میں سسلی جانا چاھتی ھوں شاپنگ وغیرہ کے لیئے اور تم تو اپنی پھپھو کے گھر جاو گی نہ؟ڈی جی کوفتے کے سالن سے تیل نکال کر دوسرے پیالے میں ڈال رہی تھی۔وہ یونہی ھر سالن سے تیل نکالا کرتی تھی۔تلی ھوئ چیزوں کو اخبار میں لپٹتی اور پھر کھاتی۔ھاں اور تم ہڈیوں کا ڈھانچہ اسی لئے ھو۔حیا نے روک کر ناگواری سے اس کے عمل کو دیکھا وہ بنا اثر لئے اوپر آیا تیل دوسرے پیالے میں انڈیلتی رہی۔ڈائننگ ھال بےحد وسیع و عریض تھا ہر سو ذرد روشنیاں جگمگا رہی تھی۔وہاں دو لمبی سی قطاروں میں مستطیل میزیں لگی تھیں اور دونوں قطاروں کے چاروں طرف کرسیوں کی سرحد بنی تھی ھر طرف گھما گہمی رش اور شور سا تھا۔رفعتا پلیٹ کے ساتھ رکھا حیا کا موبائل بج اٹھا۔اس نے چمچ پلیٹ میں رکھا اور نپکین سے ہاتھ صاف کرتےہوئے چمکتی اسکرین کو دیکھا۔تایا فرقان ہوم کالنگ🤔ہیلو اس نے فون اٹھایا حیا ارم بول رہی ہوں ہوں،،،،کیسی ھو ارم نوالہ منہ میں تھا اس لیے اس کی پھنسی پھنسی سی آواز نکلی ٹھیک،،،تم سناو،،،ارم کی آواز میں ذرا بےچینی تھی۔سب خیریت ہے تم بتاؤ کوئی بات ہوئی ہے کیا؟ نہیں،،،ہاں،،،سنو ایک بات تھی آواز دھیمی سرگوشی میں بدل گئی کہو میں سن رہی ہوں حیا نے آہستہ سے چمچہ رکھا اور نپکین سے لبوں کو دبایا اس کے ذہن کے پردے پہ وہ وڈیو ابھری وہ،،،یار عجیب سی بات ہے مگر تم ابا وغیرہ کو نہ بتانا اصل میں کل شام جب میں یونیورسٹی سے واپس آئ تو گیٹ کے قریب ایک خواجہ سرا تھا اس نے مجھے روکا حیا بلکل دم سادھے سنے گئی پل بھر کو اسے ڈائننگ ہال کی آوازیں آنا بند ہو گئی تھی اس کی سماعت میں صرف ارم کے الفاظ گونج رہے تھے۔ پہلے تو میں ڈر گئ مگر اس نے کوئی غلط حرکت نہیں کی تو مجھے تسلی ہوئی وہ مجھ سے تمہارا پوچھ رہا تھا کہ حیا باجی کہاں ہیں اور کیسی ہیں؟ امریکہ پہنچ گئیں ہیں خیریت سے؟میں نے بتایا وہ امریکہ نہیں ترکی ہے پھر وہ کہنے لگا کہ میں تمہیں اس کا سلام اور وہ جھجکی اور دعا دے دوں۔اور کچھ؟ نہیں مگر تم ابا وغیرہ کو نہ بتانا کہ میں نے ایک خواجہ سرا سے بات کی ہے یہ بات تمہیں اس سے مخاطب ہونے سے پہلے سوچنی چاہیے تھی بھر حال میں نہیں جانتی کون ہے وہ کیا نام بتایا اس نے اپنا؟ ڈولی،،، پتا نہیں کون ہے آیندہ ملے تو بات نہ کرنا بلکہ نظر انداز کر کے گذر جانا مزید چند باتیں کر کے اس نے فون رکھ دیا اور دوبارہ پلیٹ کی طرف متوجہ ہو گئی ویسے تمھاری پھپھو کا کوئی ہینڈسم سا بیٹا ویٹا ہے؟ ڈے جی نپکین سے ہاتھ صاف کر کے مگن سے انداز میں پوچھ رہی تھی۔اس کا ہاتھ روک گیا وہ چونک کر اسے دیکھنے لگی۔کیوں؟ تمھاری چمک دمک دیکھ کر یہ خیال آیا ڈی جے نے مسکراہٹ دباتے اپنی عینک انگلی سے پچھے کی۔حیا نے یونہی چمچہ پکڑے گردن جھکا کر خود کو دیکھا۔وہ پاوں کو چھوتے ذرد فراک اور چوڑی دار پاجامے میں ملبوس تھی فراک کی ذرد شیفون کی تنگ چوڑی دار آستینں کلائ تک آتی تھی شیفون کا دوبٹا اس نے گردن کے گرد لپیٹ رکھا تھا بال حسب عادت سمیٹ کر دائیں کندھے پے آگے کو ڈال رکھے تھے ۔ ہاں ہے ایک بیٹا مگر شادی شدہ ہے وہ لاپرواہی سے شانے اچکا کر پلیٹ میں پڑھا کوفتہ کانٹے سے توڑنے لگی اونہوں،،سارا مزہ ہی کرکرا کر دیا اوے ڈی جے یہ کیا ہے؟ وہ ڈی جے کے پچھے کچھ دیکھ کر روکی تھی۔۔کوفتہ ہے اور کیا ہے ڈی جے نے کانٹے میں پھنسے ہوئے کوفتے کو دیکھ کر کہا افواہ'' اپنے پچھے دیکھو اس نے جھنجھلا کر کہا تو ڈی جے نے گردن موڑی وہاں ایک قدرے فربہی مائل لڑکی چلی آرہی تھی حیرت انگیز بات یہ تھی کہ وہ شلوار قمیص اور دوپٹے میں ملبوس تھی سبانجی میں ہم وطن ؟ ڈی جے نے بے یقینی میں پلکیں جھپکیں۔اگلے ہی پل وہ دونوں اپنے اپنے کوٹ اٹھا کر کھانا چھوڑ کر اس کی طرف لپکی تھی وہ لڑکی اپنی کتابیں سنبھالتی چلی آرہی تھی ان دونوں کو دیکھ کر ٹھٹکی وہ ڈی جے کی شلوار قمیص اور حیا کا فراک پاجامہ بے یقینی سے دیکھ رہی تھی۔اور وہ دونوں اس کی شلوار قمیص۔آپ پاکستانی ہیں؟ حیا پرجوش سی اس کے پاس گئی ڈی جے اس سے ذرا پچھے تھی نہیں میں انڈین ہوں۔ ڈی جے ڈھیلی پڑ گئی،،رہنے دو حیا مجھے ابھی ورلڈ کپ کا غم نہیں بھولا اس نے سرگوشی کی حیا نے زور سے اپنا پاوں ڈی جے کے جوتے پہ رکھ کر دبایا۔ہم پاکستانی ایکسچینج سٹوڈنٹ ہیں حیا سلیمان اور یہ خدیجہ رانا۔اور آپ؟میں انجم ہوں۔میں اور میرے ہزبینڑ پی ایچ ڈی کر رہے ہیں اور ہم دونوں یہاں پڑھاتے بھی ہیں ۔ادھر فیکلٹی میں ہمارا اپارٹمنٹ ہے وہیں رہتے ہیں ہم۔کھبی آو نہ ادھر انجم ان دونوں سے ذیادہ پرجوش ہو گئی تھیں۔شیور،،انجم باجی ڈی جے ان کا مسلمان ہونا سن کر پھر سے پرجوش ہو گئی تھی وہ تینوں کافی دیر وہاں کھڑی باتیں کرتی رہی اور جب ڈی جے کو یاد آیا گورسل نکلنے میں پانچ منٹ ہیں تو انجم باجی کو جلدی سے خدا حافظ بول کر وہ اپنا کوٹ ہاتھوں میں پکڑے باہر بھاگی۔وہ ٹاقسم پارک میں سنگی بینچ پہ بیٹھی تھی اس نے اپنا لمبا سفید اونی کوٹ اب ذرد فراک پہ پہن لیا تھا اور سر جھکائے ہاتھ میں پکڑی شکن زدہ چٹ پر سے سبین پھپھو کا نمبر موبائل پہ ملا رہی تھی کال کا بٹن دبا کر اس نے وہ بھدا ترک فون کان سے لگایا۔وہاں دور تک سبزہ پھیلا تھا خوشنما پھول اور رنگوں،تتلیوں کی بہتات ہوا اسکے لمبے بال اڑا رہی تھی وہ موسم سے لطف اندوز ہوتے ہوئے فون پہ جاتی گھنٹی سننے لگی۔ہیلو بہت دیر بعد جہان نے فون اٹھایا۔جہان،،،،میں حیا ،،اس کے انداز میں خفت در آئی اس سے کہہ رہا تھا اسلئے آج جا رہی تھی ورنہ اس سرخ کوٹ نے تو اسے خوب بے وقعت کیا تھا ہاں حیا بولو؟وہ مصروف سا لگ رہا تھا وہ میں ٹاقسم پہ ہوں تم مجھے یہاں سے پک کر کے گھر لے جا سکتے ہو؟ آج ویک اینڈ تھا تو سوری حیا میں شہر سے باہر ہوں تم گھر ممی کو فون کر لونہ۔یہ تمھارے گھر کا نمبر ہو ہے؟اس نے حیرت سے چٹ کو دیکھا نہیں یہ تو میرا موبائل نمبر ہے۔تو کیا اس نے دوار بھائی کی مہندی والے روز جہان کے موبائل پہ فون ملا دیا تھا؟اوہ مجھے پھپھو کا نمبر لکھوا دو جہان نے فورا نمبر لکھوا دیا
******
اچھا میں ڈرائیو کر رہا ہوں، پIر بات ہوتی ہے۔ مزید کچھ سنے بغیر اس نے فون بند کر دیا۔
وہ دل مسوس کر رہ گئی۔ عجیب اجنبی سا اپنا تھا۔
پھپھو اسے کیب پر لینے آئی تھیں۔ وہ جو چند لیراز کی بچت کے چکر میں کیب کر کے نہیں گئی تھی، خوب شرمندہ ہوئی۔
گاڑی نہیں تھی تو بتاتیں، میں تو ایسے ہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی بات نہیں، گاڑی تو جہان کے پاس ہی ہوتی ہے۔ اور وہ مزید شرمندہ ہوئی۔ پھر گردن موڑ کر کھڑکی کےباہر دوڑتے درخت دیکھنےلگی۔
اسے پھپھو کچن میں ہی لے آئیں۔ حسب عادت وہ کام میں مصروف ہو گئیں۔
یہ میرے لیے اتنا بکھیڑا پالنے کی کیا ضرورت تھی؟ وہ اردگرد پھیلی اشیا دیکھ کر خفا ہوئی۔
کوئی بات نہیں، تم میری بیٹی ہو، میرا ہاتھ بٹا دو گی، اس لیے میں نے یہ سب شروع کر لیا۔ دونوں کے درمیان پچھلی ملاقات کے ناخوشگوار اختتام کا کوئی تزکرہ نہ ہوا، جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔
چلیں! آج پلاؤ تو میں ہی بناتی ہوں، مجھے ریسیپی سمجھاتی جائیں، ویسے بھی ترکوں کی میز اس پلاؤ کے بغیر ادھوری لگتی ہے۔ وہ کوٹ اسٹینڈ پر لٹکا کر آستین کلائی سے ذرا پیچھے کرتی واپس آئی۔ ڈوپٹہ اس نے اتار کر کرسی پہ رکھ دیا تھا۔
پہلے تو تم چکن کی بوٹیاں کاٹ دو۔ انھوں نے ٹوکری میں رکھے مرغ مسلم کی طرف اشارہ کیا اور خود چولھے پر چڑھی دیگچی میں چمچہ ہلانے لگیں۔
چھری تو یہ پڑی ہے، کٹنگ بورڈ کدھر ہے؟ وہ ادھر ادھر دیکھنے لگی۔
کٹنگ بورڈ۔۔۔۔۔۔ اوہو۔۔۔۔۔۔۔ وہ تو صبح نہیں مل رہا۔ جہان بھی پتا نہیں چیزیں اٹھا کر کدھر رکھ دیتا ہے۔ ٹھہرو! میں ایک پرانا بورڈ لے آؤں۔ اوپر ایٹک attic سے۔
آپ رہنے دیں، میں لے آتی ہوں، ایٹک اوپر کس طرف ہے؟
سیڑھیوں سے اوپر راہداری کے آخری سرے پہ، مگر تمہیں تکلیف ہو گی، میں خود۔۔۔۔۔۔
آپ گوشت بھونیں، جل نہ جائے، میں بس ابھی آئی۔ وہ ننگے پاؤں چلتی باہر لوبگ روم تک آئی۔
سیڑھیوں کے ساتھ لگے قد آور آئینے میں اسے اپنا عکس دکھائی دیا تو ذرا سی مسکرا دی۔ فرش کو چھوتے زرد فراک میں وہ کھلتے پھول کی طرح لگ رہی تھی۔ گلے کا کاٹ کھلا تھا اور اس کے دہانے پہ چھوٹے چھوٹے سورج مکھی کے پھولوں کی لیس نیم دائرے میں لگی تھی۔ یوں لگتا تھا اس کی خوبصورت لمبی گردن میں سورج مکھی کے پھولوں کا ڈھیلا سا ہار لٹک رہا ہو۔ اس نے انگلیوں فراک پہلوؤں سے ذرا سا اٹھایا اور ننگے پاؤں لکڑی کے زینوں پر چڑھنے لگی۔
اور راہداری کے آغاز میں ایک کمرے کا دروازہ بند تھا، شاید وہ جہان کا ایک کمرہ تھا۔ ابھی گھر میں داخل ہوتے ہوئے پھپھو نے ایسا کچھ بتایا تھا۔
وہ ایک نظر بند دروازے پہ ڈال کر آگے بڑھ گئی۔ فراک اب اس نے پہلوؤں سے چھوڑ دیا تھا۔
ایٹک میں آگے پیچھے بہت سے صندوق اور کاٹھ کباڑ رکھا تھا۔ متذبذب سی اندر آئی۔ بتی نہ جانے کدھر تھی۔ اس نے دروازہ کھلا رہنے دیا، باہر سے آتی روشنی کافی تھی۔
وہاں ہر سو سامان رکھا تھا، کٹنگ بورڈ نہ جانے کدھر تھا۔ وہ اندازا آگے بڑھی اور ایک کونے والے صندوق کا کنڈا کھول کر ڈھکن اوپر اٹھایا۔
نیچے لونگ روم سے بیرونی دروازہ کھلنے اور بند ہونے کی آوز آئی۔ ساتھ میں جہان اور پھپھو کی ملی جلی آوازیں۔ یقینا وہ آ گیا تھا۔ وہ مسکرا کر صندوق پر جھکی۔
اس میں الیکٹرک کا کوئی ٹوٹا پھوٹا سامان رکھا تھا۔ کٹنگ بورڈ کہیں نہیں تھا۔ حیا نے ڈھکن بند کیا اور نسبتا کونے میں رکھے صندوق کی طرف آئی۔
اپنے عقب میں اسے راہداری سے کسی دروازے کے ہولے سے کھلنے کی چرر سنائی دی تھی۔ جہان اتنی جلدی اوپر پہنچ گیا؟ مگر وہ پلٹی نہیں اور صندوق کو کھولنےلگی، جس کےڈھکن کے اوپر گرد اور مکڑی کے جالوں کی تہہ تھی۔
اس نے چند چیزیں الٹ پلٹ کی تو بےاختیار گرد نتھنوں میں گھسنے لگی۔ اسے ذرا سی کھانسی آئی۔ پورا ایٹک بےحد صاف تھا۔ ماسوائے اس کونےمیں رکھے دو تین صندوقوں کے، جیسےانہیں زمانوں سے نہ کھولا گیا ہو۔
اس کی پشت پہ ایٹک کا ادھ کھلا دروازہ ہولے سے کھلا۔ کوئی چوکھٹ میں آن کھڑا ہوا تھا، یوں کہ راہداری کی آتی روشنی کا راستہ رک گیا۔ پل بھر میں ایٹک۔۔۔۔۔۔ نیم تاریک ہو گیا۔
وہ پلٹنے ہی لگی تھی کہ صندوق میں کسی خاکی شے کی جھلک دکھائی دی۔ اس نے دونوں میں پکڑ کر اسے اوپر نکالا۔ وہ لکڑی کا تختہ نہیںتھا، بلکہ اکڑا ہوا کپڑا تھا۔
حیا نےکپڑا کھول کر سیدھاکیا۔ ایک پرانی گرد آلود خاکی شرٹ۔۔۔۔۔ے ستارے، تمغے اور ایک نام کی تختی۔
چوکھٹ میں کھڑا شخص چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا، اس کی طرف بڑھنےلگا۔
بڑھنےلگا۔جاری ھے

0 تبصرے
ہم سے رابطہ کرنے کا شکریہ
ہم آپ سے بہت جلدی رابطہ کریں گے۔