ناول: جنت کے پتے
از نمرہ احمد
نمبر 10
اگے بڑںھی اور نا ب گھما کر دروازہ کھولا۔باہر ںالکونی میں روشنی تھی۔جیسے ھی اس نے دروازہ کھولابالکونی تا ریک ھو گئی۔غالبا,,سیڑیوں کے اوپر لگا بلب بجھ گیا تھا۔کیا کوی واپس اکر پلٹ گیا تھا ۔اس نے گردن اگے کر کے راہداری کی دونوں سمت دیکھا ۔ہر سو خاموشی تھی۔بالکونی ویران تھی۔وھا سردی تھی اور اندر کمرہ گرم تھا۔وی چند ثا نیے وھا کھڑی رہی۔۔پھر دیھرے سے شانے اچکا کر پلٹنے ہی لگی تھی کے۔۔۔۔ ۔۔۔اوہ نہیں اس کے لبہوں سے ایک اوکتای ہوی کراہ نکلی۔
چوکھٹ پر اس کے قد موں کے ساتھ سفید گلا بوں کا بئکے اور ایک بند لفا فں رکھا تھا۔وہ جھو کھی اور دونوں چیز یں اٹھایں اور جارھا نہ انداز میں لفا فے کا منہ پھا ڑا ۔اندر رکھا چوکور سفید کا غز نکا لا ور منہ کے سامنے کیا۔ ہیپی وہلنٹا ئہین ڈے۔۔۔۔۔فرام یور ویلنٹا ئن۔۔۔۔اس نے لب بینچ کرتنفر سےوی تحر یر پڑ ھی اور پھر بے حد غصے سے کا غز مروڑ کر گلد ستے سمیت پو ری قوت سے راہداری میں دے مارا۔. اوچ ۔وہ واپس مڑ نے ہی لگی تھی کے ۔ جب کسی کی بو کھلا ئی ہوی اواز سنی۔اس نے چو نک کر پیچھے دیکھا۔گلد ستہ اور کا غز سیدے ہاتھ والے کمرے سے نکلتے معتصم کو جا لگے۔اور اس سے ٹکرا کر اب اس کے قدموں میں پڑے تھے۔. یہ کیا ہے؟ وہ ہکا بکا کھڑا تھا۔. "ائی ایک سوری معتصن؛"وہ شد ید بے زاری سے بمشکل ضبط کر کے بولی۔معتصم کو و ضاحت دینے کا سوچ کر ہی اسے کو فت ہونے لگی تھی 'یہ میں نے تمیں نہیں دیے بلکہ کسی فضول انسان نے مجھے بیجھیے ہیں۔تم برا مت ما ننا اور ان کو ڈسٹ بن میں ڈال دینا۔"وہ ایک ھاتھ دروازے پر رکھے۔'دوسرے میں کا جل پکڑے زرا ر کھائی سے بو لی۔معتصم نے جھک کر وہ کا غز ا ٹھایا اور سیدھے ہوتےہھوےان کی شکنیں درست کرکے چہرے کے سامنے کیا۔حیا کوفت ہونے لگی۔"میں کہھ رہی ہونا سوری".اس نے قدرے اکتائے ہوئے انداز میں پھر معتصم کو پکارا۔وہ جو بھنویں سیکڑے کا غز کو دیکھ رہا تھا۔چونک کر اسے دیکھنے لگا۔"نہیں اٹس اوکے۔مگر یہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔تمہیں کوی سبا نجی میں تنگ کر رہا ہے۔؟.و ہ تحریرپہ نگا ہیں دوڑاتےتشو یش سےپوچھ رہا تھا۔یہ بات نہیں ہے۔یہ بہت پہلے سے میرے پیچھے پڑا ہے ۔لمبی کھانی ہے جانے دو".س کو کوڑے میں پھینک دینا۔گڈ نائیٹ"وہ مزید مروت کا مظاہرہ کیے بغیردروازے کا کواڑبند کر نے لگی تھی۔جب وہ ہولےسے بولا۔ یہ گیلاکیوں ہے؟تم روئ ہو؟کچھ تھا اس کی اواز میں کہ وہ دروازہ بند کرتی حیا ٹھٹھک کے دیکھا۔پھر پٹ نیم وہ کیااور باہر بالکونی میں قدم رکھا۔"میں کیوں رووں گی۔"وہ کا غز دیکھ کر بولی۔معتصم کا غز کے نچلےدائیں طرف کے کنارے پر انگلی پھیر رہا.تھا۔"پھر یہ گںیلا کیوں ہے۔؟"شائید پھولوں پر پانی تھا۔حیا نے میکا نیکی اندازمیں نفی میں گردن ہلائ۔"نہیں یہ تو موٹے لفا فے میں مہر بند تھا".معتصم نے وہ نم حصہ ناک کے قریب جا کر انکھیں موندےسانس ا ندر کو کھینچی۔سٹرس؟لیموں؟لائم؟وہ متز بذب سا حیاکو دیکھنے لگا۔کیا کھ رہے ہیں،مجھے کچھ سمج نہیں ا رہا".کسی نے اس کے نچلے کنارے پہ لیموں لگایا ہے۔"پھر اس نے چونک کر حیا کو دیکھا۔"تمھارے پاس ماچس ہے"وہ جواب دیے بنا الٹے قدموں پیچھے ائ۔اوردروازہ پورا کھول کر ایک طرف ہوگئ۔معتصم قدرے جھجکا'پھر کاغز پکڑے اندر داخل ہوا۔
حیانے اپنی اور ڈ ی جے کی میز کی کرسیاں کھینچ کر آ منے سامنے رکھیں اور پھر ٹالی کی میز پر چیزیں الٹ پلٹ کرنے لگی ۔کیا تم بھی بچپن میں لیموں کا رس اور آگ والا کھیل کھیلتے تھے ۔؟وہ اب میز کی دراز کھول کر کچھ ڈ ڈھونڈرہی تھی ۔معتصم دھیرے سے ہنسا۔
بہت کھیل کھیلے ہیں اور ان میں سے اکثر آ گ والے ہوتے تھے ۔فلسطین میں بہت آگ ہے شاید تم نہ سمجھو۔چلو آج ان ترکوں کے کھیل اسرائیلی آگ سے کھیلتے ہیں۔ وہ دراز میں سے ایک سگریٹ لائٹر نکال کے اس کہ سامنے کرسی پہ آ بیٹھی اور لائٹر اس کی طرف بڑھایا ۔معتصم نے لائٹر کا پہیہ اپنے انگوٹھے سے گھمایا تو آگ کا نیلا زردساشعلہ جل اٹھا ۔
احتیاط سے وہ بے اختیار کہہ اٹھی ۔معتصم نے جواب نہیں دیا ۔وہ خط کہ نم حصے کو جواب تک سوکھ چکا تھا ۔شعلے کے قریب لایا ۔ذرا سی تپش ملی اور الفاظ ابھرنے لگے۔بڑے بڑے کر کے انگریزی کے تین حروف "اے آر پی"۔وہ حروف عین " فرام یورویلنٹائن "کے نیچے لکھے تھے ۔وہ دونوں چند لمحے کاغذ کے تکرے پہ ابھرے بھورے حروف کو تکتے رہے پھر ایک ساتھ گردن اٹھا کہ ایک دوسرے کو دیکھا۔آرپ،،،،،، ایرپ؟ کیسا لفظ ہے یہ ؟حنا نے ممکنہ ادائیگی کےدونوں طریقوں سے حروف کو ملا کہ پڑھا ۔شاید کوئی نام !کیا آ رپ کوئی ترک نام ہے؟معلوم نہیں ۔معتصم نے شانے اچکا دیے۔حیا سوچتی نگاہوں سے کاغذ کو تکتی رہی۔
کیا میں تمہاری کوئی مدد کر سکتا ہوں ۔اس نے ایک نظر معتصم کو دیکھا پھر نرم سا
مسکرائی
تم کر چکے ہو ۔
وہ ہولے سے مسکرا کر کھڑا ہوا اور کاغذ میز پر رکھا۔وہ جو بھی ہے شاید تمہیں اپنا نام بتانے کی کو شش کر رہا ہے ۔وہ کون ہو سکتا ہے یہ تم بہتر سمجھ سکتی ہوگی ۔مجھے اب چلنا چاہیے ۔؛ہوں؛ تھینک یو معتصم ۔
معتصم نے ذرا سی سر کو جنبش دی اور باہر نکل گیا ۔دروازے کا کیچر سست روی سےواپس چو کھٹ تک جانے لگا۔حیا چند لمحے میز پر رکھے کنارے سے بھورے ہوئے کاغذ کو دیکھے گئ پھر بے اختیار کسی میکانکی عمل کہ تحت اس نے ہاتھ میں پکڑی کاجل کی سلائی کو سیدھا کیا اور بائیں ہتھیلی کی پشت پہ وہ تین حروف اتارتے ۔؛اے آر پی؛
دروازہ چوکھٹ کے ساتھ لگنے ہی والا تھا۔ذرا سی دور سے باہر راہداری میں گرا گلدستہ دکھائی دے رہا تھا ۔ایک دو پل مزید گزرے اور دروازہ "ٹھاہ" کی آواز کے ساتھ دروازہ بند ہو گیا ۔وہ اپنی ہتھیلی کی پشت پہ سیاہ رنگ میں تین الفاظ دیکھ رہی تھی ۔
"اے آر پی"
*
اس نے اوپر بنے کیبنٹ کا دروازہ کھولا ۔چند ڈ بے الٹ پلٹ کیے۔نیچے خانے میں سرخ مرچوں کا ڈبا نہیں تھا ۔وہ ایڑیاں اٹھا کر ذرا سی اونچی ہوئی اور اوپر والے خانے میں جھانکا ۔وہاں سامنےایک پلاسٹک کے بے رنگ ڈبے میں سرخ پاؤڈر رکھا نظر آیا ۔اس نے ڈبہ نکا لا اور کاونٹر کی طرف آئی ۔وہاں ڈی جے کھڑی سلیپ پہ کٹنگ بورڈ کے اوپر پیاز رکھے کھٹا کھٹ کاٹ رہی تھی۔اس کی آنکھوں سے آنسو گر رہے تھے.
بریانی کی مقدار زیادہ ہے چار چمچ سرخ مرچ کہ ڈال دیتی ہوں شاید ذرا سا ذائقہ آ جائے ۔ٹھیک ؟وہ خود کلامی کے انداز میں کہتی ٹوکری سےچھوٹا چمچ ڈھنڈنے لگی۔
ہاں ٹھیک !ڈی جے نے بھیگی آنکھیں اٹھا کر اسے دیکھتے ہوئے رندھی آواز میں کہا اور آستین سے آنکھیں رگڑیں۔حیا اب ڈبے سے چمچ بھر بھر کردھوئیں اڑاتے پتیلے میں ڈال رہی تھی ۔بالوں کا ڈھیلا سا جوڑا اس کے پیچھے گردن پہ جھول رہا تھا۔سادہ شلوار قمیض پہ وہ ڈھیلا ڈھالا سا سبز سوئٹر پہنے ہوئے تھی ۔جس کی آستینیں اس نے کہنیوں تک موڑ رکھی تھیں۔دوپٹہ ایک طرف دروازے پہ لٹکا تھا ۔اور چند لٹیں جوڑے سے نکل کر چہرے کے اطراف لٹک رہی تھیں ۔گوشت میں چمچہ ہلاتی وہ بہت مصروف لگ رہی تھی ۔وہ دونوں اس وقت انجم باجی کے کچن میں موجود تھیں ۔صبح انجم باجی ڈی جے کو ڈائننگ ہال میں ملیں تو شام اپنے گھر کھانے کی دعوت دے ڈالی ،جو کہ ڈی جے نے یہ کہہ کر قبول کر لی کہ وہ اور حیا مل کر بریانی بنائیں گی۔اب سر شام ہی وہ دونوں ہالے کو لیے انجم باجی کے اپارٹمنٹ آ گئی تھیں ۔ایک بیڈروم لاؤنچ اور کچن پر مشتمل وہ چھوٹا مگر بے حد نفیس اور سلیقے سے سجا اپارٹمنٹ تھا ۔ہالے کو انہوں نے لاؤنچ میں انجم باجی کہ پاس بیٹھا رہنے دیا اور خود کچن میں آ کر مصروف ہو گئیں ۔یہ پنٹینگ جوید جی لائے تھے انڈیا سے۔اندر لاؤنچ میں انجم باجی کی ہا لے کو مطلع کرتی آواز آ رہی تھی ۔ڈی جے یہ جوید جی کیا ہے؟اس نے قدرے الجھ کر پوچھا ۔ان کا مطلب ہے جوید جی۔ان کے ہزبینڈ! ڈی جے نے سرگوشی کی تو وہ مسکراہٹ دباتی پلٹ کر ابلتے چاولوں کو دیکھنے لگی ۔جس وقت انجم باجی اور ہالے کچن میں داخل ہوئیں حیا پتیلے کا ڈھکن اخبار لگا کر احتیاط سے بند کر رہی تھی ۔آ ہٹ پہ پلٹی اور مسکرائی۔بس دم دے رہی ہوں ۔بہت خراب ہو تم دونوں مجھے اٹھنے ہی نہیں دیا ۔بس اب آ پ کو کھانے کے وقت ہی اٹھنا تھا ۔وہ جوید،،،،،، جاوید بھائی آگئے ۔؟وہ ہاتھ دھو کر تولیے سے صاف کرتی ڈی جے کے پاس آئی۔ڈی جے کا سلاد ابھی تک مکمل نہیں ہوا تھا ۔اب کہیں جا کہ وہ ٹماٹروں پہ پہنچی تھی۔بس آنے والے ہیں لاو یہ سلاد تو مجھے بنانے دو۔نہیں!میں کر لوں گی۔تھوڑا سا رہ گیا ہے۔ڈی جے نے بڑی بے فکری سے کہا تو حیا نے اسے جتا تی نظروں سے گھورا ۔آپ نے اس تھوڑے میں بھی صبح کر دینی ہے۔لاو مجھے دو اور پلیٹیں لگاو۔اس نے ٹماٹر اور چھری ڈی جے کے ہاتھ سے لے لی۔ہالے از خود نہایت پھر تی سے سارا پھیلاؤ سمیٹنے میں لگی تھی۔وہ میلے برتن اب سنک میں جمع کر رہی تھی ۔ڈی جے کیبنٹ سے پلیٹیں نکالنے لگی اور انجم باجی رائتہ بنانے لگیں۔حیا نے ٹماٹر کو کٹنگ بورڈ پہ بائیں ہاتھ سے پکڑکہ رکھا اور چھری رکھ کہ دبائی۔دو سرخ ٹکڑے الگ ہو گئے اور ذرا سا سرخ رنگ اس کی بائیں ہتھیلی کی پشت پہ بہہ گیا جہاں کاجل سے لکھے تین مٹے مٹے سے حروف تھے ۔
اے،،،،،آر،،،،،پی۔
وہ دو تین روز سے اسی ؛اے آر پی؛ کے متعلق سوچے جا رہی تھی اب بھی کچھ سوچ کر اس نے گردن اٹھائی ۔
؛ انجم باجی؛
دہی کو کانٹے سے پھینٹتیں انجم باجی نے ہاتھ روک ےلئیے
آپنے کسی ایرپ کے متعلق سنا ہے۔
ایرپ انجم باجی نے حیرت بھری الجھن سے دوہرایا۔
جی ایرپ اے آرپی۔
اس نےوضاحت کے لیے ہلجے کر کے بتایا۔
اونائٹ اگین حیا۔ہالے جو سنک کے آگے کھڑی تھی ۔قدرے اکتا کر پلٹی۔اس کے ہاتھ میں جھاگ بھرا اسفخج تھاجسے وہ پلیٹ پہ مل رہی تھی ۔تم پھر وہی موضوع لے کر بٹھ گئئ ہو۔اس کے انداز میں خفگی بھرا احتجاج تھا۔
مگر ہالے اب وہ الجھی تھی۔یہ ۔موضوع تو اس نے ابھی تک ہالے کے ساتھ ڈسیکس نہیں کیا تھا۔پھر
میں نے کہا تھا نا یہ سب بے کار باتیں ہیں ۔مگر میں نے پوچھا ہی کیا ہے۔اے آڑپی۔عبدالرحمان پاشا اور کون اس نے بتایا تھاکہ یہ گھریلو عورتوں کے فسانے سے ذیادہ کچھ نہیں ہے۔یہ استنبول ہے۔یہاں قانون کا راج ہے۔مافیا کا نہیں ۔اب اس کے بعد اس موضوع پہ کچھ نہیں سنوں گی۔
ہالے اب پلٹ کر جھاگ سے بھری پلیٹ کو پانی سے کھنگال رہی تھی ۔اور وہ جو حیرتوں کے سمندر میں گھڑی کھڑی تھی ۔
اے آرپی۔عبدالرحمان پاشا اور یہ خیال اسے پہلے کیوں نہیں آیا۔
اوکے اوکے وہ سر جھکائے ٹماٹر کاٹنے لگی مگر اس کے ذہین میں جھٹ سے خیال گڈمڈ ہو رہے تھے۔ہالے اور جہان دونوں ایک جیسے تھے۔اور اپنے استنبول کے دفاع کے علاوہ وہ کبھی کچھ نہیں کہیں گے۔اسے یقین تھا۔مگر کسی کے پاس تو کچھ کہنے کے لئے ہو گا اور اسے اس کسی کو ڈھونڈنا تھا۔
وہ میز لگا رہی تھی جب جاوید بھائی آگے۔
وہ بھی پی ایچ ڈی کر رہے تھے۔اور سبانجی میں پڑھاتے بھی تھے۔بے حد ملنسار سادہ اور خوش اخلاق سے دیسی مرد تھے۔اپنے پاکستانی ڈرموں کے شوقین اور پرستار۔ٹی وی کے ساتھ ریک میں ان کہی آرئیگاں دھوپ کنارے آنگن ٹیڑھا الف نون سمیت بہت سے کلاسک ڈراموں کی دی وی ڈیز قطار میں سجی تھیں ۔ان دونوں میاں بیوی کا ایک دوسرے کے لیے طرز تخاطب بہت دلچسپ تھا۔جوید جی اور انجو جی اسے بہت اہنسی آئی۔باقی تینوں کیچن میں تھے۔جب حیا پانی کا جگرکھنے میز پہ آئی جاوید بھائی کو تنہا بیٹھے پایا۔
وہ کسی کتاب کی ورق کروانئ کر رہے تھے۔
جوید۔۔۔۔۔جاوید بھائی گڑبڑ کر تصیع کرتی ان کے ساتھ کرسی کھنچ کر بیٹھی اور محتاط نگاہوں سے کیچن کے دروازے کو دیکھا۔ایک بات پوچھنی تھی آپ سے۔
جی جی پوچیھے۔وہ فورا کتاب رکھ کر سیدھے ہو بیٹھے ۔
استنبول میں ایک انڈین مسلم رہیتا ہے عبدالرحمان پاشا نام کا۔آپ اسے جانتے ہیں ۔وہ محتاط کرسی کے کنارے ٹکی بولتے ہوئے بار بار کیچن کے دروازے کو بھی دیکھ لیتی۔
کون پاشا وہ بیوک اواولا۔
اور حیا کو لگا اسے اس کے جواب ملنے والے ہیں ۔
جی جی وہی وہ خاصا مشہور ہے۔
ہاں سنا تو میں نے بھی ہے۔بیوک ادا میں اس کا کافی ہولڈ ہے۔وہ مال امپورٹ ایکسپورٹ کرتا ہے۔
کیا وہ مافیا کا بندہ ہے اسلحہ اسمگل کرتا ہے۔
ایک پروفیسر کو مافیا کے بارے میں کیا معلوم ہو گا حیا جی-
*******
ایک پروفیسر کو مافیا کے بارے میں کیا معلوم ہو گا حیا جی
وہ کھساہت سے مسکرائے۔
یعنی کہ وہ واقعی مافیا کا بندہ ہے
اور آ پ کو معلوم بھی ہے مگر آ پ اعتراف نہیں کر نا چاہ رہے۔شاید ایک اور داود ابراہیم؟اس نے اندھیرے میں تیر چلایا اور وہ عین نشا نے پہ بیٹھا۔
داود ابراہیم ۔شاید انہوں نے سادگی سے ہتھیار ڈال دیے۔
وفعتا کیچن سے انجم باجی کی چیخ بلند ہوئی۔وہ جو کرسی کے کنارے پہ ٹکی تھی گبھرا اٹھی اور کیچن کی طرف لپکی۔
کیا ہوا
انجم باجی سرخ بھبھو کا چہرہ اور آنکھوں میں پانی لیے کھڑی تھی ۔ان کے ہاتھ میں خالی چمچہ تھا۔
مرچیں اتنی مرچیں حیا۔
نن نہیں یہ ترکی کی مرچیں پھیکی ہوتی ہیں ۔تو میں نے صرف چار چمیچے۔۔۔۔۔۔۔۔
چار چمیچے ان کی آنکھوں پھل گئی۔یہ ترکی کی نہیں خالص مبی کی مرچیں ہیں میں سارے مسالے وہیں سے لاتی ہوں ۔اوہ نہیں! اس نے بے اختیا دل پہ ہا تھ رکھا۔جبکہ ڈ ی جے ہنس ہنس کر دوہری ھو رہی تھی ۔سردی کا زور پہلے سے ذرا ٹوٹا تھا ۔اس صبح بھی سنہری سی دھوپ ٹا قسم اسکوائر پہ بکھری تھی ۔مجسمہ آزادی کے گردہر سو سونے کے ذرات چمک رہے تھے۔وہ دونوں سست روی سے سڑک کہ کنارےچل رہی تھی جب ڈی جے نے پوچھا ۔حیا '،،،یہ ٹاقسم نام کتنے مزے کا ہے اس کا مطلب کیا ہوابھلا؟ میں شہر کی مئیر ہوں جو مجھے پتا ھو گا؟ نہیں وہ میری گائیڈ بک میں لکھا تھا کہ ٹاقسم عربی کا لفظ ہےاور اس کا معنی شاید بانٹنے کے ہیں کیونکہ یہاں سےنہرین نکل کر سارے شہر میں بٹ جاتی تھیں ۔تمہیں عربی آ تی ہے اس لئیے پو چھ رہی ہوں ۔ عربی میں تو ٹاقسم نام کا کوئی لفظ نہیں، اور عربی میں بانٹنے کو تقسیم کہتے ہیں ۔وہ ایک دم رکی اور بےاختیارسر پہ ہاتھ مارا۔اوہ ٹاقسم یعنی تقسیم ۔اگر گوروں کی طرح منہ ٹیڑھا کر کے پڑھو تو تقسیم ٹاقسم بن جاتا ہے ۔ٹاقسم •••••!واو؛۔وہ دونوں اس بات پر خوب ہنستی ہوئی آ گے بڑھنے لگیں ۔وہ شاپنگ کے ارادے سے استقلال اسٹریٹ کی طرف آ ئ تھیں ۔استقلال جدیسی( اسٹریٹ )ٹاقسم کے قریب سے نکلنے والی ایک لمبی سی گلی تھی۔وہ گلی دونوں اطراف سے قدیم آ آرکیسٹیکچر والی اونچی عمارتوں سے گھری تھی۔گلی بے حد لمبی تھی وہاں انسانوں کا ایک رش ہمیشہ چلتا دکھائی دے رہا ہوتا۔بہت سے سامنے جا رہے ہوتے اور بہت سے آ پکی طرف آ رہے ہوتے۔ہر شخص اپنی دھن میں تیز تیز قدم اٹھا رہا ہوتا ۔گلی کے درمیان ایک پٹری بنی تھی جس پہ ایک تاریخی سرخ رنگ کو چھوٹا سا ٹرام چلتا تھا۔وہ پیدل انسان کی رفتار سے دگنیرفتار سے چلتا اور گلی کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پہنچا دیتا ۔اس گلی کو ختم کرنے کے لیے بھی گھنٹہ تو چاہیے تھا ۔وہاں دونوں اطراف دکانوں کے چمکتے شیشے اور اوپر قمقمے لگے تھے ۔بازار نائٹ کلبز ریسٹورینٹس کافی شاپس ڈ یزائنر وئیر غرض ہر برانڈ کی دکان وہاں موجود تھی۔چند روز پہلے وہ ادھر آ ئیں تو صرف ونڈو شاپنگ میں ہی ڈ ھا ئی گھنٹے گزر گئے اور تب بھی وہ استقلال جدیسی کے درمیان پہنچی تھیں سو تھک کے واپس ہو لیں ۔حیا! تم نے دیکھا استقلال اسٹریٹ جیسے ماڈرن علاقے میں بھی ہر تھوڑی دور بعد پئیرہال ضرور ہے ۔بڑے نیک ہیں بھئ ترک! وہ قدرے طنزیہ ہنسی اور پھر متلاشی نگاہوں سے ادھر ادھر دیکھنے لگی استقلال اسٹریٹ آ نے کا اصل مقصد جہان سے ملنا تھا اور وہ صرف اس لیے یہاں آ ئی تھی کہ بر گر کنگ جاے اور ؛میں یہاں سے گزر رہی تھی تو سو چا؛کہہ کر اس سے مل لے وہ دونوں ساتھ ساتھ تیز رفتاری سے چل رہی تھیں ۔وہاں ہوا تیز تھی اور حیا کہ کھو لے بال ا ڑ ا ڑ کہ اس کے چہرے پہ آ رہے تھے ۔
ﺣﯿﺎ ﺟﯽ؟ " ﻭﮦ ﮐﮭﺴﯿﺎﮨﭧ ﺳﮯ ﻣﺴﮑﺮﺍﮰ۔
" ﯾﻌﻨﯽ ﮐﮯ ﻭﮦ ﻭﺍﻗﻌﯽ ﻣﺎﻓﯿﺎ ﮐﺎ ﺑﻨﺪﮦ ﮨﮯ؟ ﺍﻭﺭ ﺁﭖ ﮐﻮ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ، ﻣﮕﺮ ﺁﭖ ﺍﻋﺘﺮﺍﻑ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮦ ﺭﮨﮯ۔ " ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺗﯿﺮ ﭼﻼﻧﺎ ﭼﺎﮨﺎ۔
" ﻣﯿﮟ ﭨﮭﯿﮏ ﺳﮯ ﮐﭽﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﻧﺘﺎ۔ " ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺳﺎﺩﮔﯽ ﺳﮯ ﮨﺘﮭﯿﺎﺭ ﮈﺍﻝ ﺩﯾﮯ۔
ﺩﻓﻌﺘًﺎ ﮐﭽﻦ ﺳﮯ ﺍﻧﺠﻢ ﺑﺎﺟﯽ ﮐﯽ ﭼﯿﺦ ﺑﻠﻨﺪ ﮨﻮﺋﯽ۔ ﻭﮦ ﺟﻮ ﮐﺮﺳﯽ ﮐﮯ ﮐﻨﺎﺭﮮ ﭘﮧ ﭨﮑﯽ ﺗﮭﯽ، ﮔﮭﺒﺮﺍ ﺍﭨﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﭽﻦ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻟﭙﮑﯽ۔
" ﮐﯿﺎﮨﻮﺍ؟ "
ﺍﻧﺠﻢ ﺑﺎﺟﯽ ﺳﺮﺥ ﺑﮭﺒﺠﻮﮐﺎ ﭼﮩﺮﮦ ﺍﻭﺭ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﭘﺎﻧﯽ ﻟﯿﮯ ﮐﮭﮍﯼ ﺗﮭﯿﮟ۔ ﺍﻥ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﺧﺎﻟﯽ ﭼﻤﭽﮧ ﺗﮭﺎ۔
" ﻣﺮﭼﯿﮟ۔۔۔۔۔۔۔۔ﺍﺗﻨﯽ ﻣﺮﭼﯿﮟ ﺣﯿﺎ "!
" ﻧﻦ ﻧﮩﯿﮟ۔ ﯾﮧ ﺗﺮﮐﯽ ﮐﯽ ﻣﺮﭼﯿﮟ ﭘﮭﯿﮑﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺻﺮﻑ ﭼﺎﺭ ﭼﻤﭽﮯ۔۔۔۔ "
" ﭼﺎﺭ ﭼﻤﭽﮯ؟ " ﺍﻥ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﭘﮭﯿﻞ ﮔﺌﯿﮟ۔ " ﯾﮧ ﺗﺮﮐﯽ ﮐﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺧﺎﻟﺺ ﻣﻤﺒﺊ ﮐﯽ ﻣﺮﭼﯿﮟ ﮨﯿﮟ، ﻣﯿﮟ ﺳﺎﺭﮮ ﻣﺴﺎﻟﮯ ﻭﮨﯿﮟ ﺳﮯ ﻻﺗﯽ ﮨﻮﮞ۔ "
" ﺍﻭﮦ ﻧﮩﯿﮟ۔ " ﺍﺱ ﻧﮯ ﺑﮯ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﺩﻝ ﭘﮧ ﮨﺎﺗﮫ ﺭﮐﮭﺎ، ﺟﺒﮑﮧ ﮈﯼ ﺟﮯ ﮨﻨﺲ ﮨﻨﺲ ﮐﺮ ﺩﻭﮨﺮﯼ ﮨﻮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔
*
ﺳﺮﺩﯼ ﮐﺎ ﺯﻭﺭ ﭘﮩﻠﮯ ﺳﮯ ﺫﺭﺍ ﭨﻮﭨﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺱ ﺻﺒﺢ ﺑﮭﯽ ﺳﻨﮩﺮﯼ ﺳﯽ ﺩﮬﻮﭖ ﭨﺎﻗﺴﻢ ﺍﺳﮑﻮﺍﺋﺮ ﭘﮧ ﺑﮑﮭﺮﯼ ﺗﮭﯽ۔ ﻣﺠﺴﻤﮧ ﺁﺯﺍﺩﯼ ﮐﮯ ﮔﺮﺩ ﮨﺮ ﺳﻮ ﺳﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﺫﺭﺍﺕ ﭼﻤﮏ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﻭﮦ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺳﺴﺖ ﺭﻭﯼ ﺳﮯ ﺳﮍﮎ ﮐﮯ ﮐﻨﺎﺭﮮ ﭼﻞ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﺟﺐ ﮈﯼ ﺟﮯ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ۔
" ﺣﯿﺎ ........ ﯾﮧ ﭨﺎﻗﺴﻢ ﻧﺎﻡ، ﮐﺘﻨﮯ ﻣﺰﮮ ﮐﺎ ﮨﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺍ ﺑﮭﻼ؟ "
" ﻣﯿﮟ ﺷﮩﺮ ﮐﯽ ﻣﯿﺌﺮ ﮨﻮﮞ، ﺟﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﭘﺘﺎ ﮨﻮ ﮔﺎ؟ "
" ﻧﮩﯿﮟ۔ ﻭﮦ ﻣﯿﺮﯼ ﮔﺎﺋﯿﮉ ﺑﮏ ﻣﯿﮟ ﻟﮑﮭﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﭨﺎﻗﺴﻢ ﻋﺮﺑﯽ ﮐﺎ ﻟﻔﻆ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻣﻌﻨﯽ ﺷﺎﯾﺪ ﺑﺎﻧﭩﻨﮯ ﮐﮯ ﮨﯿﮟ، ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﯾﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﻧﮩﺮﯾﮟ ﻧﮑﻞ ﮐﺮ ﺳﺎﺭﮮ ﺷﮩﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﭧ ﺟﺎﺗﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﺗﻤﮩﯿﮟ۔ ﻋﺮﺑﯽ ﺁﺗﯽ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﭘﻮﭼﮫ ﺭﮨﯽ ﮨﻮﮞ۔
" ﻋﺮﺑﯽ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﭨﺎﻗﺴﻢ ﻧﺎﻡ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﻟﻔﻆ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ، ﺍﻭﺭ ﻋﺮﺑﯽ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﻧﭩﻨﮯ ﮐﻮ ﺗﻘﺴﯿﻢ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ " ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﺩﻡ ﺭﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﮯ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﺳﺮ ﭘﮧ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﺎﺭﺍ۔ " ﺍﻭﮦ ﭨﺎﻗﺴﻢ ﯾﻌﻨﯽ ﺗﻘﺴﯿﻢ۔ ﺍﮔﺮ ﮔﻮﺭﻭﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﻣﻨﮧ ﭨﯿﮍﮬﺎ ﮐﺮ ﮐﮯ ﭘﮍﮬﻮ ﺗﻘﺴﯿﻢ، ﺗﺎﻗﺴﻢ ﯾﺎ ﭨﺎﻗﺴﻢ ﺑﻦ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ "
" ﭨﺎﻗﺴﻢ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ! ﻭﺍﺅ۔ " ﻭﮦ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﭘﮧ ﺧﻮﺏ ﮨﻨﺴﺘﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺁﮔﮯ ﺑﮍﮬﻨﮯ ﻟﮕﯿﮟ۔ ﻭﮦ ﺷﺎﭘﻨﮓ ﮐﮯ ﺍﺭﺍﺩﮮ ﺳﮯ ﺁﺝ ﺍﺳﺘﻘﻼﻝ ﺍﺳﭩﺮﯾﭧ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺁﺋﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔
ﺍﺳﺘﻘﻼﻝ ﺟﺪﯾﺴﯽ istiklal caddies ( ﺳﭩﺮﯾﭧ ) ﭨﺎﻗﺴﻢ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﻨﯽ ﻭﺍﻟﯽ ﺍﯾﮏ ﻟﻤﺒﯽ ﺳﯽ ﮔﻠﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﻭﮦ ﺍﮔﻠﯽ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺍﻃﺮﺍﻑ ﺳﮯ ﻗﺪﯾﻢ ﺁﺭﮐﯿﭩﯿﮑﭽﺮ ﻭﺍﻟﯽ ﺍﻭﻧﭽﯽ ﺍﻭﻧﭽﯽ ﻋﻤﺎﺭﺗﻮﮞ ﺳﮯ ﮔﮭﺮﯼ ﺗﮭﯽ۔ ﮔﻠﯽ ﺑﮯ ﺣﺪ ﻟﻤﺒﯽ ﺗﮭﯽ، ﻭﮨﺎﮞ ﺍﻧﺴﺎﻧﻮﮞ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﺭﺵ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﭼﻠﺘﺎ ﺩﮐﮭﺎﺋﯽ ﺩﮮ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﺗﺎ۔ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺟﺎ ﺭﮨﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﺁﭖ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺁ ﺭﮨﮯ ﮨﻮﺗﮯ۔ ﮨﺮ ﺷﺨﺺ ﺍﭘﻨﯽ ﺩﮬﻦ ﻣﯿﮟ ﺗﯿﺰ ﺗﯿﺰ ﻗﺪﻡ ﺍﭨﮭﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﺗﺎ۔
ﮔﻠﯽ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﺍﯾﮏ ﭘﭩﺮﯼ ﺑﻨﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ، ﺟﺲ ﭘﺮ ﺍﯾﮏ ﺗﺎﺭﯾﺨﯽ ﺳﺮﺥ ﺭﻧﮓ ﮐﺎ ﭼﮭﻮﭨﺎ ﺳﺎ ﭨﺮﺍﻡ ﭼﻠﺘﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﻭﮦ ﭘﯿﺪﻝ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﯽ ﺭﻓﺘﺎﺭ ﺳﮯ ﺩﮔﻨﯽ ﺭﻓﺘﺎﺭ ﺳﮯ ﭼﻠﺘﺎ ﺍﻭﺭ ﮔﻠﯽ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﺳﺮﮮ ﺳﮯ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺗﮏ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺩﯾﺘﺎ۔ ﺍﺱ ﮔﻠﯽ ﮐﻮ ﺧﺘﻢ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺑﮭﯽ ﮔﮭﻨﭩﮧ ﺗﻮ ﭼﺎﮨﺌﯿﮯ ﺗﮭﺎ۔
ﻭﮨﺎﮞ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺍﻃﺮﺍﻑ ﻣﯿﮟ ﺩﮐﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﭼﻤﮑﺘﮯ ﺷﯿﺸﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻭﭘﺮ ﻗﻤﻘﻤﮯ ﻟﮕﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺑﺎﺯﺍﺭ، ﻧﺎﺋﭧ ﮐﻠﺒﺰ، ﺭﯾﺴﭩﻮﺭﻧﭩﺲ، ﮐﺎﻓﯽ ﺷﺎﭘﺲ، ﮈﯾﺰﺍﺋﻨﺮﻭﺋﯿﺮ، ﻏﺮﺽ ﮨﺮ ﻗﺴﻢ ﮐﯽ ﺩﮐﺎﻧﯿﮟ ﻭﮨﺎﮞ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺗﮭﯿﮟ۔ ﭼﻨﺪ ﺭﻭﺯ ﭘﮩﻠﮯ ﻭﮦ ﺍﺩﮬﺮ ﺁﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﺻﺮﻑ ﻭﻧﮉﻭ ﺷﺎﭘﻨﮓ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﮈﮬﺎﺋﯽ ﮔﮭﻨﭩﮯ ﮔﺰﺭ ﮔﺌﮯ، ﺍﻭﺭ ﺗﺐ ﺑﮭﯽ ﻭﮦ ﺍﺳﺘﻘﻼﻝ ﺟﺪﯾﺴﯽ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﭘﮩﻨﭽﯽ ﺗﮭﯿﮟ، ﺳﻮ ﺗﮭﮏ ﮐﺮ ﻭﺍﭘﺲ ﮨﻮﻟﯿﮟ۔
" ﺣﯿﺎ ﺗﻢ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﺳﺘﻘﻼﻝ ﺳﭩﺮﯾﭧ ﺟﯿﺴﮯ ﻣﺎﮈﺭﻥ ﻋﻼﻗﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﮨﺮ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺩﻭﺭ ﺑﻌﺪ ﭘﺮﯾﺌﺮ ﮨﺎﻝ ﺿﺮﻭﺭ ﮨﮯ۔ "
" ﺑﮍﮮ ﻧﯿﮏ ﮨﯿﮟ ﺑﮭﺌﯽ ﺗﺮﮎ "! ﻭﮦ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻃﻨﺰﯾﮧ ﮨﻨﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﻣﺘﻼﺷﯽ ﻧﮕﺎﮨﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﺩﮬﺮ ﺍﺩﮬﺮ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﻟﮕﯽ۔ ﺍﺳﺘﻘﻼﻝ ﺍﺳﭩﺮﯾﭧ ﺁﻧﮯ ﮐﺎ ﺍﺻﻞ ﻣﻘﺼﺪ ﺟﮩﺎﻥ ﺳﮯ ﻣﻠﻨﺎ ﺗﮭﺎ
ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺻﺮﻑ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﯾﮩﺎﮞ ﺁﺋﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﺑﺮﮔﺮ ﮐﻨﮓ ﺟﺎﮰ ﺍﻭﺭ " ﻣﯿﮟ ﯾﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﮔﺰﺭ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﺗﻮ ﺳﻮﭼﺎ۔ " ﮐﮩﮧ ﮐﺮ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻣﻼﻗﺎﺕ ﮐﺎ ﺑﮩﺎﻧﺎ ﮨﯽ ﮈﮬﻮﻧﮉ ﻟﮯ۔
ﻭﮦ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﺎﺗﮫ ﺗﯿﺰ ﺭﻓﺘﺎﺭﯼ ﺳﮯ ﭼﻞ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔ﻭﮨﺎﮞ ﮨﻮﺍ ﺗﯿﺰ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺣﯿﺎ ﮐﮯ ﮐﮭﻠﮯ ﺑﺎﻝ ﺍﮌ ﺍﮌ ﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭼﮩﺮﮮ ﭘﮧ ﺁ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﻭﮦ ﺑﺎﺭ ﺑﺎﺭ ﺟﯿﮑﭧ ﮐﯽ ﺟﯿﺐ ﺳﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﻧﮑﺎﻟﺘﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﮐﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺍﮌﺳﺘﯽ۔ ﺗﺐ ﮨﯽ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺑﺮﮔﺮ ﮐﻨﮓ ﮐﺎ ﺑﻮﺭﮈ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﮈﯼ ﺟﮯ ﮐﻮ ﺑﺘﺎﮰ ﺑﻨﺎ ﺭﯾﺴﭩﻮﺭﻧﭧ ﮐﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﺗﮏ ﺁﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﭘﮧ ﮨﺎﺗﮫ ﺭﮐﮭﺘﯽ، ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﺍﻧﺪﺭ ﺳﮯ ﮐﮭﻼ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﺎﮨﺮ ﻧﮑﻼ۔ ﻭﮦ ﺑﮯ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﺍﯾﮏ ﻃﺮﻑ ﮨﻮﺋﯽ۔ ﻭﮦ ﺟﮩﺎﮞ ﺗﮭﺎ، ﻭﮦ ﺍﺳﮯ ﭘﮩﭽﺎﻥ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯽ ﻣﮕﺮ ﻭﮦ ﺍﮐﯿﻼ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ۔
ﻭﮦ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺳﮯ ﺁﺗﺎ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﮯ ﮔﺰﺭ ﮐﺮ ﻧﮑﻞ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﭘﻠﭧ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﻟﮕﯽ۔ ﮈﯼ ﺟﮯ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺭﮐﺘﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﮭﺎ، ﻭﮦ ﺍﭘﻨﯽ ﺩﮬﻦ ﻣﯿﮟ ﺩﮐﺎﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﺘﯽ ﭼﻠﺘﯽ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﺭﯾﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﺁﮔﮯ ﺑﮩﮧ ﮔﺌﯽ۔
ﺣﯿﺎ ﯾﻮﻧﮩﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﭩﻨﻮﮞ ﺗﮏ ﺁﺗﮯ ﺳﯿﺎﮦ ﮐﻮﭦ ﮐﯽ ﺟﯿﺒﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮨﺎﺗﮫ ﮈﺍﻟﮯ ﺍﺳﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺍﺏ ﻭﮦ ﮨﻮﺍ ﮐﮯ ﺭﺥ ﭘﮧ ﮐﮭﮍﯼ ﺗﮭﯽ، ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﮯﺑﺎﻝ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺍﮌﻧﮯ ﻟﮕﮯ ﺗﮭﮯ۔
ﺟﮩﺎﮞ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺩﻭﺭ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﯾﮏ ﺩﺭﺍﺯ ﻗﺪ ﻟﮍﮐﯽ ﺑﮭﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﮐﻮﭦ ﺍﺳﮑﺮﭦ ﻣﯿﮟ ﻣﻠﺒﻮﺱ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﺮﺥ ﺑﺎﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﻭﻧﭽﮯ ﺟﻮﮌﮮ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﻧﺪﮬﮯ، ﻭﮦ ﻟﮍﮐﯽ ﻧﺎﮔﻮﺍﺭﯼ ﺳﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﮨﻼ ﮨﻼ ﮐﺮ ﮐﭽﮫ ﮐﮩﮧ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔
ﺟﮩﺎﮞ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﺎ، ﺍﺳﮯ ﯾﻘﯿﻦ ﺗﮭﺎ۔ ﻭﮦ ﺩﻭﮌ ﮐﺮ ﺍﻥ ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﮔﺌﯽ۔ ﻭﮦ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺑﮩﺖ ﺗﯿﺰ ﭼﻞ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺭﻓﺘﺎﺭ ﺳﮯ ﻣﻠﻨﮯ ﮐﯽ ﺳﻌﯽ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﺍﯾﺸﯿﺎﺋﯽ ﻟﮍﮐﯽ ﮨﺎﻧﭙﻨﮯ ﻟﮕﯽ ﺗﮭﯽ، ﺑﻤﺸﮑﻞ ﻭﮦ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻋﯿﻦ ﻋﻘﺐ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻨﭻ ﭘﺎﺋﯽ۔
ﻟﮍﮐﯽ ﺑﻠﻨﺪ ﺁﻭﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﺳﺮ ﮨﻼﺗﯽ ﮐﭽﮫ ﮐﮩﮧ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺟﮩﺎﮞ ﺑﮭﯽ ﺧﺎﺻﺎ ﺟﮭﻨﺠﻼﯾﺎ ﮨﻮﺍ ﺟﻮﺍﺑًﺎ ﺑﺤٽ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﻭﮦ ﺗﺮﮎ ﺑﻮﻝ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ، ﯾﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺯﺑﺎﻥ، ﻭﮦ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﻧﮧ ﮐﺮ ﭘﺎﺋﯽ۔ ﺷﺎﯾﺪ ﺗﺮﮎ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﯽ۔ ﻭﮦ ﺑﮩﺖ ﻟﻤﺒﮯ ﻟﻤﺒﮯ ﻓﻘﺮﮮ ﺑﻮﻝ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﺘﻨﯽ ﺗﺮﮎ ﺣﯿﺎ ﻧﮯ ﺍﺏ ﺗﮏ ﺳﻨﯽ ﺗﮭﯽ، ﻭﮦ ﺍﯾﺴﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﯽ۔ ﺗﺮﮎ ﻣﯿﮟ ﻓﻘﺮﮮ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺑﺲ ﻓﻌﻞ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺁﮔﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺳﺎﺑﻘﮯ ﻻﺣﻘﮯ ﻟﮕﺎ ﻟﮕﺎ ﮐﺮ ﺍﯾﮏ ﺑﮍﺍ ﻟﻔﻆ ﺑﻮﻝ ﺩﯾﺎ ﺟﻮ ﻣﻌﻨﯽ ﻣﯿﮟ ﮐﺌﯽ ﻓﻘﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﺑﺮﺍﺑﺮ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﮭﺎ
" ﺟﮩﺎﮞ۔۔۔۔۔۔۔ ﺟﮩﺎﻥ۔۔۔۔۔ " ﻭﮦ ﺷﻮﺭ ﻭ ﺭﺵ ﻣﯿﮟ ﺑﻤﺸﮑﻞ ﺍﺗﻨﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺳﮯ ﺍﺳﮯ ﭘﮑﺎﺭ ﭘﺎﺋﯽ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺳﻦ ﺳﮑﮯ۔ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﯿﺴﺮﯼ ﭘﮑﺎﺭ ﭘﮧ ﻭﮦ ﺭﮐﺎ۔ ﻟﮍﮐﯽ ﺑﮭﯽ ﺳﺎﺗﮫ ﺭﮐﯽ۔ ﻭﮦ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺍﯾﮏ ﺳﺎﺗﮫ ﭘﻠﭩﮯ۔
" ﺟﮩﺎﻥ۔۔۔۔ " ﺍﺱ ﮐﮯ ﮨﻮﻧﭧ ﺟﮩﺎﻥ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺍﯾﮏ ﻣﻌﺼﻮﻡ ﻣﺴﮑﺮﺍﮨﭧ ﻣﯿﮟ ﮈﮬﻠﻨﮯ ﻟﮕﮯ ﺗﮭﮯ۔
" ﮐﯿﺎ ﻣﺴﯿﻠﮧ ﮨﮯ؟ " ﺍﺱ ﻧﮯ ﺳﻨﺠﯿﺪﮦ، ﺍﮐﮭﮍﮮ ﺍﮐﮭﮍﮮ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﺍﺑﺮﻭ ﺍﭨﮭﺎﮰ۔ ﺍﺳﮑﮯ ﭼﮩﺮﮮ ﭘﮧ ﺍﺗﻨﯽ ﺳﺨﺘﯽ ﺍﻭﺭ ﻧﺎﮔﻮﺍﺭﯼ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﺣﯿﺎ ﮐﮯ ﻣﺴﮑﺮﺍﮨﭧ ﻣﯿﮟ ﮐﮭﻠﺘﮯ ﻟﺐ ﺑﻨﺪ ﮨﻮﮔﺌﮯ۔ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺭﻧﮓ ﭘﮭﯿﮑﺎ ﭘﮍ ﮔﯿﺎ۔
" ﻣﯿﮟ۔۔۔۔ﺣﯿﺎ۔۔۔۔۔۔ " ﻭﮦ ﺑﮯ ﯾﻘﯿﻨﯽ ﺳﮯ ﺑﻨﺎ ﭘﻠﮏ ﺟﮭﭙﮑﮯ ﺍﺳﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺍﺳﮯ ﺷﮏ ﮔﺰﺭﺍ ﮐﮧ ﺟﮩﺎﮞ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﮩﭽﺎﻧﺎ۔
" ﮨﺎﮞ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ؟ " ﻭﮦ ﺑﮭﻨﻮﯾﮟ ﺳﯿﮑﮍﮮ ﺑﻮﻻ۔
ﻭﮦ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﻮﭦ ﮐﯽ ﺟﯿﺒﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮨﺎﺗﮫ ﮈﺍﻟﮯ ﮐﮭﮍﯼ ﻧﺎﭘﺴﻨﺪﯾﺪﮔﯽ ﺳﮯ ﺣﯿﺎ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔
ﭘﮭﺮ؟ ﺣﯿﺎ ﻧﮯ ﺑﮯ ﯾﻘﯿﻨﯽ ﺳﮯ ﺯﯾﺮﻟﺐ ﺩﮨﺮﺍﯾﺎ۔ ﻭﮦ ﺷﺸﺪﺭ ﺳﯽ ﺟﮩﺎﻥ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔
ﮐﻮﺋﯽ ﮐﺎﻡ ۔۔۔۔۔
جاری ھے
0 تبصرے
ہم سے رابطہ کرنے کا شکریہ
ہم آپ سے بہت جلدی رابطہ کریں گے۔