جنت کے پتے از نمرہ احمد (قسط 2)


ناول؛ جنت کے پتے
قسط 2


". وہ منہ بسورے پھر سے شروع ہونے لگی تو حیا نے کیسٹ پلیئرآن کر دیا. عا طف اسلم کا گنا پوری آواز میں گونجنے لگا تو ارم کو چپ ہونا پڑا. "مارکیٹ پوھنچنے کے بعد ارم تو چوڑیاں ڈھونڈھنے نکل گی اور وہ دونو میٹرو آگئیں. " یہ گولڈن والا جو تیسرے نمبر پر رکھا ہے وہ دکھائیں " بہت دہر بعد ایک اونچی ہیل اسکی نظر میں جچی تھی. "یہ والا میم" سیلز مین نے جوتا نکل کر اسکے سامنے کیا. وہ زمین پر پنجوں کے بل بیٹھا تھا اور وہ دونوں کاؤچ پر بیٹھی تھیں. "پہنا دوں میم" بہت مؤادب اور شائستہ لہجے میں سیلز مین نے مسکرا کر پوچھا.
"میرے ہاتھ نہیں ٹوٹے ہوے میں خود پہن سکتی ہوں" "جی شیور یہ لیجیے" سیلز مں نے مسکراتے ہوے جوتا اسکی طرف بڑھایا. اسنے اسے یوں پکڑ رکھا تھا کے پکرتے وقت حیا کی انگلیاں لازمی اسکے ہاتھ سے مس ہوتیں. "سامنے رکھ دو میں اٹھا لوں گی". اسکو روکھے انداز پر سیلز میں نے گنگناتے ہوے جوتا سامنے رکھ دیا. پھر بل کی ادائیگی کے بعد کاؤنٹر پر کھڑے لڑکے نے بقیہ رقم اسکی طرف بڑھائی تو حیا نے دیکھا کے پیسوں کے اوپر پانچ کا سکا رکھا ہوا ہے اور لڑکے نے سکا یوں پکڑ رکھا تھا جیسے سیلز میں نے جوتا.... "شکریہ" ہی نے نوتے کو کنارے
سے پکڑ کر کھینچا تو سکا لڑکے کے ہاتھ میں ہی رہ گیا. "میم! آپ کا سکہ " لڑکے نے فاتحانہ مسکراتے ہوے کہا کے اب تو لازمی پکڑے گی اور...... "یہ سامنے پڑے صدقے کے باکس میں ڈال دو". وہ بے نیازی شوپپر تھامے پلٹی تو زارا نے بے اختیار قہقہہ لگایا. " اس لڑکے کی شکل دیکھنے والی تھی" "اس لڑکے کی شکل دیکھنے والی تھی حیا" دل کر رہا تھا اسکی شکل پر شاپ میں پڑے سارے جوتے مار دوں. پتا نہیں ہمارے ذہنیت کب بدلے گی. یوں گھورتے بار لڑکی دیکھی ہو. وہ تنفر سے ناک سکوڑتی غصّے سے سیڑھیاں اتر رہی تھی، جب قریب ہی سے آواز آئی.
"تو اتنا بن سنور کے باہر مت نکلا کرو بی بی !" وہ چونک کر آخری سیڑھی پر روک گئی. ایک ممر خاتون تھی. بڑی سی چادر لپیٹی ہوئی، ناگواری بھری نگاہ اس پر ڈال کر اوپر زینے پر چڑھ گئیں. "ایک تو لوگوں کو راہ چلتے تبلیغ کا شوق ہوتا ہے" زارا اسکو کوہنی سے تھامے ہوے وہاں سے آئی. تب ہی ارم سامنے سے آتی دکھائی دی. اسکا سینے پر پھیلا دوپٹہ اب سمٹ کر گلے میں جا چکا تھا. اسنے کوئی خاص شاپنگ نہیں کی تھی. شاید وہ اسکے ساتھ صرف اوٹنگ کے لئے آئی تھی. میٹرو سے وہ "اسکو پ" چلی آئیں، تاکہ کچھ کھا پی لیں. رات کی دعوت تو تایا فرقان کی طرف تھی، جو بیٹے کی شادی کے لئے آے ہوے
لوگوں کو دے رہے تھے. "میرے لئے پائن ایپل منگوانا میں ذرا بیکری سے کچھ .لے آؤں. ارم جھپٹ کر باہر کو لپکی. حیا نے گہری سانس لیتے ہوے اپنی سائیڈ کا شیشہ .نیچے کیا، سرد ہوا کا تھپیڑا اندر آیا. مگر اتنی سردی میں سلش پینے کا اپنا ہی مزہ ہوتا ہے. وہ پارکنگ لاٹ میں ماجود تھیں اور ٹھنڈی ہوا نے سبکو گھیرا ہوا تھا. "ارم خاصی کمپلیسڈ لگی ہے نہ"؟ ارم دور ہوگئی تو زارا اسکی طرف مڑی. "اور تم اسکے کمپلیکس کو ہوا دے رہی ہو". وہ الٹا اسی پر خفا ہوئی. "تایا فرقان صرف سکارف کی سختی کرتے ہیں. وہ بس اس بات پر خود ترسی کا شکار ہے اور تم بھی اسکا ساتھ دے رہی ہو.
"میں نے کہا کے بے چاری......" "نہیں ہے وہ بے چاری، اب اسکو بھی یہی سمجھانا ہے کے خام خواہ کی خود ترسی سے نکل آے." ویٹر ہاتھ میں کارڈ پکڑے حیا کی طرف آچکا تھا. "تمہیں یاد ہے زارا! جب پچھلے سال یونیورسٹی والوں نے ہمیں ترکی کے ٹریپ کی آس دلائی تھی اور آخر میں آکر سارا پروگرام کینسل کر دیا تھا". آرڈر کر کے شیشہ اپر چڑھا کر کر وہ یاد کرنے لگی. "میں تو اتنی مایوس ہوگئی تھی سوچا بھی نہ تھا کے کبھی جا سکون گی." اسکی آواز میں اس جڑنے کی خوشی دار آئی تھی. زارا اور وہ ایل ایل بی کے پانچویں سال میں تھیں. انکا ساتواں سمسٹر کا درمیان تھا جب یورپی یونین کے سکلور شپ کا اعلان ہوا. جسکے تحت یورپی
اور اشیا کی یونیورسٹی کے سٹوڈنٹس کا تبادلہ ہوگا. جب درخواست دینے کی باری آئی تو اسکو ترکی کی سبانجی یونیورسٹی کا فارم سب سے آسان لگا، پھر ایک ہسپانوی یونیورسٹی میں بھی ساتھ ہی apply کیا بلا آخر سبانجی نے اسکا انتخاب کر لیا. ساتواں سمسٹر پورا کر کے اسکو پانچ ماہ کے لئے ترکی جانا تھا. جہاں اسکے مضامین تو نہ تھے کے ترکی کا قانون پاکستان کے قانون سے مختلف تھا. سو پانچ ماہ کے لئے وہ اپنی مرضی سے کوئی بھی مضمون پڑھ سکتی تھی. پھر پاکستان واپس آکر آٹھواں سمسٹر شروع کرنا تھا. "کتنا مزہ آے حیا، کوئی رومانٹک سا ہینڈ سم سا ہم سفر تمہیں مل جاتے تو تمہارا سفر کتنا خوبصورت ہو جاتے.
"ہم سفر کوئی نہیں ،ملنے والا، پاکستان سے ہم صرف دو لڑکیاں سباجنی جا رہی ہیں، اور پھر ہم ٹھہرے وومین یونیورسٹی میں پڑھنے والی". "وہ خدیجہ رانا جو تمہارے ساتھ جا رہی ہے اس سے کوئی بات ہوئی." ویٹر سے شیشہ بجایا تو حیا نے شیشہ نیچے کیا. "نہیں! خدیجہ رانا کو تو میں جانتی بھی نہیں ہوں. اسنے سلش کے گلاس پکڑے، زارا کا اسکو تھمایا ارم کا ڈیش بورڈ پر رکھا. بے دہانی میں وہ شیشہ بند کرنا بھول گئی اسکے علم میں نہ رہا. دفعتاً!
زارا کا موبائل بجا. زارا نے سپ لیتے ہوے فون کان سے لگایا. "ہیلو اماں! جی کیا ہوا؟ آواز خراب ہے، ایک منٹ. زارا کے فون پر سگنل ٹھیک نہیں آرہے تھے، وہ سلش کا گلاس ہاتھ میں پکڑے باہر نکل گئی. حیا اپنے گلاس سے چوٹھے چوٹھے سپ لیتے ہوے ونڈ سکرین سے بہار دیکھنے لگی. اب وہ دور درخت کے پاس کھڑی بات کر رہی تھی. "ہیلو مائی بیوٹی!" کوئی ایک دم سے اسکے بلکل قریب آکر بولا تھا. وہ ڈر کر اچھلی. ذرا سر جوس بھی کپڑوں پر گرا.
کھلی کھڑکی پر ایک خوبصرت عورت جھکی ہوئی تھی. میک اپ سے بھرا چہرہ، آئی شیڈو سے چمکتی آنکھیں، بھڑکتی ہوئی سرخی، بالوں کا جوڑا اور چم چم کرتے کپڑے. وہ عورت نہیں تھی مگر مرد بھی نہیں تھا. "ڈرو نہیں سوہنیو! میں تمہاری دوست ہوں ڈولی کہتے ہیں مجھے" "ہٹو، ہٹو جاؤ. وہ گھبرا گئی. خواجہ سرا کے وجود سے سستے پرفیوم کی خوشبو اٹھ رہی تھی اسے کراہیت سی آئی. "اچھا سوہنیو! ذرا بات کو سنو. اسنے اپنا چہرہ اور جھکایا اسے پہلے کے وہ آگے بڑھتا حیا نے سلش کا بھرا گلاس اسکے منہ پر الٹ دیا. ٹھنڈی ٹھار برف منہ پر گری تو وہ بلبلا کر پیچھے ہوا.
**************

. اسنے پھرتی سے شیشہ اوپر کر لیا. "سنو جی!
وہ مسکرا کر چہرہ صاف کرتے ہوے شیشہ بجانے لگا. بند سیشے کی وجہ سے اسکی آواز کم آرہی تھی اب وہ کوئی گانا گا رہا تھا. کپکپاتے ہاتھوں سے اسنے اگنیشن میں چابی گھمائی، اور گاڑی وہاں سے نکل لائی. بیکری کے داخلی دروازے کے سامنے گاڑی روکی اور پیچھے مڑ کر دیکھا. وہ درختوں کے پاس ڈولی نامی خواجہ سرا ابھی تک وہی کھڑا تھا. وہ اسکے پیچھے نہیں آیا تھا اب وہ گا بھی نہیں رہا تھا. بس خاموش گہری نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا. اسے بے اختیار جھرجھری سی آئی. "کہاں رہ گئیں ہیں دونوں".اسنے جھنجھلا کر ہارن پر ہاتھ رکھ دیا. پھر گردن موڑ کر دیکھا، وہ ابھی تک اسی کو دیکھ رہا تھا.
ارم اور زارا کو ڈراپ کر کے وہ اپنے کمرے میں آئی. ڈنر کا وقت ہونے والا تھا. اس نے کپڑے بھی ڈنر کی مناسبت سے پہنے تھے. مگر جوس چھلکنے کی وجہ سے ذرا داغ پڑ گیا تھا. اس نے جلدی سے اتنا دوپٹہ دھو کر استری کیا. اسے رہ رہ کر وہ خواجہ سرا یاد آرہا تھا. اس برادری کے لوگ اکثر آکر پیسے مانگتے تھے مگر ایسی حرکت تو کبھی کسی نے نہیں کی. اس خواجہ سرا کی نگاہیں اور انداز اسکو پھر سے جھرجھری آگئی. پھر جب وہ اپنی تیاری سے مطمین ہوکر باہر آئی تو دروازے کے باہر پاؤں کسی چیز سے ٹکرایا. وہ چونک گیا. دروازے کہ ساتھ فرش پر وہ سفید ادھ کھلے گلابوں کا بکے پڑا تھا. ساتھ میں ایک بینڈ لفافہ بھی تھا. وہ دونوں چیزیں اٹھا کر سیدھی ہوئی لفافہ کھولا جس پر " حیا سلمان " لکھا ہوا تھا. اندر ووہی سفید بے سطر چوکور کاغذ تھا. اسکے وسط میں اردو میں لکھا تھا. "امید کرتا ہوں آپکا آج کا ڈنر اچھا گزرے گا.". اسنے لفافہ پلٹ کر دیکھا اس پر اور کچھ نہیں لکھا تھا بس لفافے پر گزشتہ روز کی مہر لگی تھی. "یہ کون تھا اور کیوں اسے پھول بھیج رہا تھا"؟ وہ خط اور بکے
کمرے میں رکھ کر سرے معاملے سے الھجتی باہر آگئی. تایا فرقان کے گھر خوب چہل پہل تھی. سب کزنز لونج میں بیٹھے تھے. ایک طرف خواتین کا گروپ خوش گپیوں میں مصروف تھیں. مرد حضرات یقیننا ڈرائنگ روم میں تھے. اسکے خاندان میں کزنز کی بے تکلفی کو بری نظر سے نہیں دیکھا جاتا تھا. تایا فرقان تمام بہن بھائیوں میں بہت سخت تھے اور انکی سختی صرف ارم کے سکارف لینے اور گھر سے باہر لڑکوں سے بات کرنے تک تھی. ارم اور باقی کزنز بھی گھر کے کزنز کے علاوہ لڑکوں سے بات نہیں کرتی تھیں. حیا اور ارم تو پڑھتی بھی ویمن یونیورسٹی میں تھیں. ہاں دوسرے چچا اور خود سلمان صاحب اپنے بچوں کی شادیاں مکس گیدرنگ میں کریں گے. انکا خاندان زیادہ بڑا نہیں تھا. وو لوگ تین بھی اور ایک بہن تھے. تایا فرقان سب سے بڑے تھے. داؤد، فرخ، ارم اور سمیع انکے بچے تھے. فررخ میڈیکل کر چکا تھا اور آج کل پولی کلینک میں ہاؤس جاب کر رہا تھا، اور حیا سے تین سال بڑا تھا اور سمیع فرخ سے سال بھر چھوٹا تھا اور ایم بی اے کر کے جاب کر رہا تھا. سب سے بڑے داؤد کی شادی ہو رہی تھی.
فرقان صاحب کے بعد سلمان تھے انکی ایک ہی بیٹی حیا اور بیٹا روحیل تھا. روحیل پڑھائی کے سلسلے میں امریکا میں ہوتا تھا. پھر زاہد چچا تھے. انکی بڑی دو جڑواں بیٹیاں مہوش اور سحرش تھیں. پھر بیٹا رضا انجنیئر تھا. سب سے چھوٹی بیٹی ثناہ اے لیول کر رہی تھی. اس وقت علاوہ روحیل کے جو امریکا میں تھا اور داوؤد کے جو ڈرائنگ روم میں تھا باکی سب کزن لونج میں بیٹھے تھے. لڑکیاں کارپٹ پر دائرہ بنا کر بیٹھی تھی ارم ڈھولک بجا رہی تھی. اسکا دوپٹہ سر سے ڈھلک کر کندھے پر آگیا تھا. ( اگر ابھی تایا یہاں آجاتے تو وہ فورن دوپٹہ سر پر لے لیتی) وہ مہوش، سحرش کے ساتھ سر ملا رہی تھی اور لڑکے اپر صوفے پر بٹہے ان پر فقرے اچھال رہے تھے. " ہیلو ایوری ون" وہ سینے پر ہاتھ
بندھے چلتی ہوئی انکے قریب آکر رکی سب کی نظریں اس پر رکی. سفید چہرے کے ارد گرد کالے بال اور کاجل سے لبریز آنکھیں. وہ تھی ہی اتنی حسین کے ہر اٹھی نگاہ میں ستائش ابھر آتی. "حیا کیسی ہو"؟ " آؤ ان لڑکوں کو ہراتے این". "بیٹھو نا" بہت سی آوازیں اس سے ٹکرائیں اسنے کندھے اچکاے اور کہا. "پہلے میں صائمہ چچی کی کچن میں مدد کروں گی اسنے ارم کی امی کا نام لیا تھا، جنوں نے اسکو آتا دیکھ کر فورا کچن کا رخ کیا تھا. صائمہ تائی نے یقیننا اسکو نہیں دیکھا تھا ورنہ فورا اسکو بلوا لیتیں. ارم سے زیادہ سمجھ دار تو بقول انکے حیا تھی. صائمہ تائی کے پیچھے زاہد چچا کی بیگم عابدہ چچی بھی کچن میں چلی گئیں. اب صوفے پر حیا کی امی فاطمہ بیگم اکیلی بیٹھیں تھیں.
" اماں! میں ذرا تائی کی مدد کروادوں ". انکو اپنی طرف دیکھا پا کر میں نے کہا تو انہوں نے اطمینان سے سر ہلا دیا. وہ مطمین سی آگے بڑھ گئی. وہ راہداری سے گزر کر کچن کے دروازے کی طرف بڑھی تب صائمہ تائی کی تیز آواز اسکی سماعت سے ٹکرائی. "جسی میں جانتی نہیں نہ یہ سارے رنگ ڈھنگ کس لئے ہیں، ایک میرے ہی بیٹے ملی ہیں اسکو پاگل بنانے کے لئے". وہ بے اختیار دو قدم پیچھے ہو کر دیوار سے جا لگی. یہ صائمہ تائی کس کی بات کر رہی ہیں. " تب ہی میں کہوں بھابھی، یہ رضا کیوں ہر وقت حیا حیا کرتا رہتا ہے. یہ عابدہ چچی تھیں. وہ اسکے بارے میں کہ رہیں تھیں وہ کہ رہیں تھیں. "پچھلی دفع جب ہم سلمان بھائی کی طرف کھانے پر گئے تو کس طرح ناک سک سی تیار پھر رہی تھی. تب سے رضا میرے پیچھے پڑا ہے کہ حیا کا رشتہ مانگیں". " اس لڑکی کو لڑکوں کا دل جیتنے کا فن آتا تھا. کتنی مشکل سے داوؤد کے دل سے اسکا خیال نکالا تھا میں نے اور فرقان نے وہ تو آڑ ہی گیا تھا شادی کروں گا تو حیا سے مگر جب فرقان نے سختی کی کہ اسی بے پردہ ور آزاد
خیال لڑکی کو اپنی بہو بنا کر ہم نے اپنی آخرت خراب کرنی ہے تب کہی جا کر وہ مانا اور اب یہ فرخ کو پتا نہیں کیا ہوگیا تھا. کیا کروں اس لڑکے کا، اب وہ پھر کیل کانٹوں سے لیس ہوکر آجاے گی اور اسکے جاتے ہی فرخ ضد لگا کر بیٹھ جاتے گا. اب میری ارم بھی ہے مجال ہی گھر سے باہر سر پر دوپٹہ لئے بغیر نکلے". صائمہ تائی بہت فخر سے کہ رہیں تھیں اور وہ دھواں دھواں ہوتے چہرے کے ساتھ دیوار سے ٹیک لگاتے کھڑی تھی. اسے لگا کہ اس نے مزید کچھ سنا تو اسکے اعصاب جوواب دے جایئں گے. بدقت اپنے وجود کو سمبھالتے وہ واپس مڑی. کسی بات پر ہنستے ہوے فرخ کی نگاہ اس پر پڑی تو اسکو راہداری سے آتا دیکھ کر اسکی ہنسی رک گئی. وہ مسکرایا. بہت مناسب سی شکل و صورت کا تھا فرخ اور ٹف روٹین کی وجہ سے اسکا رنگ مزید سانولا ہوگیا تھا مگر مثلا اسکی واجبی صورت اور حیا کی بے پردگی کا نہیں تھا مگر اصل بات سب جانتے تھے تو پھر رضا اور فرخ سے ایسا سوچا بھی کیسے؟ وہ ایک سپاٹ نگاہ فرخ پر دال کر صوفے پر فاطمہ بیگم کے ساتھ آ بیٹھی

*جاری ھے*

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے