ناول: روح کا رشتہ (قسط 2)

روح_کا_رشتہ

تحریر _انا_الیاس

دوسرا حصہ

سائرہ بيگم اوررياض صاحب کے تين بيٹے اور ايک بيٹی تھی۔ سب شادی شدہ تھے۔ بڑا بيٹا فريد اور اسکی بيوی آسيہ کے دو بچے شايان اور رومان تھے۔ دوسرے نمبر پہ طلحہ اور اسکی بيوی بينا کے بھی دو بچے ايک بيٹافوزان اور بيٹی ايشال تھے۔ بيٹی رافعہ اور اس کا شوہر دانيال آسٹريليا ميں تھے اور ان کا ايک ہی بيٹا ابوبکر تھا۔ اور حديد سب سے چھوٹا تھا۔
دو گھر ايک جيسے ساتھ ساتھ بنا کر بھيچ کی ديوار گرا دی تھی ۔ سا‏ئرہ بيگم کے پورشن ميں نيچے وہ اور حديد کے ڈيڈی تھے اور اوپر کا پورشن اب حديد اور حورين کے زير استعمال تھا۔ جبکہ دوسرے گھر ميں نيچے کا بورشن فريد کی فيملی کے پاس، اور اوپر کا پورشن طلحہ کی فيملی کے پاس تھا۔
----------------------------------
کچن سے باہر آ کر صوفے پر بيٹھتے ہوۓ حورين کو رات ہونے والی تلخی پوری شدت سے ياد آئ۔ يکدم اس کو خيال آيا کہ اگر جو حديد نے اپنی تمام تر نا پسنديدگی کا مظاہرہ سے کے کر ديا اور ذرا سی بھی بھينک اس کے ماں باپ تک پہنچ گئ تو کيا ہو گا۔ کيو نکہ حديد کی ممی نے گھر کے کسی فرد کو ان دونوں کے درميان ہونے والی سرد جنگ کی ہوا تک نہيں لگنے دی تھی۔
ابھی وہ يہی سوچ رہی تھی کے کيسے حديد کو اپنی بے رخی کنٹرول کرنے کا کہے کہ بينا بھابھی لاؤنج ميں آئيں۔ "اور بھئ سياں جی آگۓ ہيں" انہوں نے شرارت سے کہا۔ حورين بس مسکرا کر رہ گئ۔ ايکدم سے اسے کچھ خيال آيا۔ جلدی سے ايک پيپر پے کچھ لکھا۔ پھر شايان کو پاس بلايا۔ " کچن ميں حديد چاچو ہيں جاؤ ان کو دے کر آؤ، پھر ميں آپکو چاکليٹ دوں گی" شايان کچن کی طرف بھاگا۔"چاچو يہ لے ليں۔" "يہ کيا ہے" "چاچی نے ديا ھے"
حديد نے حيران ہوتے ہوۓ پکڑا جس پر لکھا تھا " مجھے ممی نے بتايا تھا کہ انہوں نے اپنے بيٹوں کو ہميشہ عورت کی عزت کرنا سکھايا ہے۔ باقی سب کو ديکھ کہ تو اس بات پر يفين آتا ہے مگر آپکے بارے ميں کچھ کہا نہيں جاسکتا۔ ہمارے درميان جو بھی ايشوز ہيں۔ اميد کرتی ہوں کہ سب کے درميان آپ اپنی تربيت کو سواليہ نشان نہيں بننے ديں گے۔
حديد نے وہ پيپر تہہ کرکے پاکٹ ميں ڈالا اور کچھ سوچتے ہو ۓ گھونٹ گھونٹ چاۓ اندر اتارنے لگا۔
-------------------------------------
ناشتہ ختم کرتے ہی حديد اپنے جگری يار حسن سے ملنے چلا گيا۔ "اور سنا حالات ويسے ہی ہيں يا کچھ ترقی ہوئ" حسن چونکہ حديد کی شادی نہ کرنے والی سوچ سے واقف تھااور اس بات سے بھی واقف تھا کہ حديدنے حورين کو قبول نہيں کيا سو اس کو چھيڑتے ہوۓ پوچھا۔ حديد نے رات والی تلخی من و عن سنائ۔ حسن کچھ حيرت اور افسوس سے اسے ديکھنے لگا۔ "خبيث انسان تجھے شرم نہيں آئ، وہ تيرے نام پر اس گھر ميں موجود ہيں۔ اور تو۔۔۔۔ مجھے تجھ سے اتنی سيلفشنيس کی اميد نہيں تھی۔
"تم بھی اسکی وکالت شروع کر دو۔ ميری سمجھ سے باہر ہے کہ سب مجھے سمجھاتے ہيں۔ آخر ميری کوئ بات کيوں نہيں سمجھتا۔مجھے کسی ايسے رشتے کی ضرورت ہی نہيں۔" حديد نے جھنجھلاتے ہوۓ کہا۔"حديد! يار اللہ نے اس دنيا ميں کچھ بھی بے مقصد نہيں بنايا، چاہے وہ رشتے ہی کيوں نہ ہوں۔ اور پھر ہہاں تک حکم ہے کہ جيسے ہی لڑکا یا لڑکی بالغ ہوں تو انکی شادی کر دو۔ تو قدرت اور نصيب کو غلط کہ رہا ہے۔" "بکواس نہ کر نعوذوباللہ ميں نے ايسا نہيں کہا۔" حديد نے اپنا دفاع کرنے کی کوشش کی۔"تو تو يہ مان کيوں نہيں ليتا کہ وہ لڑکی تيرے نصيب ميں ہی تھی۔
"جب ميرا دل اسکی جانب کھچ ہی نہيں رہا تو ميں کيا کروں۔" حديد نے اپنی طرف سے دليل دی۔ "يار تجھے اسکے ساتھ ابھی کتنا ٹائم ہوا ہے۔ مشکل سے چوبيس گھنٹے، کيا اتنا وقت کسی کی زندگی کا فيصلہ کرنے کے لئے بہت ہے ؟ تھوڑا سا ٹائم دے اس رشتے کو۔ ويسے سچ بتا تجھے بھابھی کيسی لگيں۔
وہ جو سنجيدگی سے اسکی بات سن رہا تھا۔ اسکے آخری سوال پہ حورين کا سراپا نظروں کے سامنے آيا۔ شرارت سے حسن کو ديکھا اور بولا "ويمپائر" "بکواس نہ کر، سيدھی طرح بتا۔" حسن نے بمشکل اس کی بات پر اپنا قہقہہ روکا۔"ايکسکيوزمی، ہو آر يو۔ ويسے بھی ممی کہتی ہيں کے مياں بيوی ايک دوسرے کا لباس ہوتے ہيں۔ سو اپنی بيوی کی خوبصورتی ميں آپ سے کيوں ڈسکس کروں۔" "اسی فٹے منہ سے جس سے تو بھابھی کی برائياں کر رہا ہے" حسن نے اسے شرمندہ کرنا چاہا
:اب بکواس کرتا جاۓ گا يا کچھ بکے گا بھی" حسن نے زچ ہوتے ہوۓ پوچھا۔"يار ہے تو توپ چيز۔ مگر ميں پھر بھی فی الحال اپنے دل کو اسکی جانب آمادہ نہيں کر پا رہا۔" "جانی مجھے يقين ہے کہ جب اللہ نے تم دونوں کے نصيب ملاۓ ہيں تو وہ دل بھی ملاۓ گا۔ جلد بازی ميں کوئ غلط فيصلہ مت کرنا" حديد اسکی بات پر خاموش ہی رہا۔
-------------------------
يہ اگلے دن کی بات تھی۔ رات ميں حديد بيڈپر بيٹھا اپنے ليپ ٹاپ پہ کچھ کام کرنے لگا کہ اس پہ پاس ورڈ لگا ديکھ کر اسکا دماغ کھول گيا۔ غصے سے سامنے، پيچ کلر کے لينن کے سوٹ ميں بيٹھی حورين کو ديکھا۔
جو کانوں ميں ہينڈ فری لگاۓ موبائل پر گانے سننے ميں مگن تھی۔ ساتھ ہی کسی ڈائجسٹ کا مطالعہ جاری تھا۔ حديد غصے ميں کھولتا اسکے سر پہ جا پہنچا۔حورين نے جيسے ہی محسوس کيا تو بے اختيار سر اٹھايا۔ حيرت سے حديد کی غصيلی شکل ديکھی۔ بے اختيار ہينڈ فری اتاری۔
شرر بار نگاہوں سے اسے ديکھتے ہو ۓ حديد نے پوچھا ‎ "ميرے ليپ ٹاپ پہ آپ نے پاس ورڈ کيوں لگايا ہے"
آپ نے مجھ سے کچھ کہا" معصوميت کے تمام ريکارڈ توڑتے ہوۓ حورين بولی ۔
"نہيں۔ ديواروں سے" حديد نے دانت پيستے ہوۓ کہا
"چچ-چچ۔۔۔ابھی کے ابھی ڈاکٹر کے پاس جائيں يہ تو بہت خطرناک علامت ہے۔"حورين نے تاسف سے کہتے ہوۓ واپس ہينڈ فری لگاناچاہی کہ حديد نے اسکے ہاتھ سے کھينچی اور بيڈ پہ پھينکی
حورين کا صدمے سے منہ کھلا رہ گيا۔ "ہاؤ ڈير يو" وہ غصے سے کہتی اسکے مقابل کھڑی ہوئ۔
"يس، ہاؤ ڈير يو ٹو ٹچ مائ ليپ ٹاپ۔ اور يہ ہينڈ فری وہاں پھينکنے کا مقصد يہ باور کروانا ہے کہ نيکسٹ ٹائم اگر آپ نے ميری کسی چيز کو ہاتھ لگايا تو يہی حشر ہوگا۔ کيپ اٹ ان يور مائنڈ۔ اب جلدی سے پاس ورڈ بتائيں"
حديد نے اسے وارن کيا۔ مگر وہ بھی حورين تھی اتنی آسانی سے کيسے پيچھے ہٹتی۔
"پاس ورڈ تو آپکو تب ہی ملے گا جب آپ وہ ہينڈ فری اٹھا کر مجھے ديں گے۔ نہيں تو ميں بھی ديکھتی ہوں کے آپ کيا کر سکتے ہيں
حورين نے سينے پر ہاتھ باندھتے ہوۓ اسے چيلنج کيا۔حديد نے لب بھينچ کہ اسکے انداز ديکھے۔ مسکراہٹ ہونٹوں ميں دبا کر مڑا۔حورين نے اپنی بہادری پہ خود کو غائبانہ تھپکی دی۔جيسے ہی حورين نے ہينڈ فری لينے کے لئے ہاتھ بڑھايا تو کلائ حديد کے فولادی ہاتھ ميں آگئ۔
جس کو اس نے موڑ کر اس کی پشت پر لگا دی اور اسکے چہرے کے پاس ہو کر بولا"نہايت چيپ طريقہ ڈھونڈا ہے آپ نے ميری توجہ حاصل کرنے کا۔
"کياکيا۔۔۔۔۔۔ چيپ ہوں گے آپ بلکہ چيپسٹر۔۔ھمم چيپو کہيں کے۔۔۔آآ۔۔چھوڑيں ميرا ہاتھ۔ بتاتی ہوں پاس ورڈ" وہ درد سے چلائ۔"آئندہ چيلنج نہيں کرنا" حديد نے اسے چھوڑتے ہوۓ کہا۔"ھمم دہشتگرد" حورين تيزی سے پاس ورڈ پيپر پر لکھتے ہوۓ بڑبڑائی
ابھی وہ حورين سے مغز ماری کرکے فارغ ہوا تھا کہ حسن کی موبائل پہ کال آ گئ۔
"آ گيا مسٹر وکيل"جب سے حسن نے حورين کی وکالت شروع کی تھی تب سے حديد نے اس کا نام مسٹر وکيل رکھ ديا تھا۔
"فرمائيں" "نہ سلام نے دعا شادی کرکے تو تيرا دماغ ساتويں آسمان پہ چلا گيا ہے۔"
"ويسے سوری يار کہيں رات کے اس وقت ميں نے تجھے ڈسٹرب تو نہيں کر ديا۔"حسن نے اسے شرم دلاتے بعد ميں شرارت سے چھيڑا۔ "جی ہاں بہت زيادہ ڈسٹرب کيا ہے۔" حديد نے غصے سے اسے جواب ديا۔ اور چلتا ہوا کمرے کے آگے بنی بالکونی ميں جا کھڑا ہوا۔"اوۓ ہوۓ لگتا ہے بھابھی سے سيٹنگ ہو گئ ہے، کيا بہت بزی تھا۔"
حسن شرارت کرنے سے باز نہيں آيا۔"ہاں جی بڑی زبردست سيٹنگ ہو گئ ہے۔ لوگوں کو دن ميں تارے نظر آتے ہيں اور مجھے رات ميں سورج نظر آگيا ہے۔" حديد نے جلے دل سے کہا۔ "ہا ہا ہا۔۔۔۔ کيا تو اتنا ہی جولی شادی سے پہلے تھا يا بھابھی کے زير اثر رہنے کی وجہ سے ہوگيا ہے۔" نہيں جانی! جولی تو ميں پہلے تھا اب تو دہشت گرد بن گيا ہوں۔" مسکراتے ہوۓ اسے حورين کا ديا ہوا لقب ياد آيا۔ "يہ بھابھی نے کہا تجھے" حسن نے اسکا تمسخر اڑايا۔"جس نے بھی کہا تو اب تو فون بند کر" اور ساتھ ہی حديد نے لائن کاٹ دی
-------------------------
حديد نے سائرہ بيگم کی گود ميں سر رکھتے ہوۓ تھکے ہو ۓ لیہجے ميں کہا ‎ "ممی چاۓ پلوا ديں پليز"
"صبح سے تم تھے کہاں" انہوں نے حورين کو آواز دے کر چاۓ لانے کا کہا۔ساتھ ساتھ اس کے بالوں ميں ہاتھ پھير رہيں تھيں۔
"بس حسن کا کچھ کام تھا اسی ميں دير ہوگئ۔" اس نے انکے ہاتھوں کی نرمی محسوس کرتے ہوۓ کہا۔ "وليمے کے لئے تو تمہارے مزاج نہيں مل رہے سو آج حورين کے پيرينٹس نے ہميں ڈنر پے انوائٹ کيا ہے۔" حديد نے برا سا منہ بنايا۔"چلو اب کيا ميرا جانا ضروری ہے وہاں" حديد نے اکتاہٹ سے کہا
"حديد بہت بری بات ہے۔ بيٹا خود احساس کرو۔ وہ لڑکی صبح سے شام ہمارے ساتھ خوش اخلاقی سے رہتی ہے۔ ہماری خدمت کرتی ہے۔ تمہارا دل ڈرا نہيں کانپتا يہ سوچ کر کے کہ قيامت کے دن کيا کہوگے کہ جس رشتے کو اللہ اور رسول کے نام پہ قائم کيا اس کے ساتھ يہ سب کيا۔"انہوں نے تاسف سے کہا۔ "ميں نے نہيں آپ لوگوں نے زبروستی اس کو ميرے ساتھ باندھا ہے۔ زندگی عزاب ہوگئ ہے ميری۔" غصے سے وہ انکی گود سے اٹھتے ہوۓ بولا۔ تيزی سے جانے لگا اتنے ميں حورين اندر داخل ‎ۓ کے کپ کے ساتھ۔حديد کے آخری جملے اسکے کانوں ميں پڑے تھے۔ کہيں اندر بہت شديد درد اٹھا تھا۔ ہوئ چا
دونوں کا تصادم ہونے والا تھا کہ حورين نے بريک لگايا اسی چکر ميں چاۓ کا کپ اس کے ہاتھ سے گر گيا۔ کچھ چاۓ کے چھينٹے حديد کے اوپر گرے اور کچھ حورين کے ہاتھ پر۔
"واٹ دا ہيل۔ آر يو بلائنڈ" حديد نے اپنی ساری کھولن حورين پر نکالی۔ وہ جو پہلے ہی مجرموں کی طرح کھڑی تھی۔ اس نے سر اٹھايا آنسو بھری کالی بھنور سی آنکھوں نے حديد کو ديکھا۔
"سوری" حورين فقط اتنا ہی کہہ پائ اور واپس مڑ گئ۔ "حديد لگتا ہے ميری تربيت ميں واقعی کوئ کمی رہ گئ جو آج تم ايک لڑکی کی عزت کرنے سے قاصر ہو۔" ممی متاسف لہجے ميں کہتيں حورين کے پيچھے لپکيں۔ اور حديد وہ تو جيسے اب وہاں سے ہلنے سے قاصر تھا۔ اس نے اب تک حورين کا غصہ، جھنجھلاہٹ، بيزاری ہر روپ ديکھا تھا، مگر آنسو۔۔۔اسکے آنسو نہيں ديکھے تھے۔ اور شايد يہی ايک روپ حديد کی ہستی کو ہلا کر رکھ گيا۔ وہ خود کو اسکی کالی بھنور آنسوؤں سے بھری آنکھوں ميں ڈوبنے سے بچا نہ پايا۔ اسے لگا اب وہ ان لمحوں کےسحر سے کبھی نکل نہيں سکے گا۔
---------------------------
"حديد ريڈی ہو بيٹا" سائرہ بيگم نے لاؤنج ميں داخل ہوتے پوچھا۔ جو سياہ شلوار قميض ميں ملبوس نہايت وجيہ لگ رہا تھا۔
شام سے اب تک اپنے دل سے جنگ لڑ رہا تھا۔ جو حورين کو اعلی مسند پے بٹھانے کے لئے حديد کے سب عذر جھٹلانے پہ تلا تھا۔ اسی کيفيت ميں پوچھ بيٹھا۔ "آپکی بہو تيار نہيں ہوئ" ممی نے خوشگوار حيرت سے اسکو ديکھا جس نے پہلی دفعہ حورين کے بارے ميں آرام سے بات کی تھی۔ "کيوں کيا وہ کمرے ميں تيار نہيں ہو رہی تھی۔"نہيں ميں تو۔۔۔"
"چليں ممی" ابھی الفاظ حديد کے منہ ميں تھے کے حورين بليک اور گرے کام والے کرتے اور پاجامے ميں روشنياں بکھرتی لاؤنج ميں آئ بعير حديد پر توجہ دئے ممی کے ساتھ پورٹيکو کی طرف بڑھی۔ "اوہو بليک بيوٹيز" انکے باہر آتے ہی بينا بھابھی شرارت سے بوليں۔"آپ کيوں جيلس ہورہی ہيں۔" حديد نے خوشگوار لہجے ميں جوابی کاروائ کی۔ حورين تو حديد کے اپنے ذکر پے اتنے خوشکوار لہجے کو سن کر دنگ رہ گئ۔ "بہائ ہم کيوں جيلس ہوں گے بلکہ ميں تو انتظار ميں ہوں کہ کب تمہارے چياؤں پياؤں آکر مجھے تائ کہيں گے، ميں بڑا بڑا فيل کرنا چاہتی ہوں۔" حورين کا دل کيا انکے منہ پر ٹيپ لگا دے۔ حديد نے مسکراتے ہوۓ اسے اپنی ہيزل گرين آئز کے فوکس ميں رکھا۔ "آپکو اتنا شوق ہے تو ميں آج سے آپکو بھابھی کی جگہ تائ کہنا شروع کر ديتا ہوں۔"حديد کی بات پہ سب نے مشترکہ قہقہہ لگايا۔ "چليں بھئ دير ہو رہی ہے" فريد بھائ نے سب کو وقت کا احساس دلايا۔ حورين نے زبردستی ممی کو اپنی گاڑی ميں بيٹھ کر حديد نے بيک ويو مرر پيچھے بيٹھی حورين پر سيٹ کيا۔"ہاں تو مسٹر آفيسر۔ لوگ صحيح کہتے ہيں کے آنسو عورت کا سب سے بڑا ہتھيار ہوتے ہيں۔ آج آپ بھی ان سے گھائل ہو ہی گۓ۔" حديد نے بے بسی سے کار چلاتے حورين کی بھنور آنکھوں کو ديکھا۔ اپنی سوچوں سے چھٹکارا پانے کے ليے جيسے ہی اسٹيريو آن کيا اسے لگا
Jonathan Clay
اسی کے جزبات کی ترجمانی کر رہا ہے
I'm falling in,
I'm falling down.
I wanna begin
But I don't know how
To let you know,
How I'm feeling.
I'm high on hope.
I'm reeling.
And I won't let you go,
Now you know,
I've been crazy for you all this time.
I've kept it close
Always hoping
With a heart on fire,
A heart on fire.
انہيں سوچوں ميں حورين کے پيرينٹس کا گھر آگيا۔ حورين کے ماما بابا اور ايک بھائ وليد اور بہن شزا نے انکا استقبال کيا۔
چا ۓ کا دور چلا تو حورين بنانے چل پڑی
جيسے ہی حديد کو دينے کے لئے آگے بڑھی تو وہ شرارتی لہجے ميں آہستہ سے بولا۔"پھر کپ توڑنے کا ارادہ تو نہيں۔" حورين تو حيرت کا مجسمہ بن گئ حديد کاايسا لہجہ سن کر ۔
-------------------------
وہ ناشتہ کرکے جونہی ممی کے کمرے ميں انٹر ہونے لگا حورين اور بينا بھابھی کہيں جانے کو تيار نظر آئيں۔ "خيريت صبح صبح کہاں کی تياری ہے۔
حورين کے خوبصورت گرين شال ميں لپٹے چہرے کو فوکس کرتے ہو‌ۓ پوچھا اور نے نظريں ملانے سے گريز کيا کيونکہ کل سے حديد کی آنکھوں کی چمک اسکو الجھن ميں مبتلا کر رہی تھی۔
"ديور جی ہماری تو اب دوپہر چل رہی ہے۔ بس ذرا لبرٹی تک جارہے ہيں۔" بينا بھابھی نے تفصيل بتائ۔ "ميں لے چلوں""ايک منٹ۔۔۔۔ايک منٹ یہ تم ہی ہو نہ جسے بازار جانا دنيا کا سب سے بورنگ کام لگتا تھا" حديد نے خجل ہو کر مسکراہٹ چھپانے کی کوشش کی۔"آپ کا کيا بھروسہ ميری بيوی کو گما ديں۔
وہ بھی حديد تھا کہاں قابو ميں آتا۔"ايسا جورو کا غلام نہ کبھی ديکھا نہ سنا۔ اب تو اور دير سے اسکو لے کر آؤں گی" بھابھی نے حورين کے ساتھ قدم باہر کی طرف بڑھاتے اور بھی شرارتی لہجے ميں کہا"ميں آپ کے پيچھے آجاؤںگا" کل سے اب تک جتنا خود کو جھٹلا رہا تھا اتنا ہی دل اس چہرے سے ہٹنے کا انکاری تھا۔ اور وہ یہ نہيں جانتا تھا کہ کچھ دير بعد اسکو واقعی اسکو انکے پيچھے جانا پڑ جا ۓ گا
-----------------------------
‎ "ہيلو" حديد نے جيسے ہی فون اٹينڈ کيا تو فريد بھائ کی گھبرائ ہوئ آواز آئ "بينا اور حورين گھر آگئ ہيں" انہوں نے چھوٹتے ہی پوچھا۔حديد کو کسی گڑ بڑ کا احساس ہوا۔ "نہيں تو کيوں خيريت۔" "نہيں خيريت نہيں ہے۔ لبرٹی کی ايک بلڈنگ ميں بم بلاسٹ ہوا ہے۔ ميں دونوں کو کال کر رہا ہوں وہ اٹينڈ نہيں کر رہيں۔ تم انہيں ٹريس کرو پليز" "اوکے" حديد اب ان کو کيا بتاتا کہ ان ميں اتنے اچھے تعلقات نہيں تھے کے وہ نمبر ايکسچ کرتے۔ اس نے ممی سے حوريں کا نمبر ليا ليکن بزی ٹون جاتی رہی۔ پھر بھابھی کو ليکن ندارد۔ اسے لگا زميں اس کے پاؤں کے نيچے سے سرکتی جا رہی ہے۔
"ممی ميں نکلتا ہوں آپ دعا کيجئے گا" حديد روتی ہوئ سائرہ بيگم کو کہتا ہوا مارکيٹ کی طرف نکلا۔ ساتھ ساتھ دونوں کو کال کرتا جا رہا تھا۔ "اے اللہ مجھے معاف کر ديں۔ ميں نے آپ کے بناۓ گۓ رشتے کو سواليہ نشان بنا ديا۔ ايک بے قصور کو صرف اپنی بے مقصد سوچ کی خاطر سزا دی۔ ہم کيا اور ہماوی اوقات کيا۔ مجھے ايک چانس دےديں سب ٹھيک کرنے کا ميں اس سے ہزار بار معافی مانگ لوں گا۔ گو می ون لاسٹ چانس" بے بسی کی انتہاہ تھی اسکے لئے۔ کار اڑاتا ہوا وہ وہاں پہنچا۔جيسے ہی اس نے بينا بھابھی کے نمبر پہ کال پھر سے ملائ تو اٹھا لی گئ۔ "کہاں ہيں آپ لوگ" "ميں۔۔۔ميں يہاں ميٹرو کے سامنے ليکن حد۔۔حديد حورين پتہ نہيں کہاں ہے۔" بھابھی کی آواز سن کے وہ جو ريليکس ہوا تھا انکی بات سن کے لگا جسم ميں سے روح نکل گئ ہو۔"ميں آ رہا ہوں" بدقت وہ بولا۔
بھابھی کے پاس پہنچا "آپ دونوں تھيں کہاں" "ہم اسی پلازہ ميں تھے جب يہ سب ہوا۔ وہيں گھبراہٹ ميں ہاتھ چھوٹ گيا۔" بھابھی نے روتے ہوۓ بتا کر حديد کی پريشانی ميں اضافہ کيا"اوکے آپ يہ چابی لے جا کر گاڑی ميں بيٹھيں ميں چيک کرتا ہوں" انکو چابی پکڑا کر وہ اسی بلڈنگ کی جانب بڑھا۔ قدم من من بھر کے ہو رہے تھے۔ وہاں ہر جانب پوليس نے گھيرا ڈالا ہوا تھا۔ وہ اندر جانے لگا تو ايک اہلکار نے روکا۔ اس نے ساتھ ہی اپنا سيکرٹ سروسز والا کارڈ دکھايا تو اس نے راستہ دے ديا۔ ساتھ ساتھ وہ حورين کو کال ملا رہا تھا۔ چوتھی مرتبہ ميں فون اٹھا ليا گيا۔"ہيلو" حورين کی نحيف سی آواز سن کے اسے لگا اندر تک سکون اتر گيا ہے۔"کہاں ہو حور۔ ميں حديد آپکو اسی بلڈنگ ميں ڈھونڈ رہا ہوں۔" "حد۔۔۔حديد۔۔م۔۔ميں شايد تھرڈ فل۔۔لور پہ۔" اور ساتھ ہی خاموشی چھا گئ۔حديد پريشانی سے بھاگتے ہوۓ اسی فلور پہ پہنچا" اے اللہ بس ايک چانس۔ مجھے کسی طرح اسکے پاس پہنچا ديں" ابھی وہ پريشانی سے ادھر ادھر ديکھ رہا تھا کہ ايک پلر کے پاس حورين آخرکار نظر آگئ۔ وہ بيہوش تھی۔ايک ہاتھ ميں موبئل تھا۔ حديد نے اسے جلدی سے اپنی قيمتی متاع کی طرح بازؤں ميں اٹھايا اور نيچے کی طرف بھاگا۔
---------------------------
"پليز ڈاکٹر کليرلی بتا ديں کے حور کے بچنے کے چانسز کتنے ہيں" حديد نے دل کڑا کرکے ڈاکٹر سے پوچھا۔ سارا گھر ہاسپٹل آگيا تھا۔ ہر کوئ دعا کر رہا تھا۔ "ديکھو ينگ مين۔ بلڈنگ اور نروس بريک ڈاون کی وجہ سے ميں صرف اتنا بتا سکتا ہوں کہ نيکسٹ سکس آورز آر ويری امپورٹنٹ۔ آپ دعا کريں کے اسی ميں اسے ہوش آجاۓ۔ ادر وائز ير بيٹر نو۔" ڈاکٹر کی آخری بات پہ حديد نے ہونٹ بھينچ کر چہرہ نيچے کر کے اپنے آنسؤوں کو بمشکل باہر آنے سے روکا۔
اور پھر سب کی دعاؤں سے اللہ نے اسکو ايک نئ زندگی دے دی۔ سب اس سے ملنے گۓ سواۓ حديد کے۔ "اب آپکو روبرو ملوں گااپنی سب غلطيوں کی معافی مانگ کر۔"
------------------------------
ايک ہفتہ ہاسپٹل رہ کر جب حورين گھر آئ تو سائرہ بيگم نے اسکو اپنے کمرے ميں ٹھرا ليا۔ کيونکہ کمزوری کی وجہ سے وہ ابھی سيڑھياں نہيں چل سکتی تھی۔ اور يہ دن حديد پر نہايت کڑے گزر رہے تھے ۔ آخر ايک دن وہ ممی سے بات کرنےانکے پيچھے کچن ميں جا پہنچا۔ "اب کيا ساری زندگی اپنی بہو کو اپنے رکھيں گی يا مجھے واپس بھی کريں گی۔"
"دل تو نہيں کر رہا اسے تمہارے حوالے کرنے کا" ممی نے اسکی جھنجھلاہٹ کا مزہ ليا۔"تو پھر آپ ايسے کريں ميرے روم ميں شفٹ ہو جائيں۔ اور ميں نيچے آجاتا ہوں۔ کيونکہ آپکے تو کوئ ارادے نہيں لگ رہے نہ اپنے مياں کے پاس جانے کے نہ ميری بيوی کو اسکے مياں کے پاس آنے دينے کے۔" نہايت جل کر انکو مشورہ ديا گيا۔
"ہا ہا ہا اتنے اتاولے کيوں ہو رہے ہو۔ وہ مسلسل حديد کی حالت کا مزہ لے رہی تھيں۔" آپ ظالم سماج نہ بنيں۔ جب اسکی جانب متوجہ نہيں تھا تب آپ نے ميرے دن رات کان کھاۓ ہوۓ تھے۔ اب جب اسکی جانب آنا چاہتا ہوں تو آپ نے ہمارا پردہ کروا ديا ہے ۔
" "اچھا بابا بھيج دوں گی آج" اسکی بے تابيوں پہ ہنستے ہو ۓ انہوں نے حورين کو بھيجنے کا وعدہ کيا۔
-------------------------
۔‎ ‎ "اچھی بھلی ميں ممی کے پاس تھی۔ پتہ نہيں کيا سوجھی انہيں اس کمرے ميں جانے کا حکم دے ديا جہاں کا مالک مجھے برداشت کرنے کو تيار نہيں۔ اس قدر گھورتا ہے۔ جيسے ميں نے کچھ چرا ليا ہو اسکا" حورين بڑبڑاتے ہوۓ سيڑھياں چڑھ کے حديد کے روم ميں داخل ہوئ۔ اندر آتے ہی نظر بالکونی ميں کھڑے حديد پر پڑھی۔ اسکی پشت دروازے کی جانب تھی۔ کھٹکے کی آواز پہ پيچھے مڑ کر ديکھا۔ حورين کو آتے ديکھ کر آنکھوں ميں محبت کا جہاں بسا‎ۓ آہستہ آہستہ چلتے اسکی جانب بڑھا جو صوفے پر سر جھکاۓ بيٹھی تھی۔"طبيعت کيسی ہے" محبتوں سے بھرے لہجے ميں سوال ہوا۔"جی ٹھيک" حورين نے جھکے سر کے ساتھ جواب ديا۔"کيا ہم کچھ بات کر سکتے ہيں" حديد نے اجازت لی۔"جی" پھر مختصر جواب۔ حديد بيڈ کے کنارے ٹک گيا۔
"کيا ہم سب کچھ بھلا کر ايک نئ ميريڈ لائف سٹارٹ کر سکتے ہيں" "جی" حديد کی غير متوقع بات نے حورين کے حواس سلب کر دئے۔"کيا کوئ مجبوری يا ترس" حورين اسکے سابقہ رويے کی وجہ سے بس يہی سوچ سکی۔ "ميں چاہتا ہوں کے ہم پچھلی باتيں بھلا کر اس رشتے کو ويسے ہی گزاريں جيسے اسکا حق ہے۔" حديد کی مسکراہٹ نے جلتی پر تيل کا کام کيا۔ " کيوں اب مجھ ميں کون سے سرخاب کے پر لگ گۓ ہيں۔" اس نے غصے سے حديد کو گھورا۔"مجھے نہيں پتہ کب کيسے ہاں مگر اس رشتے نے اپنا آپ منوا ليا ہے۔"
"واہ سيريسلی داد دينی پڑے گی آپکو۔ ايک نيا اور گھٹيا کھيل کھيلنا چاہتے ہيں آپ۔ محبت کے جال ميں پھنسا کر مزيد تماشا بنانا چاہتے ہيں مجھے۔ شايد آپکو اپنے الفاظ بھول گۓ ہوں مگر مجھے اچھی طرح ياد ہے آپ نے ہی کہا تھا نا کہ جس رشتے کی کوئ اہميت نہيں اس سے جڑے شخص کی بھی کوئ اہميت نہيں۔ پھر اب يہ سب کيوں۔" وہ تو جيسے غصے سے پھٹ پڑی۔
"ميں اپنے سب الفاظ کا مداوا کروں گا۔" حديد نے اسکی کالی بھنور سی آنکھوں کو اپنی گرے گرين آنکھوں ميں جکڑا۔"کس کس بات کا مداوا کريں گے۔ مجھے اس کمرے ميں آنا ہی نہيں چاہيے تھا۔ کتنے آرام سے آپ نے کہ ديا سب بھول جاؤ۔ميں وہ تضحيک کبھی نہيں بھول سکتی۔ آپ کے لئے آسان ہے بھولنا کيونکہ آپ نے نفرت نہيں سہی مگر ميں۔۔۔"
اس سے آگے اس سے بولا نہ گيا نجانے کياکيا ياد کرکے اس کے بے اختيار آنسو نکل پڑے۔ مگر وہ اس شخص کے سامنے رونا نہيں چاہتی تھی۔ فورا دروازے کی طرف بڑھی کے بائيں ہاتھ کی کلائ حديد کے ہاتھ ميں آ گئ۔ حيرت کے مارے مڑی۔"آئ ايم سوری فار ايوری تھنگ۔ سوئيٹ ہارٹ"
حديد کی بات پر حيرت کی جگہ اشتعال نے لے لی۔ اور حورين کا داياں ہاتھ حديد کے گال پہ گھوم گيا۔ وہ تو اس شيرنی کے تيور ديکھ کر ششدر رہ گيا۔" ہاؤ ڈير يو ٹو ٹچ می۔ ميں وہی ہوں جس نے آپ کی زندگی جہنم بنا دی تھی۔ آئندہ يہ جرات مت کيجئے گا۔ ميں ابھی اتنی کمزور نہيں ہوئ۔ کہ جب جس کا دل چاہے مجھے روند دے۔"حديد کو وارن کرتی وہ کمرے سے باہر نکل گئ۔"کيا واقعی کچھ دن پہلے اسکو نروس بريک ڈاؤن ہوا تھا" حورين نے اسکے چودہ طبق روشن کر دئيے تھے۔ پھر بھی اس نے ہار نہ ماننے کا مصمم ارادہ کيا
(جاری ہے)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے