جنت کے پتے از نمرہ احمد (قسط 23)

ناول؛ جنت کے پتے
قسط 23


"کہو!"عائشے پہلوکے بل لیٹی،نرمی سے بہارے کے گھنگھریالے بالوں کو سہلا رہی تھی. "میری سیپ میں موتی کیوں نہیں نکلتے؟میں اتنا جھوٹ تو نہیں بولتی."وہ چھت کو تکتی کہنے لگی. "تم بہارے کے فلسفے کو ذہن سے نکال دو.یہ تو رزق ہوتاہے.کبھی نکل آتاہے تو کبھی نہیں." چند لمحےکمرے کی تاریکی میں ڈوب گۓجس میں سبز نائٹ بلب کی مدھم روشنی پھیلی تھی. "عائشے." اس نے اسی طرح چھت کو تکتے ہوۓ پھر سے پکارا."کیا مجھے دنیا نے
دھوکے میں ڈال رکھاہے؟" تمہیں کیا لگتاہے؟" پتانہیں.مجھے لگتاہے جیسے میں بہت دور نکل آئ ہوں،اتنی دور کہ میں ان باتوں سے خود کو ریلیٹ نہیں کر پاتی،جو تمہاری ذندگی کا حصہ ہے." حیا! دور ہمیشہ ہم جاتے ہیں.اللہ دور نہیں جاتا." وہ نگاہوں کا زاویہ موڑ کر عائشے کو سوالیہ انداز میں دیکھنے لگی. "اگر تمہیں لگتاہے دوریاں بہت بڑھ گئ ہیں تو انہیں ختم کرنے کی کوشش میں پہل بھی تمہیں کرنی ہوگی." کیسے؟ وہ بے اختیار بول
اٹھی. "تم کیاکرناچاہتی ہو؟" میرابازو مجھ سے روز یہ سوال کرتاہےکہ میں کون ہوں،میں چاہتی ہوں کہ میرے پاس اس کے سوال کا کوئ اچھا جواب ہو.میں زندگی میں کچھ اچھا کرنا چاہتی ہوں." اس لیے تاکہ تمھاری سیپ سے موتی نکل آئیں؟ "نہیں."وہ ذراخفت زدہ ہوئ.بلکہ اس لیے تاکہ مجھے اس آگ میں کبھی نہ جلناپڑے جس سے مجھے اب بہت ڈر لگتاہے." پھر اس فاصلے کو سمیٹنے کی کوشش کرو." کیسے؟ "حیا"یہ جو ہمارااللہ سے فاصلہ آجاتاہے نا،
یہ سیدھی سڑک کی طرح نہیں ہوتا.یہ پہاڑ کی طرح ہوتا ہے.اس کو بھاگ کرطے کرنے کی کوشش کروگی تو جلدی تھک جاؤگی،جست لگاؤگی تو درمیان میں گر جاؤگی،اڑنے کی کوشش کروگی تو ہوا ساتھ نہیں دے گی." عائشے سانس لینے کے لیے لحضہ بھر کے لیے رکی. "یہ فاصلہ بے بی اسٹیپس سے عبور کیاجاتاہے.چھوٹےچھوٹے­­ قدم اٹھاکر چوٹی پہ پہنچاجاتاہے.کبھی بھی درمیان میں پلٹ کر نیچے اترناچاہوگی تو پرانی ذندگی کی کشش ثقل کھینچ لے گی اور قدم
اترتے چلے جائیں گےاور اوپر چڑھنااتنا ہی دشوار ہوگا،مگر ہر اوپر چڑھتے قدم پہ بلندی ملے گی.سو بھاگنامت،جست لگانے کی کوشش بھی نہ کرنا.بس چھوٹے چھوٹے اچھے کام کرنااور چھوٹے چھوٹے گناہ چھوڑدینا." عائشے گل کا چہرہ مدھم سبز روشنی میں دمک رہاتھا.وہ اتنا نرم بولتی کہ لگتا جیسے گلاب کی پنکھڑیاں اوپر سے گر رہی ہوں،جیسے شہد کی ندی بہہ رہی ہو،جیسے شام کی بارش کے ملائم قطرے ٹپک رہے ہوں. "تو میں کیاکروں؟" تم اپنی
کوئ محبوب شے اللہ تعالی کے لیے قربان کردو." اس کی بات پر حیا نے لمحے بھر کے لیے سوچا.اس کے پاس ایسی کون سی شے تھی؟ "سبانجی کے ڈورم میں میرے پاس ایک ڈائمنڈ رنگ پڑی ہے،وہ بہت قیمتی ہے." قیمتی چیز نہیں، محبوب چیز قربان کرو.ضروری نہیں ہے کہ تمھاری محبوب چیز قیمتی بھی ہو."وہ مسکراکربولی."اور میں بتاؤں کہ تمھاری محبوب ترین شے کیاہے؟"
کیا؟" تمہاری انا.تم اسےقربان کردو. "مگر کس کے لیے؟"وہ ذرا حیرت سےبولی. "اپنے چچاکی کسی بیٹی کے لیے تمھارے کوئ چچااور ان کی بیٹیاں ہیں؟" حیا نے دھیرے سےاثبات میں سر ہلایا. "تم ان کے لیے وہ کروجوتم کبھی نہیں کرتیں.سب سے مشکل قربانی دیناچچاکے بچوں کے لیے ہوتاہے،کیونکہ سب سے زیادہ مقابلہ ان سے رہتاہے،اورسب سے زیادہ ناقدرے بھی وہی ہوتے ہیں."میں ان کے لیے کیاکروں؟میں ان سے کبھی زیادتی نہیں کرتی.بس میں ن
ان کے طنز کے جواب میں زبان پہ آۓ طنز کوروک نہیں پاتی."حیا!یہ جو چھوٹےچھوٹےطنزاور طعنے ہوتےہیں نا،ان سے بچاکرو.مکہ میں چند بڑےبڑے سردار تھے.جو یونہی چھوٹےچھوٹے طنز کر جاتےتھے.پھر کیاہوا؟وہ بدر سے پہلے چھوٹی چھوٹی تکلیفوں سے مر گۓ.کؤئ خراش سے مراتو کوئ چھوٹےسے پھوڑے سے.تم اپنی کزن کے لیے اپنی انا کی ضرب کو بھول جاؤ." میں کوشش کروں گی.ویسے عائشے!"وہ ذرا سا مسکرائ."تم بہت پیاری ہو." جوابا" عائشے دھیرے
سے ہنس دی. "تم بھی بہت پیاری ہو حیا!"اور میں بھی بہت پیاری ہوں."بہارے نے بند آنکھوں سے کہاتو وہ دونوں چونک کر اسے دیکھنے لگیں. "گندی بچی!تم جاگ رہی تھیں؟چلو سوجاؤ.صبح کام پر بھی جاناہے." عائشے نے بہارے کو مصنوعی خفگی سے ڈانٹتے ہاتھ بڑھاکر ٹیبل لیمپ آف کیا.سبز روشنی غائب ہوگئ.کمرہ تاریکی میں ڈوب گیا.صبح سویرے کچن سے باتوں کی آوازیں آرہی تھیں.وہ کھلے بال انگلیوں سے سمیٹ کر جوڑے میں لپیٹتی چوکھٹ تک آئ.
عائشے کرسی پہ بیٹھی تھی اور اپنے آگے کھڑی بہارے کے بال بنارہی تھی.آج گھر کے کام تھے،سو جنگل نہیں جاناتھا،تو بہارے باہر جدیسی(گلی)میں بچوں کے ساتھ کھیلنےجارہی تھی. "اب بہارے گل اکیلی جاۓ گی تو اچھی لڑکی بن کر جاۓ گی،ٹھیک ہےنا؟"عائشے نرمی سے تائید چاہتی اس کی چوٹی گوندھ رہی تھی. "ٹھیک!"بہارے نے اثبات میں سر ہلایا. "اور اچھی لڑکیاں جب بازار سے گزرتی ہیں تو نظریں جھکاکر گزرتی ہیں."ایسے اگر ٹھوکر لگ جاۓ
تو؟" عائشے نے دھیرے سے مسکراتے ہوۓ چوٹی کے آخری بل ایک دوسرے میں گوندھے. "جو لڑکی اللہ کی بات مانتی ہے،اسے اللہ ٹھوکر لگنے نہیں دیتا."اور جو نہیں مانتی؟" اسے لگنے دیتاہے." اس نے پونی باندھ کر نچلے بالوں کو برش کیا.پھر شانوں سے تھام کر بہارے کارخ اپنی جانب کیا. "اور اچھی لڑکیاں جب باہر نکلتی ہیں تو کیسے چلتی ہیں؟"بہارے کی پیشانی کے بال نرمی سے سنوارتے اس نے روز کا دھرایاجانے والا سبق پھر سے پوچھا.
"وہ ان دو لڑکیوں کی طرح چلتی ہیں جو کنویں پہ موسی علیہ السلام کے پاس آئ تھیں." اوروہ دو لڑکیاں کیسے چل رہی تھیں؟"اس نے بہارے کی بھوری گھنگریالی لٹ کان کے پیچھے اڑسی. "حیاکےساتھ...."اور عمربن خطاب نے کیاکہاتھا.حیاوالی لڑکیاں کیسی ہوتی ہیں؟"وہ ہرجگہ نہیں چلی جاتیں،ہربات نہیں کرلیتیں.ہرکسی سے نہیں مل لیتیں."بہارے نے
انگلیوں پہ تینوں نکات جلدی جلدی دہراۓ،جیسے اسے بھاگنے کی جلدی ہو. "اور یادرکھنا،کہ جب تم میں حیا نہ رہے،توپھرجوجی چاہےکرنا."بظاہرنرمی سے کہتے عائشے کی آنکھوں میں وہ تنبیہہ ابھری جوبہارےکوسیدھارکھتی تھی. بہارے نے اثبات میں سرہلایااور آگے بڑھ کر عائشے کارخسار چوما. "عائشے گل!بہارے گل تم سے بہت پیار کرتی ہے." وہ بھاگ کر دروازے میں آئ،تو حیا اس سے ملنے کے لیے جھکی،اس نے اسی طرح حیاکاگال چوما. "حیا
سلیمان!بہارےگل تم سےبہت پیار کرتی ہے."کہہ کر وہ باہر بھاگ گئ. "تم بہت محنت کرتی ہو،اس کی ذہن سازی کے لیے"وہ آگے چلی آئ.وہ جب تک بیدار ہوتی تھی،وہ دونوں بہنیں حلیمہ آنٹی کے گھر سے قرآن پڑھ کر آچکی ہوتی تھیں. "کرنی پڑتی ہے.چھوٹی لڑکیاں تونرم ٹہنی کی طرح ہوتی ہیں.جہاں موڑو،مڑجائیں گی،اگر وقت گزرنے کے ساتھ ٹہنی رنگ بدل لے،سوکھ بھی جاۓ تو بھی اس کا رخ وہی رہتا ہے.مگر جو بڑی لڑکیاں ہوتی ہیں نا،وہ کانچ کی
طرح ہوتی ہیں.اسے موڑو تو مڑتا نہیں ہے،زبردستی کرو تو ٹوٹ جاتاہے.کانچ کو تراشنا پڑتا ھےاور جب تک اس کی کرچیاں نہیں ٹوٹتیںاور اپنے ہاتھ زخمی نہیں ہوتے،وہ مرضی کے مطابق نہیں ڈھلتا." صحیح کہہ رہی ہو." اس نے اثبات میں سر ہلایا. "اچھا فون کدھر ہے؟میرا کریڈٹ ختم ہے.پاکستان فون کرناتھا." اوہ سوری!یہ پڑاہے،عبدالرحمن کا فون آیا تھا تو میں نے ادھر ہی رکھ دیا اور یہ تمھاری چاۓ."اس نے کارڈلیس فون اور حیا کا
ناشتہ کا واحد جز چاۓ اس کے سامنے رکھی. "کیا کہہ رہاتھا وہ؟"بے اختیار ہی وہ پوچھ اٹھی حالانکہ اسے پاشا میں کوئ دلچسپی نہ تھی. "بس کچھ پیپرز کا پوچھ رہاتھا.اس کے کمرے میں رکھے تھے."بہارے تو خوش ہوئ ہوگی اس سے بات کر کے." ناشتے کے برتن سمیٹتی عائشے کے ہاتھ ذراسست پڑے.ایک آزردگی اس کے چہرے پہ بکھر گئ. "تم بہارے کو مت بتانا.میں نے بھی اسے نہیں بتایا.وہ اس سے بات کرنے کے لیے فون نہیں کرتا،اپنے کام کے لیے
کرتاہےبس.وہ اداسی سے سر جھٹک کر کام کرنے لگی. حیا خاموشی سے فون اور چاۓ کا کپ لیے باہر آگئ.گھاس پہ شبنم کے قطروں کی چادر چڑھی تھی. بہار کے پھول ہر سو خوشبو بکھیرے ہوۓتھے.وہ گھاس پہ بیٹھ کر چاۓ کے گھونٹ بھرتی تایافرقان کا نمبر ڈائل کرنے لگی. فون ارم نے ہی اٹھایا.دعا،سلام اور رسمی سے حال احوال کے بعد وہ بہت چبھتے ہوۓ لہجے میں بولی. "تمہیں آج کیسے خیال آگیا فون کرنے کا؟" عام دنوں میں حیا کو اس فقرے سے
ذیادہ تپ کسی شے نہیں چڑھتی تھی.انسان جب کسی کو فون کرے،چاہے سال بعد ہی سہی،تووہ اگلے کا خیال کرکے ہی فون کرتاہے.اس پہ کسی گلے سے بات کا آغاز کرنا مخاطب کو یہ کہنے کے برابر ہے کہ آئندہ یہ خیال کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہے.مگر اس نے اب زندگی میں اتنی تکلیف سہہ لی تھی کہ اسے محسوس نہیں ہوا،یاپھر وہ خود ہی نظر انداز کر گئ. "ٹھیک کہہ رہی ہو،میں بھی بس مصروفیت کے باعث کرہی نہیں پاتی.تم سناؤ کیسی ہو؟اورہاں،
منگنی بہت مبارک ہو." بہت شکریہ!"ارم کا لہجہ خاصاروکھاتھا.چند چھوٹی چھوٹی نرم سی باتیں کر کےاور ارم کی چھوٹی چھوٹی تندباتوں کو نظر انداز کرکے اس نے فون رکھاتو اس کا دل پہلے سے بہت ہلکاتھا
کا تعاقب کرتے تھے.اسے یقین تھا.وہ بے دلی سے باہر آگئ.اس کو بلیک میل کرنے کے لیے اس نے بہت سا سامان اکھٹا کر رکھا تھا.مگر کوئ کمزوری تو پاشا کی بھی ہوگی.کچھ سوچ کر اس نے گردن اٹھا کر اوپر دیکھا.گول چکر کھاتا لکڑی کا زینہ تیسری منزل تک جاتا تھا.وہاں پاشا کا کمرہ تھا.بہارے بات بے بات ذکر کرتی.راہ داری کا آخری کمرہ،وہ ادھر گئ تو نہیں تھی.مگر جانے میں حرج بھی نہ تھا.اسے اس گھر کے بارے میں جتنا پتا ہوتا
اچھا تھا.وہ ننگے پاؤں زینے چڑھتی اوپر آئ.چابیوں کا گچھا اس نے عائشے کے دراز سے نکال لیا تھا.آخری کمرے کا دروازہ بند تھا.اس اس نے ایک ایک کر کے چابیاں لگانا شروع کیں.چوتھی چابی پہ لاک کھل گیا.اس نے دھیرے سے دروازہ دھکیلا.وہ بہت شاہانہ طرز کا بیڈ روم تھا.اونچی چھت،جھلملاتا فانوس،دیوار گیر کھڑکی کے ہلکے سرمئ مخملیں پردے.قالین بھی سر مئ.سارا کمرہ گہرے نیلے اور سرمئ شیڈز میں آراستہ کیا گیا تھا.کمرے میں
پرفیوم کی خوشبو پھیلی تھی.خوشبو پر فیوم کے بے حد قیمتی ہونے کی چغلی کھا رہی تھی.اس نے ڈریسنگ ٹیبل پہ رکھی نازک شیشیوں کو دیکھا.ایک سے ایک مہنگا پرفیوم ادھر رکھا تھا.وہ ادھر ادھر ٹہلتی ہرشے کا جائزہ لیتے ہوۓ الماریوں کی طرف آئ.ایک ایک کر کے اس نے پانچوں پٹ کھولنے کی کوشش کی.پہلے چار لاکڈ تھے.آخری کھلا تھا.اس نے پٹ کھولا تو اندر بہت سے قیمتی،نفیس تھری پیس سوٹ ہینگرز میں لٹکے تھے.نچلے خانے میں ایک بریف
کیس رکھا تھا.اس نے احتیاط سے بریف کیس اٹھایا.اور بیڈ پہ آبیٹھی.بریف کیس لاکڈ نہیں تھا.حیا نے اسے کھولا.اندر چند فائلز رکھی تھیں.اور اوپر ایک نوٹ پیڈ پہ سیاہ روشنائ سے ترکی میں کچھ نام فہرست کی صورت میں لکھے تھے.وہ فہرست اٹھا کر پڑھنے لگی.تب ہی بریف کیس میں سے بیپ کی آواز آنے لگی.وہ چونکی،اندر کچھ بج رہا تھا.اس نے گھبرا کر جلدی سے کاغذ اندر ڈالا تو انگوٹھے پہ ایک حرف کی سیاہ روشنائ لگ گئ.بہت تیزی سے
سے بریف کیس کو واپس رکھ کر بستر کی چادر کی شکن درست کرتی وہ باہر نکل آئ.کمرہ لاک کر کے جب وہ زینے اتر رہی تھی تو لاؤنج کا فون بج رہا تھا.وہ تقریبا" بھاگتی ہوئ نیچے آئ اور فون اٹھایا.
‏"ہیلو؟"
جوابا" لمحے بھر کی خاموشی چھائ رہی.پھر ائر پیس میں سے عبدالرحمن پاشا کی آواز گونجی.
‏"عائشے کدھر ہے؟" "وہ دونوں کسی کے گھر گئ ہیں."وہ ذرا سنبھل کر بولی."آپ کیوں پوچھ رہے ہیں؟" چند لمحے کے لیے وہ خاموش رہا.پھر بولا تو اس کی آواز بے حد سرد تھی.
‏"آئندہ اگر آپ میرے کمرے میں گئیں یا میرے بریف کیس کو کھولنے کی کوشش کی تو اپنے پیروں پہ گھر نہیں جا سکیں گی، سمجھیں؟" بہت ضبط سے بولا تھا.حیا کے قدموں تلے سے زمین سرک گئ.اس نے گھبرا کر ریسیور کریڈل پہ ڈال دیا.پھر انگوٹھے پہ لگے سیاہی کے
دھبے کو کپڑے سے رگڑ کر گویا ثبوت مٹانے کی کوشش کی.عبدالرحمن کو کیسے علم ہوا؟ ان کا دماغ کچھ بھی سمجھنے سے قاصر تھا.البتہ اس کے اندر کوئ اسے کہہ رہا تھا کہ اب اسے چلے جانا چاھئیے.لیکن قصر بیوک ادا اور ان دو بہنوں کی کشش...وہ عجیب کشمکش میں پڑ گئ.
‏"یہ ادا چاۓ کے کھیت ہیں."اس روز عائشے نے اسے اپنی ایک عزیزہ کبرئ بہلول کا لہلاتا ھوا کھیت دکھاتے ہوۓ بتایا تھا."ادا چاۓ کیا ہوتی ہے؟"اس نے پودے کے ترکی نام
کا مطلب پوچھا. "ادا یعنی جزیرہ،اور چاۓ یعنی ٹی." "اوہ اچھا...ہم بھی ٹی کو چاۓ ہی کہتے ہیں.وہ دھیرے سے ہنس پڑی.کبرئ بہلول ایک معمر خاتون تھیں.ان کی فصل تیار تھی.مگر ان کے پاس کوئ ہیلپر نہیں تھا جو ان کے ساتھ فصل چنتا،سو عائشے کے کہنے پہ حیا نے لکڑیاں کاٹنے کے بجاۓ کبرئ بہلول کے ساتھ ادا چاۓ کے پتے چننے شروع کر دیے.چمکتے سورج اور ٹھنڈی ہوا کے امتزاج میں کام کرنا مشقت طلب تھا.مگر وہ اس فطرت کے قریب
ماحول میں خوش تھی.کبرئ بہلول سے وھ چھوٹی چھوٹی باتیں پوچھتی رہتی تھی اور جو باتیں وہ عبدالرحمن پاشا کے بارے میں کر جاتیں، وہ انہیں ذہن میں محفوظ کرتی جاتی.اسے ہوٹل گرینڈ کے معاملات میں دلچسپی ہونے لگی تھی وہ اب تنہا کہیں آتی جاتی نہیں تھی.ورنہ کئ دفعہ اس کا دل ہوٹل گرینڈ کا چکر لگانے کو چاہا تھا.واپس جانے کا ارادہ اس نے فی الحال ملتوی کر دیا تھا.اس کی چھٹی حس کہتی تھی کہ بیوک ادا میں کچھ ہے.کچھ ایسا
جو اسے اگر معلوم ہوگیا تو اس کے پاس ایک قیمتی ہتھیار آجاۓ گا جو مستقبل میں اس کے کام آسکتا ہے.
اس شام وہ تینوں ساحل کنارے چٹائ پہ بیٹھی تھیں.عائشے کو آج دو سیپ ملے تھے سووہ انہیں اب کھول رہی تھی.حیا اب بڑے سیپ نھیں چنتی تھی.بلکہ بادام کے سائز کی سیپیوں کے خالی خول ریت سے اٹھا لیتی اور اب ان کے ہی ڈھیر کو لیے وہ ایک مالامیں پرو رہی تھی.ساتھ ہی بہارے اپنے پزل باکس کے سلائیڈز کو اوپر نیچے کر رہی تھی.
"حیا میں اسے کبھی نھیں کھول پاؤنگی" حیا نے نھنےخول کوسوئ میں پروتے سر اٹھا کر اس کا اداس چہرہ دیکھا.پھر گردن آگےکر اس پہ لکھی نظم کو پڑھا "یہ بہت آسان ہے بہارے.ٹھہرو... میں تمھہں ایک ہنٹ دیتی ہوں." اس نے وہ نظم پڑھی.پھر سمجھ کر بولی. "یہ ایک سفید چھوٹی سی آنکھ ہے جو چاندی کے صندوق میں بند ہوتی ہے اوروہ صندوق نمکین گہرائ میں رکھا ہوتا ہے.بہارے!وہ کونسی گہرائ ہے؟ بہارےجوپزل باکس کودیکھ رہی تھی.چونکی.....
*******
حيا اور عايشه بے اختيار اپنا كام چهوڑ كر آگے ہو كر اسے ديكهنے لگيں - جیسے ہی بہارے آخری حرف ایل سامنے لائی کلک کی آواز کے ساتھ باکس کے سائیڈ سے دراز باہر کو کھلی حیا کی تو قع کے برعکس وه باکس اوپری ڈھکن کے بجاےسائیڈ کی دراز سے کھلتا تھا دراز ميں اور سياه مخمليں كپڑا بچها تها اور اس پہ ايک نازک سا نیکلیس ركها تها ، دراصل نیکلیس پلٹينيم كى زنجير تهى، جس پر ہر دو دو كڑياں چهوڑ کر ننھے ننھے ہیر ے لٹک رہے تھے ، زنجير كے بلكل وسط میں ہیر ے کی بجائے تين کڑياں لٹک رہی تھیں، جن کے آخری سرے پر ایک سفيد موتى پرويا ہوا تھا
وه تينوں مبہوت سی اس بیش قیمت نيكليس كو دیکھ رہی تھیں
بہارے! یہ تو وہی موتی ہے نہ جو تمہاری سیپ سے نکلا تھا ، جو تم نے عبدالرحمان کو دے دیا تھا، عائشہ ششدر سی اس موتی کو دیکھتے ہوئی بولی تھی.
ہاں یہ تو وہی ہے ، عبدالرحمان نے یہ مجھے گفٹ کر دیا ، اور وه بھی اتنے خوبصورت انداز میں ، حیا بس اتنا ہی کہہ سکی، اسے اس گفٹ اور اس گفٹ کو دینے کے انداز نے بہت متاثر کیا تھا
بہارے نے اپنی ننھی انگلیوں سے نيكليس کو اٹھایا اور گردن سے لگايا اور منہ اٹھا کر ان دونوں کو دیکھا ، یہ کیسا لگ رہا ہے ، اس کا چہرا دھمک رہا تھا.
بہت پیارا، عبدالرحمان نے مجھے کتنا پیارا گفٹ دیا ہے،اللّه، اللّه مجھے یقین ہی نہیں آرہا، وه اپنے پرس سے آئنہ نکال کر ہر زاويے سے نيكليس کو اپنی گردن سے لگا کر دیکھنے لگی، تم عبدالرحمان کو ضرور تھنک یو کرنا
اللّه، اللّه، بہار کی خوشی بیان سے باہر تھی حیا میں تم سے بھی پیاری لگ رہی ہوں نا، 
ہاں تم مجھ سے بھی زیادہ پیاری لگ رہی ہو، وه اس کو تسلی دیتے ہوے سيپ کے خول اٹھاننے لگ گئی، ابھی اسے پوری مالہ بنانی تھی.
حیا تم میری تصویر بناؤ میں اسے سر پر تاج کی طرح پہنتی ہوں، کیوں کے میں پرنسس ہوں ، وه اس نيكليس کو اپنے سر پر تاج کی طرح پھنے ہوے ساحل پہ جا کھڑی ہوئی، اس نے وه گفٹ دو ڈھائی ماہ بعد کھولا تھا تو آج اسکا دن تھا،
دھيان سے بہارے' ہوا بہت تیز ہے سمندر کی طرف پشت کر کے کھڑی بہارے نے عائشہ کی بات نہ سنی تھی ، حیا نے موبائل نکال کر کمیرہ آن کیا پھر موبائل کو بہارے پر فوكس کیا.
پرنسس اب تم ذرا مسكراو
بہارے بڑ ے معصوم انداز میں مسکرا دی، اسے بے اختیار بيوک ادا كے بازار ميں سڑکوں كے وسطی میں کھڑی بہارے یاد آگئی، جس کے گرد سیاحوں کا جمگهٹا لگا ہوا تھا، ریڈ کارپٹ شو پھر سے شروع ہوگیا تھا،
اسی لمحے ہوا کا تیز جھونکا آیا اور ساتھ ہی پانی بھی،اس سے پہلے کے ان میں سے کسی کی کچھ بھی سمجھ میں آتا بہارے کے سر سے نيكليس اڑتا ہوا پانی میں جا گرا وه بوکھلا کر پلٹی اور پھر اس کی چیخيں ہر سو بلند ہوئیں.
حیا تیزی سے اٹھی گود میں رکھی لڑی گر گئی سيپوں کے خول بکھر گے وه بھاگ کر پانی میں ائی بہارے چیخيتی ہوئی پانی میں ہاتھ مار کے اپنا نيكليس تلاش کرتی رہی جو لہر اس کا نيكليس چھین کر لے گئی تھی وه واپس جا رہی تھی, حیا ننگے پیر بھاگتی ہوئی لہر کے پیچھے گئی مگر پانی جیت گیا لہر پلٹ گئی،میرا نيكلس .....حیا.....میرا نيكلس....عائشہ پیچھے سے اسے بازؤں میں لئے پکڑ نے کی کوشش کر رہی تھی،مگر وه کسی بے آب مچھلی کی طرح تڑپتے ہوئے خود کو چھڑا رہی تھی ، حیا....اگے مت جاؤ پانی گہرا ہے وه گم جائے گا، عائشہ اسے آوازیں دے رہی تھی،مگر وه سب کچھ بھو لے ہوئے بیوک ادا کی شہزادی کا تاج ڈھونڈ رہی تھی، ساحل کی گیلی ریت پانی سمندر وه پانی میں ہاتھ مارتی پوری بھیگ چکی تھی، مگر نيكلس کہیں نہیں تھا ، اس نے تھک کر اپنے عقب میں دیکھا جہاں عائشہ بمشکل آنسو روکے ٹرپتی بلکتے بہار کو پکڑے کھڑی تھی، عائشہ میرا نيكلس ...عائشہ! مجهے نيكلس واپس لا كر دو وه پهوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی، نيكلس وہاں کہیں بھی نہیں تھا، اسے نمکین گہرا ى اندر لے گئی تھی ، بہار کی زندگی کا وه پہلا اور واحد موتی اس سے کھو گیا تھا، بہار میں نے بہت ڈھونڈا مگر دیکھو اللّه کی مرضی ، وه واپس ائی اور بہار کے ہاتھ تھام کر کہا، بہار کچھ نہیں سن رہی تھی، وه سر ادھر ادھر مار رہی تھی، نيكلس واپس لا دو ، کوئی مجھے نيكلس واپس لا کے دو ، وه انگریزی اور ترکی میں ایک ہی بات کو بار بار بول رہی تھی، حیا کے گلے میں آنسوں کا پہندا پڑ گیا، اس لگا وه خود بھی ابھی رو دے گی ، وه بمشكل لبنان بينچ كر ضبط كيے ہوئے تھی، پا کر کھو دینے کا دکھ وه جانتی تھی، جب اس کا بنجر بريڈ ہاؤس ٹوٹا تھا، جب استقلال سٹریٹ کی اس کی شاپ میں ڈی جے سر پکڑ کر گئی تھی، پا کر کھو دینے سے بڑا کرب کوئی نہیں ہوتا ، اس شام دونوں بمشكل بہار کو سنبها لتى ، گھر واپس لائی تھیں، اور اب لونگ روم میں بڑے صوفے پر بیٹھی تھیں ، یوں کے بہار درمیاں میں تھی اور اسے حیا نے اپنے ساتھ لگایا ہوا تھا، شام ڈهل چکی تھی، اور کهڑکيوں کے پار اندھیرا اتر چکا تھا ، اتش دان میں مصنو عى لکڑیاں بھڑ ک رہی تھیں، بہار اس طرح روئی جا رہی تھی ، اس کے پاس آنسوں کا مر مرا تھا جو ختم نہیں ہو سکتا تھا ، بہار! میں تمھیں نیا نيكلس لا دوں گی ، وه اسے اپنے ساتھ لگاے بہلا نے لگی ، مگر وه ویسا نہیں ہو گا ، وه نفى ميں سر ہلتے ہوئے روتی جا رہی تھی، بلکل ایسا ہی لا کر دوں گی پرومیس، مگر وه عبدالرحمان کا گفٹ نہیں ہو گا ، عبدالرحمان تمھیں ویسا ہی گفٹ کرے گا میں اس کو کہوں گی، مگر اس میں میرا موتی نہیں ہوگا ، عائشہ...ممی.....وه روتی ہوئی اپنی ماں کو یاد کرنے لگی ، عائشہ سر گهٹنوں میں رکھے مغموم سی بیٹھی تھی، تمہارا جب دوبارہ موتی نکلے گا تو میں اسے نيكلس میں پرو دوں گی، مگر بہار اس کی کوئی بات نہیں مان رہی تھی، اس کے لئے نيكلس کا کوئی متبادل نہیں ہو سکتا تھا، ہر شہ کا متبادل نہیں ہوا کرتا، بہار! ، اب بس کرو، جب وه سر پٹخ پٹخ کر مزید بلند آواز میں رونے لگی تو عائشہ نے برهمى سے ڈانٹا ، وه کب سے تمھیں منا رہی ہے اور تم ہو کے بدتميزى ککیے جا رہی ہو؟ جواباً بہار نے غصے اور پانى سى بھری آنکھوں سے دیکھا
ہوٹل گرینڈ کا ملازم واؤچر لے کر آیا. مگر تب جب وہ تینوں استمبول جانے کی تیاری کر رہی تھیں. عائشے کو بینک میں کوئی کام تھا. سو وہ اور بہارے اس کے ہمراہ چل رہی تھیں. حیا نے واؤچر لے کر کمرے میں رکھے. مگر فیری کے لئے روانہ ہوتے وقت وہ انہیں اٹھانا بھول گئی. سو استنبول آ کر وہ جواہر نہیں گئی. نیکلس پھر کبھی خرید لے گی. کیونکہ اس پر پرونا تو بہارے کا موتی ہی تھاجو جانے کب بکلے. مگر سبانجی کے ڈورم میں جا کر وہ اپنا پزل بکس ضرور اٹھا لائی تھی. وہ صبح کی کلاسز کا ٹائم تھااور ڈورم خالی پڑا تھا. سو وہ کسی سے خود نہ ملی اور کسی سے سامنا نہ ہوا.
پزل بکس اور چند ضروری چیزیں لے کر جب وہ باہر آئی تو عائشے کے کاموں میں اتنا وقت ہی نہیں ملا کہ استقلال سٹریٹ پر جا سکتی. وہ دوپہر تک ہی واپس آ گئے. اپنا پزل باکس اس نے احتیاط سے الماری میں کپڑوں کے نیچے رکھا. اب اس نے جلد از جلد اسے کھولنا تھا.
رات کو وہ عائشے اور بہارے کے سونے ک بعد پزل باکس نکال کر دبے قدموں میں چلتی باہر آئی. اس کا رخ کچن کی طرف تھا.
کاؤنٹر سے ٹیک لگا کر کھڑے اس نے کوڈ بار کی سلائیڈذ اوپر نیچے کرنا شروع کی. پہلے اس نے Ayeshy لکھا مگر باکس جامد رہا. اسے یہی توقع تھی. یقینا باکس لیتے ہی خریدار نے پاسورڈ بدل دیا ہو گا. اب اسے وہ کرنا تھا جس کی طرف ہر افیلئیس کا قول اشارہ کر رہا تھا. آگ' اصلی والی آگ...
اس نے ماچس اٹھائی'اور تیلی سلگا کر باکس کے قریب لائی مگر آنچ لکڑی کو سیاہ کرنے لگیاور شعلہ تیلی کو کھا کر انگلی تک پہنچنے لگا تو اس نے جھنجھلا کر تیلی پھینکی. چند لمحے وہ کچھ سوچتی رہی. پھر باکس لیے باہر آئی.
لونگ روم کا آتش دان سرد پڑا تھا. اس نے ناب پھیر کر آگ لگائی تو مصنوعی لکڑیوں والا ہیٹر جل گیا. وہ باکس کو دونوں ہاتھوں میں پکڑے اس جگہ کے قریب لائی جہاں صرف دہکتے انگارے تھے.شعلے نہ تھے.
ہیٹر کی تپش اس کی انگلیوں کو چھونے لگی. وہ ضبط کر کے باکس پکڑے بیٹھی رہی. بار بار نگاہوں کے سامنے وہ تکلیف دہ رات ابھرتی. اس نے جھٹک کر توجہ باکس کی طرف مرکوز کی.
اس نے اسے زرا ترچھا پکڑ رکھا تھا. یوں کہ اس کی دو اطراف آنگاروں کی طرف تھیں. جو طرف ذیادہ سامنے تھی اس پر حروف ابھرنا شروع ہو گئے تھے.
حروف... بلکہ الفاظ... فقرے...
اس نے حیرت سے باکس کی اس سائیڈ کو دیکھا. جس کا رنگ تپش کے ساتھ سیاہ ہو رہا تھا. وہ شاید لا شعوری طور پر چھ حرفی لفظ کی توقع کر رہی تھی'مگر یہاں تو... حیا نے باکس آگ سے ہٹا کر دیکھا.اس پر لکھے وہ فقرے واضح تھے.
Marked on Homers doubts
A stick with twin sprouts
ہومر کے شبہات پہ نشان ذدہ ایک چھڑی جسکی دو نوکیں ہوتی ہیں.
وہ اب ان الفاظ پہ ٹھیک سے الجھ بھی نہ سکی کہ اس کی نگاہ اس سیاہ ہوتی طرف سے متصل جگہ پر پڑی.جو زرا ی تپش اس جگہ کو ملی تھی اس نے وہاں چند ادھورے حروف ظاہر کئے تھے. حیاہ نے وہ طرف آگ کے سامنے کے. ادھورے الفاظ مکمل ہو کر اک شعر میں ڈھل گئے.
Around the emerald crusified
And the freedom petrified
مصلوب زدہ زمرد اور اور ٹھہری ہوئی آزادی کے گرد.
کسی احساس کے تحت اس نے تیسری متصل دیوار
کو آنچ دکھائی. باکس کی تیسری طرف بھی کسی جادوؤی اثر کی طرح سیاہ پڑنے لگی. اور اوپر جیسے کوئی ان دیکھا قلم سنہری روشنائی سے لکھنے لگا.
Snapped there a bloody pine
Split there some tears divine
(ادھر خون میں ذوبا صنوبر چٹختا ہے اور آفاقی آنسو بکھرتے ہیں)
اب کوڈ بار سے متصل دو دیواریں اور تیسری جو کوڈ بار ک بالکل متوازی تھی' حروف سے بھری جا چکی تھیں. باقی اوپر ڈھکن کی سطح جہاں پر اقلیطس کا قول لکھا تھا, دہ گئی تھی یا پھر نچلی سطح. اس نے دونوں کو آنچ دکھائی مگر کچھ نا ہوا.
اب صرف کوڈ بار والی طرف بچی تھی. حیا نے احتیاط سے اس کو انگاروں کے قریب لیا. جیسے جیسے تپش لکڑی کو چھوتی گئی کوڈ بار کے چھ چوکھٹوں کے اوپر اشعار ابھرتا گیا.
A love lost in symbolic smell
Under which the lines well
علامتی خوشبو میں اک پیار کھو گیا. جس کے نیچے قبریں رہتی ہیں.
پزل باکس کا آخری شعر.
آٹھ مصروں کی نظم پوری ہو گئی. اب یہ نظم کس طرف اشارہ کر رہی تھی. یہ اس کو ابھی سوچنا تھا.
پہلی بار اسے بری طرح سے معتصم کی کمی محسوس ہوئی تھی.
*******
بہارے پھول چننے کے لئے گئی تھی اور اب نیچے درختوں میں ادھر ادھر بھاگ رہی تھی. نیکلس کا غم اب اسے بھول بھال چکا تھا. وہ عائشے کے ساتھ اک درخت تلے چٹائی پر بیٹھی اس کی ہدایات کے مطابق ہاتھ میں پکڑے لکڑی کے ٹکڑے کو تراش رہی تھی. سہ پہر کی برم سی دھوپ صنوبر کے درختوں سے چھن چھن کر ان پر گر رہی تھی.
ایک پزل باکس بنانے کے لئے 507 لکڑی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے درکار ہوتے تھے. خاصا مخنت طلب کام تھا. عائشے نے اناطولیہ کے ایک گاؤں میں کسی معمر چینی کاریگر سے یہ فن سیکھا تھا.
"تمہیں واؤچرز منگوانے کی ضرورت نہیں تھی. عبدالرحمن کو تو قیمتی تحفے دینے کی عادت ہے. یوں بھی بہارے کی عادتیں بکھرتی جائینگی."
اس کی بات پر حیا نے سر اٹھایا.اس نے ڈھیلی چوٹی باندھ کر آگے کو ڈال رکھی تھی. اور چند لٹیں چہرے کے اطراف میں جھول رہی تھیں.
میں تو اپنی طرف سے دینا چاہتی تھی. مگر اس نے میری پوری بات ہی نہیں سنی. اب لے ہی آیا ہے تو واپس کیا کرنا.
وہ سر جھٹکا کر رندا لکڑی کی ٹکڑے پر آگے پیچھے رگڑنے لگی. لکڑی کے باریک رول شدہ چپس سے نیچے گر رہے تھے.
"اور ہاں' بہارے نے تمہارے لیے کچھ خریدا تھا. اسے لگا اس نے تم سے اس دن بد تمیزی کر دی تھی"
اچھا? کیا خریدا تہے" وہ مدھم مسکراہٹ کے ساتھ پوچھنے لگی.
"یہ ایک ریشمی اسکارف ہے"
مگر میں تو سر پہ اسکارف نہیں لیتی" بے اختیار اس کے لبوں سے نکلا. پھر پچھتائی' کسی کے تحفے کے لئے ایسے تو نہیں کہنا چاہئے.
" کوئی بات نہیں تم گردن میں لے لینا."
ہاں, یہ ٹھیک ہے. وہ مسکرا کر دوبارہ رندا لکڑی پر رگڑنے لگی.
"تمہیں پتا ہے عائشے! جب میں چھوٹی تھی نا دس گیارہ سال کی' تب مجھے اسکارف پہننے کا بہت شوق تھا. میرے ابا ر تایا فرقان مجھے اکثر سر ڈھانپنے کہا کرتے تھے. انہیں ایسے بہت اچھا لگتا تھا. میری اماں بھی چاہتی تھیں کہ میں سر ڈھانپا کروں' تاکہ میرے چہرے پہ ر آجائے اور میں اللہ تعالی کے بہت قریب
ہو جاؤں.انہوں نے مجھے قرآن پاک حفظ کرنے کے لۓ ایک اسلامک سکول میں بھی داخل کروایا مگر میں تیسرے روز ہی بھاگ آئی. تب میرا اسکارف پہننے کا بہت دل چاہتا تھا.
تو کیوں نہیں لیا.?
جوابا. حیا نے دھیرے سے شانے اچکاۓ.
مجھے آہستہ آہستہ سمجھ آ گئ کہ میرا فیس کٹ ایسا ہے کہ میں اسکارف میں اچھی نہیں لگوں گی. وہ کہہ کر سر جھکاۓ کام کرنے لگی. عائشے اسی طرح ہاتھ روکے اسے دیکھ رہی تھی.
کس کو?
"ہاں" اس نے نا سمجھی سے سر اٹھا کر عائشے کو دیکھا.
"تم کس کو اسکارف میں اچھی نہیں لگو گی?
" لوگوں کو"
اور...?
"اور کیمرے کو... مثلا تصویروں میں..."
"اور?"
"اور خود کو"
اور اللہ تعالی کو? عائشے دھیرے سے مسکرائی.
اس کی سبز آنکھیں دھوپ میں سنہری لگ رہی تھی. ہو سکتا ہے تم اسکارف میں اللہ تعالی کو بہت اچھی لگتی ہو? وہ ایک دم سن ہوئ عائشے کو دیکھتی رہی.
"تم نے ایک دفع مجھ سے پوچھا تھا حیا! کہ میں ہر وقت اسکارف کیوں پہنتی ہوں. عائشے سر جھکاۓ لکڑی کے ٹکڑے کا کنارہ کاٹتے ہوۓ کہہ رہی تھی. میں تمہیں بتاؤں میرا بھی دل کرتا ہے میں وہ خوبصورت ملبوسات پہنوں جو بیوک ادا میں استنبول میں اٹلی یا سپین میں لوگ پہنتے ہیں. بالکل جیسے ماڈلز پہنتی ہیں اور جب وہ اونچی ہیل کے ساتھ ریمپ پر واک کرتی ہیں تو ایک دنیا ان کو مسخور ہو کر دیکھ رہی ہوتی ہے.میرا بھی دل کرتا ہے کہ میں بھی ایسے اسمارٹ اور ٹرینڈی ڈیزائنر لباس پہن کر جب سڑک پر چلوں تو لوگ مسخورو متاثر ہو کر مجھے دیکھیں.... لیکن.... وہ سانس لینے کو رکی. حیا بنا پلک جھپکے ' سانس روکے اسے دیکھ رہی تھی.
لیکن... مجھے ایک خیال آتا ہے. یہ خیال کے ایک دن میں مر جاؤں گی' جیسے تمہاری وست مرگئ تھی اور میں اس مٹی میں چلی جاؤں گی. جس کے اوپر میں چلتی ہوں. پھر ایک دن سورج مغرب سے نکلے گا اور ذمین کا جانور زمین سے نکل کر لوگوں سے باتیں کرے گا لال آندھی ہر سو چلے گی. اس دن مجھے بھی سب کے ساتھ اٹھایا جاۓ گا. تم نے کبھی ولمپکس کے وہ اسٹیڈیم دیکھے ہیں جو جن میں بڑی بڑی اسکرینیں نصب ہوتی ہیں? میں خود کو ایک ایسے اسٹیڈیم میں دیکھتی ہوں. میدان کے عین وسط میں کھڑے. اسکرین پہ میرا چہرا ہوتا ہے. اور میدان لوگوں سے بھرا ہوتا ہے. سب مجھے دیکھ رہے ہوتے ہیں.اور میں اکیلی وہاں کھڑی ہوتی ہوں. میں سوچتی ہوں حیا کہ اگر اس وقت میرے رب نے مجھ سے پوچھ لیاکہ اناطولیہ کی عائشے گل' اب بتاؤ تم نے کیا کیا? یہ بال, یہ چہرا, یہ جسم یہ سب تو میں نے تمہیں دیا تھا. یہ نہ تم نے مجھ سے مانگ کر حاصل کیا تھا اور نہ ہی اسکی قیمت ادا کی تھی. یہ تو میری امانت تھی. پھر تم نے اسے میری مرضی کے مطابق استعمال کیوں نہیں کیا ¿ تم نے اس سے وہ کام کیوں کۓ جسے میں نا پسند کرتا ہوں¿ تم نے ان عورتوں کا رستہ کیوں چن لیا تھا جن سے میں ناراض تھا.?
میں نے ان سوالوں کے بہت سے جواب سوچے ہیں مگر مجھے کوئی جواب مطمئن نہیں کرتا. روز صبح اسکارف لینے سے پہلے میری آنکھوں کے سامنے ان تمام حسین عورتوں کے دلکش راپے گردش کرتے ہیں جو ٹی وی پہ میں نے کبھی دیکھی ہوتی ہیں اور میرا دل کرتا ہے کہ میں ان کا رستہ چن لوں مگر پھر مجھے وہ آخری عدالت یاد آ جاتی ہے. تب میں سوچتی ہوں کہ اس دن میں اللہ کو کیا جواب دوں گی¿ میں ترازو کے ایک پلڑے میں پنا وہ سراپا ڈالتی ہوں جس میں میں خود کو....
****

ایک تبصرہ شائع کریں

1 تبصرے

  1. This novel is very good. In the beginning there was a lot of suspense as to who sends it in secret. However, it is very good

    جواب دیںحذف کریں


ہم سے رابطہ کرنے کا شکریہ
ہم آپ سے بہت جلدی رابطہ کریں گے۔