پہ قدم رکهیں گے، وہ گرفتار ہو جائیں گے اور ان کو پهانسی دے دی جاۓ گی۔ یہ بات تمهارے والدین کو پتہ ہے، مگر بدنامی کے ڈر سے کسی کو بتائی نہیں جاتی۔" 
وه کسی بهی جزبے سے عاری نگاہوں سے سامنے باڑکو دیکھتا رہا تها۔ حیا یک ٹک اسے دیکهے گئی۔ اس کے گهر میں پهپهو کے شوهر کا ذکر کوئی نہیں کرتا تها۔ شاید دانستہ طور پہ ایسا کیا جاتا تها۔
"میں ایک غدار کا بیٹا ہوں۔ میرا باپ ایک ملک دشمن ہے۔ اس ذلت کے باوجود ہم ابا کے ساتھ رہنے پر مجبور ہیں۔ احساس جرم ہے یا قدرت کی طرف سے سزا، وه وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنا ذہن کهوتے جا رہے ہیں۔ سزاۓ موت کا خوف ان کے لیۓ ناسور بنتا جا رہا ہے۔ جو انهوں نے تمهارے ساتھ کیا، اس پہ ان کو معاف کر دینا۔ وه میرے باپ ہیں اور باوجود اس کے کہ یہ حقیقت بہت جگہ میرا سر جهکا دیتی ہے میں ان سے محبت کرنے پہ مجبور ہوں۔" 
حیا نے گہری سانس لی۔ اس کے کسی قصے میں اس کا قصہ نہیں تها، کسی داستان میں اس کی داستان نہ تهی۔
"میں کام سے باہر جا رہا ہوں، آج کهانا کها کر جانا۔" وه اٹها اور دروازہ کهول کر اندر چلا گیا. شاید وه ابهی صرف تنہائی چاہتا تھا۔ حیا گردن موڑ کر اسے جاتے ہوئے دیکهنے لگی۔ وه ننگے پاؤں لکڑی کے فرش پہ چلتا سیڑهیوں کی طرف بڑھ رہا تها۔
*
حیا۔۔۔۔۔۔۔ خدیجہ! 
ٹالی نے انہیں اس وقت پکارا، جب وہ دونوں ڈی جے کے بینک پہ بیٹھی، اس کی شاپنگ پہ تبصرہ کر رہی تھیں۔ وہ چودہ فروری کی دوپہر تھی۔ اور ترکی آئے آٹھواں روز تھا اور ڈی جے جو ویلنٹائن ڈے کی رونق دیکھنے آج ٹاقسم گئی تھی مایوس لوٹ آئی تھی۔ پاکستان کے برعکس ترک ہر کام چھوڑ کر سرخ رنگ میں نہیں نہا جاتے، بلکہ سوائے سرخ پھولوں کی فروخت کے استنبول میں ویلنٹائن ڈے کے کوئی آثار نہ تھے۔ جب ڈی جے خوب مایوس ہو چکی تو اس نے یہ کہہ کر اپنے خیالات میں ترمیم کر لی کہ ”بھاڑ میں گیا سینٹ ویلنٹائن، ہمیں اس تہوار سے کیالینا دینا“۔
ان کی اس گفتگو میں مخل ہونے والی اسرائیلی ایکسچینج اسٹوڈنٹ تھی۔
ہاں؟ وہ دونوں جھک کر نیچے دیکھنے لگی، جہاں ٹالی ان کے بنک سے نیچے لٹکتی سیڑھی کے ساتھ کھڑی تھی۔
وہ لڑکے تمہارا پوچھ رہے تھے۔
حیا اور ڈی جے نے ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر ٹالی کو۔
کون سے لڑکے؟ 
وہ فلسطینی ایکسچینج اسٹوڈنٹس جو ساتھ والے ڈروم میں رہتے ہیں۔ وہ مجھ سے پوچھ رہے تھے کہ وہ پاکستانی لڑکیاں کیسی ہیں اور یہ کہ ان کو کوئی مسئلہ تو نہیں ہے، اور یہ بھی کہ تم دونوں آج کی شام کی چائے کامن روم میں ان کے ساتھ پیو۔ وہ تمہارا انتظار کریں گے، اوکے بائے۔ ایک اسرائیلی مسکراہٹ ان کی طرف اچھالتی، وہ ہاتھ ہلا کر باہر نکل گئی۔
یہ فلسطینیوں کو ہمارا خیال کیسے آ گیا؟
اس ٹالیکے درخت سے دل بھر گیاہو گا شاید۔ ڈی جے نے قیاس آرائی کی۔
بکو مت! وہ ہمیں صرف مسلمان بہنیں سمجھ کر بلا رہے ہوں گے۔
اتنے ہینڈسم لڑکوں کی بہن بننے پر کم از کم میں تیار نہیں ہوں۔ یہ بھائی چارہ تمہیں مبارک ہو۔ ڈیجے بدک اٹھی تھی۔چلو پھر تیار ہو جائیں تاکہ وقت پہ پہنچ سکیں۔
حیا لکڑی کی سیڑھی سے نیچے اترنے لگی۔
صرف ہمیں بلایا ہے
*****
صرف ہمیں ہی بلایا ھے یا یہ عرب اسرائیل دوستی کی زندہ مثال بھی موجود ھو گی ڈی جے کا اشارہ ٹالی کی طرف تھا ۔
پتا نہیں ۔ حیا نے شانے اچکا دیے ۔وہ الماری سے کپڑے نکالنے لگی
ہر موقع کی مناسبت سے ڈریسنگ کرنا اس کا جنون تھا ۔کپڑوں پہ ایک سلوٹ تک نہ ھو اور میک اپ کی ایک لکیر بھی اوپر نیچے نہ ھو ، وہ ہر بات کا خیال رکھتی تھی ۔ البتہ لڑکوں کی دعوت پہ جانے کی اجاذت پاکستان میں ابا یا تایا کبھی نہ دیتے ۔مگر وہ ادھر کون سا دیکھ رھے تھے ۔ یہ ترکی تھا اور یہاں سب چلتا تھا ۔ 
وہ تین لڑکے تھے ۔معتصم المرتضیٰ ، حسین اور مومن ، ان کے دو فلسطینی دوست محمد قادر اور نجیب اللہ دعوت کے شروع میں موجود رہے ۔ پھر اٹھ کر چلے گئے ، مگر ان تین میزبانوں نے احسن طریقے سے میزبانی نبھائی ۔وہ تینوں اسمارٹ اور گڈ لکنگ سے لڑکے ایک جیسے لگتے تھے ۔ معتصم ان میں ذرا لمبا تھا ۔ اس کا نام معتصم المرتضیٰ تھا ، مگر یہ ڈی جے نے بعد میں نوٹ کیا کہ وہ فیسبک پہ اپنا نام معتصم اینڈ مرتضیٰ لکھتا تھا ۔ وجہ انھیں کبھی سمجھ نہ آئی ۔ حسین اور معتصم ان دونوں کو بالکل اپنی چھوٹی بہنوں کی طرح ٹریٹ کر رھے تھے ۔ البتہ اس بھائی چارے سے مومن متفق نہ تھا ۔ وی فلرٹیب، نظر باز سا لڑکا کچھ بھی تھا مگر مومن نہ تھا ۔ 
البتہ وہ دونوں اس کو اپنی موجودگی میں سیدھا کیے ھوئے تھے وہ دونوں اتنے ملنسار اور مہذب لڑکے تھے کہ حیا کو اپنے سارے کزن ان کے سامنے بےکار لگے ۔ البتہ جہان کی بات اور تھی ۔ اس نے فورًا اپنی رائے میں ترمیم کی ۔ 
اگلے ہفتے حسین کا برتھڈے ھے ،، حسین فون سننے باہر گیا تو مومن نے بتایا پھر تو ہمیں اسےٹریٹ دینی چاہیے ۔ڈی جے سوچ کر بولی ۔
اور گفٹ بھی ، حیا کو خیال آیا ۔
ہم دونوں اس کے لیے ایک گھڑی خریدنے کا سوچ رھے رہیں جو ہم نے جواہر میں دیکھی ھے ۔
130لیزار کی ھے معتصم نے چائے کا آخری گھونٹ پی کر کپ میز پر رکھا ۔
یعنی کہ پاکستانی روپوں میں ۔۔۔۔،، حیا نء سوچتے ھوئے پرس میں ہاتھ ڈالا تاکہ موبائل کےکے کیلکولیٹر سے حساب کر سکے ۔ 
سات ہزار ایک سو پانچ پاکستانی روپے ۔۔
معتصم جھک کر پیسٹریز کی پلیٹ سے ایک ٹکڑا اٹھاتے ھوئے بولا ۔ حیا کا پرس کھنگالتا ہاتھ رک گیا ۔اس نے حیرت و بے یقینی سے معتصم کو دیکھا ۔ 
تم نے اتنی جلدی حساب کیسے کیا ؟؟
میں میتھس کا سٹوڈنٹ ھوں ،،، وہ جھینپ کر مسکرا دیا ۔
اور معتصم کا ایک ہی خواب ھے کہ وہ میتھس میں نوبل پرائز لے ،، مومن حیا کے ہاتھوں کو دیکھتے ھوئے کہنے لگا ۔وہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد معتصم سے آنکھ بچا کر حیا کے سراپے کا جائزہ لے لیتا تھا ۔ حیا قدرے رخ موڑ کر معتصم کی طرف متوجہ ھوئی ۔ 
تو میتھس کے سٹوڈنٹ جلدی بتاؤ اس مہنگی گھڑی کو خریدنے کے لیے اگر ہم چاروں پیسے تقسیم کریں تو ہر ایک کے حصے میں کتنے ۔۔ 
32 لیرا اور پچاس کرش ۔۔،،
اوکے ،،، حیا نے گہری سانس لی اور پرس کھولا انکو پیسے انھوں نے زبردستی تھمائے ۔ مومن کو تو کوئی اعتراض نہ تھا مگر معتصم ان سے رقم لینے میں متذبزب تھا مگر یہ ایک ان کہی بات تھی کہ بغیر کسی اسکالر شپ کے استنبول جیسے مہنگے شہر میں وہ سب اتنا ہی افورڈ کر سکتے تھے ۔
وہ تینوں جواہر کے لیے نکل رھے تھے معتصم نے کہا تھا کہ وہ حسین سے نظر بچا کر گھڑی خرید لائیں گے ان کو بھی ساتھ چلنے کی پیشکش کی اور ڈی جے ہاں کرنے ہی والی تھی کہ حیا نے اس کا پاؤں اپنے جوتے اے زور سے کچلتے ھوئے بظاہر مسکراتے ھوئے انکار کیا ۔ 
نہیں ۔۔ آپ لوگ جائیں ہم آج ہی ھو کر آئے ہیں وہ تینوں چلے گئے تو ڈی جے نے برا سا منہ بنا کر اسے دیکھا ۔
تم نے انکار کیوں کیا ؟؟؟ 
پاگل عورت ۔۔،، تم پاکستان سے آئی ھو یا نیو یارک سے ؟؟ ان کی دعوت قبول کر لی یہ ہی بہت ھے اب ان کے ساتھ سیر سپاٹوں پہ بھی نکل جائیں دماغ ٹھیک ھے ؟؟؟ 
مگر وہ تو ہمارے بھائیوں کی طرح ہیں ۔۔ پیچھے ہمارے اصلی والے بھائیوں کو پتا چلا تو کل ہی واپس پاکستان بلوا لیں گے ۔ اس لیے اپنی اوقات میں واپس آؤ اور رات کے کھانے کی تیاری کرو موبائل کے ساتھ ننھی ہینڈز فری کانوں میں لگاتے ھوئے بولی ۔
زہر ملا کر دوں گی تمہیں ۔۔, ڈی جے بھناتی ھوئی پیر پٹخ کر اٹھی ۔ اور اگر تم چاولوں پہ آملیٹ ڈال کے لائی تو ساری ڈش تمہارے اوپر الٹ دوں گی ۔۔
وہ وہیں صوفے پر لمبی بیٹھی ۔ اب موبائل کے بٹن دبا رہی تھی ۔ دھیما میوزک اس کے کانوں میں بجنے لگا ۔ڈی جے غصے میں بہت کچھ کہتی گئ مگر اسے سنائی نہیں دے رہا تھا ۔ وہ آنکھیں موندے ھولے ھولے پاؤں جھلانے لگی ۔ ڈی جے پیر پٹخ کر باہر نکل گئی ۔۔
وہ رات ویلنٹائن کی رات تھی ۔ ڈی جے کامن روم میں منعقدہ اس آل گرلز پارٹی میں جا چکی تھی ۔ جو لڑکیوں نے مل کر دی تھی جبکہ حیا آئینے کے سامنے کھڑی اپنا کاجل درست کر رہی تھی اس کی تیاری مکمل تھی لیکن جب تک وہ اپنی آنکھوں کے کٹورے کاجل سے بھر نہ لیتی اسے تسلی نہیں ھوتی تھی ۔ ابھی وہ کاجل کی سلائی کی نوک آنکھ کے کنارے سے رگڑ رہی تھی کہ دروازہ بجا ۔ 
دھیمی سی دستک اور پھر خاموشی ۔
اس نے کاجل کی سلائی نیچے کی اور پلٹ کر دیکھا ۔ یہ انداز ڈی جے کا تو نہیں تھا ۔ وہ یوں ہی کاجل پکڑے.....

جاری هے

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے