جس لمحے وہ گورسل سٹاپ پہنچی تو
دروازہ کهلا تها۔ اس نے دهکیلا تو وہ ایک ناگوار مگر آہستہ آواز کے ساتھ کهلتا چلا گیا۔
سامنے لاؤنج میں ابتری پهیلی ہوئی تهی۔ چھوٹا سا کچن بهی ساتھ ہی تها۔ جس میں اس کی بیوی کام کرتی ہوئی دیکهائی دے رہی تهی۔
ہاشم قدم قدم چلتا کچن کے دروازے پہ آ کھڑا ہوا۔ اس کی بیوی اس کے سامنے جانب پشت کیے چولہا جلا رہی تهی۔ وہ بهی اس کی طرح تهی۔ دراز قد، گهنگریالے سیاہ بال اور اہل حبشہ کی سی مخصوص موٹی سیاه آنکھیں۔
ڈاکٹر کیا کہتا ہے؟"
وہ چونک کر پلٹی۔ پهر اسے دیکھ کر گہری سانس لی اور واپس چولہے کی طرف مڑ گئی۔
سرجری ہو گی، اور اس کے لیے بہت سے پیسے چاہئیں۔
وہ خاموشی سے کھڑا سنتا رہا۔
پیسوں کا انتطام ہوا؟ وہ کپڑے سے ہاتھ پونچهتی ہاشم تک آئی اور پریشانی سے اس کا چہرا دیکها۔
نہیں! ہاشم نے گردن دائیں سے بائیں ہلائی۔
تو اب کیا ہو گا؟ ہمیں انہی چند ہفتوں میں ہزاروں لیراز جمع کرنے ہیں۔ تم نے پاشا سے بات کی؟"
کی تھی۔
تو کیا کہتا ہے وہ؟ وہ بےقرار ہوئی۔
نہیں دے گا۔ جو کم میں کر رہا ہوں، بس اس کی قیمت دے گا۔ اوپر ایک کرش kurush بھی نہیں۔
کیوں؟ اتنا تو پیسہ ہے اس کے پاس۔ پورا محل تو کھڑا کر رکھا ہے بیوک ادا میں، پھر ہمیں کیوں نہیں دےگا؟
وہ کہتا ہے اس نے کوئی خیراتی ادارہ نہیں کھول رکھا اور پھر مزید کس کھاتے میں دے؟ میں نے ابھی تک اس کی پچھلی رقم نہیں لوٹائی۔
ہاں تو وہ حارث کے علاج پہ لگ گئےتھے، کوئی جوا تو نہیں کھیلتے ہم۔ اس نے غصے سے ہاتھ میں پکڑا کپڑا میز پر دےمارا۔
وہ نہیں دے گا، میں کیا کروں؟ وہ بےحد مایوس تھا۔
مجھے نہیں پتا ہاشم! کہیں سے بهی ہو، تم پیسوں کا بندوبست کرو، ورنہ حارث مر جائے گا۔
ہاشم نے بےچارگی اور کرب سے سر جھٹکا۔
ہاشم! کچھ کرو۔ ہمارے پاس دن بہت کم ره گئے ہیں۔ ہمیں پیسے چاہئیں ہر حال میں۔
کرتا هوں کچھ۔ وہ جس شکستگی کے عالم میں آیا تها، اسی طرح واپس لوٹ گیا۔ اس کی سیاه پیشانی پہ تفکر کی لکیروں کا جال بچھا ہوا تها اور چال میں مایوسی واضح تهی۔
وہ مضطرب سی انگلیاں مروڑتی کھڑی اسے جاتے دیکھتی رہی، پهر ایک نظر بند کمرے کے دروازے پہ ڈالی جہاں ان کا بیٹا سو رہا تها اور جهٹک کر واپس سنک کی طرف پلٹ گئی، جہاں بہت سے کام اس کے منتظر تهے۔
#
ڈی جے نے دروازہ کهولا تو وہ اسے آئینے کے سامنے کهڑی دکهائی دی۔ وہ دروازہ بند کر کے آگے آئی اور حیا کے سامنے کھڑے ہو کر پوری فرصت سے اور بہت مشکوک نگاہوں سے اسے دیکها۔
اس کے ہاتھ میں مسکارا برش تها اور وہ آئینے میں دیکهتی، آنکھیں کهولے احتیاط سے پلکوں سے برش مس کر رہی تهی۔ گہرا کاجل، سیاہ سنہری سا آئی شیڈ اور لبوں پہ جمکتی گلابی لپ اسٹک وہ بہت محنت سے تیار هو رہی تهی۔ بال یوں سیٹ کر رکهے تهے کہ اوپر سے سیدهے آتے بال کانوں کے نیچے سے مڑ کر گهنگریالے هو جاتے تهے۔ بالوں پہ اس نے کچھ لگا رکها تها کہ وہ گیلے گیلے سے لگتے تهےاور جو فراک اس نے پہن رکها تها، اس کی پیٹی قدیم طرز کے سنہری سکوں سی بهری تهی۔ آستین بہت چھوٹی تھیں اور ان پر بهی سنہری سکے لٹک رہے تهے۔ نیچے لمبے فراک کی کلیاں سیاہ تھیں۔ ٹخنوں سے ذرا سا جهلکتا پاجاما بهی سیاه تها۔
کدهر کی تیاریاں ہیں؟ ڈی جے نے اسے سر سے پیر تک دیکها۔
ڈنر کی! اس نے لپ گلوس کے چند قطرے لبوں پہ لگائے اور آئینے میں دیکهتے ہوئے ہونٹ آپس میں مس کرکے کهولے۔
کس کے ساتھ؟
جہان کے ساتھ! بے ساختہ لبوں سے پھسلا، لمحے بھر کو وہ چپ ہو گئی، پھر لاپرواہی سے شانے اچکائے۔ ویسے وہ شادی شدہ ہے۔
اچھا! وہ دو گھنٹے سردی میں بالکونی میں کھڑا رہتا ہے، چولہے کے تاروں میں ہاتھ ڈال کر اسے ٹھیک کرتا ہے، سارا کچن صاف کر کے جاتا ہے، پھر تمہیں ڈنر پہ بلاتا ہے اور تم اس ساری تیاری کے ساتھ جا رہی ہو۔ پھر سوچ لو، وہ اب بھی شادی شدہ ہے؟
بکو مت! وہ ہنستے ہوئے کرسی پہ بیٹھی اور جھک کر اپنی سیاہ ہائی ہیلز پہننے لگی۔
نہ بتاؤ، میں بھی پتا لگا کر رہوں گی۔ ڈی جے منہ پہ ہاتھ پھیرتی اپنی کرسی پہ بیٹھ گئی۔
حیا نے گنگناتے ہوئے میز پہ رکھا اپنا چھوٹا سنہری کلچ اٹھایا۔ وہی داور بھائی کی مہندی والا کلچ، جو اس نے جہاز میں بھی اٹھا رکھا تھا۔ اسے وہ زیادہ استعمال نہیں کرتی تھی، اب بھی کھولا تو اندر ایک تہہ کیا ہوا وزیٹنگ کارڈ اور اتصلات کا کالنگ کارڈ بھی رکھا تھا جو انہوں نے ابوظہبی میں خریدا تھا۔ اس نے موبائل، پیسے اور سبانجی کا آئی ڈی کارڈ اندر رکھا۔ کلچ چھوٹا تھا، ہالے کا دیا گیا موٹا، بھدا موبائل اس میں پورا نہیں آ رہا تھا، تو اس نے موبائل ہاتھ میں پکڑ لیا اور ”اچھا میں چلی“ کہہ کر ہینگر پہ لٹکا اپنا سفید نرم کوٹ ایک ہاتھ سے کھینچ کر اتارا اور باہر لپکی۔
باریک لمبی ہیل سے پتھریلی سڑک پر چلتے ہوئے اس نے کوٹ سیدھا کیا اور پہنا، پھر چلتے چلتے سامنے سے بٹن بند کیے۔ گورسل کا سٹاپ ذرا دور تھا۔ اسے وہاں تک پیدل جانا تھا۔ وہ کوٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے، سر جھکائے تیز تیز سڑک پر چلتی جا رہی تھی۔ شام کی ٹھنڈی ہوا سے اس کے گیلے گھنگھریالے بال کمر پہ اڑ رہے تھے۔
جس لمحے وہ گورسل اسٹاپ کے قریب پہنچی، اسے گورسل دور سبانجی کے گیٹ سے باہر نکلتی دکھائی دی۔
ہالے نے کہا تھا، جس دن تمہاری گورسل چھوٹے گی اس دن ہالے نور تمہیں بہت یاد آئے گی۔ اور اس پل بے بسی اور دکھ سے اس دور جاتی گورسل کو دیکھ کر اسے واقعی ہالے نور بہت یاد آئی تھی۔
اس نے جیب سے موبائل نکالا اور جہان سکندر کو پیغام لکھا۔
میری گورسل چھوٹ گئی ہے، مجھے پک کر لو، میں اسٹاپ پہ کھڑی ہوں۔
وہ کتنی ہی دیر وہاں سڑک پہ ٹہلتی رہی، مگر اس کا جواب نہیں آیا، شاید اس غریب کے پاس جواب دینے کا بھی کریڈٹ نہیں تھا۔
ہارن کی آواز پر وہ اپنے حال میں لوٹ آئی جہاں ایک سیاہ چمکتی اس کے عین سامنے کھڑی تھی۔
ڈرائیور نے بٹن دبا کر اپنی طرف کا شیشہ نیچے کیا اور ذرا سا چہرہ موڑ کر اسے مخاطب کیا۔
مادام سلیمان؟ ٹاقسم اسکوائر، جہان سکندر۔ ترک لب و لہجے میں ڈرائیور نے چند الفاظ ادا کیے تو اس نے سر ہلا دیا اور دروازہ کھول کر پچھلی نشست پر بیٹھ گئی۔ وہ یقینا جہان کا ڈرائیور تھا، گو کہ اس نے مفلر چہرے کے گرد لپیٹ رکھا تھا اور سر پر ٹوپی بھی لے رکھی تھی۔ حیا بس اس کی ایک جھلک ہی دیکھ پائی تھی، پھر بھی اسے گمان گزرا کہ اس نے اس سیاہ فام حبشی کو کہیں دیکھ رکھا ہے۔ کہاں، یہ سوچنے کا عقت نہیں تھا۔ وہ مسکراتے ہوئے جہان کو
”بہت شکریہ۔ میں پہنچ رہی ہوں۔“ لکهنے لگی۔
ذرا کی ذرا اس نےنگاه اٹها کر بیک ویومرر میں ایک دو بار دیکها بهی۔ مگر ڈرائیور نے اسے کچھ یوں سیٹ کر رکها تها کہ وہ صرف اپنا چہرا دیکھ سکتی تهی۔
ٹاقسم سکوائر پہ تاریکی کے پنچهی نے اپنے پر پهیلا رکهے تهےاور اسی مناسبت سے ہر سو بتیاں جگمگا رہی تھیں۔ پورا اسکوائر ان مصنوعی روشنیوں سے چمک رہا تها۔ مجسمہ آزادی کے اطراف سے مخالف سمتوں میں سڑکیں نکل رہی تھیں۔ وہاں ہر سو ٹریفک کا رش تها۔
مجسمہ آزادی کو چاروں اطراف سے گهاس کے ایک گول قطعہ اراضی نے گهیر رکها تها، جیسے کسی پهول کی چار پتیاں ہوں اور ہر پتی کے کناروں کی لکیر پہ پتهریلی روش بنی ہوئی تهی۔ وہاں لوگوں کی خوب چہل پہل تهی۔
ڈرائیور نے اسکوائر کے مقابل ایک عمارت کی بیرونی دیوار کے ساتھ گاڑی کهڑی کر دی۔
جہان سکندر!" اس نے انگلی سے اسی دیوار کے ساتھ ساتھ دور اشارہ کیا، جہاں جہان سکندر کی سفید کار کهڑی تهی یوں کہ وہ دیوار کے اس کنارے پہ تهی تو یہ سیاه کار اس کنارے پر۔
اس نے دروازہ کهولا اور باریک ہیل احتیاط سے باہر سڑک پہ رکهی۔ ٹاقسم سکوائر کو اس کی ہیلز پسند نہیں تھیں، اسے اندازہ تها۔
وہ اپنی گاڑی کے ساتھ ہی کھڑا تها۔ یبونٹ کهول کر وہ جهکے ہوئے، کچھ تاریں جوڑ رہا تها۔ سیاه جیکٹ اور جینز میں ملبوس، ہمیشہ کی طرح عام سے حلیے میں۔
وہ کوٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے سہج سہج کر چلتی اس تک آئی۔ وہ کچھ گنگناتے ہوئےایک تار کو دوسری کے ساتھ جوڑ رہا تها۔ہیل کی ٹک ٹک پہ رکا اور گردن گهما کر دیکها۔
سلام علیکم! اسے دیکھ کر مسکراتے ہوئےسیدها ہوا۔
وعلیکم السلام ! اس تاریک کونے میں کیا کر رہے ہو؟
میری کار ہر خاص موقع پر دغا دے جاتی ہے، اب بهی مسئلہ کر رہی ہے، خیر میں فکس کر لوں گا۔ وہ ہاتھ جھاڑتے ہوئے لاپروائی سے بولا۔
وہ تو تم کر لو گے، مجهے پتا ہے۔ جہان سکندر کے پاس ہر مسئلے کا حل ہوتا ہے۔ وہ دهیرے سے ہنسی۔
تم بتاؤ! پورے اسکوائر پہ مجهے تلاشتے تمہیں کتنی دیر لگی؟ اور بس پہ آئی ہو؟
نہیں، تمہاری بهیجی گئی شوفر ڈرون کار میں آئی ہوں ۔
وہ دهیرے سے ہنس دیا۔
یہ طنز کہاں سے سیکھ لیے ہیں تم نے؟ میں اتنا غریب بهی نہیں ہوں کہ تم یوں مزاق اڑاؤ۔ وہ ہنس کر سر جھٹکتا اب یونٹ بند کر رہا تها۔
حیا نے گردن پهیر کر پیچھے دیکها۔ طویل دیوار کے اس سرے پہ وہ سیاه کار اسی طرح کهڑی تهی۔
"تمہیں میرا میسج نہیں ملا تھا؟" وه قدرے بے چینی سے بولی۔
"میسج؟" جہان نے جیب تهپتهپائی۔ "میرا موبائل کہاں گیا؟ "اس نے دوسری جیب میں ہاتھ ڈالا اور اپنا اسمارٹ فون نکالا۔ پهر اس کی اسکرین کو انگلی سے چهوا۔
"نهیں!" اس نے اسکرین حیا کے چہرے کے سامنے کی۔ وہاں انباکس کهلا تها اور حیا کا کوئی پیغام نہ تها۔ حیا نے بے اختیار اپنے ہاتھ میں پکڑے فون کو دیکها۔ اس پر پیغام رکنے کا نشان نظر آرہا تها۔ اس نے جلدی سے بٹن دباتے ہوۓ آؤٹ باکس کھولا۔ اس کے دونوں پیغام وہیں رکے تهے۔ "اوه! بیلنس ختم تها، تو ظاهر ہے پھر میسج کیسے جاتا؟
"کوئی خاص بات تهی کیا؟" وه کار کو لاک لگا رها تها۔
"تم نے مجهے اس پارکنگ ایریا میں ڈنر کرانا ہے یا کسی مہذب جگه پر؟" وه بات بدل گئی اور کنکھیوں سے اس نے اس لش پش چمکتی سیاہ کار کو دیکها، جو دور کهڑی تهی۔ اسے کس نے بهیجا، وه کچھ بھی سمجھنے سے قاصر تهی۔
"اگر یه کار میرا اتنا وقت ضائع نه کراتی تو میں اب تک کسی ریسٹورنٹ میں جگه ڈهونڈ چکا ہوتا۔ لیکن اب بهی دیر نہیں ہوئی۔" دونوں ساتھ ساتھ سڑک کے کنارے چلتے رہے۔
استقلال اسٹریٹ نامی وه طویل گلی ٹاقسم اسکوائر کے ساتھ سے ہیی نکلتی تهی۔ وه ہفتے کی رات تهی، سو استقلال اسٹریٹ روشنیوں میں نہائی, رنگوں اور قمقموں سے سجی، رونق کیے عروج پر تهی۔ وہاں لوگ ہمیشه کی طرح دونوں اطراف میں تیز تیز چلتے جا رہے تهے۔ گلی کی دونوں جانب چمکتے شیشوں والی شاپس اور ریسٹورنٹس میں خاصا رش تها۔
وه آغاز میں ہی دائیں ہاتھ کی قطار میں بنے ریسٹورنٹ میں چلے آۓ۔
زرد روشنیوں سے مزین چهت اور جگمگاتے فانوس نے ریسٹورنٹ کے ماحول کو ایک خواب ناک سا تاثر دے رکها تها۔ اس کونے والی خالی میز کے ساتھ رکھے اسٹینڈ پہ حیا نے اپنا کوٹ لٹکایا اور کرسی کهینچ کر جهہان کے مقابل بیٹھی۔ زرد روشنیوں میں اس کے فراک کے سنہری سکے چمکنے لگے تهے۔ اس نے دائیں بازو میں سنہری کڑا پہن رکها تها اور اب وه کہنی میز پر رکھ کر بائیں ہاتھ کی انگلیوں سے کڑے کو گهما رہی تهی۔ سنہری کلچ اور موبائل اس نے میز پر رکھ دیا تها۔
"آرڈر میں کروں یا تم؟"
"دعوت تمہاری طرف سے ہے، سو تم کرو۔" اس نے ذرا سے شانے اچکاۓ۔ جہان نے مسکرا کر سر کو خم دیا اور مینیو کارڈ اٹها کر انہماک سے پڑهنے لگا۔ اپنی عادت کے مطابق وه پڑھتے ہوۓ نچلے لب کو دانت سے دباۓ ہوۓ تها۔
حیا نے قدرے بےچینی سے پہلو بدلا۔ استقلال جدیسی میں کتنے ہی لوگوں نے مڑ مڑ کر اس یونانی دیویوں کے سے سنگار والی لڑکی کو ستائش سے دیکها تها، مگر یه عجیب شخص تها۔ کوئی تعریف نہیں, کوئی اظہار نہیں, اتنی لاتعلقی و بے خبری، وه بهی اس شخص کی جو ایک نظر میں سارے منظر کا باریک بینی سے جائزہ لے لیا کرتا تھا؟
اسے اپنی ساری تیاری رائیگاں جاتی محسوس ہوئی تھی۔
آرڈر کر چکنے کے بعد وہ میز پہ کہنیاں رکھے، دونوں ہاتھ آپس میں پھنسائے حیا کی طرف متوجہ ہوا اور ذرا سا مسکرایا۔
تم نے مجھ سے اس روز پوچھا ہی نہیں کہ میں تمہارے ڈروم بلاک کیوں آیا تھا؟
وہ مسکراتے ہوئے کتنا اچھا لگتا تھا۔ اس کے ہلکے سے بھورے شیڈ لیے سیاہ بال نو عمر لڑکوں کی طرح ماتھے پہ سیدھے کٹے ہوئے تھے اور عموما وہ ہلکے ہلکے گیلے ہوتے تھے۔ پرکشش آنکھوں میں ایک نرم دھیما سا تاثر لیے، وہ اب اتنا کم گو اور محتاط نہیں لگتا تھا جتنا پہلے دن لگا تھا۔
ظاہر ہے، کسی کام سے ہی آئے ہو گے۔ مجھ سے ملنے باخصوص آؤ، یہ تو ذرا مشکل ہی ہے۔
تم سے ملنے بالخصوص ہی آیا تھا اور اس کے لیے ممی کو پاکستان فون کر کے فاطمہ آنٹی سے تمہارے ڈروم کا نمبر پوچھنا پڑا تھا، ورنہ تم نے ہمیں ایڈریس تک نہیں دے رکھا۔
اور یہ بات تو اماں نے اسے کل ہی فون پہ بتا دی تھی مگر لمحے بھر کو اس نے سوچا کہ ڈھونڈنے والے تو بنا پتے کے بھی ڈھونڈ لیتے ہیں، جیسے وہ سفید گلاب ہر جگہ اسے تلاش کر لیتے تھے۔
تو پھر آپ کیوں آئے تھے مجھ سے ملنے؟
بس یونہی۔ مجھے لگا تھا کہ تم اس روز استقلال اسٹریٹ میں مجھ سے خفا ہو گئی تھیں۔
اچھا تو آپ نے مجھے اس دن پہچان لیا تھا، ہو سکتا ہے وہ میری شکل کی کوئی لڑکی ہو؟ وہ بہت جلدی بھلا دینے والوں میں سے نہیں تھی۔، سو بڑی حیرت سے کڑے کو انگلیوں میں گھماتی بولی تھی۔
ایک بات ابھی کلیئر کر لیتے ہیں حیا! وہ قدرے آگے کو ہوتے ہوئے سنجیدگی سے بولا۔ میں بہت ایکسپریسو نہیں ہوں، میں لمبی لمبی باتیں نہیں کر سکتا۔ میں پریکٹکل سا آدمی ہوں، ایسا آدمی جس کو فکر معاش ہمیشہ گھیرے رکھتی ہے۔ میرے پاس بڑی یونیورسٹی کی ڈگری نہیں ہے، میں ایک ریسٹورنٹ چلاتا ہوں، جس کی مکلیت میری اپنی نہیں ہے، میں کئی سالوں سے اس ریسٹورنٹ کی قسطیں ادا کر رہا ہوں جو کہ پوری ہی نہیں ہو رہیں۔ یہ چیز مجھے بہت پریشان رکھتی ہے۔ وہ کرد لڑکی جو اس دن میرے ساتھ تھی، وہ میرے ریسٹورنٹ کی عمارت کی اونر ہے اور ہمارے درمیان اس وقت یہی مسئلہ زیربحث تھا، جب تم وہاں آئیں۔ حیا! اس دن میں اتنا پریشان تھا کہ تم سوچ بھی نہیں سکتیں۔ وہ میری پراپرٹی ضبط کرنے کی بات کر رہی تھی اور اگر میں اس کی رقم ادا نہ کر پایا تو وہ ایسا کر بھی گزرے گی۔ اسی پریشانی میں میں تمہارے ساتھ مس بی ہیو کر گیا۔ آئی ایم سوری فار ڈیٹ۔ مگر اپنی تمام پریشانیوں میں بھی مجھے اپنے سے جڑے رشتوں کا احساس ہے، اور میں ان کی پرواہ کرتا ہوں۔
حیا نے مجھ کر اثبات میں سر ہلا دیا۔
اب بھی خفا ہو اس بات پہ؟ وہ قدرے توقف سے بولا۔
"نہیں، میں نے تمہیں تب ہی معاف کر دیا تها جب تم نے کچن کے سارے برتن دهوۓ تهے اور چولها فکس کر کے دیا تها۔"
وه بےاختیار ہنس پڑا۔
"مگر وه جنجر بڑیڈ ہاؤس مجھ پر ادهار ہے۔
اس سے پہلے کہ وه کچھ کہتی ویٹر اس کی طرف آیا تها۔
"میڈم سلیمان؟"
حیا نے چہرا اٹها کر دیکها اور لمحے بهر کو پتهر کی ہو گئی۔
ویٹر ایک سفید گلابوں کا بکے میز پر رکھ رہا تها۔
"یہ آپ کے لیے۔" ساتھ ہی اس نے دو رویہ تہہ کیا ہوا کاغذ حیا کی طرف بڑهایا۔
"لیجیۓ مادام۔" حیا جو ساکت نگاہوں سے گلدستے کو دیکھ رہی تهی, چونکی اور مضطرب سے انداز میں وه کاغذ تهاما۔ اس کے قدموں سے جان نکل چکی تھی۔ مؤدب سا ویٹر واپس پلٹ گیا۔ اس نے کپکپاتی انگلیوں سے کاغذ کی تہیں کهولیں۔
بے سطر کاغذ کے عین وسط میں انگریزی میں تین سطور لکهی تهیں۔
"میری کار میں سفر کر کے آنے کا شکریہ، لیکن اصولا مجھ سے لفٹ لینے کے بعد آپ کو ڈنر بهی میرے ساتھ کرنا چاہیۓ تها، نا کہ اپنے کزن کے ساتھ۔"
"فرام یور ویلنٹائین۔"
جہان گلاس ہونٹوں کے ساتھ لگاۓ گهونٹ گھونٹ پانی پیتا پلکیں سکیڑے اس کے چہرے کے بدلتے رنگوں کو دیکھ رہا تها۔
"کون بهیجتا ہے تمهیں یہ سفید پهول؟" وه خاصے سرد لہجے میں بولا تو حیا نے چونک کر سر اٹهایا۔
چند لمحے بیشتر کی گرم جوشی جہان کی آنکهوں میں مفقود تهی۔ اس کے چہرے پر زمانوں کے اجنبیت اور رکهائی چهائی تهی۔
"پپ...۔۔۔۔ پتا نہیں۔"
"اور اسے کیسے علم ہوا کہ ہم ریسٹورنٹ میں ہیں؟"
اسکا لہجہ چبهتا ہوا تها۔
وه خالی خالی نگاہوں سے اسے دیکهے گئی۔ کوئی جواب بن ہی نہیں پا رہا تها۔
"دکهاؤ!" اس نے ہاتھ بڑهایا اور اب حیا کے پاس کوئی راستہ نہیں تها۔ اس نے کمزور ہاتهوں سے وه کاغذ جہان کے ہاتھ پر رکها۔
جیسے جیسے وه تحریر پڑهتا گیا،اسکی پیشانی پہ شکنیں ابهرتی گئیں۔ رگیں تن گئیں اور لب بهینچ گئے۔
"تم کس کی گاڑی میں ٹاقسم آئی ہو؟" اس نے نگاه اٹها کر حیا کو دیکها اور وه ایک نگاه میں سمجھ گئی تهی کہ وه ایک مشرقی مرد تها۔
***
پلکیں سکیڑے اس کے چہرے کے بدلتے رنگوں کو دیکه رہا تها.
" کون بهیجتا ہے تمهیں یہ سفید پهول؟" وہ خاصے سرد لہجے میں تو حیا نے چونک کر چہرہ اٹهایا.چند لمحے پیشتر کی گرم جوشی جہاں کی آنکهوں سے مفقود تهی.اس کے چہرے پہ زمانوں کی اجنبیت اور رکهائ چهائ تهی.
" پپ....پتا نہیں ."
" اور اسے کیسے علم ہوا کہ ہم ریسٹورنٹ میں ہیں؟"
اس کا لہجہ چبهتا ہوا تها.
وہ خالی خالی نگاہوں سے اسے دیکهے گئ.کوئ جواب بن ہی نہیں پڑ رہا تها.
" دکهاؤ!" اس نے ہاته بڑهایا اور اب حیا کے پاس کوئ راستہ نہیں تها.اس نے کمزور ہاتهوں سے وہ کاغذ جہاں کے ہاته پہ رکها.
جیسے جیسے وہ تحریر پڑهتا گیا، اس کی پیشانی پہ شکنیں ابهرتی گئیں.رگیں تن گئیں اور لب بهینچ گئے.
" کس گاڑی میں آئ ہو؟" اس نے نگاہ اٹها کر حیا کو دیکها اور وہ ایک نگاہ اسے سمجها گئ تهی کہ وہ ایک مشرقی مرد تها.تایا فرقان، ابا اور روحیل کی طرح کا مشرقی مرد.
" وہ.....میں سمجهی وہ تمہاری کار اور ڈرائیور ہے.میں سمجهی تم نے ڈرائیور بهیجا ہے."
" میرا ڈرائیور ؟ کب دیکها تم نے میرے پاس ڈرائیور ؟" اس نے تنفر سے کاغذ کو مٹهی میں مروڑ دیا.
" میں سمجهی اور اس نے کہا، تمہارا نام لیا تو ....."
" اس نے یہ کہا کہ اس کو میں نے بهیجا ہے ؟" اس نے دوٹوک انداز میں پوچها.
" ہاں.....نہیں."
" یعنی کہ اس نے نہیں بتایا کہ اسے کس نے بهیجا ہے اور تم اس کے ساته بیٹه گئیں؟ حیا! تم یوں کسی کی گاڑی میں بهی بیٹه سکتی ہو ؟"
" میں نے کہا نا ، میں سمجهی ، وہ تمہاری کار ہے." بے بسی کے مارے اب اسے غصہ آنے لگا تها.بے قصور ہوتے ہوئے بهی اسے اپنا آپ مجرم لگ رہا تها.
" میرے پاس تم نے دوسری کار کب دیکهی؟تم....."
" اگر تمہیں مجه پہ اتنی بے اعتباری ہے تو میں لعنت بهیجتی ہوں تم ." اس نے نیپکن نوچ پهینکا اور کرسی دهکیل کر اٹهی." جو شخص یہ حرکت کرتا ہے، وہ مجه سے پوچه کر نہیں کرتا، نہ اس میں میرا کوئ قصور ہے.اگر تم بهی اتنا ہی برا سمجهتے ہو تو ٹهیک ہے، یہاں اکیلے بیٹهو ، اکیلے کهاؤ اور اکیلے رہو."
اس نے کلچ یوں ہاته مار کر اٹهایا کہ کرسٹل کا گلدان میز سے لڑهک کر نیچے جاگرا.چهناکے کی آواز آئ اور وہ کرچیوں میں بٹ گیا.
جہان شاید اس کے لیے تیار نہیں تها.مگر وہ اس کے تاثرات دیکهنے کے لیے نہیں رکی.وہ تیزی سے میز کے ایک طرف سے نکلی، اسٹینڈ پہ لٹکا کوٹ کالر سے پکڑ کر کهینچا اور تیز تیز چلتی ہوئ باہر نکل گئ.
اگر وہ اس کے پیچهے آنا بهی چاہتا ،تو ابهی جو نقصان وہ کر کے گئ تهی ، اسے پورا کرکے ہی آتا اور اس کاروائ میں اسے جتنے منٹ لگتے ،اتنی دیر میں وہ دور جاچکی ہوتی.
استقلال اسٹریٹ میں لوگ اسی طرح چل رہے تهے.وہ اس رش کے درمیان میں ہی کہیں تهی.اس نے کوٹ پہنا نہیں ،بازو پہ ڈال دیا اور پهر دونوں بازو سینے پہ لپیٹے وہ تیز تیز قدم اٹهائ چلتی جارہی تهی.آنسو متواتر اس کی آنکهوں سے گر رہے تهے.
وہ اس کے پیچهے نہیں آیا ، اور اگر آیا بهی تو وہ اس شور اور رش میں نہ اسے دیکه پائ نہ ہی اس کی آواز سن پائ....بس اسی طرح چلتی رہی.استقلال اسٹریٹ کا آخری کنارا مڑ کر وہ ٹاقسم اسکوائر میں داخل ہوئ اور بالکل سیده میں چلتی ہوئ ٹاقسم پارک کی طرف بڑه گئ.
تاریک پارک کے ایک گوشے میں سنگی بنچ ویران پڑا تها.وہ گرنے کے سے انداز میں اس پہ بیٹهی اور چہرہ دونوں ہاتهوں میں چهپا کر پهوٹ پهوٹ کر رو دی.
صفحہ نمبر 232
انا ، خودداری ،عزت نفس اور اپنی ذات کے وقار کے وہ سارے اسباق جو وہ ہمیشہ خود کو پڑهاتی اور یاد دلاتی رہی تهی، آج بہت ذلت کے ساته چکناچور ہوئےتهے.وہ شخص کب اس کو یوں ذلیل نہیں کرتا تها،یوں بےمول ،بے وقعت نہیں کرتا تها،اسے ایک موقع بهی یاد نہ آیا.ہمیشہ ،ہر دفعہ وہ یہی کرتا تها، یاپهر ایسا ہوجاتا تها.آخر کب تک یوں چلے گا؟بہت گرا لیا اس نے خود کو، بہت جهکا لیا، بہت بےمول کرلیا،اب وہ مزید نہیں جهکے گی.اب اسے جهکنا پڑے گا،بس آج یہ طے ہوگیا.
اس نے بے دردی سے آنکهیں رگڑتے ہوئے سوچا، پهر اردگرد پهیلی رات کو دیکها تو واپسی کا خیال آیا.اس نے گود میں رکها سنہری کلچ کهولا تاکہ موبائل نکال سکے،مگر....اوہ، موبائل تو اس میں پورا ہی نہیں آتا تها، وہ تو اس نے میز پہ رکها تها اور....
وہ کوٹ اٹهائے باہر بهاگی.اپنا ترکی والا بهدا موبائل وہ اس ریسٹورنٹ میں چهوڑ آئ تهی، اسے ہر حالت میں موبائل واپس اٹهانا تها ،چاہے جہان سے سامنا ہو یا نہ ہو.چند منٹ بعد جب وہ ہانپتی ہوئ واپس استقلال اسٹریٹ میں اس ریسٹورنٹ کا دروازہ دهکیل کر اندر داخل ہوئ تو کونے والی میز خالی تهی.وہ دوڑ کر اس میز تک گئ اور ادهر ادهر چیزیں اٹها اٹها کر اپنا موبائل تلاشا، مگر وہ کہیں نہ تها.کرسٹل کے ٹوٹے گلدان کی کرچیاں بهی اب فرش سے اٹهالی گئ تهیں.
" پرابلم ، میڈم ؟"
وہ آواز پہ پلٹی تو وہی باوردی ویٹر جس کی ناک پہ موٹا سا تل تها، متفکر سا کهڑا تها.وہ بوکے اسی نے اسے لا کر دیا تها.
" میرا موبائل تها اس میز پہ ." وہ پریشانی سے گهنگریالی لٹیں کانوں کے پیچهے اڑستی ہوئ میز پہ چیزیں پهر سے ادهر ادهر کرنے لگی.
" جی ہاں پڑا تها مگر جب آپ گلدان گرا کر گئیں تو آپ کے ساته جو صاحب تهے، انہوں نے وہ موبائل رکه لیا اور مجهے کہا تها کہ اگر آپ آئیں تو میں بتادوں کہ وہ فون انہی کے پاس ہے." ویٹر نے ٹوٹی پهوٹی انگریزی میں بتایا.
" او اچها." اس کے تنے ہوئے اعصاب ڈهیلے پڑ گئے.ملنے کا ایک اور بہانہ." وہ چلاگیا ؟"
" جی ! وہ بل پے کر کے فورا" آپ کے پیچهے باہر دوڑے تهے.آپ کو نہیں ملے؟"
" نہیں .شکریہ ! " وہ پهولوں کے متعلق کچه پوچهنے کا ارادہ ترک کر کے باہر نکل آئ.استقلال اسٹریٹ پہ قدم رکهتے ہوئے اس نے کوٹ پہن لیا.اب اسے کافی دیر تک ٹاقسم اسکوائر پہ گورسل کے انتظار میں بیٹهنا تها.
#
ڈی جے خاموشی سے موبائل کے بٹن دباتی نمبر ملا رہی تهی.بٹنوں کی ٹوں ٹوں نے ڈورم کی خاموشی میں ذرا سا ارتعاش پیدا کیا تها.کال کا سبز بٹن دبانے سے پہلے اس نے نظر اٹها کر اپنے مقابل کرسی پہ بیٹهی حیا کو دیکها جو پوری سنجیدگی سے اس کی طرف متوجہ تهی
" مگر حیا! میں اسے کہوں گئ کیا ؟"
" یہی کہ حیا کو اپنا موبائل چاہیے اور وہ اسے واپس کرے."
" مگر وہ واپس کیسے کرے گا ؟"
" یہ اس کا مسئلہ ہے، تم کال ملاؤ." وہ جهنجهلا کر بولی.
ڈی جے نے سر ہلا کر سبز بٹن دبایا، اسپیکر آن کر دیا اور فون اپنے لبوں کے قریب لے آئ.
دوسری جانب طویل گهنٹیاں جا رہی تهیں.وہ دونوں دم سادهے گهنٹیاں سنے گئیں.
" پتا نہیں ، تمہارا موبائل کدهرا پڑا ہو، اسی کے نمبر پہ کر لیتے ہیں ، شاید اس پہ وہ اٹهائے ہی...." تب ہی کال اٹهالی گئ.
" ہیلو ؟" وہ جہان ہی تها.ازلی مصروف انداز.
" السلام علیکم ! میں ڈی ....خدیجہ بول رہی ہوں."
" دس از جہان .خدیجہ ! ایسا ہے کہ یہ فون میرے پاس ہے، حیا ریسٹورنٹ میں بهول گئ تهی." وہ مصروف سا لگ رہا تها.پیچهے بہت سے لوگوں کے بولنے کی آواز آ رہی تهی،شاید وہ ریسٹورنٹ میں تها.
" مجهے پتا ہے، اسی لیے تو کال کی ہے."
"اوکے!" وہ گہری سانس لے کر بولا." حیا کدهر ہے؟"
" وہ.....وہ ذرا مصروف تهی تو میں نے سوچا، میں آپ سے بات کر لوں." بات کرتے ہوئے ڈی جے نے ایک نظر حیا پہ ڈالی جو دم سادهے کرسی کے کنارے پہ آگے ہو کر بیٹهی اسے دیکه رہی تهی.
" جی....کہیے."
" بات یہ تهی کہ میں اور حیا کل پرنسز آئ لینڈز ( شہزادوں کے جزیرے ) پہ جانے کا سوچ رہے تهے، ان فیکٹ ہم پرنسز آئ لینڈز کے سب سے بڑے جزیرے ببوک ادا جائیں گے."
حیا نے ناسمجهی سے الجه کر اسے دیکها ،پهر نفی میں سر ہلا کر روکا، مگر وہ مزے سے کہے جا رہی تهی.
" اوکے تو آپ کو فون چاہیے؟"
" نہیں! فون آپ اپنے پاس رکهیں،عیش کریں، ہمیں بس کمپنی چاہیے ."
"ڈی جے ،ذلیل !" وہ بنا آواز کے لب ہلا کر چلائ اور ڈی جے کی کہنی مروڑی ،مگر ڈی جے ہاته چهڑا کر اٹهی اور دروازے کے قریب جا کر کهڑی ہوئ.
"کل؟ کل تو میں ذرا مصروف ہوں.آپ کے ساته نہیں چل سکوں گا."
" پرسوں صبح چلتے ہیں."
"شش ....نہیں." وہ ہاته سے اشارے کرتی اسے باز رکهنے کی کوشش کر رہی تهی.
" پرسوں تو مجهے شہر سے باہر جانا ہے." وہ کہہ رہا تها.
" پهر جمعے کو؟"
" جمعے کو میری ایک بہت اہم میٹنگ ہے اور ببوک ادا میں تو پورا دن لگ جاتا ہے."
" پهر تو آپ ہفتے کو بهی مصروف ہوں گے ؟" ڈی جے نے مایوسی سے کہا تو دوسری جانب چند لمحوں کی خاموشی چهاگئ.
" ان فیکٹ ہفتے کو میں واقعی فارغ ہوں.ٹهیک ہے، ہفتے کو میں آپ کے ساته چل سکتا ہوں." وہ جیسے
بادل نخواستہ تیار ہوا تها.
" بس پهر ٹهیک ہے،ہم صبح والی گورسل سے کدی کوئے کی بندر گاہ پہ پہنچ جائیں گے.آپ بهی سات بجے سے پہلے پہلے تک ادهر ہمارا انتظار کیجئے گا.وہاں سے ہم پهر اکٹهے فیری میں سوار ہوں گے، ٹهیک ؟"
" ٹهیک، میڈم !"
" اور ہاں ، تب تک آپ ہمارا فون استعمال کر سکتے ہیں."
" میں آپ کا احسان تاعمر یاد رکهوں گا." وہ ذرا سا ہنس کر بولا.
وہ فون بند کر کے واپس آئ تو حیا خاموشی سے اسے گهور رہی تهی.ڈی جے واپس کرسی پہ بیٹهی اور بڑے لا پروا انداز میں میز سے میگزین اٹها کر صفحے پلٹنے لگی.
" کیا ضرورت تهی اسے ساته چلنے کا کہنے کی ، ہم اکیلے بهی تو جا سکتے تهے."
" کیونکہ مجهے اس کے شادی شدہ ہونے میں ابهی تک شک ہے." وہ اب ایخ صفحے پہ رک کر بغور کوئ تصویر دیکه رہی تهی." ویسے اس کی بیوی کہاں ہوتی ہے؟"
" یہیں ، استنبول میں ." وہ بددلی سے پیچهے ہو کر بیٹه گئ.
" اس کی کیا اپنی بیوی سے کوئ لڑائ ہے؟کبهی ذکر نہیں کرتا اس کا ."
" شاید......میں نے اس موضوع پہ کبهی بات نہیں کی.ویسے بهی جہان کا نکاح بچپن میں ہی ہو گیا تها.اب پتا نہیں اس کو خود اپنے نکاح کا علم ہے بهی یا نہیں کیونکہ وہ کبهی ذکر نہیں کرتا ، شاید پهپهو نے اس سے چهپا رکها ہو.
" بچوں والی باتیں کرتی ہو تم بهی ." ڈی جے نے چہرہ اٹها کر خفگی سے اسے دیکها." آج کے دور میں ایسا کہاں ممکن ہے کہ کسی کا نکاح ہوا ہو اور اسے علم بهی نہ ہو.یقینا" اسے پتا ہوگا.مگر یہاں یہ سوال ہے کہ نکاح اس کا جس سے بهی ہو ، تم اس کی اتنی کئیر کیوں کرتی ہو؟" ڈی جے پهر مسکراہٹ دبائے رسالے کی طرف متوجہ ہوگئ تهی.
" کیونکہ اس کا نکاح مجه سے ہوا تها.وہ آہستہ سے بولی تو ڈی جے نے ایک جهٹکے سے سر اٹهایا.
" یعنی، یعنی،اوہ گاڈ ....تمہارا اس سے نکاح ہوا تها تو...وہ تمہارا کیا لگا؟"
" سوتیلا ماموں لگا" وہ بگڑ کر بولی اور اپنے بینک کی طرف بڑه گئ.
اوہ مائ گاڈ .....تم نے مجهے اتنی بڑی بات نہیں بتائ !" ڈی جے ابهی تک بے یقین تهی.
" اب بتا تو دی ہے نا.اب جاؤ کلاس کا ٹائم ہونے والا ہے اور میں آج کیمپس نہیں جاؤں گی." وہ اوپر اپنے بستر میں پهر سے لیٹ گئ اور کمبل منہ پہ ڈال لیا.
" بہت ذلیل ہو تم حیا! ارے آٹه بج گئے." وہ میگزین پهینک کر اٹهی اور کهڑکی کے سامنے جا کهڑی ہوئ ، پهر سلائیڈ کهول کر ،چہرہ باہر نکالے لبوں کے گرد دونوں ہاتهوں کا پیالہ بنائے باآواز بلند چلائ.
" گڈ ماآ آ آ آ آرننگ .....ڈی جے."
" نی ی ی ی ی ....نے ے ے...." دور نیچے سے کسی لڑکے نے جوابی ہانک لگائ تهی.
" ذا....لیل" وہ جل کر اور زور سے چلائ.
" چپ کرو، مجهے سونے دو." حیا نے تکیہ کهینچ کر اسے دے مارا، مگر وہ اسی کهڑکی کے پاس کهڑی صدائیں لگاتی رہی.
#
وہ یونیورسٹی کی عمارت کی بیرونی سیڑهیاں اتر رہی تهی جب اس کا موبائل بجا.وہ وہیں تیسری سیڑهی پہ رکی، فائل اور کتابیں دوسرے ہاته میں منتقل کیں اور باری باری کوٹ کی دونوں جیبیں کهنگالیں، پهر اندرونی جیب میں ہاته ڈالا اور چنگهاڑتا ہوا موبائل باہر نکالا.
یہ اس کا پاکستانی سم والا فون تها.دوسرا موبائل جہان کے پاس ہونے کے باعث وہ آج کل اسے ہی استعمال کر رہی تهی.
چمکتی سکرین پہ ترکی کا کوئ غیر شناسا نمبر لکها آ رہا تها.نمبر کس کا تها، اسے قطعا" یاد نہ آیا.نمبر یاد رکهنے کے معاملے میں وہ بہت چور تهی.اسے اپنے پاکستانی موبائل نمبر تک کے آخری دو ہندسے بهولتے تهے اور ترکی والا تو خیر سرے سے یاد ہی نہیں تها.
" ہیلو ؟" وہ فون کان سے لگائے ہوئے وہیں سیڑهی پہ بیٹه گئ.کندهے سے بیگ اتار کر ایک طرف رکها اور فائلیں گود میں.
" جہاں تیرا نقش قدم دیکهتے ہیں
خیاباں خیاباں ارم دیکهتے ہیں "
آواز اجنبی تهی بهی اور نہیں بهی تهی.مگر اس کا لوچ، اتار چڑهاؤ اور انداز....سب شناسا تها.وہ لب بهینچ گئ.
" عبدالرحمن ' بات کر رہا ہوں اور بات کرنے کی اجازت چاہتا ہوں." گو کہ وہ پڑها لکها لگتا تها مگر انداز سے کہیں نہ کہیں ممبئ کے کسی نچلے طبقے کے شہری کی جهلک آتی تهی.
" کیا بات کرنی ہے آپ کو ؟ آخر آپ مجه سے چاہتے کیا ہیں ؟"
" ملنا چاہتا ہوں.بتائیے ، کیا یہ ممکن یے؟"
اس کی ریڑه کی ہڈی میں ایک سرد لہر دوڑگئ.ہتهیلیاں بے اختیار پسینے میں بهیگ گئیں.
" میں نہیں مل سکتی."
" کیوں ؟ جس فون کال میں آپ کی دوست نے آپ کے کزن کو اپنے ساته چلنے کی آفر کی تهی، اس میں غالبا" انہوں نے ببوک ادا کا ذکر کیا تها.پرنسز آئ لینڈز.....شہزادوں کے جزیرے .....کیا آپ ادهر نہیں آ رہی ہیں ؟"
تو وہ اس کی کالز ٹیپ کر رہا تها اور تب ہی اس نے پاکستان والے موبائل پہ کال کی تهی کیونکہ وہ ترکی والے فون کے جہان کی تحویل میں ہونے کے بارے میں جانتا تها.
" میں ببوک ادا نہیں جا رہی.آئندہ آپ نہ تو میرا پیچها کریں گے ، نہ ہی میری کالز ٹیپ کریں گے ورنہ میں آپ کی جان لے لوں گی، سمجهے ! " اس نے جهلا کر فون کان سے ہٹایا اور سرخ بٹن زور سے دبایا.موبائل آف ہوگیا.وہ گہری سانس لے کر اٹه کهڑی ہوئ.جانے کب یہ شخص اس کا پیچها چهوڑے گا.
#
سمندر کی جهاگ بهری نیلی لہروں پر سے ہوا سرسراتے ہوئے گزر رہی تهی.وہ دونوں فیری کی بالکونی میں کهڑے سمندر دیکه رہے تهے.جہان قدرے جهک کر ریلنگ پکڑے کهڑا تها اور حیا گردن سیدهی اٹهائے لب بهینچے سامنے افق پہ دیکه رہی تهی.
ڈی جے ابهی ابهی کمیرا لیے بالکونی کے دوسرے سرے تک گئ تهی، سو ان دونوں کے درمیان خاموشی چها گئ تهی.
وہ جب سے کدی کوئے کی بندرگاہ پہ فیری میں سوار ہوئے تهے، تب سے آپس میں بات نہیں کر رہے تهے.فیعی ویسے بهی کهچا کهچ بهرا تها.جگہ ڈهونڈنے میں ہی اتنا وقت صرف ہوگیا.فیری کی نچلی منزل جو چاروں طرف سے شیشوں سے بند تهی، پر جڑے تمام صوفے اور کرسیاں بهرے تهے،سو وہ بالائ منزل پہ آگئے جو اوپن ائیر تهی.کهلا سا وسیع احاطہ جہاں ہر طرف صوفے اور کرسیاں تهیں ، مگر ایک نشست بهی خالی نہ تهی.ان کو بالآخر فیری کے کنارے پہ بنی تنگ سی بالکونی میں کهڑے ہونے کی جگہ ملی.وہ اتنی تنگ تهی کہ سمندر کی جانب رخ کر کے ایک وقت میں ایک بندہ ہی ریلنگ کے ساته کهڑا ہو سکتا تها.بالکونی کی گیلری لمبی تهی اور لوگوں کی ایک طویل قطار وہاں کهڑی تهی.
وہ دونوں بالکل دائیں طرف کے کونے میں تهے.ہوا بے حد سرد تهی، پهر بهی جہان سیاہ سوئیٹر کی آستین کہنیوں تک موڑے ہوئے تها.مگر اسے بے حد سردی لگ رہی تهی کہ اس نے سیاہ لمبے اسکرٹ کے اوپر صرف سرمئ سوئیٹر ہی پہن رکها تها،سو اب سیاہ اسٹول کو سختی سے کندهوں کے گرد لپیٹ کر بازو سینے پہ بانده رکهے تهے.
" گیومی سم سن شائن....گیومی سم ربن ...."
حیا کے بائیں جانب ریلنگ پکڑے انڈین لڑکیوں کا ایک گروپ کهڑا تها.وہ لڑکیاں بہت سی تهیں.وہ کندهے سے کندها ملا کر کهڑی تهیں ، مگر ان کی قطار بالکونی کے دوسرے سرے تک جاتی تهی.وہ کسی اسٹڈی ٹور پہ استنبول آئ ہوئ تهیں اور اب چہرے کے گرد ہاتهوں کا پیالہ بنائے باآواز بلند لہک لہک کر وہ گیت گا رہی تهی.
" تم اس روز بغیر بتائے اٹه کر چلی گئیں.تمہیں پتا ہے میں کتنی دیر استقلال اسٹریٹ میں تمہیں ڈهونڈتا رہا؟" وہ ریلنگ پہ جهکا سمندر کی لہروں کو دیکهتے ہوئے کہنے لگا.
" تو نہ ڈهونڈتے." حیا نے بے نیازی سے شانے اچکائے.ہوا سے اس کے بال اڑ اڑ کر جہان کے کندهے کو چهو رہے تهے مگر وہ انہیں سمیٹنے کا تکلف بهی نہیں کر رہی تهی.
" اتنا غصہ ؟" جہان نے گردن موڑ کر حیرت سے اسے دیکها.
وہ تنے ہوئے نقوش کے ساته سامنے دیکهتی رہی.
" ایسا بهی کچه نہیں کہا تها میں نے."
" اگر تمہیں خود شرمندگی نہیں ہے تو میں کیوں دلاؤں ؟"
جاری ھے
0 تبصرے
ہم سے رابطہ کرنے کا شکریہ
ہم آپ سے بہت جلدی رابطہ کریں گے۔