جیب سے ہاتھ نکالتی اورکانوں کے پیچھے- ارستی
تبہی اسنے برگر کنگ کا بورڈدیکھاتو ڈی جے کو بتاۂے بناریسٹورینٹ کے دروزے تک ائ اور اس سے پہلے کے دروازے پر ہاتھ رکھتی دروازہ اندر سے کھلا اور کوئ باہر نکلا-بے اختیار ایک طرف ہوئ-وہ جہان تھا-وہ اسے پہچان گئ تھی مگر وہ اکیلا نہیں تھاوہ اسکے سامنے سے آتا ساتھ سے نکل کر گزر گیا. تووہ پلٹ کر دیکھنے لگی ڈی جے نے اسے رکتا نہیں دیکھا تھا. وہ اپنی دھن میں دکانوں کو دیکھتی چلتی گئ اور لوگوں کے ریلوں میں آگے بہ گئ حیا یونہی اپنے گھٹنوں تک آتے سیاہ کوٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے اسے دیکھ رہی تھی,اب وہ ہوا کے رخ پر کھڑی تھی تو اسکے بال پیچھے کی طرف اڑنے لگے. جہان اسے دور جا رہا تھا. اسکے ساتھ ایک دراز قد لڑکی بھی تھی. کوٹ اسکرٹ میں مبلغ اپنے سرخ بالوں کو اونچی پونی میں باندھے'وہ لڑکی ناگواری سے کچھ کہہ رہی تھی. جہان نے اسے نہیں دیکھا اسے یقین تھا. وہ دوڑ کے ان کے پیچھے گئ.وہ دونوں بہت تیز رفتار چل رہےتھے. ان کی رفتار سے ملنے کی سعی میں وہ ایشیائ لڑکی ہانپنے لگی تھی. بامشکل وہ انکےعین عقب میں پہنچ پائ. لڑکی بلند آواز میں نفی میں سر ہلاتی کچھ کہہ رہی تھی. جہان بھی خاصا جہنجلایا ہوا, جوابًا بہث کررہا تھا. وہ ترک بول رہے تھے یا کوئ دوسری ذبان وہ فیصلا نہ کر پائ. شاید ترک نہیں تھی. وہ بہت لمبے لمبے فقرے بول رہے تھےاور جتنی ترک حیا نے اب تک سنی تھی وہ ایسی نہیں تھی. ترک میں فقرے چھوٹے ہوتے ھیں. بس فعل استعمال کیا اور اسکے اگے پیچھے سابقے لاحقے لگا لگا کر ایک بڑا سا لفظ بول دیا جو معنی میں کئ فقروں کے برابر ہوتا تھا .
جہان. جہان. "وہ شور اور رش میں بمشکل اتنی آواز سےاسے پکار پائ کہ وہ سن سکت. اس کی تیسری پکار پر پہ وہ رجا. لڑکی بھی ساتھ ہی رکی. وہ دونوں ایک ساتھ پلٹے"جہان...اسکے ہونٹ جہان کو دیکھ کر ایک معصوم مسکراہٹٹ میں ڈھلنے لگے تھے.
"کیا مسلۂ ہے؟"اس نے سنجیدہ, کھڑےاکھڑےاندازمیں أ برو اٹھائے. اسکے چہرے پر اتنی سختی اور ناگواری تھی کہ حیا کے مسکراہٹ میں کھلتے ہونٹ اب بند ہوگۂے. اسکا رنگ پھیکا پڑ گیا. "میں.. حیا.. "وہ بیقینی سےبنا پلک جھپکے اسے دیکھ رہی تھی. اسے شک گزرا کہ جہان نے اسےنہیں پہچانا.
"ہاں تو پھر؟وہبھنویںسکیڑےبولا.وہ لڑکی کوٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے کھڑی ناپسندیدگی سے حیا کو دیکھ رہی تھی. پھر؟حیانےبےہقینی سےزیرلب دہرایا. وہ ششدرسی جہان کو دیکھ رہی تھی. "کوئ کام ہے؟وہ بشمکل ضبط کرکے بولا. حیا نےدھیرے سے نفی میں سرہلایا. اسمیں بولنے کی ساکت نہ رہی تھی. "تو میری شکل کیا دیکھ رہی ہو جاؤ! "وہ شانے جھٹک کر پلٹا. لڑکی بھی ایک اچٹتی نگاہ اس پر ڈال کرمڑگئ. استقلال اسٹریٹ پہ لوگوں کا ریلا آگے بڑھتا گیا. جہان سکندراوراس لڑکی کے پیچھے بہت سے لوگ اس سمت جارہے تھے. کتنی دیر وہ ساکت کھڑی بہت سے سروں کی پشت کے درمیان ان دونوں کودور جاتے دیکھتی رہی. اسکی پلکیں جھپکنا بھول گئ تھی. ان دونوں کے سراب ہجوم میں گم ہورہے تھے اور وہ نقطے بنتے جا رہے تھے.... مدھم..... دور بہت دور..... "حیا... حیا.. "ڈی جے کہیں دوراتھل پتھل سی سانسوں کے درمیان چلارہی تھی. مگر وہ سن نہیں رہی تھی. وہ اسی طرح بھیڑ کے درمیان پتھرہوئ کھڑی اسی سمت دیکھ رہی تھی. وہ بہت دور جا چکے تھے ساکت پتلیوں میں اب دور ہونے لگا تھا بلا آخر بوجھ سے پلکےگریں اور جھک کر اٹھی تومنظر بھیگ چکا تھا. اسنے پھر سے پلکیں جھپکائ تو بھیگی آنکھوں سےقطرے رخساروں پر گرنے لگے. سامنے کا منظر تھوڑا واضح ہوا مگر... لمحے بھر کی تاخیراس کا تعا قب ہار گیا. وہ دونوں بھیر میں گم ہوگۂے تھے. وہ اپنا منظر کھو چکی تھی. آنسو ٹپ ٹپ اسکی تھوڑی سے نیچے گردن پہ لڑھکتے گۂے. "حیا ...کدھر تھیں تم ؟"ڈی جے نے نڈھال سی آکر اسکا شانہ جھنجھوڑا. اسکا سانس پھول چکا تھا اور وہ ہانپ رہی تھی. مگر حیا ابھی تک اسی سمت دیکھ رہی تھی.
#
اسنے ایک ہاتھ سے اوون کا ڈھکن کھولا دوسرے ہاتھ سےگرم ٹرے باہر نکالی. ٹرے پر خستہ گرم جنجر بریڈ تیار ہوئ تھی. ادرک کی ہلکی سی خشبو سارے کچن میں پھیلی تھی. وہ دوسرے ہاتھ سے جنجر بریڈ کو چیک کرتی سیدھی ہوئ اور ٹرے لاکر کاونٹر پر رکھی. وہ سفید ڈھیلی سی آدھے بازو والی شرٹ اور کھلے سیاہ ٹراؤزر میں مبلوس تھی. بالوں کا ڈھیلا سا جوڑا گردن پر پڑا تھا. اور الجھی الجھی سی لٹیں گالوں کو چھورہی تھیں. ٹی شرٹ کے اوپر پہنے ایپرن پہ جگہ جگہ چاکلیٹ اور کریم کے دھبے لگے تھے. معتصم کاؤنٹر کے ایک طرف کھڑا پیالے میں انڈے کی سفیدی پھینٹ رہا تھا. ڈی جے دوسری طرف کھڑی سجاوٹ کے لیے لی گئ بنٹی, جیلی اور بنینزکے پیکٹ کھول کھول کر پلیٹ میں انڈیل رہی تھی. ہر رنگ کی بنینز ,کینڈیز اور سرخ جیلی بنینز کا ڈھیڑ لگ چکا تھا .آج حسین کی سالگرہ تھی. روایتی طریقے سے کیک بنانے کے بجائے حیا اس کے لیے جنجر بریڈ ہاؤس تیار کر رہی تھی. ایک فٹ کا جنجر بریڈ سے بنا گھرجو چاکلیٹ اور رنگ برنگی جیلیز سے سجانا تھا. وہ پچھلے چار گھنٹے سےلگی ہوں تھی اور اب بلآخر اسکی جنجر بریڈ کے چھ کے چھ ٹکڑے بیک ہو چکے تھے. چار دیواروں کے لیے اور دو مخروطی چھت کے لیے. "آؤ اب اسے جوڑتے ہیں. "اسنے کہا تو معتصم جو آسینگ بنا چکا تھا پیالا رکھ کر اس کی طرف آیا. ڈی جے اب ایک دیوار اٹھا کر اسمیں سےمستطیل دروازہ کاٹ رہی تھی. حیا اور معتصم نے احتیاط سے دو دیوریں متصل کھڑی کیں اور انکے جوانٹ پہ بطور گم مخصوص سیرپ لیپ دیا. پھر بہت آہستہ دونوں نے ہاتھ ہٹاۂے .دیواریں سیدھی کھڑی رہیں. سیرپ نے انہیں چپکا دیا تھا. "زبردست! "وہ پر جوش سی ہوگئ. اس کا گھر بن رہا تھا یہ خیال ہی اسکی ساری تھکاوٹ بھگا لے گیا. وہ دونوں اب اگلی دیوار جوڑنے لگے حیا کے ماتھے سے جھولتی لٹ بار بار آنکھوں کے سامنے آتی. وہ بار بار اسے ہاتھ سے پیچھے ہٹاتی. پوروں پر لگے چاکلیٹ اور سیرپ کے دھبے اسکے رخسار پر لگ گئے مگر پروا کسے تھی. چار دیواری بن گئ تھی اب انھوں نے وہ مستطیل ٹکروں کو اوپر "وی"کیطرح رکھا اور جوڑ پر سیرپ لگایا. کافی دیر بعد انھونے ہاتھ اٹھاۂے. چھت برقرار رہی. سیرپ سوکھنے لگا چھت مزیدمضبوط ہوتی گئ. "حیا تم گریٹ ہو"وہ بھورا ساگھر بنا رنگ یاآراۂش کے بھی اتنا پیارا لگ رہا تھا. کہ معتصم بے اختیار ستائش سے بولا. "مجھے پتا ہے"وہ دھیرے سے ہنسی. وہ تینوں اب الا بلا کینڈیز.,جیلیز اور بنینز سے دیواروں کی سجاوٹ کرنے لگے وہ ہر ڈیکوریشن کے پیچھے ہلکا سا سیرپ لگا کر اسے دیوار سے چپکا دیتے بھورے گھر پر جگہ جگہ سرخ ,سبز اورنیلے..
بٹن کے مانند آنکھیں ابھرنے لگی تھیں. ذرا سی دیر میں گھر سج گیا تھا. ڈی جے نے سفید کریم سے کھڑکیوں کی چوکور چوکھٹیں بنائیں اور اندر نیلی کریم کا رنگ بھر دیا."اب استنبول کی برف باری کا مزہ اپنے گھر کو بھی چکھاۂیں"حیا آئسنگ شوگر اور چھلنی لے آئ اس نے سفید سوکھے آٹے کی شکل کی آۂسنگ شوگر چھلنی میں ڈالی اور گھر کے اوپر کرکے چھلنی آہستہ آہستہ ہلانے لگی.چھلنی کے سوراخوں میں سے سفید ذرے نیچے گرنے لگے. بھورے گھر پر برف باری ہونے لگی اورایک ہلکی سی سفید تہہ چاکلیٹ سے ڈھکے گھر پر بیٹھنے لگی "حیاجنجربریڈہاؤس"تیارتھا.اسنے احتیاط سے ٹرے اٹھائ. گھر برقرار رہا. وہ اسکی ساڑھے چار گھنٹوں کی محنت کا ثمر تھا. کسی سالگرہ کی تقریب سے پہلے حیا سلیمان نک سک سا تیار نا ہو حیرت آنگیزکی بات تھی. مگر آج اسکی تیاری وہ گھر ہی تھا. اسے اپنے رف حلیے ایپرن اور چہرے پہ لگے دھبوں کی پروہ نہیں تھی. اسکی ساری توجہ جنجر بریڈہاؤس پر تھی وہ ڈی جے اور معتصم کےپیچھے چلتی کامن روم میں داخل ہوئ. وہاں فاصلے فاصلے پرگول میزوں کے گرد کرسیوں کے پھول بنے تھے. درمیانی میز پر گفٹس اور حسین کا لایا ہوا کیک رکھا تھا بارہ ممالک کے ایکسچینج اسٹوڈینس آچکے تھے وہ کوئ سرپرائز پاڑٹی نہ تھی. سو حسین بڑی میز کےپیچھے کھڑا ہنستا ہوا. ٹالی کا گفٹ لینے کی کوشش کر رہا تھا جسے ٹالی بار بار پیچھے کر رہی تھی. "سرپرائز حیا نے پکارا تو سب نے ادھردیکھا. معتصم اورڈی جے کے پیچھے وہ چوکھٹ پر کھڑی تھی دونوں ہاتھوں میں اٹھائ ٹرے میں وہ فیری ٹیل ہاؤس رکھا تھا. حیا کو پتا تھا وہ ہنسل اور گریٹل کے جنجر ہاؤس سے ذیادہ خوب صورت تھا"واؤ !"بے اختیار بہت سے لبوں سے ستائش نکلی.
"حیا تم نے میرے لییے اتنا کیا! "حسین بے حد متاثر ہوا تھا. اسنے مسکراتےہوئےشانے اچکائے. وہ دروازےمیں کھڑی تھی دروازہ آدھا کھلا تھااور سردی اندر آرہی تھی. "آؤ حیا! " اسے میز پہ لے آؤ. معتصم بڑی میز گفٹس کیک اور دوسری ڈشز کے درمیان چیزیں ہٹاکر جگہ بنانے لگا. سردی کی لہر دروازے سے اندر گھس رہی تھی. اسنے بائیں ہاتھ میں ٹرےپکڑےاور دائیاں ہاتھ بڑھا کر دروازہ دھکیلنا چاہا. وہ بدقسمتی کا لمحہ تھا. دروازے کی ناب کو اسنے چھوا ہی تھا کہ دروازہ زور سے پورا کھلا اور کوئ تیزی سے اندر داخل ہوا کھلتے دروازے نے اسکا ہاتھ پیچھے دھکیلااور وہ توازن برقرار نہ رکھ سکی.. وہ بے اختیار ایک قدم پیچھے ہٹی. اور تب ہی اسکے ہاتھ میں پکڑی ٹرے ٹیڑھی ہوئ. "اوہ.. سو! "بہت سی دلزور چیخیں بلند ہوئیں اور ان میں سب دل خراش اسکی اپنی چیخ تھی. الٹی ہوئ ٹرے اسکے ہاتھ میں رہ گئ ہلکی سی ٹھڈ کی آواز کے ساتھ زمین پر جا گراہر دیوار ٹکروں میں بٹ گئ بنٹیز اور جیلیز ادھر ادھر بکھر گئیں. فرش پر بریڈ چاکلیٹ کریم, اور رنگ برنگی بنٹیوں کا ایک ملبہ پڑا تھااور وہ سب سناٹے کے عالم میں پھٹی پھٹی نگاہوں سے اسے دیکھ رہے تھے. کتنے ہی پل وہ شاک کے عالم میں اس ملبے کو دیکھے گئ پھر اسکے پار نظر آتے جوگرزکو دیکھا اور اپنی ششدر نگاہیں اوپر اٹھائیں. وہ جہان سکندر تھا اور اتنی ہی بے یقینی وشاک سے اس ملبے کو دیکھ رہا تھا. حیا کے دیکھنے پر بے اختیار اس نے نفی میں سر پکایا. "حیا آئ ایم سوری میں نے جان بوجھ کر نہیں. مجھے نہیں پتہ تھا تم سامنے ...اوو
گاڈ! "تاسف ملال کے مارے وہ کچھ کہہ نہیں پارہا تھا. وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی ایک دم لب بھینچ گئ اسکی آنکھوں میں تحیر کی جگہ غصے نے لے لی خون کی سرخ لکیریں اسکی آنکھوں میں اترنے لگیں وہ ایک دم جھکی بریڈ کا ٹوٹا کریم میں لتھڑا ٹکڑااٹھایا اور سیدھے ہوتے ہوئے پوری قوت سے جہان کے منہ پہ دے مارا. وہ اس غیر متوقع حملے کے لیئے تیار نہیں تھا. کریم میں لتھڑا ٹکڑا اس کی گردن پر لگا تو وہ بے اختیار دو قدم پیچھے ہٹا. ٹکڑا اس کی شرٹ پر سےپھسلتا نیچے قدموں میں جا گرا. اس نے گردن پہ لگی کریم کو ہاتھ سے چھوا اور پھر انگلیوں کے پوروں کو بے یقینی سے دیکھا. حیا میں نے جان بوجھ کر نہیں کیا. وہ سرخ آنکھوں سے لب بھیچےجہان کو دیکھ رہی تھی اس نے لب اتنی سختی سے بھیچے رکھے تھے کہ گردن کی رگیں ابھرنے لگی تھیں اور کنپٹی پہ نیلی لکیر نظر آنے لگی تھی وہ بلکل چپ کھڑی گہرے گہرے سانس لے رہی تھی. حیا اٹس اوکے. حسین پریشانی سے آگے بڑھا. ڈی جے اور معتصم اس کے ساتھ تھے. حیا میں نے واقعی نہیں دیکھا تھا کہ تم "شٹ اپ جسٹ شٹ آپ. "وہ اتنی زور سے چلائ کہ آگے بڑھتا حسین وہی رک گیا. "چلے جاؤ تم یہاں سے "کہیں بہی چلے جاؤمگر میری زندگی سے نکل جاؤ تم میرے لیئے عذاب اور دکھ کے علاوہ کچھ نہیں لاۂے نکل جاؤ اس کی کمرے سے. اس نے اردو میں چلا کر کہا تھا. بارہ ممالک کے اکسچینج اسٹوڈینٹ میں سے کوئ اردو نہیں سمجھتا تھا سواۂے ڈی جے کے مگر وہ تمام متاسف کھڑے طلبا سمجھ گئے تھے کہ وہ کیا کہہ رہی ہے. حیا.. جہان کی آنکھوں میں دکھ ابھرا. میرا نام بھی مت لو!. اسنے گردن کے گرد بندھے ایپرن کی ڈوری ہاتھ سے نوچی ایپرن ایک طرف اتار پھینکا اوربھاگتے ہوئے باہر نکل گئ. سیڑہیوں کے اوپر لگا بلب اسکے آتے ہی جل اٹھا تھا وہ تیزی سے چکردار سیرھیاں اترنے لگی. آنسو اس کے چہرے پر بہہ رہے تھے آخری سیرھی پھلانگ کر وہ اتری اور برف سے ڈھکی گھاس پہ تیزی سے چلنے لگی. باہر تیز سرد ہوا تھی. ہلکا ہلکا سا کہر ہر سو چھایا تھا وہ سینے پہ بازو لیپیٹے روتی ہوئ چلتی جارہی تھی اور اس سے پتا تھا کہ وہ ایک جنجر ہاؤس کےلییےنہیں رو رہی. پہاڑی کی ڈھلان اتر کر سامنے سبانحی کی مصنوعی جھیل تھی جھیل اب کافی پگھل چکی تھی پھربھی فاصلے فاصلے پر برف کے بڑے بڑے ٹکر ے نظر آرہے تھے وہ جھیل کے کنارے رک گئ تیز دورنے سے اس کا سانس پھول گیا تھا پتلی شرٹ میں سردی لگنے لگی تھی. ڈھیلا جوڑا کھل کر کمر پہ گرگیا تھا. وہ تھکی ماندی سی گھاس پر بیٹھ گئ اور سلیپرز سے پاؤں نکال کر ٹھنڈے پانی میں ڈال دیےوہ خود اذیتی کی انتہا تھی وہ گھٹنوں کے گرد بازو لپیٹ کر سر نیچے جہکا کر پھوٹ پھوٹ کر رودی. مصنوعی جھیل کا پانی رات کے اندھیرے میں چاندنی کی روشنی سے چمک رہا تھا گویا چاندنی کا ایک بڑا سا ورق سیاہ پانی میں تیر رہا ہو. دور جنگل سے پرندوں کی آواز وقفے وقفے سے سنائ دے رہی تھی کئ لمحے رہت کی طرح پھسل کرجھیل کی چاندنی میں گم ہوگئے تو اسنے قدموں کی چھاپ سنی کوئ اس کے ساتھ آکھڑا ہوا تھا. اسنے بھیگا چہرا اٹھا کر دیکھا. وہ جینز کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے لب کانٹتاسنجیدہ سا اس کے ساتھ کھڑا تھا "سوری حیا میں تم سے معذرت کرنے آیا تھا اس روز کام کی پریشانی میں تم سے مس بی ہیو کر گیا مگر...,
#
وہ چُپ چاپ بے آواز روتی اسےدیکھے گئی۔
"آئی ایم رئیلی سوری ۔ ۔ ۔ میں نےتمھارااتنا نقصان کردیا۔میں نے تمھیں نہیں دیکھاتھا'مجھےمعلوم نہیں تھا کہ تم زےکےپاس کھڑی ہو۔میں نےتمھارابڑھاہواہاتھ نہیں دیکھا تھا۔اپنی دانست میں میں بہت تیزچل رہا تھااورانجانےمیں تمھارا ہاتھ دھکیل دیا۔تمھاری ساری ریاضت ضائع کردی۔"
شائدوہ صرف جنجر ہاوس کی بات کررہا تھا'یا شائدان کےتعلق کی۔
"مگرمیں مداواکردوں گا۔"
"مداوا؟"پل بھرکو اس کےبہتےآنسو تھمے۔
"ہاں!میں تمہیں بالکل ایساجنجربریڈہاوس بنا کے لا دوں گا۔"
اوراس کادل چاہا'وہ پھرسے پھوٹ پھوٹ کر رو دے۔
"مائی فُٹ جہان سکندر!"وہ ایک جھٹکےسےاٹھی اور گیلے پیرپانی سےنکال کرسیلپرزمیں ڈالے۔
"میری زندگی میں جننربریڈہاوس سےبڑےمسائل ہیں"۔
وہ تیزی سےپلٹی تو ڈھیلےجوڑےکا آخری بل بھی کھل گیا اور سارےبال آبشار کی طرحکمر پہ سیدھے گرتے گئے۔
وہ تیز تیز قدم اٹھاتی اوپر ڈھلان پہ چڑھنےلگی۔
جہان لب کٹتا اسے دورجاتا دیکھتا رہا۔
وہ تکیےسےٹیک لگائے'پاوں لمبےکئے'کمبل مہں لیٹی تھی۔دونوں ہاتھوں سے موبائل تھامےوہ گیم کھیل رہی تھی۔
ساتھ والےبینک پہ ٹالی منہ پہ تکیہ رکھے سورہی تھی'چیری سٹڈی روم میں تھی۔خدیجہ نیچےاپنےبینک کی کرسیپہ بیٹھی میز پہ رکھے لیپ ٹاپ کی کنجیوں پہ انگلیاں چلا رہی تھی۔
"حسین کا برتھ ڈےجنجربریڈہاوس ٹوٹنےسے خراب نہیں ہوا'اس کابرتھ ڈےتمہارےاوورری ایکشن سےخراب ہواہے۔تم نےاپنےکزن کےساتھ اچھا نہیں کیا۔اس کاقصور نہیں تھا۔اس نےتمہیں واقعی نہیں دیکھا تھا۔اگرتم تھوڑا سا ضبط کرلیتیں اورکھلےدل سےاپنےکزن کو ویلکم کرتیں توہم اسی ٹوٹےجنجر بریڈہاوس کو ہی یادگاربنا لیتے۔اسے ایک دوسرےکےچہروں پہ ملتے'اس کےساتھ تصویریں کھنچواتے اور کیا کچھ نہ کرتے۔چیزیں وقتی ہوتی ہیں'ٹوٹ جاتی ہیں'بکھرجاتی ہیں۔رویے دائمی ہوتےہیں۔صدیوں کےلئےاپنا اثرچھوڑجاتےہیں۔انسان کوکوئی چیزنہیں ہرا سکتی جب تک کہ وہ خود ہار نہ مان لےاورتم نےآج ایک ٹوٹےہوئےجنجربریڈہاوس سےہارمان لی۔"
لیپ ٹاپ کی سکرین پہ نگاہیں جمائےڈی جےتیزی سےکچھ ٹائپ کرتی کہہ رہی تھی۔
حیااسی طرح ببل چباتی موبائل پہ بٹن دباتی رہی۔
"تمہارےجانےکےبعدسب اتنے شرمندہ تھےکہ مت پوچھو کہ کس طرح میں نےبمشکل سب کو منا کر حسین سےکیک کٹوایا۔"
دفعتاًحیاکاموبائل بجا تو ڈی جے کو چُپ ہونا پڑا۔
حیا نے لب بھینچے اسکرین کو دیکھا۔وہاں جہان کا موبائل نمبرلکھا آرہا تھا۔چاہنےکے باوجاد وہ کال مسترد نہ کر سکی۔
"کیا ہے؟"اس نےفون کان سےلگا گر آہستہ سےکہا۔
"ابھی تک خفا ہو؟"وہ ایک دم اپنائیت سے پوچھنے لگا تو وہ لب کاٹ کررہ گئی۔حلق میں آنسووں کا گولا سااٹکنےلگا۔
"خفاہونےکااختیاراپنوں کوہوتاہے'مجھےیہ اختیار کبھی کسی نےدیاہی نہیں۔"
"اتنے لمبے مُکالمے مت بولو مجھ سے اب سردی میں نہیں کھڑا ہوا جا رہا۔فوراً باہر آو۔"
آوہ ایک دم اُٹھ بیٹھی۔
****
"تم کہاں ہو؟"آنسو غائب ہو گئے_
"تمہارے ڈورم کے باہر بالکونی میں کھڑا ہوں_"
"میرے اللّه! تم اب تک یہیں کھڑے ہو"وہ فون پھینک کر اٹھی'تیزی سے سیڑهیاں پھلانگتی نیچے اتری اور دوڑ کر دروازہ کھولا
وہ بالکونی کی ریلنگ سے ٹیک لگائے 'سینے پہ بازو لپیٹے کھڑا تھا _اسے دیکھ کر مسکرایا _
"اف جہان!" حیا دروازہ بند کر کے اس تک آئی_اس نے ٹی شرٹ کے اوپر ایک کھلا سا سیاہ سو ئیٹر پہن لیا تھا اور بالوں کا پھر سے ڈھیلا جوڑا باندھ لیا تھا _آنکھیں ہنوزم متورم تھیں _
"کب سے کھڑے ہو ادھر ؟" وہ خفگی سے کہتی اس کے ساتھ آ کھڑی ہوئی
جب سے تم نے بتایا تھا کہ تمہاری زندگی میں جنجر بریڈ ہاؤس سے بڑے مسائل ہیں میں نے سوچا ان کو حل کیے بغیر نہ جاؤں چائے تو نہیں پلاؤ گی ؟"
وہ کچھ ایسے ڈرتے ڈرتے بولا کہ وہ ساری تلخی بھلا کر ہنس دی_
"آؤ! تمہیں ایپل ٹی پلاتی ہوں_تمہارے ترکی کی سوغات ہے ورنہ پاکستان میں ہم نے کبھی سیب والی چائے نہیں پی _" وہ دونوں ساتھ ساتھ اندرونی سیڑھیاں اترنے لگے _
"اور ہم یہی پی کر بڑے ہوئے ہیں کتنا فرق ہے نا ہم میں _وہ شائد یونہی بولا تھا _مگر کچن کا دروازہ کھولتی حیا نے مڑ کر اسے دیکھا ضرور تھا
"ہاں بہت فرق ہے ہم میں _" اس نے تسلیم کر لیا تھا _اس نے ہار مان لی تھی'اور انسان کو کوئی چیز نہیں ہرا سکتی جب تک......اف یہ ڈی جے کے سنہری اقوال بھی نا .....!
وہ سر جھٹک کر کچن میں داخل ہوئی_
"ایپل چائے تو ختم ہے ' اب سادہ چائے پیو " اس نے کیبنٹ کھول کر چند ڈبے آگے پیچھے کیے اور پھر مایوسی سے بتایا _
"دودھ نکالو'میں چائے کا پانی چڑھاتا ہوں_"وہ آگے بڑھا 'دیگچی ڈھونڈ ڈھانڈ کر نکالی 'isنکالی میں پانی اور پتی ڈال کر چولہے پر چڑھایا اور چولھا جلا دیا _وہ ایسا ہی تھا _فورا سے کم کر دینے والا اس کے ہاتھ بہت سخت اور مظبوط سے لگتے تھے _کام کے 'محنت اور مشقت کے عادی _وہ استنبول کی ورکنگ کلاس کا نمائندہ تھا _قب وہ سلیب پہ رکھے برتن جمع کر کے سنک میں ڈال رہا تھا _
"رہنے دو جہان ! میں کر لوں گی _"
"تم نے کرنے ہوتے تو اب تک کر چکی ہوتیں _اب اس سے پہلے کہ پانی سوکھ جائے 'دودھ ڈال دو 'بلکہ مجھے دو _" اس نے پلیٹ دھوتے ہوئے دوسرے ہاتھ سے دودھ کا دبا اٹھایا اور خود ہی دیگچی میں انڈیل دیا _وہ اسے دیکھ کر رہ گئی _
وہ کھلے نال تلے پلیٹ کھنگال رہا تھا _جینز اور جوگرز پہنے 'سوئیٹر کی آستینیں کہنیوں تک موڑے 'wohموڑے ٹاقسم اسکوائر کی میٹرو میں موجود اس ایگزیکٹو سے قطعا مختلف لگ رہا تھا 'جس سے چند ہفتے قبل حیاملی تھی _
" حیا .....حیا ....."ڈی جے حواس باختہ سی چلاتی ہوئی کچن میں داخل ہوئی _
" تمہارا فون مر جائے گا بج بج کر _اوہ 'السلام علیکم " جہان کو دیکھ کر وہ گڑبڑا گئی اور رک کر سانس لینے لگی _اس کا سانس بری طرح پھول چکا تھا _
وعلیکم السلام !جہان نے پلٹ کر اسے جواب دیا _"
" تمہارا فون !" وہ حیا کو موبائل تھما کر واپس مڑ گئی _حیا نے موبائل پہ دیکھا پانچ مسڈ کالز _ترکی کا کوئی غیر شناسا نمبر _
اسی وقت اس کا موبائل دوبارہ بجنے لگا _اس نے اسکرین کو دیکھا _وہی ترکی کا نمبر _اس نے کال وصول کر لی _
" ہیلو ؟" جب وہ بولی تو اس کی آواز میں تذبذب تھا _
" حیا سلیمان ؟بندے کو عبدالرحمان پاشا کہتے ہیں _اب تک تو آپ مجھے جن گئی ہوں گی _" وہ شستہ اردو میں کہ رہا تھا _اس کی آواز میں ممبئی کے باسیوں کا تیکھا پن تھا اور لہجہ بہت ٹھنڈا _
باسیوں کا تھیکا 😞 پن بن تھا
اور لہجہ بہت ٹھنڈا۔😊
حیا کا رنگ پھیکا پڑ گیا۔اس نے پلکیں اٹھا کر جہان کو دیکھا۔
وہ بہت غور سے اس کے چہرے کے اتار چڑھاؤ کو دیکھ رہا تھا۔
رانگ نمبر! اس نے یہ کہہ کر فون رکھنا چاہا مگر وہ آگے بڑھا اور اس کے ہاتھ سے موبائل فون لے لیا۔
کون!!!
اس نے کان سے موبائل فون کو لگا کر پوچھا۔
تو اس کے چہرے پر بے پناہ سختی تھی۔
کون؟؟؟
اس نے دوہرایا ۔
شاید دوسری جانب سے کوئی بول نہیں رہا تھا۔
جہان لب بھنچے چند لمحے کچھ دیر تک انتظار کرتا رہا،
پھر اس نے کان سے فون ہٹا دیا۔بند کر دیا ہے اس نے فون حیا کی طرف بڑھاتے ہوئے جانچتی، اور مشکوک نگاہوں سے اسے دیکھا
،کون تھا؟؟؟؟
تمہیں نہیں بتایا تو مجھے کیوں بتاتا۔۔۔۔۔۔
شاید رانگ نمبر تھا۔
وہ اب سنبھل چکی تھی 😃۔
تمہیں کوئی تنگ تو نہیں کر رہا۔؟
پھر وہ چونکا۔
وہ پھول۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پتہ نہیں کون ہے۔۔۔۔۔
پھر اس نے شانے اچکا دیے۔
جانے دو۔'''"''
ہراس منٹ ایک جرم ہے ۔ہم اس کے لئے پولیس کے پاس جا سکتے ہیں ۔وہ کچھ سوچ کر بولا۔
کسی مسئلے کا حل جہان سکندر کے پاس نہ ہو"""
یہ ممکن تھا بھلا۔
جانے دو میں اسے زیادہ اہمیت نہیں دیتی ۔خود ہی تھک کر رک جائے گا۔
گو کہ وہ مطمئن نہیں ہوا تھا مگر سر ہلا کر پلٹ گیا اور نل پھر سے کھول دیا۔
حیا نے موبائل کو سائلنٹ پر لگا کر جیب میں ڈال دیا۔
وہ اس نازک رشتے میں مزید بد گمانی کی متحمل نہ تھی ۔
😒😒😒😒😒😒😒
چولہا کیوں بند کر دیا اب پکنے دیتیں میں زیادہ کڑی ہوئی چائے پینے کا عادی ہوں ۔
میں نے نہیں بند کیا یہ آٹو میٹک ہے۔
ہر پندرہ منٹ بعد دس منٹ کے لیے بند ہو جاتا ہے ۔
سو دس منٹ بعد خود ہی جل اٹھے گا
یہ اچھا کام ہے
اس جیسے کوفت ہوئی ۔پھر آخر برتن کھنگالتے ہوئے وہ بار بار چولہے کو سوچتی نطروں سے دیکھتا رہا ۔جب برتن ختم ہو گئے تو ہاتھ دھو کر چولہے کی طرف آیا ۔
برتن دھل گے ہمارے :""""
اب تمہاری زندگی کے اگلے مسئلے کو حل کرتے ہیں ۔۔اس کے بعد کونسا مسئلہ ہے وہ بھی بتاؤ۔وہ چولہے کو پھر سے جلانے کی کوشش کرنے لگا۔
میری زندگی کے مسئلے ٹوٹے ٹینٹ یا ٹھنڈے چولہے کی طرح نہیں جو تم حل کر دو گے۔
اچھء بھلی زندگی ہے تمہاری ،،،کیا مسئلہ ہے سوائے اس بے کار چولہے کے ,
کو ئی تو حل ہوگا اسکا بھی،،،،،،،،
وہ نچلا لب دبائے جھک کر سوئیچ سے چھیڑ چھاڑ کر رہا تھا۔
اس کا کوئی حل نہیں """""""
یہ ناممکن ہے کسی مسئلے کا حل نہ ہو ۔۔۔
تھہرو میں کچھ کرتا ہوں،،،،،
وہ پینجوں کے بل زمیں پر بیٹھا اور جھک کر نیچے سے چولہے کا جائزہ لینے لگا۔
جہان رہنے دو۔
میری کار سے میرا قول بکس لے آو۔ڈیش بورڈ میں پڑا ہوگا۔تب تک میں اسے دیکھتا ہوں ۔
وہ جینز کی جیب سے چابیوں کا گچھا نکا کر اسکی طرف بڑھائے نیچے گردن جھکائے
چولہے کے ارد گرد جیسے کچھ تلاش کر رہا ہو وہ جہان ہی کیا ہے جوکچھ کرنے کی ٹھان لے تو پھر کسی کی نا سنے۔اسے میٹرو میں تسمیے کھولتا جہان یاد آیا تھا
۔
اس نے مسکراہٹ دبا کر ہاتھ بڑھا کر چابی پکڑی اور دروازے کی طرف بڑھ گئی ۔
جہان کی چھوٹی سی سفید کارہاسٹل کی سیڑھیوں کے آخری زینے کے سامنے ہی کھڑی تھی۔
اس میں سے ٹول بکس نکالتے ہوئے حیا نے بے اختیار سوچا تھا کہ وہ اتنا امیر نہیں ہے جتنا وہ سمجھتی تھی۔
یا پھر شاید یورپ میں رہنے والے رشتے دارکے بارے میں عمومی۔۔۔۔۔
تصور یہی ہوتا ہے کہ وہ خاصے دولت مند ہوں گئے جبکہ سبین پھپھو اور جہاں اس کے بر عکس مخنت کش اور ورکنگ کلاس کے افراد تھے۔
وہ واپس آئی تو وہ چھڑی سے ہی شروع ہو چکا تھا
اور پائپ ساکٹ اور پتہ نہیں کیا کیا کھولے بیٹھا تھا
چند منٹ وہ خاموشی سے سلیب کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑی اسے کام کرتے دیکھتی رہی۔۔وہ دائیں گھٹنے اور بائیں پنجرے کے بل زمین پر بیٹھا پائپ کے دہانے پہ بیج کا سے کچھ کھول رہا تھا روک بلا اس کے پاوں کے ساتھ فرش پر کھلا پڑا تھا۔
چند صبر آزما پل بیٹے اور وہ فاتحانہ انداز میں ہاتھ جھاڑتے ہوئے اٹھا۔۔
"یہ چوتھا چولہا جو کونے میں ہے، یہ فکس کر دیا ہے یہ اب خود سے نہیں بجھے گا- " اس نے کہنے کے ساتھ ہی عملی مظاہرے ک طور پر چوتھے چولہے کو جلا دیا اور پھر چائے کی کیتلی اس پر رکھ دی۔
"یہ جو تم نے حرکت کی ہے نا! جہاں سکندر یہ غیر قانونی ہے اگر کسی کو پتہ چل گیا تو۔۔۔۔۔؟؟؟؟"
"زبان کی میں اسمگلنگ بھی غیر قانونی ہے، مگر سٹوڈنٹس کرتے ہیں نا؟ ڈرنکس بھی غیر قانونی ہے، وہ بھی کرتے ہیں اور کمروں میں چھوٹے چولہے اور مائیکرو ویو رکھنا بھی غیر قانونی ہے ، وہ بھی رکھتے ہیں نا؟ سو تم بھی کرو!" وہ کاونٹی اے ٹیک لگائے کھڑا بڑی لاپروائی سے بولا تو وہ ہنس دی۔ اسے اپنا سروے فارم یاد آ گیا ۔
"تم سب نجی سے پڑھے ہو جو اتنی معلومات ہیں ؟؟"
سبانجی سے پڑا ہوتا تو ایک چھوٹا سا ریسٹورینٹ نا چلا رہا ہوتا- ہم تو عام سی سرکاری یونیورسٹیز میں پڑھنے والے عام سے لوگ ہیں مادام!-وہ جب بھی اپنی کم آمدنی یا کام کا ذکر کرتا " اس کے بظاہر مسکراتے لہجے کے پیچھے تلخ سی اداسی سی ہوتی - ایک احساس کمتری یا پھر اسکا وہم تھا۔
خیر!" حیات گہری سانس لے کر چولہے کی طرف آئی اور چائے کی کیتلی اٹھائی- ٹرے میں پیالیاں اس نے پہلے سیٹ کر رکھی تھی ، اب وہ چھلنی رکھ کر چائے اندیلنے لگی -
اس ویک اینڈ پر ڈینر کریں ساتھ؟"
اس نے جھٹکے سے سر اٹھایا، ذرا سی چائے چھلنی کے دہانے سے پھسل کر پیالی پکڑے اس کے ہاتھ پر گری، مگر وہ بے حد حیرت اور بے یقینی سے جہاں کو دیکھے گئی۔
اچھا --- اچھا نہیں کرتے غلطی سے کہ دیا -" وہ جیسے شرمندہ ہو گیا ۔
نہیں! نہیں، میرا مطلب ہے شیور ، مگر کہاں ؟"وہ جلدی سے بولی منانا وہ کچھ غلط نہ سمجھ لے ، مگر پھر اپنی جلد باذی پر کفر ہوئی۔
استقبال جدائی میں کہیں بھی۔تمہیں بس ٹائم پر اتھارٹی ہے نا ؟ حیا نے اس کی ک اسے دی تواس نے سر کے ذرا سے اثرات کے ساتھ تھام لی ۔
"ہاں۔" وہ اپنی پیالی لے کر اس ک بالمقابل سلیب سے ٹیک لگا کر کھڑی ہو گئی اور چائے میں چمچ ہلانے لگی ۔
"پھر میں تمہیں ٹاقسم سے پک کر لوں گا ، ہفتے کی رات آٹھ بجے ٹھیک؟؟
"ٹھیک،،" وہ گھونٹ بھرتے ہوئے مسکرا دی ۔
جب وہ اسے باہر تک چھوڑنے آئی تو دونوں کو اپنے نیچے پا کر بالکونی کی بتی خود سے جل اٹھی۔وہ سیڑھیوں کی طرف بڑھ ہی رہا تھا کہ وہ ہو لے سے کہہ اٹھی ۔
"آئی ایم سوری ، میں آج کچھ اوور رہ ایکٹ کر گئی تھی۔"
کچن کے سارے برتن ڈھلوان کر ، چولہا ٹھیک کروا کر ، اور چائے کے دو کپ بنوا کر تم نے بلآخر مان ہی لیا۔بہت شکریہ اب میں سکون سے سو سکوں گا -" وہ گویا بہت تشکر اور احسان مندی سے بولا تھا "
"وہ خفت سے ہنس دی ۔" کہا نا سوری ۔"
سوری مجھے بھی کرنی چاہیے۔مگر وہ ڈنر پر کر دوں گا ادھار رہا ، ہفتے کی شام آٹھ بجے " شارپ۔۔""مجھے یاد رہے گا"۔وہ سیڑھیاں اترنے لگا اور حیا سینے پہ بازو لپیٹے کھڑی اسے جاتے دیکھتی رہی۔جب اسکی کار نگاہوں سے اوجھل ہوگئی تو وہ کمرے کی طرف مڑ گئی ۔بالکونی کی بتی بجھ گئی ۔ڈی جے وہیں کرسی پہ بیٹھے لیپ ٹاپ پہ کچھ ٹائپ کر رہی تھی ۔
وہ زیر لب کوئی دھن گنگا تی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی اور اپنے بنک کے زینے چڑھنے لگی .
"تمہارا کزن بڑا ہینڈ سم ہے " ڈی جے نے مصروف انداز میں تبصرہ کیا
"سوتو ہے " اس نے بستر میں لیٹ کر ڈی جے کو دیکھتے ہوےجواب دیا
"یہ وہی پھپھو کق بیٹا ہے نا " ڈی جے سکر ین کو دیکھتی لیپ ٹاپ کی کنجیوں پے انگلیاں چلا رہی تھی
"ہوں!"
"وہی شادی شدہ ؟"
"ہاں" اسکے لبوں پے اک دبی سی مسکراہٹ آ ئی
"اچھا" ڈی جے مایوسی سے خاموش ہوگئی.
حیازیر لب وہی دھن گنگنا نے لگی
"بکو مت مجھے assignment بنا دو " کچھ دیر بعد ڈی جے جھنجھلا کہ بولی مگر وہ مسکراتے ہوے گنگناے جا رہی تھی وہ خوش تھی بہت خوش .
#
دروازہ کھلا تھا اس نے دھکیلا تو اک ناگوار مگر آہستہ آواز کے ساتھ کھلتا چلا گیاسامنے لا ؤ نج میں ابتری پھیلی تھی .چھوٹاسا کچن بھی ساتھ ہی تھا جس میں اسکی بیوی کام کرتے ہوئی دکھائی دے رہی تھی ہاشم قدم قدم چلتا ہوا دروازے پے آ کھڑا ہوا اس کی بیوی اسکی جانب پشت کیے چوہلا جلا رہی تھی وہ بھی اسی کی طرح تھی .درازقد .گھنگھرالے بال اور اہل حبشہ کی طرح موٹی آنکھیں ......!
"ڈاکٹر کیا کہتا تھا ؟"
وہ چو نک کہ پلٹی پھر اسے دیکھ کہ گہری سانس لی اور واپس چولہے کی طرف مڑ گئی "سر جری ہوگی " اور اسکے لی بہت سے پیسے چاہیں وہ خاموشی سے کھڑا سنتا رہا
"،پیسوں کا انتظام ہوا ؟" وو کپڑے سے ہاتھ صاف کرتی ہوئی ہاشم کے پاس آئ اور پریشانی سے اسکا چہرا دیکھا
"نہیں" ہاشم نے گردن دائیں سے بائیں ہلا ئی.
"تواب. کیا ہوگا ہمیں ان چند ہفتوں میں ہزاروں لیزار جمع کرنے ہونگے .تم نے پاشا سے بات کی ؟"
"کی تھی "
"توکیا کہتا وہ ؟" وو بے قرار ہوئی .
"نہیں دے گا " جو کام میں کر رہا ہوں 'بس اسکی قیمت دے گا .اور اک کرش بھی نہیں
"،کیوں ؟ اتنا تو پیسا ہے اسکے پاس.پورا محل تو کھڑا کر رکھا ہے بیو ک ادا میں پھر ہمیں کیوں نہیں دے گا ؟"
"وہ کہتا ہے اسنے کوئی خیراتی ارادہ نہیں کھول رکھا اور پھر مزید کس کھا تے میں دے ؟، میں نے ابھی تک اسکی پچھلی رقم نہیں لوٹا ئی
"ہاں تو وہ حارث کے علاج پے لگ گۓ تھے کوئی جوا تو نہیں کھلا ہم نے " اس نے غصے سے ہاتھ میں پکڑا کپڑا میز پے دے مارا
وہ نہیں دے گا. میں کیا کروں "،؟
ووبیحد مایوس تھا
مجھے نہیں پتا ہاشم کھیں سے بھی ہو '، تم پیسوں کا بندو بست کرو ورنہ حارث مر جاے گا "
ہاشم نے بچار گی اور کرب سے سر جھٹکا .
"ہاشم!،کچھ کرو ہما رے پاس دن بہت کم ہیں
" ہمیں پیسے چا ہیں ہر حال میں "،
" کرتا ہوں کچھ " وہ جس شگستگی کے عالم میں آیا تھا اسی طرح واپس چلا گیا .,
کی لکیروں کا جال بچھا تھا اور چال میں واضح مایوسی تھی۔وہ مضطرب سی انگلیاں مروڑتی کھڑی اسے جاتے دیکھتی رہی ، پھر ایک نظر کمرے کے بند دروازے پر ڈالی جہاں ان کا بیٹا سو رہا تھا اور سر جھٹک کر واپس سنک کی طرف مڑ گئی جہاں بہت سے کام ان کے منتظر تھے۔
#
ڈی جے نے دروازہ کھولا تو وہ اسے آئینے کے سامنے کھڑی دکھائی دی، دروازہ بند کر کے اگے آئی اور حیا کے سامنے کھڑے ہو کر پوری فرصت سے اور مشکوک نگاہوں سے اسے دیکھا۔
اس کے ہاتھ میں مسکارا برش تھا اور وہ آئینے میں دیکھتی آنکھوں کو کھولے بڑی اختیاط سے پلکوں سے برش مس کر رہی تھی ، گہرا کاجل سیاہ سنہری سا آئی شیڈ اور لبوں پر چمکتی گلابی لب سٹک وہ بہت محنت سے تیار ہو رہی تھی ۔ بال یوں سیٹ کیے تھے کے اوپر سے سیدھے آتے بال کانوں کے نیچے سے مڑ کر گھنگریالے ہو جاتے تھے ۔ بالوں پر اس نے کچھ لگا رکھا تھا کہ وہ گیلے گیلے لگتے تھے ۔ اور جو فراک اس نے پہن رکھا تھا اس کی اوپری پٹی قدیم طرز کے سنہرے سکوں سے بھری تھی ۔ آستین بہت چھوٹی تھی اور ان پر بھی سنہری سکے لٹک رہے تھے ۔
نیچے لمبے فراک کی کلیاں سیاہ تھی ، ٹہنوں سے زرا سا جھلکتا باجامہ بھی سیاہ تھا ۔
" کدھر کی تیاریاں ہیں ؟؟؟ " ڈی جے نے اسے سر سے پاوں تک دیکھا -
"ڈنر کی"! اس نے لپ گلوس کے چند قطرے لبوں پر لگائے اور آئینے میں دیکھتے ہوئے ہونٹ آپس میں مس کر کے کھولے۔
"کس کے ساتھ؟ "
"جہان ک ساتھ!" ساختہ لبوں سے پھسلا ، لمحے بھر کو چپ ہو گئی اور پھر لاپرواہی سے شانے اچکائے،، "ویسے وہ شادی شدہ ہے "
"اچھا وہ دو گھنٹے بالکونی میں کھڑا رہتا ہے، چولہے کے تاروں میں ہاتھ ڈال کر سے ٹھیک کر دیتا ہے، سارا کچن صاف کر جاتا ہے، پھر تمہیں ڈنر پر بلاتا ہے اور تم اس ساری تیاری کے ساتھ جا رہی ہو ، پھر سوچ لو، " وہ اب بھی شادی شدہ ہے؟"
"بکو مت ،" وہ ہنستے ہوئے کرسی پر بیٹھی اور اپنی سیاہ ہائی ہیل پہننے لگی ۔
"نہ بتاؤ میں بھی پتہ لگا کر راہوں گی "۔ ڈی جے منہ پر ہاتھ پھیرتی کرسی پر بیٹھ گئی ۔
حیا نے گنگناتے ہوئے میز پر رکھا اپنا سنہری کلچ اٹھایا ۔ وہی داود بھائی کی مہندی والا کل جو اس نے جہاز میں بھی ساتھ اٹھا رکھا تھا۔ اسے وہ زیادہ استعمال نہیں کرتی تھی، اب بھی کھولا تو اندر ایک تہہ کیا ہوا وزیٹینگ کارڈ اور اتصلات کا کالنگ کارڈ بھی رکھا تھا جو انھوں نے ابو ظہبی میں خریدا تھا۔ اس نے موبائل فون، پیسے اور آئی ڈی کارڈ اندر رکھا ۔ موبائل فون بڑا تھا کلچ میں نہیں آ رہا تھا تو اس نے موبائل ہاتھ میں پکڑ لیا اور "اچھا میں چلی " کہہ کر ہینگر پر لٹکتا اپنا سفید نرم کوٹ ایک ہاتھ سے کھینچ کر اتارا اور باہر لپکی ۔
باریک لمبی ہیل سے پتھریلی سڑک پر چلتے ہوئے اس نے ایک ہاتھ سے کوٹ سیدھا کیا اور پہنا ، پھر چلتے چلتے سامنے سے بٹن بند کیے ۔ گورسل کا اسٹاپ ذرا دور تھا ۔ اسے وہاں تک پیدل جانا تھا ۔ وہ کوٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے ، سر جھکائے تیز تیز سڑک پر چلتی جا رہی تھی ۔ شام کی ٹھنڈی ہوا سے اس کے گیلے گھنگریالے بال کمر پر اڑ رہے تھے۔
جاری ھے
0 تبصرے
ہم سے رابطہ کرنے کا شکریہ
ہم آپ سے بہت جلدی رابطہ کریں گے۔