جنت کے پتے از نمرہ احمد (قسط 20)

ناول؛ جنت کے پتے
قسط 20

شریفوں کا مجرہ..
"نہیں'پلیز اللہ تعالی'میری مدد کریں".. وہ بھیگی آنکھوں کے ساتھ دعا مانگنے گئ. اس کی دعا پہلے قبول نہیں ہوئ تھی' شاید اب ہو جاۓ. شاید اب اسکی مدد کر دی جاۓ..
آتش دان کے قریب ہونے کے باعث تپش اس تک پہنچ رہی تھی اور اس مسلسل حدت سے اس کے پاؤں دہکنے لگے تھے. وہ ذرد الاؤ کو دیکھ رہی تھی جس کی سرخ لپیٹیں اٹھ اٹھ کر ہوا میں گم ہو رہی تھیں. گرمی بڑھتی جا رہی تھی اس کا سارا وجود گویا آگ میں دہک رہا تھا. لمبے بال کمر اور کندھوں پر بکھرے تھے' وہ ان کو سمیٹنے پر بھی قادر نہیں تھی. اس نے پورا زور لگا کر کرسی کو پیچھے دھکیلنا چاہا' مگر وہ نہیں ہلی. پسینے کی چند بوندیں اس کی گردن اور پیشانی پہ چمک رہی تھیں.
دفعتأ دروازہ کھلا. اس نے گردن موڑ کر دیکھا. وہ ایک پستہ قد'چینی نقوش کا حامل شحص تھا. اس کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا بیگ تھا. جسے اس نے کمرے میں داخل ہوتے ہی میز پہ رکھا پھر اس کی طرف آیا اور ایک ہاتھ سے ڈکٹ ٹیپ کا کنارہ کھینچ کر اتارہ.
"آہا....نتاشا!" وہ قریب سے دیکھنے پہ کوئ روسی لگتا تھا.
"میں نتاشا نہیں ہوں' پلیز مجھے جانے دو." ایک امید سی بندھی کہ وہ اسے کسی اور کے دھوکے میں پکڑ لاۓ تھے.
"ناؤ یو آر نتاشا....انگلش'انگلش¿ آل رائٹ' آل رائٹ!" وہ اثبات میں سر ہلا کر مسکراتا ہوا انگیٹھی کی طرف بڑھ گیا..
"پلیز مجھے جانے دو." وہ اس کی پشت کو دیکھتے ہوۓ منت بھرے لہجے میں بولی. وہ آگ کے سامنے کھڑا تھا. تپش کا رستہ رک گیا. زرا سکون ملا.
"پور کنٹری'تورست گرل' پور پیپل!" وہ نفی میں سر ہلا کر ایک سلاخ اٹھاۓ اسے الٹ پلٹ کر دیکھ رہا تھا..
"میرا باپ امیر آدمی ہے'وہ تمہیں تاوان کی رقم دے دے گا."
"سو نتاشا' یو وانٹ انگلش نیم¿" وہ ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں کہتا اس کی طرف پلٹا. وہ جواب دیے بنا یک ٹک اس سلاخ کو دیکھے گئ جس پہ لکھا "ایم" دہک رہا تھا. یا شاید وہ "ڈبلیو" تھا.
وہ سلاخ کیوں دہکا رہا تھا¿ کس لیے¿
ایک خوف سا اس کے اندر سر اٹھانے لگا. اسے بے اختیار اس کمرے میں بے سدھ پڑی لڑکی کا بازو یاد آیا. وہ ٹیٹو نہیں تھا. وہ لمحے بھر میں جان گئ تھی.
"یو وانٹ انگلش نیم¿" وہ اس کے بالکل سامنے آ کھڑا ہوا تھا.
"نو...نو..." وہ بے یقینی سے نفی میں سر ہلاتی بڑبڑائ..
"ناؤ دس از یور نیم!". وہ سلاخ کا دہکتا لوہا اس کے قریب لایا.
" نہیں.... نہیں...." وہ گردن دائیں بائیں ہلاتی زور سے چلانے لگی. وہ اسے اس گرم لوہے سے داغنے لگا تھا. اس کا چہرہ خوف و دہشت سے سفید پڑھ گیا تھا.
"یور نیم!" اس نے جتا کر کہتے سلاخ حیا کے بازو کے قریب کی جہاں فراک کی چھوٹی آستین ختم ہوتی تھی. کندھے سے ذرا نیچے وہاں وہ سلاخ قریب لے گیا. اسے دہکتے انگارے کی حدت محسوس ہوئ. وہ تڑپ کر ادھر ادھر سر مارنے لگی.
"نہیں پلیز.... نہیں...."
اس لمحے اس نے دل سے دعا کی تھی کہ کوئ آ جاۓ اور اس پستہ قد روسی سے اسے نجات دلا دے. کوئ آ جاۓ' چاہے وہ عبدالرحمن پاشا ہی کیوں نہ ہو. کوئ تو....
روسی نے دہکتا ہوا لوہا اس کے بازو کے اوپری حصے پر رکھ کر دبایا. وہ بری طرح سے بلبلا اٹھی. اس کے خلق سے ایک دل خراش چیخ نکلی تھی مگر وہ اسی طرح زور دے کر سلاخ دباۓ کھڑا تھا.
اندر سے ماس جلنے لگا تھا. وہ روح میں اتر جانے والی, زخمی کر دینے والی بدترین جلن تھی. وہ چیخ رہی تھی'وہ رو رہی تھی.
چند لمحے بعد اس نے سلاخ اٹھا لی.وہ مکمل طور پر جل گئ تھی.
روسی دوبارہ پلٹا اور سلاخ رکھ دی.اس کے دائیں بازو ک اوپری حصے پہ سیاہ'جلا ہوا حرف لکھا تھا.
روسی واپس اس کے سامنے آ کھڑا ہوا. حیا نے متورم'سرخ نگاہیں اٹھا کر اسے دیکھا اور دہل کر رہ گئی.اس کے ہاتھ میں دوسری سلاخ تھیجس پر HO لکھا تھا'اور اوپر اوپر تلے لکھے دونوں حرف انگارہ بن چکے تھے.
"نہیں.... تمہیں اللہ کا واسطہ....نہیں...." وہ وحشت سے تڑپتی خود کو پیچھے دھکیلنے لگی مگر رسیوں نے اسے مضبوطی سے جکڑ رکھا تھا کہ وہ ہل بھی نا پائی.
"نہیں.... وہ خوف سے چلا رہی تھی.وہ مسکراتے ہوۓ آگے بڑھا سیاہ داغے گئے حرف تلے سلاخ گاڑ دی.
کھولتا ہوا گرم درد' دہکتے انگارے' آگ اسکی تکلیف آخری حد کو چھونے لگی. وہ درد سے گھٹی گھٹی سی چیخ رہی تھی. اسے لگا وہ اس تکلیف سے مرنے والی ہے. وہ جسم کے اندر تک جلا دینے والا درد تھا.
چند لمحوں بعد اس نے سلاخ ہٹائی تو حیا کی گردن بے دم سی ہو کر ایک جانب ڈھلک گئی. اس کا تنفس آہستہ آہستہ چل رہا تھا. تکلیف سے وہ ہوش کھونے والی تھی. اس کا چہرہ آنسوؤں سے بھیگا ہوا تھا.مگر مزید رونے کی سکت وہ خود میں نہیں پاتی تھی.
روسی اب تیسری سلاخ اٹھا لایا تھا. اس پر RE لکھا تھا. حیا نے تکلیف سے بند ہوتی آنکھوں سے اسے دیکھا.اس مہں مزید کچھ کہنے کی سکت نہیں رہی تھی'اپنی ساری زندگی فلم کی طرح اس کی نگاہوں کے سامنے گھومنے لگی.بچپن کے دن'یادیں'اس کے نانا کا گھر'اس کی نانی اس کے لمبے بالوں میں کنگھی پھیر رہی تھی. منظر بدل گیا. وہ اور روحیل کار کی پچھلی سیٹ پر بیٹھے تھے'اسکول بیگ کے لئے'وہ اسکول جا رہے تھے'روحیل کچھ بتا رہا تھااور وہ ہنس رہی تھی. پھر اس نے خود کو ابا کی لائبریری میں دیکھا. وہ ان کی موٹی سی کتاب کھول رہی تھی جس میں سوکھا پھول رکھا تھا' وہ اس نے خود ہی وہاں رکھا تھا.اب وہ تایا فرقان کو اپنے عید کے کپڑے ہینگر سے اٹھاۓ دکھا رہی تھی. وہ اا کا جوش و خروش اور خوشی دیکھ کر مسکرا رہے تھے.روحیل اس کے ساتھ لان میں بھاگ رہا تھا' ان کے آگے دو خرگوش دوڑ رہے تھے. وہ دوڑ دوڑ کر تھک گئی تھی.اس کے لمبے بال کمر پر بکھرے تھے. خرگوش گھاس پر دور بھاگتے جا رہے تھے...سفید...نرم نرم سے خرگوش...
روسی نے گرم سلاخ اس کے بازو سے مس کی' ایک کھولن سی اس کے اندر اتر گئی.اگلے ہی پل اس نے کرنٹ کھا کر سلاخ ہٹائیکہیں فون کی گھنٹی بجی تھی.
خرگوش غائب ہو گئے. درد ہر شے پہ غالب ہو گیا. وہ پہلی دو دفعہ سے کئی گنا زیارہ شدید درد تھا کیونکہ سلاخ جلدی ہٹانے کی وجہ سے جلد پوری نہیں جلی تھی اور حسیات باقی تھیں. اسے لگتا تھا اس کی ہمت ختم ہو گئی ہے مگر وہ پھر سے رو رہی تھی.
"فون¿یور فون¿" آواز کے تعاقب میں وہ آگے بڑھا اور اس کی فراق کی بیلٹ سے پرس نوچا. سیفٹی پن ٹوٹ گئی'کپڑا پھٹ گیا. اس نے تیزی سے پرس کھولا اور فون نکالا. وہ زور زور سے بج رہا تھا.
شدید تکلیف میں بھی جو بات اس کے زہن میں آئی تھی وہ یہی تھی کہ اس کا فون رومنگ پر تھا اور بیلنس ختم' پھر فون کیسے بجا¿
روسی کبھی بے یقینی سے اسے دیکھتا'کبھی فون کو.پھر اس نے فون کان سے لگایا. دوسری طرف سے کچھ کہا گیا. اس پہ اس نے جلدی سے فون بند کیا اوع پوری قوت سے اسے دیوار سے دے مارا. فون کی اسکرین چکنا چور ہوتی ذمین پہ جا گری.
"یو کالڈ سم ون¿" وہ وحشیوں کی طرح اس پہ جھپٹا' اور گردن کے پیچھے سے بال دبوچ کر اس کا چہرہ سامنے کیا. حیا نے نیم جاں' نڈھال آنکھوں سے اس کو دیکھا اور پھر اس کے منہ پر تھوک دیا.
وہ بلبلا کر پیچھے ہٹا. اس کے بال چھوڑے اور انگیٹھی پہ دہکتا برتن ہینڈل سے اٹھایا. کھولتی ہوئی ویکس.
"یو.... یو بچ!" وہ غصے میں مغلظات بکتا اس ک قریب آیا اور برتن اس ک سر پہ اونچا کیا.
"نن....نو...." اس کی آنکھیں خوف سے پھیل گئیں..." میرے بال...." اس کے لبوں سے بس اتنا ہی نکل پایا تھا کہ روسی نے برتن اس کے سر پر الٹ دیا.
گرم کھولتی ہوئی ویکس تیزی سے اس کے بالوں کی مانگ پر گری اور ہر طرف سے نیچے لڑکنے لگی. اس کی دلخراش چیخ نکلی. ابلتے مادے نے اس کے سر کی جلد کو گلا دیا تھا. بازو کا ردر غائب ہو گیا' وہ وخشیانہ انداز میں زور زور سے چیخ رہی تھی.اپنے ہاتھ چھرانے کی کوشش کر رہی تھی اور وہ بھی چیخ رہا تھا اور تب اس نے زور سے دھکا دے کر کرسی کو الٹ دیا. وہ کرسی سمیت لوندی منہ زمین پہ جا گری. آتش دان کے بالکل قریب.
کمرے میں دھواں سا بھرنے لگا تھا. ویکس اس ک سر پہ جمنے لگا تھا. اس کا سر بے حد وزنی ہو گیا تھا. آنکھیں بند ہو رہی تھیں. اس کے منہ سے خون نکل رہا تھا. کمرے میں دھواں بڑھتا جا رہا تھا. آتش دان سے آگ کی لپٹیں لپک لپک کر اس کی طرف آ رہی تھیں.
اس نے زمین پہ گرے' گال فرش پہ رکھے بند ہوتی آنکھوں سے اس دھندلے منظر کو دیکھا.دھوئیں کے اس پار کوئی روسی کا سر پکڑ کر دیوار سے مار رہا تھا. چیخیں' دھواں' آگ' خون. اس کا پورا جسم آگ میں دہک رہا تھا.
جو آخری شے اس نے دیکھی وہ اس کا سیاح فراک کا دامن تھا. آگ کی ایک لپیٹ نے اسی چھو لیا تھا. اس نے سیاہ کپڑے کو زرد شعلے میں بدلتے دیکھا. ہر طرف دھواں تھا.وہ جانتی تھی کہ وہ مر رہی تھی. اس کے سفید خرگوش دھویں میں غائب ہو رہے تھے... وہ جل کر مر رہی تھی. ہر اقلیطس کی دائمی آگ ہر سو پھیل رہی تھی.
*******
اس نے اندھیرے سے آنکھیں کھولیں.وہ سفید چھت اس کی نگاہوں سامنے تھی جس پہ خوب صورت نقش و نگار بنے تھے. درمیان میں ایک قیمتی و نفیس فانوس لٹک رہا تھا.
اس کا سر ایک نرم گداز تکیے پہ تھا اور مخملیں کمبل گردن تک ڈالا تھا. اس نے ایک خالی خالی سی نگاہ کمرے پہ دوڑائی. وسیع و عریض' پر تعیش بیڈ روم' ایک طرف دیوار گیر کھڑکی کے آگے برابر کیے گئے سفید جالی دار پردے جس سے صبح کی روشنی چھن چھن کر اندر آ رہی تہی.
اس نے آنکھیں پھر سے موند لیں. ان گزرے دنوں میں سوتی جاگتی کیفیت میں وہ بہت روئی تھی' بہت چلائی تھی. یہ کمرا اس نے دیکھا تھا.
وہ ادھر ہی لائی گئی تھی. ہاتھ سے لگی ڈرپ اپنے بالوں میں نرمی سے چلتے اس بھوری آنکھوں والی لڑکی کی ہاتھ' وہ انجیکشن' نیم بے ہوشی. اسے ٹوٹا ٹوٹا سا سب یاد تھا. اور اس ڈوبتی' ابھرتی نیند میں بھی وہ جانتی تھی کہ وہ بیوک ادا میں ہے. عبدالرحمن پاشا کے سفید محل میں.
دروازے پر دھیرے سے دستک ہوئی اور پھر وہ ہلکی سی چرچراہٹ سے دروازہ کھلا. قدموں کی نرم سی آواز بیڈ کے قریب آئی. اس نے آنکھوں سے بازو نہیں ہٹایا. وہ جانتی تھی کہ یہ کون تھی.
"صبح بخیر! نیند پوری ہو گئی ہے تہ اٹھ جاؤ' ناشتہ کر لو"

نرم لہجے کے ساتھ اسے ٹیبل پر ٹرے رکھنے کی آواز آئی. وہ ہلی تک نہیں.
"نیند اچھی ہے لیکن زیادتی اگر اچھی چیز کی بھی ہو تو نقصان دہ ہوتی ہے. یہ کھیرے کا سوپ ہے اور ساتھ ناشتہ.
حیا ہنوز آنکھوں پہ بازو رکھے لیٹی رہی.
" اور یہ عبدالرحمن کی کال ہے' وہ تم سے بات کرنا چاہتا ہے."
اس نے بازو چہرے سے ہٹایا. سبز اسکارف چہرے کے گرد لپیٹے' نیچے سرمئ اور گلابی پھول دار اسکرٹ پہ لمبا سفید سویٹر پہنے وہ ہاتھ میں پکڑا کارڈ لیس فون اس کی جانب بڑھاتے ہوئے تھی.
"لو بات کر لو" اس کے کم عمر چہرے پہ معصومیت بھری شفافیت تھی. اور اسکی آنکھیں جو رات کو حیا کو بھوری لگی تھیں' صبح کی روشنی میں سبز لگ رہی تھیں. وہ دنیا کا سب سے شفاف سب سے خوب صورت چہرا تھا.
"مجھے اس سے بات نہیں کرنی." وہ بولی تو اس کی آواز بیٹھی ہوئی تھی. بہت چہخنے کے باعث اب گلا جواب دے گیا تھا.
"وہ کہہ رہی ہے'اسے تم سے بات نہیں کرنی".
اس نے فون کان سے لگا کر نرم لہجے میں انگریزی میں بتایا.
" وہ کہہ رہا ہے ایک دفعہ اس کی بات تو سن لو."
"اس سے کہو' جو اس نے میرے لیے کیا' میں اسکی احسان مند ہوں' لیکن اس کے بدلے میں اگر وہ مجھے یوں اذیت دینا چاہتا ہے تو میں ابھی اسی وقت اس کے گھر سے چلی جاؤں گی." وہ بے حد رکھائی سے بولی. عائشے گل کا چہرا جوابا ویسا ہی نرم اور شفاف رہا. اس نے سن کر فون کان سے لگایا اور ساری بات من و عن انگریزی میں دہرا دی. پھر فون بند کر دیا.
"وہ کہہ رہا ہے کہ وہ انڈیا میں ذرا پھنس گیا ہے وہ ادھر نہیں آسکے گ' وہ آۓ گا بھی نہیں اگر تم یہ نہیں چاہتیں اور تم جب تک چاہو ادھر رہ سکتی ہو. میں یہاں بیٹھ جاؤں¿ اس نے کارڈ لیس میز پہ رکھتے ہوۓ کرسی کی طرف اشارہ کیا.
وہ نہ اجنبیوں سے جلدی گھلتی ملتی تھی اور نہ اسے پاشا کے گھر والوں سے راہ و رسم بڑھانے میں دلچسپی تھی. مگر اس لڑکی کا چہرہ اتنا نرم اور دوستانہ تھا کہ خودبخود اس کی گردن اثبات میں ہل گئی.
" شکریہ" وہ اسی مدھر سی مسکراہٹ کے ساتھ کہتی کرسی پہ ٹیک لگا کر بیٹھی' سفید سویٹر میں مقید کہنیاں کرسی کے دونوں بازوؤں پہ رکھی اور ہتھیلیوں کو ایک دوسرے میں پھنساۓ عادتا اپنی انگوٹھی انگلی میں گھمانے لگی.
"تمہاری طبیعت اب کیسی ہے¿"
"ٹھیک ہے" وہ کہنی کے بل ذرا سی سیدھی ہو کر بیٹھ گئی تھی.
"تم عبدالرحمن کی طرف سے پریشان مت ہونا. اس نے کہا کہ نہیں آۓ گا نہیں آۓ گا. جو اس نے تمہارے لئے کیا وہ اس کا فرض تھا. سفیر کی فیملی سے ہمارے پرانے تعلقات ہیں جب تم نے سفیر کو فون کیا تو اس نے فورا عبدالرحمن کو اپروچ کیا یوں پولیس کی مدد لے کر وہ تمہیں وہاں سے نکال لاۓ.
"مجھے کس نے اغواہ کیا تھا¿" وہ بہت دیر بعد بس اتنا ہی کہہ پائی.
"یہاں بہت سے ایسے گروہ ہیں جو روس'مالدووا اور یوکرائن سے لڑکیاں اغواہ کر کے یا دھوکے سے ادھر لاتے ہیں' اس کے علاوہ ان ٹورسٹ لڑکیوں کو جن کا تعلق کسی غریب ملک سے ہو کہ ان کے گھر والے ترکی آکر ذیادہ دیر تک کیس کا تعاقب نہ کر سکیں'ان بھی یہ غواہ کرتے ہیں. ایک دفعہ ان کے پاس پہنچنے کے بعد سب ڑکیاں " نتاشا" بن جاتی ہیں. اور یہ ان تاشاذ کو آگے بیچ دیتے ہیں اور ان سے وائٹ سلیوری کروائی جاتی ہے.
اس نے تکلیف سے آنکھیں موند لیں. اسے یاد 
آ گیا تھا-نتاشا' ترکی میں کام کرنے والی روسی کال گرل کو کہتے تھے
"تم چھوڑو یہ سب' اپنے گھر فون کر لو- دو دن ہو گئے ہیں' تمہیں ان کو اپنی خیریت کی اطلاع تو دینی چاہئیے."
اس نے جواب نہیں دیا. بس خالی خالی نگاہوں سے کھڑ کی کے جالی دار پردے کو دیکھتی رہی جو ہوا سے ہولے ہولے پھڑ پھڑا رہا تھا- اس ک پاس جواب تھابھی نہیں.
میں اور بہارےجنگل تک جا رہے ہیں تم چلو گی؟؟
اس نے بنا تردد کے نفی میں گردن ہلادی. عائشے کے چہرے پرذراسی اداسی پھیل گئی-
چلوجیسے تماری خوشی. آج نہیں تو کل ضرور ہمارے ساتھ چلنا"- 
اس نے فورا" خود ہی نئی امید ڈھونڈ نکالی اور اٹھ کھڑی ہوئی. ناشتہ ضرور کرنا. مہمان بھوکا رہے تو میزبان کا دل بہت دکھتا ہے." شگفتگی سے کہتے ہوئے اس نے کرسی واپس رکھی اور باہر چلی گئی.
حیا نے کمبل اتارا اور اٹھ کر پاؤں نیچے رکھے. نرم گداز قالین میں پاؤں گویا دھنس سے گئے. وہ اپنے پیروں پہ کھڑی ھوئی تو کمر میں درد کی لہر اٹھی. کرسی سمیت گرنے سےاس کے کندھوں،کمر اور گھٹنوں پر بہت چوٹیں آئی تھیں.
وہ ننگے پاؤں چلتی ڈریسنگ ٹیبل کے قد آور آئنے کے پاس جا کھڑی ہوئی. اسکا عکس بہت تھکا تھکا، نقاہت زدہ سا لگ رہا تھا. متورم آنکھوں تلے حلقے ایک آنکھ کے نیچے گہرا جامنی سا نیل، پیشانی پہ چند خراشیں تھوڑی پہ بڑی سی خراش ، ہونٹ کا دائیں کنارہ سوجا ہوا اور ....اس نے انگلیاں اوپر سے نیچے اپنے بالوں میں پھیریں.
وه ویسے ہی تھے، اتنے ہی لمبے اتنے ہی گھنے، مگر ان کی چمک کھو گئی تھی. وہ ریشمی پن جو ان میں ہمیشہ چمکتا تھا اب وہاں نہیں تھا، جانے کیسے عائشے نے وہ ویکس اتاری اور اس دوران کتنے بال ٹوٹے وه نہیں جانتی تھی، ویکس دھل گئی مگر جو تکلیف اس نے سہی تھی و ہ ایسے نہیں دھل سکتی تھی- 
پولیس یا پاشا کے بندے جو بھی اس وقت دروازہ توڑ کر اندر آ ئے تھے انہوں نے اس کے فراک کو کے دامن کو آگ پکڑتے ہی بجھا دیا تھا، مگر جتنا وه پستہ قد روسی اسے جلا چکا تھا حیا کو لگا و ه جلن ساری زندگی تکلف دیتی رہے گی.
و ه اس وقت ڈھیلے ڈھالے اسپتال کے گاؤن میں تھی، اس نے دائیں استین دوسرے ہاتھ سے اوپر کندھے تک اٹھائی- بازو کے اوپر ی حصے پہ اوپر سے نیچے سیاہ راکھ کی طرح لکھے تین حروف ویسے ہی تھے 'who ' اس نے زیر لب دہرایا. وه کون تھی ؟ کیوں کسی دوسرے کے گھر یوں پڑی تھی وه بھی ایک ایسے شخص کے گھر جس کو وه سخت نا پسند کرتی تھی، اس کا گھر کال کرنے یا واپس سبانجی جانے کا دل کیوں نہیں چاہاتھا.
شاید اس لئے کے اس رات پھوپھو اس کا انتظار کر رہی تھیں. انہوں نے اس کے نہ آنے پہ ان دو دنوں میں ہر جگہ پتا کیا ہو گا اور اب تک پاکستان میں یہ بات پہنچ گئی ہو گی. کیا اب و ه کبھی واپس جا سکے گی؟ عزت سی جی سکے گی؟ کسی کو منہ دیکھا سکے گی؟ کیا ابا تایا فرقان اور صائمہ تائی کا سامنا کر سکے گی؟ یا اس نے اپنے ماں باپ کو سارے خاندان میں بے عزت کردیا تھا؟ کون اس کی دہائی سنے گا کے و ه بھاگی نہیں تھی، اغوا ہوئی تھی ، اس کے خاندان میں اور اس کے ملک میں اغواہ ہونے والی لڑکی اور گھر سے بھاگنے والی لڑکی میں کوئی فرق نہیں سمجھا جاتا تھا.
اسے لگا "شریفوں کا مجرہ" بھرے بازار میں چلا دیا گیا تھا. و ه وا قعی ہی بدنام ہو گئی تھی ، و ه کھڑکی میں آ کھڑی ہوئی اور جالی دار پردہ ہٹایا پھر کھڑ کی کے پھٹ کھول دیے. سمندر کی سرد برفیلی ہوا اس کے چہرے سے ٹکرائی اور کھلے بال پیچھے کو.......
********
اڑانے لگی.
وہ دوسری منزل کی کھڑکی میں کھڑی تھی. نیچے اسے باغیچہ نظر آرہا تھا.اور اس کے پار وہ گیٹ جسے ایک دن اس نے ہزیانی انداز میں پار کیا تھا.
باغیچے میں ایک خوبصورت شاہانہ سی بگھی کھڑی تھی..اس میں ایک چکنا سفید گھوڑا جتا تھا. بگھی کے پیچھے ایک صندوق نصب تھا. جس کا ڈھکن کھولے کھڑی عائشہ گھاس سے چیزیں اٹھا کر اس میں ڈال رہی تھی. چھوٹی بچی بہارے سرخ چمکتے سیب سے بھری ٹوکری اٹھا کر اوپر چڑھ رہی تھی.اندر بیٹھ کر ٹوکری گود میں رکھ لی. وہ جس حصے میں بیٹھی تھی وہ حیا کے سامنے تھا. عائشہ ڈھکن بند کر کے دوسری طرف آ بیٹھی.
دفعتاً بہارے کی نگاہ اوپر کھڑکی میں کھڑی حیا پر پڑی..
حیا." اس نے جلدی سے ہاتھ ہلایا.اس کے پکارنے پر اس کے بائیں طرف بیٹھی عائشے نے سر نکال کر دیکھا اور مسکرا کر ہاتھ ہلایا..
وہ مسکرا نہیں سکی. بس تھوڑا سا ہاتھ ہلا کر نیچے گرا لیا.
دفعتاً عائشے نے جھک کر بہارے کے کان میں کچھ کہا تو بچی نے اوہ کہہ کر سرخ سیب اٹھا کراسے اپنے فراک سے رگڑا اور "کیچ" کہتے ہؤے اوپر کی سمت اچھا لا.. اس نے لاشعوری طور پر ہاتھ بڑھائے.. مگر اڑ کر آتا سیب بالکونی کی ریلنگ میں اٹک گیا.
اوہ نو.." بہارے نے مایوسی سے گردن پیچھے کو پھینکی.اسی اثنا میں بگھی بان گھوڑے کو چابک مار چکا تھا.بگھی گھوڑے کو گھسیٹتے ہوئے باہر لے گئ..
وہ کھڑکی سے پرے ہٹ گئ اور سیب وہیں ریلنگ کے ڈیزائن میں پھنسا رہ گیا..
وہ کمرے کا دروازہ کھول کر باہر آئ.لکڑی کے فرش کی چمکتی راہداری سنسان تھی.وہ ننگے پاؤں چلتی آگے آئ.راہداری کے سرے پر ایک کمرے کا دروازہ نیم وا تھا.اس سے آگے جہاں راہداری ختم ہوتی تھی. وہاں ایک گول بل کھاتا لکڑی کا زینہ تھا.جو نیچے لونگ روم سے شروع ہوکر بالائ منزل کی راہداری' جہاں وہ کھڑی تھی سے ہو تا ہوا تیسری منزل تک جاتا تھا.اس نے گردن اٹھا کر بلند بالا محل کو دیکھا.اگر کبھی اسے اس محل سے بھاگنا ہو تو سارے چور راستے معلوم ہوں .اسے اب کسی پر اعتبار نہیں تھا..
حیا نے کمرے کا پورا دروازہ کھول دیا.وہ ایک چھوٹا سا سٹڈی روم تھا. جس میں آبنوسی اور صنوبر کی لکڑی کے شیلف بنے تھے. جس میں بیش قیمت کتابیں سجی تھیں.
وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی اندر آئ..
اسٹڈی کی دیواروں پر جابجا چھوٹے بڑے فریم آویزاں تھے.وہ انہیں ٹرانس کی سی کیفیت میں دیکھے گئ.وہ سب تصاویر اس کی تھیں.
کب لی گئیں" کیسے لی گئیں. وہ نہیں جانتی تھی.وہ تو بس مبہوت سی انہیں دیکھ رہی تھی.
وہ داور بھائ کی مہندی والے روز گیٹ سے نکل رہی تھی.ایک ہاتھ سے لہنگا اٹھائے دوسرے سے آنکھ کاکونا صاف کرتے...
وہ کار کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھی تھی ریڈ فراک میں ملبوس, بال پیچھے کو کرتی, کچھ کہتے ہوئے.فرنٹ سیٹ پر بیٹھا ولید نہیں تھا..
یہ تصویر جناح سپر کی تھی.سر جھکائے, جیکٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے چبوترے کے سامنے چل رہی تھی. سڑک پر دوکانوں کی زرد روشنیوں کا عکس جھلملا رہا تھا. اور بہت سی
تصویریں.. بہت سے واقعات.....
وہ ایک دم پلٹی اور بھاگ کر کمرے میں چلی گئ...
ہر سو آگ پھیلی تھی..زرد سرخ لپٹیں کس اڏد ھے کی زبان کی مانند' لپک لپک کر اس کی جانب بڑھ رہی تھیں. وہ وسط میں کھڑی تھی اور اطراف میں الاؤ دہک رہا تھا.شعلے ہر گزرتے پل بھڑکتے جا رہے تھے. اس کے سیاہ فراک کا دامن 
جل رہا تھا. دھواں , سرخ شعلے, ہراقیلطس کی دائمی آگ.....
گرمی کی شدت ناقابل برداشت ہوگئ تھی. وہ بری طرح جل رہی تھی.
پانی... پانی ڈالو میرے اوپر... وہ تکیے پر بند آنکھوں سے گردن ادھر ادھر مار رہی تھی.. ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھی. اس کا سارا جسم پسینے میں بھیگا تھا. تنفس تیز چل رہا تھا. گرمی... گرمی... اسے گرمی لگ رہی تھی.وہ لحاف پھینک کر تیزی سے نیچے بھاگی.
لکڑی کا گول زینہ اس نے تیزی سے عبور کیا..
اور کسی طرف دیکھے باہر کا دروازہ پار کر گئ اور گیٹ سے باہر نکل گئ..
رات ہر سو پھیلی تھی بارش تڑا تڑ برس رہی تھی.وہ دونوں بازو سینے پر لپیٹے چلتی جا رہی تھی.آسمان کے تھال گویا الٹ گئے تھے. بارش برستی جا رہی تھی اور اسے بھگورہی تھی.
پتھر سے پاؤں ٹھکرا کر اسے ٹھوکر لگی.وہ گھٹنوں کے بل زمین پر گر گئ.ہتھیلیاں چھل گئیں گھٹنوں پر خراشیں آئیں.. اس نے ہاتھ جھاڑتے اٹھنا چاہا تو کمر میں درد کی شدید لہر اٹھی.وہ واپس بیٹھ گئ سڑک کے وسط میں..
پانی سے اسکا لباس بھیگ چکا تھا. بالوں کی موٹی لٹیں چہرے کے اطراف میں چپک گئیں تھیں.
از
س کے اندر کی آ گ سرد پڑنے لگی. جامنی پڑتے لب کپکپانے لگے تو وہ اٹھ کھڑی ہوئ کسی معمول کی طرح چلتی واپس سفید محل آئ..
لونگ روم کی انگیٹھی میں دو لکڑیاں جل رہی تھیں. اندھیرے کمرے میں آگ اور مدھم سی روشنی نے عجیب سا فسوں پھیلا رکھا تھا.
جاتے ہوئے اس نے یہ سب نہیں دیکھا تھا مگر اب چوکھٹ پر کھڑی دیکھ رہی تھی.عائشے بڑے صوفے پر بیٹھی, سامنے میز پر رکھے کاغز پر پیمانے سے لکیر کھینچ رہی تھی. آہٹ پر اس نے سر اٹھایا..
آؤ بیٹھو.. اور اسے بیٹھنے کے لئے جگہ دے دی.اور دونوں ہاتھوں سے لمبا کاغز رول کرنے لگی.
یہ آگ بجھا دو.. جب وہ بولی تو اس کی آواز بیوک ادا کی بارش کی طرح گیلی تھی.
عائشے بلاتردد اٹھی اور آتش دان کے ساتھ لگا سوئچ بند کر دیا. آگ بجھ گئ. مصنوعی انگارے سرخ رہ گئے جو اصل میں ہیٹر کے راڈ تھے..
"اب آؤ... عائشے بات دہرا کر دوبارہ سے رول پر ربڑ لپیٹنے لگی..
وہ میکانکی انداز میں آئ اور صوفے پر بیٹھ گئ. اس کی آنکھیں بجھتے انگاروں پر تھیں جو اپنا رنگ کھو رہے تھے..
"اپنے گھر فون کر لو." وہ لوگ پریشان ہوں گے...
"مجھے ڈر لگتا ہے میں سب کو فیس کیسے کروں گی.? 
آتش دان پر جمی اس کی بڑی بڑی آنکھوں میں سراسیمگی تھی..
" جس اللہ نے تمہاری پہلے مدد کی ہے وہ اب بھی313 
کرے گا..
تین دن ہو گئے ہیں اب تک سب کو پتا چل گیا ہو گا..
" جب تمہارا قصور نہیں ہے تو ڈرو بھی مت.."
عائشے نے کارڈلیس اس کی طرف بڑھایا." اگر انہوں نے کوئ غلط بات کہی تو میں دوبارہ نہیں کہوں گی.مگر ایک دفعہ کوشش کر لو..
اس نے کارڈلیس پکڑتے ہوئے عائشے کو دیکھا. سیاہ اسکارف میں لپٹا اس کا چہرا مدھم روشنی میں بھی دمک رہا تھا. اب اسکی آنکھیں گہری لگ رہی تھیں.. سیاہی مائل
اس نے وال کلاک کو دیکھا یہاں آدھی رات تھی تو وہاں نو دس بجے ہوں گے گھر کا نمبر اسے زبانی یاد تھا.وہ بھیگی انگلیوں سے بٹن پش کرنے لگی فون کان سے لگایا..
عائشے اپنے پنسل,پیمانے اور پرکار سمیٹ کر چھوٹی تھیلی میں ڈالنے لگی..
ہیلو.. وہ فاطمہ کی آواز تھی..
"ہیلو اماں..! میں حیا.. اس کی آواز میں آنسؤوں کی نمی تھی کیسی ہیں آپ..? 
میں ٹھیک ہوں سوری بیٹا میں تمہیں اتنے دن فون نہیں کر سکی. اتنی مصروف رہی کہ روز فون کرنا رہ جاتا..
ابا.. ابا کدھر ...?
اس سے بولا نہں جا رہا تھا.
وہ یہ سامنے ہی بیٹھے ہیں. کراچی گئے ہوئے تھے آج ہی واپسی ہوئ ہے.
اماں اور بھی کچھ کہ رہی تھیں. اس کی سینے میں اٹکی ہوئ سانسیں بحال ہوئ.دکھتے سر میں درد زرا کم ہوا تھا.
کسی کو پتا نہیں چلا تھا..
اماں سے پھپھو کا نمبر لے کر اسنے کال کی..
اچھی بھتیجی ہو تم بھی .. کھانے کا کہ کر غائب ہوگئیں..
میں پہلے اتنی پریشان رہی سمجھ نہیں آیا کیا کروں.جہان کو پوری رات بخار رہا.
اس کو بھی نہیں اٹھا سکتی تھی. تمہارے دونوں نمبرز بھی بند تھے.
صبح ہوتے ہی ہاسٹل گئ وہ جو فلسطینی لڑکا ہے اس نے بتایا کہ تم اپنی کسی ہوسٹ آنٹی کے گھر رہنے والی ہو. مجھے بتا تو دیا ہوتا حیا.. آنٹی کافی فکرمند سی تھیں..
مگر معتصم .... وہ اس پزل میں اتنا الجھا ہوا تھا کہ اسے سمجھ نہیں آیا کہ اس نے پھپھو کی طرف رکنا یا ہوسٹ آنٹی کی طرف..
ان کی تسلی کروا کر .. پرس میں پائے جانے والے دونوں فونز کے خراب ہونے کا بتا کر جب اس نے فون رکھا تو عائشے اسے دیکھ رہی تھی..
میں نے کہا تھا نا کہ سب ٹھیک ہو جائے گا.اب تم آرام سے ادھر رہو ...
وہ مسکرا دی.. 
اور تم آگ سے نہ ڈرا کرو.. آگ سے وہ ڈریں جن کے پاس کوئ اچھا عمل نہ ہو. اور تم تو اتنی پیاری لڑکی ہو..
اس نے ویران نگاہوں سے عائشے کی طرف دیکھا..
اور اس کی نگاہوں میں ایک ویڈیو لہرائ اور اس کے نیچے لکھے کمنٹس..
"میں اچھی لڑکی نہیں ہوں" 
کوئ لڑکی بری نہیں ہوتی.اس سے بس کچھ برا ہوجاتا ہے. اور تم نے اچھا بھی تو کیا ایک غریب انسان کیلیئے امیر کو ٹھکرا دیا.اپنے شوہر کو نہیں چھوڑا ..اس سے وفا نبھائ.اس سے اچھی کیا ہوگی..?
میری دنیا تمہاری دنیا سے مختلف ہے عائشےہم میں بہت فرق ہے..
چلو پھر تم ڈھیر سارے دن میرے پاس رہو اور بتانا میری دنیا کیسی ہے..? 
ساتھ ہی اس نے مسکرا کر حیا کا ہاتھ دبایا..
" تم کون ہو عائشے ..? میرا مطلب ہے تمہارا. ..! 
اس نے فقرہ ادھورا چھوڑ دیا..
میں اس گھر کی مالکن ہوں.بہارے میری بہن ہے. اور آنے میری دادی کی سگی بہن ہیں. آنے ترک ہیں مگر ان کا شوہر انڈین تھا."
آنے عبدالرحمان پاشا کی ماں..?
ہاں وہی.. مگر ہم آنے کو آنے کہتے ہیں دادی نہیں...
تو پاشا تمہارا چچا لگا..? وہ سوچ سوچ کر کہ رہی تھی.. وہ جواباً مسکرائ.!
چچا باپ کا سگا بھائ ہوتا ہے..وہ ہمارے لیے نامحرم ہے. خیر اب تم سو جاؤ.. صبح بات کرتے ہیں..
وہ سر ہلا کر اٹھ کھڑی ہوئ اسے اب نیند کی ضرورت تھی..
عائشے گل نے کہا تھا کہ اس سفید محل کی مالکن وہ ہے اس لیے وہ رک گئ تھی.ذہنی اور جسمانی طور پر وہ قطعاً ٹھیک نہیں تھی اسے کوئ سہارا چاہیے تھا اس لیے اس نے ان تینوں کو سہارا مان لیا تھا.آنے آج کل استنبول گئ ہوئ تھیں اور وہ دونوں بہنیں پیچھے گھر پر تھیں.
صبح اس نے عائشے کا لایا ہوا لباس زیب تن کیا. پوری آستینوں والی پاؤں کو چھوتی میکسی جس کا گلا گردن تک بند تھا اور جگہ جگہ ننھے موتی لگے تھے.بال چہرے کے ایک طرف ڈالے اور دونوں ہاتھوں سے سائڈ سے میکسی اٹھائے لکڑی کے زینے اتر رہی تھی جب اس نے عائشے کی آواز سنی. وہ نیچے بیڈروم کے ادھ کھلے دروازے سے بہارے کو آوازیں دیتی نظر آ رہی تھی.
"بہارے گل اٹھ جاؤ.. اور کتنا سؤو گی..? 
فیروزی اسکارف اور اسکرٹ بلاؤز پر وہ باہر جانے کے لیے تیار تھی.
"بس پانچ منٹ اور عائشے گل..
کمبل میں سے آواز آئ تھی..
ہماری امت کے صبح کے کاموں میں برکت ہوتی ہے بہارے , جو علی الصبح روزی کی تلاش میں نکلتے ہیں ان کے رزق میں برکت ہوتی ہے. جو پڑھتے ہیں ان کا علم بڑھتا ہے اور جو سوئے رہتے ہیں ان کی نیند بڑھ جاتی ہے.اور پھر وہ سارا دن سوئے رہتے ہیں..
بہارے منہ بناتی کمبل پھینک کر اٹھ کھڑی ہوئ..
اور عائشے اس کی تہہ لگانے لگی..
تم ہمارے ساتھ چلو گی حیا.. بہارے نے مندی آنکھیں کھول کر کہا..
"ہاں ابھی تم جنگل جاؤ گی..? 
نہیں پہلے ہم سفیر کی ممی کی طرف جائیں گے مجھے ان سے کام ہے.? عائشے نے تائید چاہی.! 
اس نے مسکرا کر کندھے اچکا دئے . وہ خود کو ان کے رحم و کرم چھوڑ چکی تھی.
یہ سب کس لیئے..? اس نے صندوق سے نظر آتے اوزار دیکھ کر کہا..
ہم لکڑی کاٹنے جاتے ہیں جنگل سے.. یہاں اجازت تو نہیں پر ہمارے پاس خصوصی پرمٹ ہے. ہم لکڑی کی چیزیں بنا کر بازار میں بیچتے ہیں.
اتنے بڑے گھر کی مالکن کو بڑھئ بننے کی کیا ضرورت..? وہ بگھی میں چڑھتے مسکرادی..

"حیا سلیمان ہمیں انڈراسٹیمیٹ مت کرو.ہم بہت مہنگی چیزیں بناتے ہیں." وہ ہنس کر کہتے ہوئے اندر بیٹھ گئ.وہ دونوں اطراف میں تھیں اور بہارے ان کے درمیان..
بگھی اب بنگلوں سے گھری سڑک پر دوڑنے لگی تھی..گھوڑے کے ٹاپوں کی آواز سارے میں گونج رہی تھی...
عثمان انکل کا گھر کہاں ہے.?
وہیں مسجد کے پاس. تم نے ہماری مسجد دیکھی ہے نا.. وہاں تم ایک دفعہ آئ تھیں.." 
ہاں مجھے یاد ہے.. میں نے تم دونوں کو دیکھا تھا..
وہ ہوا سے اڑتے بالوں کو ھاتھ سے سنوارتی ہوئ بولی."
بہارے کے چہرے پر بار بار اس کے بال اڑ کے آرہے تھے.مگر بہارے برا مانے بغیر اپنے گلابی پرس کو سینے سے لگائے بیٹھی تھی.اس کے گنگریالے بال براؤن پونی میں بندے تھے.
" تمہارے ساتھ اس دن کوئ تھا.?
عائشے نے آنکھیں بند کر کے لمحے بھر کو جیسے یاد کیا. فیروزی اسکارف میں اس کی بھوری سبز آنکھیں, اب نیلی سبز لگ رہی تھیں.
ہاں وہ.... میرا شوہر ہے...." اور کزن بھی..."
اچھا تھا.. عائشے مسکرادی..
وہ بھی جوابًا زرا سا مسکرائ.. اسی پل اسے وہ اچھا سا شخص بہت یاد آیا.شیخ عثمان بشیر کا بنگلہ باقی بنگلوں کی نسبت زرا سادہ تھا. 
ایک بڑے کمرے میں جہاں فرشی نشست تھی. حلیمہ آنٹی ان کا انتظار کر رہی تھیں.وہ بہت ملنسار,بہت خوبصورت خاتون تھیں.شلوار,قمیض میں ملبوس بڑا سا دوپٹہ اوڑے وہ اسے بہت اچھی لگی تھیں..
یہ حیا ہے" میں نے بتایا تھا نا...! عائشے قالین پر دوزانوں بیٹھ گئ تھی.. دونوں کے درمیان ایک میز تھی. جس پر عائشے نے اپنا ہاتھ رکھ دیا. وہ دونوں اس کے پاس بیٹھ گیئں.."
" میں جانتی ہوں.. اچھا کیا جو حیا کو ساتھ لے آئیں.وہ مسکرا کر عائشے کے ہاتھ کی پشت پر اسپرے کر رہی تھیں."
حیا جواباً مسکرائ اور جھک کر بہارے سے پوچھا وہ کیا کر رہی ہیں..?
آج چاند کی اکیسویں تاریخ ہے وہ اپنا خون نکلوائے گی..! ابھی دیکھنا آنٹی اس کے ہاتھ میں بلیڈ سے کٹ لگائیں گی.."
اس نے بے یقینی سے بہارے کو دیکھا..
اور پھر قدرے فاصلے پر بیٹھی آنٹی اور عائشے کو ...
وہ اس کے ہاتھ کی پشت پر کچھ لگا رہی تھیں. عائشے کی اس کی جانب کمر تھی وہ دیکھ نہیں سکتی تھی."
قریباً پانچ منٹ بعد عائشے اٹھی تو اس کے ہاتھ پر سرخ نشان تھا.
وہ یک ٹک اسکے ہاتھ کو دیکھے گئ..
یہ کیا..?
اس نے ناسمجھی سے عائشے کو دیکھا..
بہت عرصہ ہو گیا میں نے cupping(سینگی لگوانا) نہیں کروائ تھی.سوچا آج کروالوں.تم نے کروائ کبھی یہ تھراپی..? 
اس نے نفی میں سر ہلاتے اپنا ہاتھ لاشعوری طور پر پیچھے کر لیا..
" تم کیوں کرواتی ہو یہ.. وہ دزدیدہ نگاہوں سے عائشے کو دیکھ رہی تھی...
"میں اس لیے کرواتی ہوں کہ جب رسول اللہ معراج پر گئے تھے تو یہ وہ چیز تھی جسکی فرشتوں نے پرزور تاکید کی تھی"
اللہ نے اس میں بہت سکون رکھا ہے.. اچھا تم آنٹی سے باتیں کرو. میں اور بہارے پھول توڑ لائیں.
وہ دونوں باہر چلی گئ تو وہ ہچکچاتے ہوئے آنٹی کے سامنے آ بیٹھی.انہوں نے مسکرا کر نرمی سے ہاتھ بڑھایا تو حیا نے بلا ارادہ اپنا ہاتھ ان کے ہاتھ میں دے دیا.تب اسے........

جاری هے

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے