جنت کے پتے از نمرہ احمد (قسط 7)


ناول؛ ﺟﻨﺖ ﮐﮯ ﭘﺘﮯ
ﻗﺴﻂ 07

حیا حیا۔۔۔۔۔۔۔۔!! جیسے ہی وہ گھر میں داخل ہوئی لاونج میں بیٹھے سیلمان صاحب تیزی سے اس کی طرف بڑھے۔۔ ان کے چہرے پہ غیظ وغضب چھا یا تھا۔۔۔
وہ دوڑ کر پیچھے ہٹی ۔۔تب ہی پیچھے کہیں فون کی گھنٹی بجی۔۔ یہ ویڈیو تمیاری ھے؟؟ تم مجرے کرتی ہو؟؟؟
روحیل کو صوفے پہ بیٹھا تھا ایک دم اٹھا۔۔۔ اور بہت سی سیڈیز اس کی طرف اچھالیں۔۔۔۔ وہاں سب موجود تھے۔۔تایا فرقان ، داود بھائی، روحیل۔۔۔ سب۔۔ اور یک طرف ارم زمین پہ بیٹھی رو رہی تھی۔۔۔ دور کہیں فون کی گھنٹی مسلسل بج رہی تھی۔۔۔ نہیں نہیں وہ سر ہلاتے ہوئے خوف سے انہیں کہنا چاہتی تھی۔۔ اس کا منہ تو ہلتا تھا۔۔۔۔ لیکن آواز نہیں نکل رہی تھی۔۔ وہ سب اسکا خون لینے پہ تلے تھے۔۔ دفعتاََ سیلمان صاحب آگے بڑھے اور ایک زور دار تھپڑ اس کے چہرے پہ دے مارا۔۔۔
بے حیا۔۔ بے حیا۔۔۔ اسے تھپڑوں سے مارتے ھوئے سیلمان صاحب کہہ رہئے تھے۔۔۔ ان کے لب ہل رہے تھے مگر ان سے آواز ڈولی کی نکل رہی تھی۔۔۔وہ سلیمان صاحب نہیں ڈولی بول رہی تھی۔۔۔ ڈولی ۔۔ ڈولی۔۔۔ پنکی۔۔۔۔۔ بے حیا۔۔ پنکی کی انگلیاں۔۔۔ فون کی گھنٹی۔۔ وہ ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھی۔۔۔۔ کمرے میں اندھیرا تھا۔۔۔ اس نے ہاتھا بڑھا کر ٹینل لیمپ آن کیا ۔۔زرد سی روشنی ہر سو پھیل گئی۔۔۔
اس نے بے اختیار دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ چھوا۔۔ وہ ٹھیک تھی۔۔ سب ٹھیک تھا۔۔۔ کسی کو کچھ علم نہیں ھوا تھا وہ سب ایک بھیانک خواب تھا۔۔۔
اوہ خدایا وہ نڈھال سی بیڈ کراون کے ساتھ پیچھے جا لگی۔۔۔ اس کا تنفس تیز تیز چل رہا تھا۔۔۔ دل ویسے ہی دھڑک رہا تھا اور پورا جسم پسینے میں بھیگا تھا۔۔۔
فون کی مخصوص ٹون اسی طرح بج رہی تھی۔۔۔ ہاں بس وہ گھنٹی خواب نہیں تھی۔۔۔ اس نے سائیڈ ٹیبل سے موبائل اٹھایا اور چمکتی اسکرین دیکھی۔۔۔
پرائیوٹ نبر کالنگ۔۔۔ چند لمحے لگے تھے اسے فیصلہ لینے میں پھر اس نے فون کان نے ساتھ لگا لیا۔۔۔۔
میجر احمد میں آپ کے آفس آکر رپورٹ کرونے کے لئے تیار ھوں۔۔ کل صبح نو بجے میرے گھر کی بیک سائیڈ پہ موجود گراونڈ کے انٹرنس گیٹ پہ گاڑی بھیج دیں نو بجے شارپ۔۔۔
شیور۔۔۔ اسے فاتحانہ لہجہ سنائی دیا تھا۔۔ اس نے آہستہ سے فون بند کر دیا۔۔۔۔ کبھی بھی وہ کسی لڑکے سے یوں تنہا نہیں ملی تھی۔۔ مگر نہ ملنے کی صورت میں وہ ویڈیو کبھی نہ کبھی لیک ہو جاتی تو زیادہ برا ھوتا۔۔۔ اس نے بے اختیار جھرجھری لی۔۔ اس خؤفناک خواب نے اسے یہ سب کرنے پہ مجبور کر دیا تھا۔۔۔ اسے لگا اب اس کے پاس اور کوئی چارہ نہیں۔۔۔۔۔
&۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔&
پلے گراوںڈ کے گیٹ کے ساتھ توت کا تناور درخت تھا وہ اس سے ٹیک لگائے منتظر کھڑی تھی سرخ لمبی اے لائن قمیض اور نیچے چوڑی دار پاجامہ اوپر اسٹائلش سا سرخ سویٹر جا کی لمبی آستین ہتھیلوں کو ڈھانپ کر انگلیوں تک آئی تھیں۔۔۔ اور کندھوں پہ براون چھوٹی سی اسٹول نما شال۔۔ لمبے بال پیچھے کمر پہ گر رہے تھے۔۔۔ سردی اور دھند میں وہ مضطرب سی کھڑی تھی۔۔۔ سرخ پڑتی ناک لئے دونوں ہاتھ آُس میں رگڑ رہی تھی۔۔۔ ارم یا زارا اس نے کسی کو نہیں بتیا تھا۔۔۔ یہ خطرہ اسے اکیلے ہی مول لینا تھا۔۔۔ اس نے بے چینی سے کلائی سے سوئٹر کی آستین پیچھے ہٹائی اور گھڑی دیکھی نو بجنے میں ایک منٹ تھا۔۔۔۔۔
اسی پل سے زن سے ایک کار اس کے سامنے آکے رکی۔۔۔ سیاہ پرانی مرسڈیز اور کسی بت کی طرح سیدھ میں دیکھتا ڈرائیور۔۔ وہ خاموشی سے سر جھکائے آگے بڑھی۔۔۔ اور پچھلا دروازہ کھول کر اندر بیٹھ گئی،،،،، اس کے دروازہ بند کرتے ہی ڈروٓائور نے گاڑی آگے بھگا دی۔۔۔
ڈیڑھ گھنٹے بعد وہ سیف ہاوس پہنچی۔۔۔۔
سفید دیواروں والا خالی کمرہ۔۔ درمیان میں لکڑی کی میز اور کرسی۔۔ جس پہ اسے بٹھایا گیا۔۔۔ میز پہ ایک ٹیلی فون رکھا تھا باقی سارا کمرہ خآلی تھا وہ مضطرب سی گردن ادھر ادھر گھما کر دیکھنے لگی۔۔ تین طرف سفید دیواریں تھیں۔۔۔ ان میں سے ایک دیوار پہ وہ دروازہ تھا۔۔۔ جہاں سے وہ آئی تھی۔۔۔
البتہ چوتھی سمت اس کے بلمقابل دیوار شیشے کی بنی تھی۔۔۔۔ دراصل وہ شیشے کی اسکرین تھی۔۔۔ جو زمین سے لے کر چھت تک پھیلی تھی۔۔۔ شاید وہ چھوٹا خالی کمرہ کسی بڑے کمرے کا حصہ تھا۔۔۔ جس میں شیشے کی اسکرین لگا کر پارٹیشن کر دی گئی۔۔۔۔
اس نے ذرا غور سے اسکرین کو دیکھا۔۔۔۔ اس کا شیشہ مکمل طور پر دھندلا کر دیا گیا تھا۔۔۔ جیسے مشین پھیر کر بلائنڈ کیا جاتا ہے۔۔۔۔ اس دھندلے شیشے کے پیچھے ایک دھندلا منظر تھا۔۔۔ ہر شے اتنی مبہم اور دھندلی تھی کہ وہ بمشکل ایک خاکہ بنا پارہی تھی۔۔۔۔ یقیناََ وہ شیشیہ ایک کمرے کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کے لئے لگایا گیا تھا۔۔۔ اور اس کے پار کمرے کا باقی حصہ تھا۔۔۔ بس ایک دھندلا سا خآکہ سمجھ میں آتا تھا۔۔۔شیشے کے اس پار کوئی بڑا پر تعیش آفس تھا اور آفیس ٹیبل کے پیچھے ریوالونگ چئیر پہ کوئی بیٹھا تھا۔۔۔۔۔اس کا رخ حیا کی جانب ہی تھا۔۔۔اس کا چہرہ واضح نہ تھا۔۔۔ بس ایک دھندلی سی آوٹ لائن ہی بنتی تھی۔۔۔خاکی یونیفارم سر پہ کیپ ٹیک لگا کر کرسی پہ بیٹھا۔۔ میز پہ رکھی کوئی چیز انگلیوں میں گھماتا۔۔۔ وہ کس طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔ وہ کوئی فیصلہ نہ کر پائی،،،،،،،،
اس کا رخ تو سامنے حیا کی جانب ہی تھا۔۔ شاید دیکھ بھی اسی کو رہا تھا۔۔۔مگر اسکی آنکھیں واضح نہ تھیں۔،۔۔۔بس ایک چیز اس آفیسر کے گندمی چہرے کے دائیں طرف والےآدھے حصے پہ ایک بدنما سی کالک۔۔ جیسے آدھا چہرہ جھلس گیا ھو۔۔۔۔
دفعتاََ وہ شخص آگے کو جھکا۔۔۔ اور میز سے کچھ اٹھا کر کان سے لگایا۔۔۔ فون کا ریسور۔۔۔
ٹرن۔۔ ٹرن۔۔۔
یک دم حیا کے سامنے میز پہ رکھا فون بجنے لگا۔۔۔۔ وہ چونکی فون مسلسل بج رہا تھا۔۔۔۔ کیا وہ شخص اسے کال کر رہا تھا؟؟؟
اس نے دھڑکتے دل سے ریسور اٹھایا اور کان کے ساتھ لگا دیا۔۔۔۔۔
ہیلو!
السلام علیکم۔۔ مس حیا سلیمان۔۔ دس از میجر اسلم۔۔۔ وہی بھاری نرم گرم سا خوبصورت لہجہ۔۔۔ وعلیکم السلام۔ وہ فون ہاتھ میں پکڑ کر کان کے ساتھ رکھے سامنے اسکرین کو دیکھ رہی تھی۔۔۔ جس کے پار آدھے جھلسے چہرے والا آفیسر فون تھامے بیٹھا تھا،۔۔۔ کیا وہی میجر احمد تھا؟؟
میں امید کرتا ہوں ہم نے آپ کو زیادہ تکلیف نہیں دی۔۔
جی اس کو گھٹن محسوس ہونے لگی تھی۔۔۔۔
میرے سامنے موجود لیپ ٹاپ پہ تمام سسٹم کھلا ھوا ھے۔۔ مجھے ایک کلک کرنا ھے اور آپ کی ویڈیو صفہ ہستی سے یوں مٹ جائے گی جیسے تھی ہی نہیں۔۔۔۔۔
دیوار کے پار اس دھندلے منظر میں بیٹھے اس افیسر کے سامنے بھی ایک لیپ ٹاپ کھلا پڑا تھا۔۔ تو وہی کیجر احمد تھا تو وہ سامنے کیوں نہیں آتا۔۔۔۔
اور شہر کے ایک ایک بندے سے میں وہ ویڈیو نکلوا چکا ہوں۔۔۔ بولیے حیا میں کلک کروں؟؟؟
اور وہ رپورٹ؟؟؟
سمجھیں وہ ھو گئی۔۔ اسے لگا وہ مسکرایا تھا۔۔۔
تو آپ نے کہا تھا یہاں آکے رپورٹ کرنے کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غلط کہا تھا ایکسکوز بنایا تھا۔۔۔۔ بعض اوقات بہانے بنانے پڑتے ھیں۔۔۔ تب جب مزید صبر نہیں ھوتا۔۔۔ سمجھیں؟؟
فون کو جکڑا اس کا ہاتھ پسینے میں شرابور ھو چکا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ شخص اتنی عجیب باتیں کیوں کر رہا تھا ؟؟؟؟
آپ۔۔ کلک کر دیں۔۔ وہ بمشک کہہ پائی۔۔۔ وہ شخص جھکا شاید بٹن دبانے اور پھر واپس پیچھے ھو کر بیٹھا۔۔۔۔۔۔
کر دیا!
اوہ تھنک یو میجر احمد۔۔۔ اس کا گلا رھندنے لگا تھا۔۔؎ایک بات پوچھوں؟؟؟
جی؟؟
کیا یہ ویڈیو جعلی تھی؟؟
نہیں تھی تو اصلی۔۔۔
تو آپ اتنی ڈر کیوں رہیں تھیں۔۔۔؟؟؟
ظاہر ھے یہ ہماری فیملی ویڈیو تھی اور شادیوں پہ ڈانسز کی ویڈیو ھم نہیں بنواتے۔۔۔۔
کیوں؟؟ وہ پے در پے سوال کر رہا تھا۔۔۔۔
کیا مطلب کیوں؟؟؟ شادیوں کی ویڈیو ساکولیٹ ھوتیں ھیں ہر جگہ۔۔ کیا اچھا لگتا ھے ہمارے ڈانس کی ویڈیو پرائے لوگ دیکھیں۔۔۔؟؟؟
مگر پرائے لوگ لائیو تو دیکھ سکتے ھیں غالباََ اس ویڈیو میں مجھے وہٹر مووی میکر اور ڈی جے نظر آریے تھے۔۔۔ وہ بھی تو پرائے مرد ھیں ناں؟؟؟
میں سمجھ نہیں پایا کی آپ اس طرح رقص کرنے کو صیح سمجھتی ھیں۔۔تو ویڈیو کے باہر نکلنے سے پریشان کیوں تھیں؟؟؟ چاہے مووی میکر، ویٹر، ڈی جے یا نیٹ پہ موجود مرد بات تو ایک ہی ھے اور آپ اگر اس کو غلط سمجھتی ھیں تو آپ نے یہ کیا ہی کیوں؟؟؟
میں آپ کے سامنے جوابدہ نہیں ھوں۔۔۔۔ وہ درشتی سے بولی تو چند لمحوں کی خاموشی چھا گئی۔۔۔۔
ٹھیک کہا آپ نے خیر۔۔۔ اس نے ایک گہری سانس لی۔۔ ایک بات پوچھوں۔۔۔۔؟؟
پوچھیے! اب کہ اسکی آواز میں اجنبیت در آئی تھی۔۔۔
کبھی کوئی آپ کے لئے جنت کے پتے توڑ کر لایا ھے؟؟؟
ہم دنیا والوں نے جنتیں کہاں دیکھی ھیں میجر احمد۔۔۔۔
اس کے چہرے پہ تلخی رقم تھی۔۔۔ تب ہی تو ہم دنیا والے جاتنے نہیں کہ جنت کے پتے کیسے دیکھتے ھیں۔۔۔ کبھی کوئی آپ کو لا دے تو تھام لئیجئے گا۔۔۔ وہ آپ کو رسوا نہیں ھونے دیں گے۔۔۔۔۔
اس کے چہرے کی تلخی سکوت میں ڈھلتی گئی۔۔۔۔۔وہ ٹھہر سی گئی ۔۔دھندلی دیوار ابھی تک اس کے سامنے تھی۔۔۔کون تھا اس کے پار؟؟؟
آپ سن رہی ھیں؟؟
ہوں ۔۔ جی ۔۔جی وہ چونک کر سنبھلی۔۔ میں چلتی ھوں۔۔ وہ ریسور کان سے ہٹانے ہی لگی تھی کہ وہ کہہ اٹھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک منٹ ایک آخری سوال کرنا ھے مجھے۔۔۔۔۔
وہ اٹھتے اٹھتے واپس بیٹھ گئی۔۔۔۔ جی پوچھئے۔۔۔
آپ مجھ سے شادی کریں گی؟؟؟
اسے زور کا دھچکا لگا تھا۔۔ وہ گنگ سی پھٹی پھٹی نگاہوں سے دھندلی دیوار کو دیکھے گئی۔۔۔
بتایئے مس حیا۔!!
اس کے لب بھنچ گئے۔۔۔ حیرت اور شاک پہ غصہ غالب آگیا۔۔۔
مس حیا نہیں ۔۔ مسز حیا۔۔۔۔ چبا چبا کر ایک ایک لفظ بولتی وہ پرس تھام کر اٹھی۔۔ فون کا ریسور ابھی تک پکڑے رکھا تھا۔۔۔۔
کیا مطلب؟؟ وہ واضح چونکا تھا۔۔۔
افسوس کہ میرے بارے میں اتنی معلومات رکھنے کے باوجود آپ میرے بچپن کے نکاح کے بارے میں لاعلم ھیں۔
وہ نکاح جو میرے کزن جہان سمکندر سے میرا بچپن میں ہی پڑھا دیا گیا تھا۔۔ میں شادی شدہ ہوں اور میرا شوہر ترکی میں رہتا ھے۔۔
اوہ آپ کی وہ رشتہ دار فیملی جو کبھی پاکستان نہیں آئی؟؟ جانتا ھوں آپ کی پھوپھو کا خاندان جو ذلت اور شرمندگی کے مارے اب شاید کبھی ادھر کا رخ نہیں کرے گا۔۔ آخر کارنامہ بھی تو بہت شرمناک انجام دیا تھا۔۔۔۔ ان کا انتظار کر رہیں ھیں آپ؟؟؟ ارے بچپن کا نکاح تو کورٹ کی ایک ہی پیشی میں ختم ھو جاتا ھے۔۔۔
شٹ اپ۔۔۔ جسٹ شٹ اپ میجر احمد۔۔
وہ چلائی تھی۔۔۔ آپ کی ہمت کیسے ھوئی یہ بات کرنے کی۔۔۔؟؟؟
*****
شٹ اپ۔ جسٹ شٹ اپ میجر احمد!  وہ چلائی تھی۔ آپ کی ھمت بھی کیسے ھوئی یہ بات کرنے کی؟ ارے بھاڑ میں جائیں آپ اور آپ کی ویڈیو آپ بھلے اسے ٹی وی پر چلوا دیں مجھے پرواہ نہیں میرا ایک کام کرنے کی اتنی بڑی قیمت وصولنا چاھتے ھیں آپ؟  رھا جہان سکندر تو وہ میرا شوھر ھے اور مجھے اس سے بہت محبت ھے اس کے علاوہ میری زندگی میں کوئی نہیں آسکتا سمجھے آپ؟ 
رسیور واپس پلٹنے سے قبل اس نے دوسری جانب سے اس کا سوگواریت بھرا قہقہ سنا تھا پیر پٹخ کر وہ دروازے کی جانب بڑھی۔ اسی پل دروازہ کھول کر ایک سپاھی اندر داخل ھوا جو اسے اندر بٹھا کر گیا تھا گویا اسے فورا اشارہ کر دیا گیا تھا ملاقات ختم ھوچکی تھی اور حیا کے لیئے وہ بے حد تلخ ثابت ھوئی تھی
گاڑی آپ کا انتظار کر رھی ھے میم! آئیے۔ وہ راستہ چھوڑ کر ایک طرف ھو گیا حیا نے گردن موڈ کر دیکھا دھند کے اس پار وہ آدھے سیاہ چہرے والا شخص میز پہ جھکا کچھ کر رھا تھا شاید کچھ لکھ رھا تھا اسے لگا اس نے اس کی میز پہ کسی سرخ شہ کی جھلک دیکھی ھے شاید سرخ گلابو کے گلدستے کی یا شاید یہ اس کا وھم تھا جس لمحے وہ اس پرانی مرسڈیز کی پچھلی نشست پر بیٹھی تو کھلے دروازے سے اسے سپاھی نے جھک کر ایک سرخ گلابوں کا بوکے اسے تھمایا۔ گو کہ اس کے ساتھ کوئی خط نہ تھا اور پھول ان سفید گلابوں سے قطعا مخطلف تھے پھر بھی اسے یقین ھو گیا کہ وہ گمنام خطوط بھیجنے والا میجر احمد ھی تھا اور وہ اسے بہت پہلے سے جانتا تھا 
"یہ جا کر اپنے میجر احمف کہ منہ پہ دے مارو" 
اس نے بو کے واپس سپاھی کے بازوؤں میں پھینکا اور دروازہ کھٹاک سے بند کیا مرسڈیز زن سے آگے بڑھ گئی_
*
حیا۔۔۔۔۔ حیا ۔
ش میں ارم بھاگتی ھوئی آئی۔ خوشی اس کے انگ انگ سے پھوٹ رھی تھی_ "وہ ویڈیو اس ویب سائٹ سے ریمو ھو گئی ھے- اس نے فرط جزبات سے تقریبا بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے بیٹھی حیا کو جھنجھوڑ ھی دیا تھا- 
"مگر کیسے ھوا یہ سب؟"
اس ویب سائٹ والے کو خوف خدا آگیا ھو گا مجھے کیا پتہ- وہ لاپرواھی سے انجان بن گئی- 
"ھوں شاید مگر اچھا ھی ھوا" اوہ ہاں تمہاری ترکی کی فلائٹ کب ھے؟ 
"پتا نہیں پہلے پاسپورٹ تو ملے- پھر ھی ویزہ ملے گا اس کو ارم کی موجودگی سے کوفت ھونے لگی تھی کچھ اس کے تاثرات سے ھی ظاھر تھا ارم جلد ھی اٹھ کر چلی گئی وہ پھر سے اپنی سوچوں میں الجھ گئی-
میجر احمد___ اس کا آدھا جلسھا چہرہ___ سامنے نہ آنا___ ہردے کے پیچھے سے بات کرنا___ اور وہ اس کی عجیب فلسفانہ باتیں___ جنت وغیرہ کا تذکرہ___ باز پرس کرنا___ اور پھر شادی کا سوال، اوہ خدایا___ کیسا عجیب آدمی تھا وہ___ اور___ اور اس کی ایک بات جس کے بارے میں وہ اس وقت شدید عالم طیش میں ھونے کہ باعث سوال نہیں کر سکتی تھی___
"آپ کی پھوپھو کا خاندان جو ذلتباور شرمندگی کے مارے اب شاید کبھی ادھر کا رخ نہیں کرے گا__ آخر کارنامہ بھی تو بہت شرمناک سر انجام دیا تھا نہ__ 
کیوں کہی تھی اس نے یہ بات؟ کیسی ذلت و شرمندگی؟ کیسا شرمناک کارنامہ؟ 
پھوپھو کا خاندان واقعاتا پلٹ کر واپس نہیں آیا تھا تو کیا اس کی وجہ ان کی اپنے ملک اور خاندان سے بے زاری نہیں تھی جیسا کہ وہ قیاس کرتی تھی بلکہ کوئی اور تھی؟ کوئی ذلت آمیز کام جو انہوں نے سرانجام دیا تھا؟  اور انہوں نے کس نے؟ پھوپھو؟ ان کے شوھر؟ یا جہان سکندر نے؟ کیا گتھی تھی بھلا؟  مگر میجر احمد سے وہ استفسار کر نہیں سکتی تھی___ نہ ھہ اس کا دوبارہ کوئی فون آیا تھا___ پھر؟؟ 
اور وہ خطوط؟؟؟  وہ گلدستے؟؟  وہ بھی اسی نے بھیجے تھے؟؟  اسے اس کے سبانجی جانے کا کیسے علم ھوا؟ یقینا وہ اس کی کال ٹیپ کر رھا تھا جب زارہ کو اس نے بتایا تھا اور وہ اس وقت یقینا اس کے گھر کے باھر ھی ھو گا مگر وہ گلدستہ تو کچن کی ٹیبل پہ رکھا تھا تو کیا وہ ان کے گھر بھی داخل ھو سکتا تھا؟  اور اس کے کمرے میں بھی؟ 
خوف کی اک لہر نے اسے اہنے حصار میں لے لیا- وہ اٹھ کہ کمرے کا دروازہ لاک کرنے ھی لگی تھی کہ فاطمہ بیگم دروازہ کھول کہ اندر آئیں
"حیا__ تمہارے ابا تمہیں بلا رھے ھیں"
"او اکے آرھی ھوں" اس نے تکیے پہ رکھا دوپٹہ اٹھا کر گلے میں ڈالا سلیپر پہنے اور باھر آئی___ 
ابا؟ اس نے انگلی کی پشت سے ان کے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا
آجاؤ حیا
وہ خاموشی سے سر جھکائے چلتی ھوئی آئی اور بیڈ کی پائینتی پہ ٹک گئی سلیمان صاحب چند لمحے خاموش رھے شاید وہ کوئی تمہید سوچ رھے تھے مگر حیا کو امید تھی کہ وہ بنا تمہید کہ ھی سیدھی بات کر ڈالیں گے
"میں نے اک فیصلہ کیا ھے"
اس نے گردن اٹھائی وہ بہت سنجیدہ دکھائی دے رھے تھے
"اب تمھیں کوٹ کے ذریعے سبین کے بیٹے سے خلع لے لینی چاھئے"
کوئی اس کے منہ پہ چابک دے مارتا تب بھی شاید اسے اتنا درف نہ ھوتا، جتنا اب ھوا تھا
میں نے وکیل سے بات کر لی ھے- عدالت کی ایک پیشی میں علیحدگی  ھو جائے گی اور جتنے بے زار وہ لوگ ھم سے ھیں یقینا انہیں اس بات سے بہت خوشی ھوگی__
اس نے شاکی نگاھوں سے ماں کو دیکھا تو انہوں نے بے بسی سے شانے اچکا دیئے
تمہارے ابا ٹھیک کہہ رھے ھیں
اور اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی تو نہیں ھے ان کے رویے سے صاف اندازہ ھوتا ھے کہ وہ اس رشتے کو رکھنا ھی نہیں چاھتے
"ابا کیا یہ واحد حل ھے؟" بہتبدیر بعد وہ بولی تو اس کی آواز مہں ٹوٹے خوابوں کا دکھ تھا
"کیا اس کے علاوہ بھی کوئی حل ھے؟ حیا! دنیا کا کوئی باپ اپنی بیٹی کا گھر نہیں توڑنا چاھتا اور میں کبھی تمہیں یہ نا کہتا، لیکن کس قیمت پر؟  کس قیمت پر ھم یہ رشتہ نبھانے کی کوشش کریں،  جب وہ کوئی امید ھی نہیں دلاتے؟"
اگر آپ کو واقعی لگتا ھے کہ آپ میرا گھر بسا ھوا دیکھنا چاھتے ھیں تو مجھے ترکی جانے دیں، وھاں میں اس کو ضرور ڈھونڈھو گی اور پوچھونگی کہ اگر وہ گھر بسانا چاھتا ھے تو ٹھیک ھے ورنہ مھھے طلاق دے دے،  اگر نہیں دیتا تو وھی کورٹ چلی جاؤں گی مگر مجھے ایک آخری کوشش کر لینے دیں پلیز! 
وہ خاموش ھو گئے، شاید قائل ھو گئے تھے
ابا آپ مجھے پانچ ماہ کا وقت دیں- اگر اس کے آخر میں بھی آپ کو لگے کہ مجھے خلع لے لینی چاھئے تو میں آپ کہ فیصلہ میں آپ کے ساتھ ھونگی، وہ اٹھی اور بنا کچھ کہے کمرے سے نکل گئی-
*
     وہ خبطی لڑکی اسے کلاس کے باھر ھی مل گئی تھی- وہ فائیلیں سنبھالتی باھر جا رھی تھی جب اس نے حیا کو روک لیا 
"سنیں مس سلیمان" وہ جیسے مجبورا اسے مخاطب کر رھی تھی- حیا نے کوفت سے پلٹ کر دیکھا وہاں خدیجہ رانا کھڑی تھی-
آنکھوں پہ بڑا سا چشمہ لگائے، بالوں کی اونچی پونی باندھے،سینے سے فائل لگائے- ڈی جے___ جسے ڈی جے صرف اس کے فرینڈ کہا کرتے تھے، اور وہ اس کی فرینڈ نہ تھی نہ بننا چاھتی تھی__
جی خدیجہ؟  بادل نخواستہ اس نے ذرا مروت سے جواب دیا
آپ نے ویزہ کے لیئے اپلائی کر دیا؟ دراصل میم فرخندہ نے کہا ھے کہ ھم دونوں کو جلد از جلد ویزے کے لیئے اپلائی کرنا چاھئے کیونکہ فروری کہ پہلے ھفتے میں ھم نے سبانجی کو جوائن کرنا ھے اور آج تیرہ تاریخ ھے ھمارے پاس بس پندرہ دن ھیں اور ترکی کا ویزا پندرہ دن میں کبھی نہیں لگا کرتا
وہ پریشانی سے تیز تیز بولے جا رھی تھی اس کی بات کچھ ایسی تھی کہ حیا کو سنجیدہ ھونا پڑا ورنہ وہ ابھی تک ابا کی کہی گئی باتیں سوچ رھی تھی
"اوہ___ تو تب ھمیں کیا کرنا چاھئے" 
" لکل لازما ٹرکش ایمبسی جا کر ویزے کے لیئے اپلائی کرنا ھے آپ کو پتا ھے ٹرکش ایمبسی کا اک عجیب سا رول ھے کہ ھر روز سب سے پہلے آنے والے پندرہ امیدواروں کا ھی انٹرویو ھوتا ھے ایمبسی صبح سات بجے ھی کھل جاتی ھے اور وھاں لوگوں کی لائن لگی ھوتی ھے اگر ھم ایک منٹ بھی لیٹ ھوئے تو وہ ھمیں اگلے دن پہ ڈال دیں گے آپ سن رھی ھیں نا؟؟ 
"ھوں___جی" اس نے غائب دماغی سے سر ھلایا- پتا نہیں وہ کیا بولے جا رھی تھی
"آپ مجھے اپنا نمبر کھوا دیں، تاکہ ھم کوآرڈی نیٹ کر سکیں"
اس نے بے دلی سے اپنا نمبر لکھوا دا، خدیجہ اسے اپنے فون پر نوٹ کرتی گئی___
"ٹھیک ھے کل صبح ساڈھے چھ تک آپ ڈپلومیٹک انکلیو تک پہنچ جائیے گا، میں وھی ھوں گی"
اس نے اچھا کہہ کر جان چھڑانے والے انداز میں سر ھلایا-
"اور پلیز دیر مت کیجیئے گا- یہ نا ھو کہ آپ کی وجہ سے میرا بھی ویزہ رہ جائے مس سلیمان! " وہ ناک چڑھا کہ یہ جتا گئی آخر وہ بھی خدیجہ رانا ھے-
کیا کمپنی ملی ھے مجھے! اف وہ پیر پٹخ کر آگے بڑھ گئی- ابا کی باتوں نے اسے اتنا ڈسٹرب کیا تھا کہ اس وقت ویزہ وہ آخری چیز تھا، جس کے بارے میں وہ سوچ سکتی تھی
             
جاری ھے

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے