کچھ تو کرنے دو

 ٹوٹنے دو ، بکھرنے دو 
دل کو کچھ تو کرنے دو

میری سانس تو قائم ہے 
وہ مرتا ہے تو مرنے دو

دلہن بھی بن جائے گی
زیست کا روپ نکھرنے دو

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے