تمہیں کیا ہوا"؟ " کچھ نہیں اماں" وہ بدقت خود کو نارمل کر پائی. وہ مطمین ہوگئیں تو وہ صائمہ تائی کے بارے میں سوچنے لگیں جنکا "حیا میری جان" کہتے منہ نہ تھکتا تھا اور فرقان تایا کی تو وہ بڑی بیٹی تھی مگر انکے دل میں ایسے خیالات تھے یہ وہ گمان بھی نہیں کر سکتی تھی. " اور وہ پھول! وہ بھی فرخ یا رضا نے بھیجے تھے مگر جب پہلی بار اسکو پھول آئے تھے تو فرخ شہر سے بہار تھا اور رضا تو اسلام آباد میں ہی تھا مگر ان میں سے کسی کو اسکی سبانجی سلیکشن کا کسی کو پتا نہیں تھا. شاید جب وہ زارا کو فون پر بتا رہی تھی تب کھڑکی کے باہر کچھ کھڑکا تھا. وہ جو کوئی بھی تھا اسنے کھڑکی کے باہر سے سری بات سن لی تھی اور اس نے پھولوں کی ساتھ خط لکھ کر رکھ دیا ہوگا مگر کوریر پر تو ایک دن پہلے کی مہر لگی ہوئی تھی. شاید اسنے کوئی جعلی مہر استعمال کی ہوگی. مگر اس طرح کے جھمیلوں میں فرخ اور رضا جسی جاب والے
مصروف بندے کیوں پڑیں گے بھلا؟ اسکا دل کہ رہا تھا کہ پھول بھیجنے والا کوئی اور ہی ہے خیر دفع کرو جو بھی ہو. ان دونوں کا دماغ تو میں ابھی تھک کرتی ہوں. وہ تیزی سے اٹھ کر لڑکے لڑکیوں کے گروپ کی طرف چلی آئی. "ارم! اسنے اپنے مخصوص انداز میں سینے پر ہاتھ بندھے هوئرے ارم کو مخاطب کیا تو سب روک کو اسکو دیکھنے لگی. "کیا"؟ "تم لوگوں نے سبین پھوپھو کو شادی کا کارڈ بھیجا تھا ترکی"؟ آنکھوں سے اسنے فرخ اور رضا کے چہروں کو ماند پڑتا دیکھا. "سلمان چچا کو کارڈ دیا تھا انہوں نے بھجوا دیا ہوگا اور سبین پھوپھو کو ابو نے فون کر کہ کہ دیا تھا کہ سبین پھوپھو آئیں گی؟" " آنا تو چاہیے، قریبی رشتہ ہے تم سے نہ سہی، ہم سے تو ہے". اسنے قریبی رشتے پر زور ڈالتے هوئے فرخ اور رضا پر ایک نظر ڈالی انکے چہرے پھیکے پڑے تھے اور دونوں ہی سوچ میں گم تھے. پھر کھانے کے وقت صائمہ تائی نے سب سے پہلے اسکو بلایا
"حیا! میری جان! تم تو سمجھدار ہو یہ ارم تو بس، تم نے ٹیبل پر خیال رکھنا ہے جیسے ہی کوئی ڈش خالی ہو یا آدھی ہوجاے تو فورا ظفر (کک ) کو آواز دے دینا". "ٹھیک"؟ "شیور ! تائی میں خیال رکھوں گی." وہ بدقت مسکراتی ہوئی سرو کرنے لگی. چند منٹ بعد سب کھڑے اپنی اپنی پلیٹوں میں کھانا نکال رہے تھے. تایا جان اپنے سلاد نہیں لیا وہ رشین سلاد کا پیالہ ہاتھ میں لئے ابو اور تایا فرقان کی طرف آئی، جو اپنے دھن میں باتیں کر رہے تھے اسکے پکارنے پر چونکے. "تھینک یو بیٹا!" تایا فرقان نے مسکراتے ہوے سلاد اپنی پلیٹ میں نکالا. وہ شلوار کرتے میں ملبوس تھے اور شال لی تھی اور بارعب چہرے پر مونچھیں. سلمان صاحب انکے بار عکس
کلین شیو ، ڈنر سوٹ میں بہت سمارٹ لگ رہے تھے. دونوں کی سوچیں انکے حلیوں جیسی تھیں. 'ابااپ بھی لیں نہ" "سلمان تم نے سبین کو کارڈ پوسٹ کر دیا تھا؟" تایا کو اچانک شاید اسکی شکل دیکھ کر یاد آیا تھا. سلمان صاحب کا چمچے میں سلاد بھرتا ہاتھ ذرا سست پڑا اور چہرے پر کڑواہٹ پھیل گئی. بہت آہستہ آہستہ انہوں نے چمچہ پلیٹ میں پلٹا. "کر دیا تھا". انکے لہجے میں کاٹ تھی جو حیا کے لئے نئی تھی. "ابا! سبین پھپھو شادی پر آئیں گی"؟ وہ پوچھے بنا رہ نہ سکی. " کل مہندی ہے آنا ہوتا تو آج آچکی ہوتی". "تیس سالوں میں جو عورت صرف کچھ دفعہ ملنے آئی ہو تو وہ اب بھی نہ آے تو بہتر ہے. فرقان تایا بھی دنگ رہ گئے. "سلمان کیا ہوا ہے؟
تھینک یو بیٹا! سلمان صاحب نے حیا کو کہا اسکا مطلب تھا کہ اب تم یہاں سے جاؤ. اور وہ اشارہ سمجھ کر سر جھکاتے وہاں سے آگئی. بہت آہستہ سے سلاد کا پیالہ میز پر رکھا اور اپنی آدھی بھری پلیٹ اٹھا لی مگر اب کچھ کھانے کو جی نہیں چاہ رہا تھا. " یہ ابا کو کیا ہوگیا تھا وہ پھوپھو کے بارے میں ایسی باتیں کیوں کر رہے تھے.؟ پھر اس سے رہا نہیں گیا وہ اپنی پلیٹ اٹھا کر ستوں کے ساتھ کھڑی ہوگئی جسکی دوسری طرف ابا اور تایا کھڑے تھے. بظاھر اپنی پلیٹ پر نظر جھکاتے کان ان دونوں کی باتوں کی طرف تھے. حیا کے لئے لغاری نے اپنے بیٹے کا پرپوزل دیا ہے. سلمان صاحب نے اپنے دوست کا نام لیا تو حیا کے ہاتھ میں پکڑی ہوئی پلیٹ لرز گئی. یہ کیا کہ رہے ہو؟ فرقان تایا ششدر رہ گئے. "بھائی ! اس میں حیرت
کی کیا بات ہے؟ ولید اچھا لڑکا ہے کل مہندی پر آئے گا تو ملواؤں گا. سوچ رہا ہوں حیا سے پوچ کر ہاں کر دوں" "مگر، مگر سلمان یہ کیسے ہو سکتا ہے"؟ "کیوں نہیں ہو سکتا بھی"؟ " تم یہ شادی کیسے کر سکتے ہو"؟ "باپ ہوں اسکا کر سکتا ہوں، فاطمہ بھی راضی ہے اور ،مجھے یقین ہے حیا کو کوئی اعترض نہیں ہوگا". " اور جہاں! جہاں کا کیا ہوگا"؟ "کون جہاں؟" سلمان سحاب یکسر انجن بن گئے. "تمہارا بیٹا! سبین کا بیٹا، جس سے تم نے سبین کا نکاح کیا تھا تم کیسے بھول گئے ہو". وہ اکیس سال پرانی بات ہے اور حیا اب بائیس سال کی ہوگئی ہے بیوقوفی کی تھی میں نے سبین پر اعتبار کر کے اپنی بچی کا نکاح کر دیا اکیس برسوں میں کبھی سبین نے مر کر پوچھا کہ نکاح کا کیا ہوگا؟ چھ ماہ میں ایک بار فون کر لیتی ہے اور تین
منٹ بات کر کے رکھ دیتی ہے. اور آپکو واقع لگتا ہے کہ وہ لوگ رشتہ قائم رکھنا چاہتے ہیں"؟ "مگر سبین تو سکندر کی وجہ سے تم تو جانتے ہو الٹے دماغ کا انسان ہے..... " میں کیسے ماں لوں کہ اپنے مغرور اور بعد دماغ شوہر کی وجہ سے نکاح کو بھول جاتے. اتنے برس بیت گئے اسنے ایک بار بھی اس شادی کی بات منہ سے نہیں نکالی. میں اس سے کیا امید رکھوں"؟ "مگر جہاں تو اچھا لڑکا ہے تم اس سے ملی تو تھے جب پچھلے سال تم استنبول گئے تھے. " جی! جہاں سکندر! اچھا لڑکا ہے. مائی فٹ." انھوں نے بہت تلخ ہوکر کہا. "اسکے تو مزاج ہی نہیں ملتے، ترکی میں پیدا ہوا ہے، نہ اسکو اردو آتی ہے، نہ پنجابی اور کبھی اس نے ماموں کا حال پوچھا ہے؟ کبھی فون کیا ہے بھائی؟ میں یہ سب بھول جاتا مگر پچلے سال میں ترکی گیا تو یقین کریں بھائی میں اٹھارہ دن وہاں رہا روز سبین کے گھر جاتا تھا سکندر تو خیر الگ بات ہے مگر جہاں آخری روز مجھے ملا وہ بھی پندرہ منٹ کے لئے بس. وہ بھی جب اسکی ماں نے میرا نام بتایا تو کافی دیر سوچنے کے بعد اسکو یاد آیا کہ میں اسکا دور پرے
کا ماموں لگتا ہوں
************
. اور پھر جانتے ہیں وہ مجھ سے کیا پوچھنے لگا . کیا پاکستان میں روز بمب دھماکے ہوتے ہیں؟ کیا پاکستان میں انٹرنیٹ ہے؟ پھر اسکا فون آیا اور وہ اٹھ کر چلا گیا. میں کبھی حیا کی خلع کے بارے میں نہ سوچا اگر میں اس دن جہاں کو ایک ترک لڑکی کو ڈراپ کرتے ہوے نہ دیکھتا. جب میں فلائٹ لینے سے پہلے سبین کو ملنے گیا. اس لڑکی کے ساتھ اسکی بے تکلفی ، الامان. وہ سکندر شاہ کا بیٹا ہے اور اسی کا پرتو ہے. میں سمجھتا تھا کہ اگرسکندر شاہ احمد شاہ جیسے عظیم انسان کا بیٹا ہوکر اسکے برعکس نکلا تو جہاں بھی سکندر کے برعکس ہوگا اور ایک اچھا انسان ہوگا، مگر نہیں. وہ اس مغرور آدمی کا مغرور باپ کا مغرور بیٹا ہے. حیا کون ہے اسکا ان سے کیا رشتہ ہے نہ سبین کو یاد ہے نہ جہاں کو. سبین تو ذکر ہی نہیں کرتی، کیا میں زبردستی اسکو انکے گھر بھیج دوں؟ خیر کل میں آپکو ولید سے ملواؤں گا، اب مجھے کوئی بھی رشتہ اچھا لگا تو میں ہاں کر دونگا اور" اب مزید سننے کی اس میں تاب نہیں تھی وہ سفید چہرہ لئے وہاں سے ہٹ گئی
"حیا.... حیا کدھر ہو"؟ وہ لابی میں آویزاں شیشے میں دیکھ کر اپنا ٹیکا سیٹ کر رہی تھی. فاطمہ بیگم اسکو پکارتے ہوے وہاں آئیں. ہر طرف گہما گہمی تھی، ایک ناقابل فہم سا شور مچا تھا. مہندی کا فنکشن باہر شروع ہو چکا تھا. سب باہر جانے کی جلدی میں ادھر ادھر بھگ رہے تھے اور وہ ابھی تک وہیں کھڑی تھی. " کیا ہوا اماں ؟ وہ ٹیکے کے ساتھ الھج رہی تھی جو تھک ہو کر نہیں دے رہا تھا. سونے کا گول سکے کی شکل کا ٹیکا جسکے نیچے روبی لٹک رہا تھا جو بار بار ادھر ادھر جھول جاتا، ٹیکا ٹھیک کرنے کے چکر میں اسکی کلائیوں میں پڑی چوریاں کھنک رہیں تھیں. " جلدی آؤ، تمہارے ابا بلا رہے ہیں کسی سے ملوانا ہے تمہیں" انکی آنکھوں میں خوشی کی رمق دیکھ کر وہ چونکی. نفیس سی سلک کی ساڑھی اور گلے میں ڈائمونڈ پہنے وہ خاصی پر وقار اور خوش لگ رہیں تھیں. اسکی انگلیوں نے ٹیکا چھوڑ دیا. دل بہت زور سے دھڑکا. "کدھر ہیں ابا"؟ وہ دھک دھک کرتے دل کے ساتھ انکے ساتھ باہر نکل آئی. گیٹ کے ساتھ سلمان کھڑے دکھائی دے رہے تھے اور انکے ساتھ ایک خوبرو لڑکا بھی کھڑا تھا. جسکے شانے
پر ہاتھ رکھے وہ کچھ کہ رہے تھے. سامنے سوٹ میں ملبوس ایک آدمی اور ایک پر وقار خاتون کھڑی تھیں. وہ دونوں چٹکیوں سے لہنگا زارا سا اٹھاۓ ان لوگوں کے قریب آئی. "یہ حیا ہے میری بیٹی". سلمان صاحب نے اسکو شانوں سے تھام کر بتایا. " اسلم و علیکم " اس نے سر جھکاتے مدھم سی آواز میں کہا. " وعلیکم اسلام" وہ تینوں بہت دلچسپی سے اسکو دیکھ رہے تھے. اسنے ڈل گولڈن لہنگا اور کامدار بلاوذ پہن رکھا تھا بلاوذ کی بازو آدھی سے بھی چھوٹی تھیں اور ان سے نکلتے دودھیا سفید بازو سونہرے موتیوں کی شعاؤں میں سنہرے دیکھ رہے تھے. بال ہمیشہ کی طرح سیدھے کر کے کمر پر رکھے تھے. ٹیکے کے ساتھ کے سنہرے جھمکے کانوں میں تھے. اور ملائی سے بنا چہرہ ہلکے سے سنگھار سے بہت دلکش لگ رہا تھا. اسنے کاجل سے لبریز نگاہیں اٹھائیں وہ تینوں بہت ستائشی نظروں سے اسے دیکھ رہے تھے. " اور حیا! یہ میرے دوست ہیں یوسف لغاری، یہ مہناز بھابھی ہیں، اور یہ ہیمہناز بھابھی اور یہ انکے بیٹے ولید. اسکے دل پر بوجھ سا آرکا، آنکھوں میں نمکین پانی بھر آیا جسکو اسنے اندر ہی اتار لیا.
"nice to meet you " وہ مہمان آنے لگے ہیں میں پھولوں کی پتیاں ادھر رکھ آئی ہوں سب مجھے ڈھونڈھ رہے ہوں گے تو میں"........ "ہاں ہاں تم جو انجوتے کرو". سلمان صاحب نے آہستگی سے اسکے کندھوں سے ہاتھ ہٹا لیا. وہ معذرت خواہانہ انداز میں وہاں سے ہٹ گئی. باہر آکر اسنے بے اختیار آنکھوں کے بھیگے گوشے صاف کیے. انکے گھر کے ساتھ خالی پلاٹ میں شامیانے لگا کر مہندی کا فنکشن ارینج کیا ہوا تھا.مہندیاں دونوں گھروں کی الگ الگ تھیں. گیندے کے پھولوں اور موتیے کی لڑیوں سے ہر کونہ سجا ہوا تھا. روشنیوں کی ایک بہار سی اتری ہوئی تھی. تقریب سیگرگیٹڈ تھی. مرد الگ عورتیں الگ مگر عورتوں والی سائیڈ پر مردوں کا آنا جانا لگا ہوا تھا. میوزک سسٹم کے ساتھ ڈی جے بیٹھا ہوا تھا اور مووی میکر کیمرہ لئے پھر رہا تھا. ارم بھی سلور کامدار لہنگے میں ادھر ادھر گھوم رہی تھی. وہاں کافی مرد تھے ڈی جے، مووی والے اور کیٹرنگ والی مگر آج تو شادی تھی سو آج
سر ڈھکنے کی پابندی نہیں تھی. "حیا! ڈانس شروع کریں، ارم اپنا لہنگا سمبھالتی حیا کے پاس آئی داور بھی پر سرے ارمان نکل کر ساری رسمیں کر کے مردانے میں بھیج دیا گیا تھا. "ہاں ٹھیک ہے تم گانا لگواؤ، اور... اے یہ کون ہیں" ووہبھٹ مصروف انداز میں ارم سے باتیں کرتی لحظ بھر کو چونکی. سامنے والی کسیوں کی قطار کے ساتھ ایک لڑکی کھڑی جھک کر کسی جہتوں کو مل رہی تھی. اسنے سیاہ عبایا اور اوپر سٹول لے رکھی تھی. وہ عورتوں کا فنکشن تھا مگر پھر بھی عجیب بات تھی اس لڑکی نے انگلیوں سے نقاب تھام رکھا تھا. اسکی آنکھوں اور ماتھے کا کچھ حصّہ نقاب سے جھلک رہا تھا اسکی آنکھیں بہت خوبصورت تھیں. وہ مسکراتے ہوے جیسے ان خاتون سے کچھ کہ رہی تھی. " کون" ارم نے پلٹ کر واپس دیکھا پھر گہری سانس لے کر بولی. " یہ ایلین ہیں" " ایلین ارے بھی شہلا بھابھی ہیں یہ" پوری دنیا سے الگ انکی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد ہوتی ہے. بس توجہ خنچنکے لئے فنکشن می
عبایا اور نقاب میں ملتی ہیں. اب پوچھو بھلا عورتوں کے فنکشن میں کس سے پردہ کر رہی ہیں. "ہاں واقع ایلین نہ ہوں تو" اسنے کندھے اچکاے، وہ انکے سیکنڈ کزن کی بیوی تھیں ابھی سال بھر پہلے ہی شادی ہوئی تھی.ڈی جے نے گانا سیٹ کر دیا. خوب شور و ہنگامہ شروع ہوگیا. انہوں نے مووی والے کو ڈانس کی مووی بنانے سے روکا اور پھر تیار کردہ ڈانس خوب مہارت سے کیا. ایک سنہری پری لگ رہی تھی تو دوسری چاندی کی جب پاؤں تھک گئے اور خوب تالیاں بجیں تو دونوں ہنستے ہوے اپنی کرسیوں پر آگئیں. "اسلام و علیکم " شہلا بھابھی بھی اسی میز پر ماجود تھیں. اتم نے وران سلام کیا تو حیا نے بھی پیروی کی. "وعلیکم اسلام! کیسی ہو تم دونو"؟ وہ بہت خوش دلی سے ملی ۔۔۔۔
*جاری ھے*
0 تبصرے
ہم سے رابطہ کرنے کا شکریہ
ہم آپ سے بہت جلدی رابطہ کریں گے۔