جنت کے پتے از نمرہ احمد (قسط 16)

ناول؛ جنت کے پتے
قسط 16


وہ دونوں بہت جوش و جذبے سے منصوبے بناتے ہوے آگے بڑھ رہی تھیں.ایک طرف برگر کنگ کا بورڈ جگمگا رہا تھا. ڈی جے نے گردن موڑ کر اسے دیکھا.
سنو حیا...!جہان کو بھی ساتھ چلنے کو کہیں? اس کاتو نام بھی مت لو.. وہ سامنے دیکھتے ہوے آگے چلتی گئ.ابھی وہ اس کے ریسٹورینٹ کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتی تھی.. یار ...! معاف کر دو نا وہ کسی اور بات پر اپ سیٹ ہوگا" 
مگر میں اس بات پر اپ سیٹ ہوں.کوئ ضرورت نہیں اس سے ملنے کی. وہ اسے بازو سے کھینچ کر آگے لے آئ. 
میرا میگرین سارا ٹرپ خراب کراے گا..ٹیبلٹ لی تھی ' مگر کوئ فرق نہیں پڑا. ڈی جے کے پھر سے سر میں درد ہونے لگا تھا...
اور میرا ٹرپ میرا غیر رجسٹرڈ فون خراب کرواے گا.اس نے کوٹ کی جیب سے ہالے کا بھدا ترک فون نکال کر مایوسی سے اسے دیکھا. اس کی بیٹری جلدی ختم ہو جاتی ہے. وہاں دوسرے شہروں میں پتا نہیں کیا حالات ہوں.میں اپنے پاکستانی فون کو ہی رجسٹر کروا لیتی ہوں. ٹھیک ہے مگر پہلے جوتے دیکھ لیں. دونوں شو اسٹور کا دروازہ دھکیلتے ہوے اندر داخل ہویں. دروازہ زرا بھاری تھا مشکل سے کھلا. حیا اچنبھے سے دیکھتے ہوے آگے بڑھ گئ. عجیب بات تھی کہ جس دوکان پر وہ گیں. اس کا دروازہ بھی زور لگا کر کھلنے پر پیچھے ہوا. آج استقلال جدیسی کے دروازوں کو کیا ہوا..? ڈی جے بھی محسوس کر کے حیرت سے بولی. 
وی آپورٹ کی دوکان استقلال اسٹریٹ میں ذرا آگے جا کر ملی.وہ دونوں اکٹھی چوکھٹ تک آئں. اور لاشعوری طور پر تیزی سے اندر آتے ہوے ایک دم بہت زور سے دروازہ کو دھکا دیا.وہ گلاس ڈور بے حد باریک اور نازک شیشے کا تھا. وہ گویا اڑتا ہوا جا کر مخالف سمت میں کھڑے اسٹینڈ سے ٹکرایا. اور زوردار چھناکے کی آواز آئ. لوہےکے اسٹینڈ کی کوئ ہک نکلی ہوئ تھی. اس کی ضرب زور سے لگی اور دروازے کے اوپری حصے سے شیشے کے ٹکڑے چھن چھن کرتے فرش پر آگرے...
وہ دونوں ساکت سی دروازے کو دیکھنے لگیں. کاؤنٹر کے نچلے دراز سے کچھ نکالتے سیلزمین نے چونک کر سر اٹھایا.. ٹوٹے دروازے کو دیکھ کر اس کا منہ کھلا رہ گیا...
کاپُے کر دی?.. اس نے انگلی سے دروازے کی طرف اشارہ کیا.. 
ڈی جے کا سکتہ پہلے ٹوٹا وہ حیا کے قریب ہوئ اور بولی.. حیا اس نے ہمیں دروازہ توڑتے نہیں دیکھا.
بس ٹھیک ہم مکر جاتے ہیں...
وہ گلا کھنکھارتے آگے بڑھی اور اپنا فون اس کی طرف بڑھایا.. فون رجسٹر کروانا ہے.
کاپے کر دی میڈم.. وہ دروازے کی طرف اشارہ کرتے پوچھ رہا تھا.. 
ڈی جے یہ کیا بک رہا ہے. وہ کوفت سے پلٹی..
اسے غالبا انگلش نہیں آتی اور درواذے کا پوچھ رہا ہے..
دیکھو بھائ ! وہ آگے آئ اور کاؤنٹر پر کہنی رکھی اور بولی. ہم نے کوئ دروازہ نہیں توڑا نہ دیکھا ہی تھا..
بلکل ہم نے کبھی زندگی میں دروازے نہیں دیکھے. ہمارے گھروں میں ہوتے نہیں. لوگ کھڑکیوں سے اندر پھلانگتے ہیں..
مگر انکی کوئ بات اس کی سمجھ میں نہیں آ رہی تھی.. 
وہ اب صدمے اور دکھ سے دروازے کو دیکھتے ہوے
سینے پر ہاتھ مارتے اللہ اللہ کہنے لگا.ترک بعض دفع شدید غم میں یہی کرتے تھے.
اچھا.! میرا فون تو رجسٹر کر دو.."
لڑکا چند لمحے غمگین اور کینہ پرور نگاہوں سے انہیں دیکھتا رہا..
پھر ہاتھ آگے بڑھایا..! 
پسپورت..?(پاسپورٹ?)
ان دونوں نے ایک دوسرے کو تشویش سے دیکھا..
یہ پاسپورٹ صرف فون کے لیے مانگ رہا ہے..?
نہیں! یہ ہمیں اندر کرواے گا-ڈی جے اسے پاسپورٹ نہیں دینا ورنہ اتنا لمبا جرمانہ کرواے گا کہ ہمارا ٹرپ کینسل ہو جاے گا.
پاسپورٹ نہیں ہے ہمارے پاس ڈی جے نے زور سے ہاتھ ہلا کر کہا.
وہ حیا سے چند قدم پیچھے تھی. 
پسپورت.? اس نے بازو آگے بڑھا کر پاسپورٹ مانگا.
کہا نا..! نہیں ہے ہمارے پاس. حیا نے جھنجھلا کر کہا.. 
"پاسپورٹ کے بغیر رجسٹر نہیں کر سکتے"..
ہم آپکو کچھ پیسے اوپر..
"ایمبولینس... ایمبولینس..."
"وہ اپنی دھن میں کہے جا رہی تھی.. جب لڑکا ایک دم گبھرا کر چلا اٹھا.اس نے لڑکے کی نگاہوں کے تعاقب میں دیکھا..
"حیا.."حیا..ڈی جے دونوں ھاتھوں سے سر تھامے اوندھی گرتی جا رہی تھی.
اس کی آنکھیں بند ہو رہی تھیں. اور وہ تکلیف کی شدت سے دبے دبے انداز میں چلا رہی تھی..
لڑکا بھاگ کر کاؤنٹر کے پیچھے سے نکلا..
ڈی جے.. ڈی جے... وہ ہزیانی انداز میں چیختے ہؤے اس کی طرف لپکی...
اس کی عینک پھسل کر فرش پر جا گری..
ڈی جے.. ڈی جے... وہ اس پر جھکی دیوانہ وار اسے پکار پکار رہی تھی..
ڈی جے کی آنکھیں بند ہو رہی تھیں. ساری دنیا اندیھرے میں ڈوب رہی تھی..
ہسپتال کا وہ کاریڈور سرد اور ویران تھا.
سنگ مر مر کا فرش مردے کی طرح سفید تھا.
بے جان,ٹھنڈا وہ بلکل سیدھی بیٹھی ہوئ تھی..
ساکت,جامد کسی غیر مرئ نقطے پر نگاہیں جماے. آنسو اس کی نگاہوں سے ٹوٹ ٹوٹ کر گر رہے تھے..
جب سے ڈی جے آپریشن تھیٹر میں تھی. وہ یونہی بیٹھی تھی.. آن ڈیوٹی ڈاکٹر نے بتایا تھا کہ خدیجہ کے برین میں berry aneurysm تھی. ایک پھولی ہوئ اینورزم جو پھٹ گئ تھی..
ڈاکٹر نے بتایا تھا کہ اینورزم والے مریض میں 80سے90% کی موت ہو جا تی ہے..
کم از کم %۱۰ امید تھی اور وہ اسی امید کو تھامے بینچ پر بیٹھی تھی..
اس کا ذہن بلکل مفلوج ہو چکا تھا. جیسے بھاری سل سے سر کو کچل دیا گیا ہو.. 
پھر بھی اس نے کہیں سے ہمت کر کے ڈی جےکے گھر والوں کو فون کر دیا تھا..
اس کے بھاپ, بھائوں کی پریشانی وہ کچھ سمجھ نہیں پا رہی تھی..
اس کے ابو ترکی آنے کی کوشش کر رہے تھے.. اور بھائ جو فرانس میں مقیم تھا وہ بھی رات تک پہنچ جاے گا.. بس اس کی سمجھ میں یہی بات آئ تھی..
جب اسے کوئ فون کرتا وہ بھیگی آواز میں یہی کہ پاتی کہ ڈاکٹر ابھی باہر نہیں آے...
" پتا نہیں..
اب وہ یونہی نڈھال سی بینچ پر بیٹھی تھی.آنسو اس کی آنکھوں سے ٹوٹ ٹوٹ کر گر رہے تھے...
دس فیصد کی امید..
اس نے گود میں رکھے موبائل کو دیکھا اور کپکپاتے ھاتھوں سے اٹھا کر پیغام لکھنے لگی..
میں ٹاقسم فرسٹ ایڈ ہاسپٹل میں ہوں.ڈی جے کو برین ہیمرج ہوا ہے.. "فورا آجاؤ.." لکھ کر جہان کو بیجھ دیا...
"ان کے درمیان اگر کوئ تلخی تھی بھی تو اسے یاد نہیں تھی یاد تھی تو صرف خدیجہ.."
اذان کا وقت ہوا وہ اٹھی اور وضو کر کے واپس آئ.
کوٹ اس نے وہیں بینچ پر چھوڑ دیا اور اب نیلی قمیض کی آستین گیلے بازو سے نیچے کر رہی تھی. چہرہ, ھاتھ,اور ماتھے سے بال گیلے تھے.
" کیا زندگی اتنی جلدی گزر جاتی ہے" 
اس سے بھی جلدی گزر جاتی ہے. چند روز قبل دو لڑکیوں کی گفتگو اسے یاد آئ تھی.
وہ سلام پھیر کر تشہد کی حالت میں بیٹھی تھی.اس کا چہرہ بھیگا ہوا تھا یہ وضو کا پانی نہیں تھا.
وہ دونوں ہتھیلیاں ملاے انہیں دیکھ رہی تھی.
"میرے اللہ.. وہ بے آواز رو رہی تھی. آپ کو پتا ہے.. "ڈی جے میری بیسٹ فرینڈ ہے.." سب سے اچھی... زارا, ارم سے بھی اچھی دوست.. اسے ہم سے مت چھینیں.. اس کے بوڑھے ماں, باپ مر جائیں گے.. آپ ہمیں ایسے مت آزمائیں. آپ میری ڈی جے واپس کر دیں. میری دس فیصد امید کو ہارنے مت دیں.
وہ چہرہ جھکاے لرز رہی تھی. اس کا نیلا شیفون کا دوپٹہ سر سے پھسل کر گردن پر آرکا تھا..
میں بہت اکیلی ہوں. میرے پاس کوئ نہیں آپکے سوا. کوئ گھنٹی نہیں بجانے کو.. کوئ دروازہ نہیں کھٹکھٹا نے کو.. ہلانے کیلئے کوئ زنجیر نہیں..
میری پہلی امید بھی آپ اور آخری بھی آپ ہی ہیں. اگر آپ نے میری مدد نہ کی تو کوئ بھی نہیں کر سکے گا.
اگر آپ نے چھین لیا تو کوئ دے نہیں سکے گا. اور اگر آپ نے دے دیا تو کوئ روک نہیں سکے گا. آپ ہمیں ڈی جے کی زندگی واپس لوٹا دیں. اس کو ٹھیک کر دیں..
اس کے دل پر گرتا ہر آنسو اندر اندر ہی داغ لگا رہا تھا.
جلتا,سلگتا ہوا داغ...
اس کا دل ہر پل زخمی ہوتا جا رہا تھا..
اللہ تعالہ میرے پاس کوئ نہیں ہے.. جس سے مانگ سکوں اور کوئ نہیں ہے جو مجھے دے سکے..
میری ایک دعا مان لیں.. میں زندگی بھر کچھ نہیں مانگوں گی.
میں کوئ خواہش نہیں کروں گی. آپ ہمیں ڈی جے کی زندگی لو ٹا دیں..
میں ہر وہ کام کروں گی جو آپکو پسند ہے.. 
میں آپکو کبھی ناراض نہیں کروں گی.. پلیز ڈی جے کو ٹھیک کر دیں..
وہ ھاتھوں میں چہرہ چھپا کر رو دی تھی. 
وہ زندگی میں کبھی اتنی اکیلی نہیں ہوئ تھی جتنا اکیلا آج خود کو محسوس کر رہی تھی..
کتنے گھنٹے گزرے, کتنی گڑیاں بیتی.. اسے کچھ یاد نہیں تھا. بس اندیھرا چھا رہا تھا. جب اسنے تیز قدموں سے جہان کو اپنی طرف آتے دیکھا..
وہ کھڑی بھی نہیں ہوئ بس گردن موڑے اسے آتے دیکھے گئ..
تم نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا.? کیا ہوا اسے کب ہوا..?
وہ پھولی سانسوں کے درمیان کہتا اس کے ساتھ بیٹھا...
وہ اتنا ہی پریشان تھا جتنی وہ...!
بیری اینورزم پھٹ گیا تھا. جس کے نتیجے میں سب ارکنائڈ ہیمبرج.... جو اسے سمجھ آیا وہ بتاتی گئ...
بتا کر وہ پھر سے دونوں ھاتھوں میں سر دئیے رونے لگی..
"اچھا تم ایسے نہیں رؤو"وہ ٹھیک ہو جا ئے گی..
" تم نے کچھ کھایا ہے.?" 
تم مجھے ٹھیک نہیں لگ رہی." 
"رکو میں کچھ کھانے کو لے کر آتا ہوں.." پھر وہ رکا نہیں تیزی سے چلا گیا.. واپسی پر اس کے ھاتھ میں سینڈوچ کا پیکٹ اور جوس کی بوتل تھی..
"کچھ کھا لو..." اس نے سینڈوچ نکال کر اسکی طرف بڑھا دیا..
"مجھ سے نہیں کھایا جائے گا." وہ نفی میں سر ہلانے لگی..
اسی پل آپریشن تھیٹر کا دروازہ کھلا..! وہ جلدی سے اٹھی..
"میں دیکھتا ہوں." اسے وہیں رکنے کا کہہ کر وہ آگے گیا اور باہر آنے والے سرجن سے ترک میں بات کرنے لگا.وہ بے قراری سے کھڑی ان دونوں کو بات کرتے دیکھی گئ..
"اوکے..اوکے..!" وہ سر ہلا کر بات ختم کر کے واپس آیا..
" کیا کہہ رہا تھا.? ڈاکٹر. ! "ڈی جے کیسی ہے.?
"وہ آرام سے ہے ابھی اسے شفٹ کر دیں گے.مگر تم ٹھیک نہیں ہو.! ادھر بیٹھو.!" اسے واپس بینچ پر بٹھا کر اس نے سینڈوچ اسکی طرف بڑھایا..! یہ کھاؤ.."
"اوہ جہان"! وہ ٹھیک ہے..
میری دعا قبول ہوگئ..!
اس نے نڈھال سے انداز میں سر دیوار کے ساتھ ٹکا دیا..! 
کچھ کھا لو حیا...! اس کے اصرار پر اس نے بمشکل آدھا سینڈوچ کھایا.اور تھوڑا سا جوس پی کر بوتل پرے ہٹا دی.."
جہان! میری دعا رد نہیں ہوتی...." اور میں نے اتنی دعا کی تھی.. یہ کیسے ہو سکتا کہ کوئ اتنی دعا کرے... اور پوری نہ ہو...? 
وہ کھوئے کھوئے انداز میں دور خلاؤں میں دیکھتے کہہ رہی تھی..."
"حیا! تھوڑا سا اور کھا لو'
ورنہ تمہاری طبیعت خراب ہو جائے گی.." 
نہیں تمہیں پتا میں نے کبھی اتنی شدت سے دعا نہیں مانگی. جتنی آج مانگی تو پھر پوری کیسے نہ ہوتی..? اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے..
وہ خاموشی سے اسے دیکھے گیا.اب وہ مزید کچھ نہیں کھائے گی! اسے اندازہ ہو چکا تھا..
وہ اب سامنے دیوار کو دیکھتے ہوئے ' بہتے آنسؤں کے درمیان 'کہہ رہی تھی.
انسان کو کوئ چیز نہیں ہرا سکتی جب تک وہ خود ہار نہ مان لے.اور میں نے آج امید نہیں ہاری تھی جہان"
" مگر بعض دفعہ قسمت ہرا دیا کرتی ہے" 
وہ بہت دھیرے سے بولا تو وہ چونکی.! 
جہان اسے ہی دیکھ رہا تھا. اس کا دل ڈوب کر ابھرا.
"جہان.?"
حیا... ! ڈی جے کی ڈیتھ ہوگئ.." کاریڈور کا سناٹا یکدم ٹوٹا. پیچھے کسی اسٹریچر کے پہیوں کی چرچرانے کی آواز آئ تھی.
وہ بنا پلک جھپکے جہان کو دیکھ رہی تھی.ہاتھ میں پکڑی ٹوٹی عینک پر گرفت سخت ہو گئ تھی..
پسینے میں بھیگی ہتھیلی سے عینک کے شیشے پر دھند چھاتی جا رہی تھی..
ٹھنڈی,گیلی دھند
"میری فرینڈز مجھے ڈی جے کہتی ہیں اور چونکہ آپ میری فرینڈ نہیں تو خدیجہ ہی کہیں.."
شام کی دھندھلی سی چادر نے پودے استنبول کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا. دوپہر خوب بارش ہوئ تھی آسمان کھل کر برسا تھا ایسا لگتا تھا جیسے ساری دنیا بہہ جائے گی.سب ڈوب جائے گا.وہ تب سے اسی طرح پھپھو کےلاؤنج میں صوفے پر بیٹھی پاؤں اوپر کیے روئے جا رہی تھی.
" ایویں ہی سامان گم جائے.?" ہم نے اتنا سامان ہینڈ کیری میں نہیں اٹھانا..
اس کی آنکھوں کے سامنے ڈی جے کا آخری چہرہ جیسے ثبت ہوگیا تھا. وہ منظر ہر جگہ چھایا تھا کہ کچھ نظر نہیں آرہا تھا
بے جان چہرہ جیسے سارا خون نچڑ گیا ہو. بند آنکھیں ' اسٹریچر پر ڈالا بے حس و حرکت وجود.. 
وہ اس منظر میں قید ہوگئ تھی...
" ایویں برف نہ پڑے..' خود تو برف باری دیکھ دیکھ کر اکتا چکے ہیں..
"ہمیں تو دیکھنے دیں..'
اسی رات ڈی جے کا بھائ پہنچ گیا تھا" اور دو دن تک کلیئرنس مل گئ تھی.
آج دوپہر وہ میت لے کر پاکستان کے لئے رووانہ ہو گئے تھے. تب اسے جہان اور پھپھو اپنے ساتھ لے آئے تھے.وہ اس وقت سے یونہی بیٹھی تھی. نہ کھاتی تھی. نہ پیتی تھی. بس روئے چلی جا رہی تھی.
"سامنے والے کمرے میں ہینڈسم سے لڑکے رہتے ہیں میں نے انہیں آتے جاتے دیکھا ہے.."
سارے دن میں اگر اس نے کوئ بات کی بھی تھی تو یہ کہ مجھے پاکستان جانا ہے. میری سیٹ بک کروا دیں مجھے ادھر نہیں رہنا.." 
کچن میں پھپھو اور جہان کھڑ ے یہی بات کر رہے تھے.ان کی دبی دبی آوازیں ادھر بھی پہنچ رہی تھیں مگر وہ نہیں سن رہی تھی.اس کی دلچسپی ہر شے میں ختم ہوچکی تھی..
مگر میں کیسے جا سکتا ہوں اس کے ساتھ."?
"اور وہ اکیلی کیسے جا سکتی ہے?اسے کل سے بخار ہے.حالت دیکھی تم نے اسکی..?میں اسے اکیلا بھیجھوں تو کیا منہ دیکھاؤں گی اپنے بھائ کو...?
مگر ممی! آپ کو ابا کا پتا نا..?انہیں علم ہوا تو..?
انہیں کہیں گے تم انقرہ گئے ہو.."
"مگر ممی! میرا جانا ضروری تو...."
جہان سکندر جو میں نے کہا وہ تم نے سن لیا" تم صبح حیا کے ساتھ جا رہے ہو.."
وہ اسی طرح گھٹنوں میں سر دیئے رو رہی تھی.ارد گرد کیا ہو رہا تھا.اسے نہیں پتا تھا..
اس کا دل بری طرح ٹوٹا تھا. اس کی دلچسپی ہر شے سے ختم ہو چکی تھی..
**

" ﭘﺎﮎ ﭨﺎﻭﺭﺯ ، ﺍﯾﺸﯿﺎ ﮐﺎ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﺍ ﺷﺎﭘﻨﮓ ﻣﺎﻝ ....
ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﻮﻥ ﺳﺎ ﺟﺎ ﮐﺮ ﭼﯿﮏ ﮐﺮ ﻟﯿﻨﺎ ﮨﮯ، ﺗﻬﻮﮌﺍ ﺳﺎ ﺷﻮ ﻣﺎﺭﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺣﺮﺝ ﮨﯽ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ؟ "
ﺟﺐ ﭘﻬﭙﻬﻮ ﻧﮯ ﺁ ﮐﺮ ﯾﮧ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺟﮩﺎﻥ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﻪ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ، ﭼﺎﮨﮯ ﺟﺘﻨﮯ ﺩﻥ ﺑﻬﯽ ﻟﮕﯿﮟ ،ﺗﻮ ﺑﻬﯽ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﻮﺉ ﺟﻮﺍﺏ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺎ ﺗﻬﺎ . ﺍﺳﮯ ﻓﯽ ﺍﻟﺤﺎﻝ ﺟﮩﺎﻥ ﺳﮑﻨﺪﺭ ﺳﮯ ﮐﻮﺉ ﺳﺮﻭﮐﺎﺭ ﻧﮧ ﺗﻬﺎ .
" ﻭﯾﺴﮯ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﭘﻬﭙﻬﻮ ﮐﺎ ﮐﻮﺉ ﮨﯿﻨﮉﺳﻢ ﺑﯿﭩﺎ ﻭﯾﭩﺎ ﮨﮯ ؟ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﭼﻤﮏ ﺩﻣﮏ ﺩﯾﮑﻪ ﮐﺮ ﯾﮧ ﺧﯿﺎﻝ ﺁﯾﺎ ".
ﮨﺮ ﭼﯿﺰ ﺟﯿﺴﮯ ﺳﻠﻮ ﻣﻮﺷﻦ ﻣﯿﮟ ﮨﻮ ﺭﮨﯽ ﺗﻬﯽ . ﺁﻭﺍﺯﯾﮟ ﺑﻨﺪ ﮨﻮﮔﺊ ﺗﻬﯿﮟ . ﺻﺮﻑ ﺣﺮﮐﺎﺕ ﺩﮐﻬﺎﺉ ﺩﮮ ﺭﮨﯽ ﺗﻬﯿﮟ . ﻭﮦ ﺍﺗﺎﺗﺮﮎ ﺍﯾﺮﭘﻮﺭﭦ ﭘﮧ ﭼﻬﻮﭨﮯ ﭼﻬﻮﭨﮯ ﻗﺪﻡ ﺍﭨﻬﺎﺗﯽ ﭼﻞ ﺭﮨﯽ ﺗﻬﯽ . ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﻪ ﮐﻮﺉ ﺍﻭﺭ ﺑﻬﯽ ﭼﻞ ﺭﮨﺎ ﺗﻬﺎ ﻣﮕﺮ ﻭﮦ ﺍﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﮑﻪ ﺭﮨﯽ ﺗﻬﯽ .
" ﺭﮨﻨﮯ ﺩﻭ ﺣﯿﺎ ! ﻣﺠﻬﮯ ﺍﺑﻬﯽ ﻭﺭﻟﮉ ﮐﭗ ﮐﺎ ﻏﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻬﻮﻻ ".
ﺟﮩﺎﺯ ﺩﻫﯿﺮﮮ ﺩﻫﯿﺮﮮ ﻣﺤﻮ ﭘﺮﻭﺍﺯ ﺗﻬﺎ . ﮐﻬﮍﮐﯽ ﮐﮯ ﭘﺎﺭ ﻣﺮﻣﺮﺍ ﮐﮯ ﺳﻤﻨﺪﺭ ﭘﮧ ﺑﺎﺩﻝ ﺗﯿﺮﺗﮯ ﺩﮐﻬﺎﺉ ﺩﮮ ﺭﮨﮯ ﺗﻬﮯ . ﻧﺮﻡ ﺭﻭﺉ ﮐﮯ ﮔﺎﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺳﺮﻣﺊ ﺑﺎﺩﻝ . ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﺗﻨﺎ ﭘﺎﻧﯽ ﻟﺪﺍ ﺗﻬﺎ ﺟﺘﻨﺎ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﻬﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺗﻬﺎ . ﯾﺎ ﺷﺎﯾﺪ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺁﻧﺴﻮ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺗﻬﮯ .
" ﺍﺗﻨﮯ ﮨﯿﻨﮉ ﺳﻢ ﻟﮍﮐﻮﮞ ﮐﯽ ﺑﮩﻦ ﺑﻨﻨﮯ ﭘﮧ ﮐﻢ ﺍﺯﮐﻢ ﻣﯿﮟ ﺗﯿﺎﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﮞ ، ﯾﮧ ﺑﻬﺎﺉ ﭼﺎﺭﮦ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﮨﯽ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﮨﻮ ".
ﺍﺱ ﻧﮯ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺍﯾﺮﭘﻮﺭﭦ ﭘﮧ ﺍﺑﺎ ﮐﮯ ﺳﯿﻨﮯ ﺳﮯ ﻟﮕﺘﮯ،ﺑﮯ ﺗﺤﺎﺷﺎ ﺭﻭﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﯿﺎ . ﻭﮦ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺳﺮ ﺗﻬﭙﮑﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﭽﻪ ﮐﮩﮧ ﺭﮨﮯ ﺗﻬﮯ . ﮐﭽﻪ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﮧ ﺑﺲ ﺍﺏ ﻭﮦ ﺍﻥ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺭﮨﮯ ﮔﯽ،ﺍﺏ ﻭﮦ ﺍﺱ ﮐﻮ ﻭﺍﭘﺲ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻬﯿﺠﯿﮟ ﮔﮯ .
" ﭼﯿﺰﯾﮟ ﻭﻗﺘﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﯿﮟ ، ﭨﻮﭦ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ، ﺑﮑﻬﺮ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ ، ﺭﻭﯾﮯ ﺩﺍﺋﻤﯽ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ، ﺻﺪﯾﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﺍﺛﺮ ﭼﻬﻮﮌ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ . ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﻮ ﮐﻮﺉ ﭼﯿﺰ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﺮﺍ ﺳﮑﺘﯽ ﺟﺐ ﺗﮏ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺧﻮﺩ ﮨﺎﺭ ﻧﮧ ﻣﺎﻥ ﻟﮯ . ﺍﻭﺭ ﺗﻢ ﻧﮯ ﺁﺝ ﺍﯾﮏ ﭨﻮﭨﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺟﻨﺠﺮ ﺑﺮﯾﮉﮨﺎﺅﺱ ﺳﮯ ﮨﺎﺭ ﻣﺎﻥ ﻟﯽ ؟ "
ﻭﮦ ﺍﻣﺎﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﻪ ﮈﯼ ﺟﮯ ﮐﮯ ﮔﻬﺮ ﻣﯿﮟ ﺗﻬﯽ . ﻭﮨﺎﮞ ﮨﺮ ﻃﺮﻑ ﮐﮩﺮﺍﻡ ﻣﭽﺎ ﺗﻬﺎ . ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍﻣﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﮩﻨﻮﮞ ﮐﺎ ﺑﻠﮏ ﺑﻠﮏ ﮐﺮ ﺭﻭﻧﺎ،ﻣﺎﺗﻢ،ﺑﯿﻦ ،ﺳﺴﮑﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯﯾﮟ ،ﭼﯿﺨﯿﮟ .... ﺟﻮﺍﻥ ﻣﻮﺕ ﺗﻬﯽ ﺍﻭﺭ ﮔﻮﯾﺎ ﭘﻮﺭﯼ ﺩﻧﯿﺎ ﺍﺩﻫﺮ ﺍﮐﭩﻬﯽ ﮨﻮﮔﺊ ﺗﻬﯽ، ﻭﮦ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺩﻻﺳﺎ ﻧﮧ ﺩﮮ ﺳﮑﯽ، ﺑﺲ ﺍﯾﮏ ﮐﻮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭩﻬﯽ ﺑﮯ ﺁﻭﺍﺯ ﺭﻭﺗﯽ ﮔﺊ .
" ﺍﭼﻬﺎ ﭘﻬﺮ ﺳﻮﭺ ﻟﻮ ..... ﻭﮦ ﺍﺏ ﺑﻬﯽ ﺷﺎﺩﯼ ﺷﺪﮦ ﮨﮯ؟ "
ﻧﻤﺎﺯ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﭘﭽﻬﻠﮯ ﺭﻭﺯ ﮨﯽ ﺍﺩﺍ ﮐﯽ ﺟﺎﭼﮑﯽ ﺗﻬﯽ ﻣﮕﺮ ﻏﻢ ﺍﺑﻬﯽ ﺑﻬﯽ ﭘﺮﺍﻧﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺍ ﺗﻬﺎ . ﺧﺪﯾﺠﮧ ﮐﯽ ﺑﮩﻨﯿﮟ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﭘﻮﭼﻬﺘﯽ ﺗﻬﯿﮟ ، ﻣﮕﺮ ﻭﮦ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﮐﭽﻪ ﺑﺘﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﺎ ﺭﮨﯽ ﺗﻬﯽ . ﺳﺎﺭﯼ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﺧﺘﻢ ﮨﻮ ﮔﺊ ﺗﻬﯿﮟ . ﺩﻧﯿﺎ ﺑﺮﻑ ﮐﺎ ﮈﻫﯿﺮ ﺑﻦ ﮔﺊ ﺗﻬﯽ . ﻣﺮﻣﺮﺍ ﮐﮯ ﺳﻤﻨﺪﺭ ﭘﮧ ﺗﯿﺮﺗﯽ ﺑﺮﻑ ﮐﺎ ﮈﻫﯿﺮ .
" ﮐﯿﺎ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺍﺗﻨﯽ ﺟﻠﺪﯼ ﮔﺰﺭ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ؟ "
" ﺍﺱ ﺳﮯ ﺑﻬﯽ ﺟﻠﺪﯼ ﮔﺰﺭ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ . ﮨﻤﯿﮟ ﭘﺘﺎ ﺑﻬﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﻠﺘﺎ ﺍﻭﺭ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﻭﻗﺖ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ .. ﺍﺧﺘﺘﺎﻡ .... ﺩﯼ ﺍﯾﻨﮉ "!....
ﺳﺮﺥ ﺻﻨﻮﺑﺮ ﮐﮯ ﺍﻭﻧﭽﮯ ﺩﺭﺧﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﮨﻮﺍ ﺳﺮﺳﺮﺍﺗﯽ ﮨﻮﺉ ﮔﺰﺭ ﺭﮨﯽ ﺗﻬﯽ . ﻭﮨﺎﮞ ﮨﺮ ﺳﻮ ﮔﻬﻨﺎ ﺟﻨﮕﻞ ﺗﻬﺎ . ﺍﻭﻧﭽﮯ ﺩﺭﺧﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﭘﺘﮯ ﺳﻨﮩﺮﯼ ﺩﻫﻮﭖ ﮐﻮ ﻣﭩﯽ ﺗﮏ ﭘﮩﻨﭽﻨﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺘﮯ ﺗﻬﮯ . ﺩﻭﭘﮩﺮ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﺑﻬﯽ ﺍﺩﻫﺮ ﭨﻬﻨﮉﯼ ، ﻣﯿﭩﻬﯽ ﺳﯽ ﭼﻬﺎﯾﺎ ﺗﻬﯽ .
ﺑﮩﺎﺭﮮ ﺍﺳﯽ ﭼﻬﺎﯾﺎ ﻣﯿﮟ ﺍﺩﻫﺮ ﺍﺩﻫﺮ ﺑﻬﺎﮔﺘﯽ ﺑﺒﻮﻝ ﮐﮯ ﺳﻔﯿﺪ ﭘﻬﻮﻝ ﺗﻮﮌ ﺗﻮﮌ ﮐﺮ ﭨﻮﮐﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﺑﻬﺮ ﺭﮨﯽ ﺗﻬﯽ . ﻋﺎﺋﺸﮯ ﮔﻞ ﺍﯾﮏ ﺩﺭﺧﺖ ﺗﻠﮯ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﮧ ﺑﯿﭩﻬﯽ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﭘﻬﯿﻠﮯ ﮐﭙﮍﮮ ﭘﮧ ﺭﮐﻬﮯ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﺳﺮﺥ ﺟﻨﮕﻠﯽ ﭘﻬﻮﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﺩﻫﺎﮔﮯ ﻣﯿﮟ ﭘﺮﻭ ﺭﮨﯽ ﺗﻬﯽ . ﻗﺮﯾﺐ ﮨﯽ ﺍﯾﮏ ﺩﺭﺧﺖ ﮐﺎ ﮐﭩﺎ ﮨﻮﺍ ﺗﻨﺎ ﮔﺮﺍ ﭘﮍﺍ ﺗﻬﺎ .
ﺟﺐ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﭘﻬﻮﻝ ﺟﻤﻊ ﮨﻮﮔﺌﮯ ﺗﻮ ﻭﮦ ﻋﺎﺋﺸﮯ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺁﺉ .
" ﻋﺎﺋﺸﮯ "..... ﺳﻔﯿﺪ ﭘﻬﻮﻟﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﻬﺮﯼ ﭨﻮﮐﺮﯼ ﺍﺱ
ﮐﭙﮍﮮ ﭘﮧ ﺍﯾﮏ ﻃﺮﻑ ﺍﻧﮉﯾﻠﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﺱ ﻧﮯ ﭘﮑﺎﺭﺍ
" ﮨﻮﮞ " ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﮨﺎﺗﻪ ﺳﮯ ﺩﻫﺎﮔﮯ ﻣﯿﮟ ﺳﺮﺥ ﭘﻬﻮﻝ ﭘﺮﻭﺗﮯ ،ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮨﺎﺗﻪ ﺳﮯ ﺳﻔﯿﺪ ﭘﻬﻮﻟﻮﮞ ﮐﺎ ﮈﻫﯿﺮ ﻧﺌﮯ ﭘﻬﻮﻟﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﻃﺮﻑ ﺳﻤﯿﭧ ﺩﯾﺎ .
" ﺳﻔﯿﺮ ﺗﻢ ﺳﮯ ﻟﮍ ﮐﯿﻮﮞ ﺭﮨﺎ ﺗﻬﺎ ؟ " ﻭﮦ ﺧﺎﻟﯽ ﭨﻮﮐﺮﯼ ﺭﮐﻪ ﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺁﻟﺘﯽ ﭘﺎﻟﺘﯽ ﻣﺎﺭ ﮐﮯ ﯾﻮﮞ ﺑﯿﭩﻪ ﮔﺊ ﮐﮧ ﺍﺏ ﺍﻥ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﭘﻬﻮﻟﻮﮞ ﻭﺍﻻ ﮐﭙﮍﺍ ﺑﭽﻬﺎ ﺗﻬﺎ .
ﻟﮍ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﺎ ﺗﻬﺎ، ﺍﭘﻨﯽ ﺑﺎﺕ ﺳﻤﺠﻬﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﺗﻬﺎ ".
" ﻣﮕﺮ ﻭﮦ ﺍﻭﻧﭽﺎ ﺍﻭﻧﭽﺎ ﮐﯿﻮﮞ ﺑﻮﻝ ﺭﮨﺎ ﺗﻬﺎ؟ " ﺑﮩﺎﺭﮮ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮨﺎﺗﻬﻮﮞ ﭘﮧ ﭼﮩﺮﯼ ﮔﺮﺍﺋﮯ ﺍﻟﺠﻬﯽ ﺍﻟﺠﻬﯽ ﺳﯽ ﭘﻮﭼﻪ ﺭﮨﯽ ﺗﻬﯽ . ﮔﺮﺩﻥ ﺟﻬﮑﺎ ﮐﺮ ﺳﻮﺉ ﭘﻬﻮﻝ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻟﺘﯽ ﻋﺎﺋﺸﮯ ﻧﮯ ﻣﺴﮑﺮﺍ ﮐﺮ ﺳﺮ ﺟﻬﭩﮑﺎ .
" ﺟﺐ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻤﺠﻬﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﯾﻮﻧﮩﯽ ﺍﻭﻧﭽﺎ ﺍﻭﻧﭽﺎ ﺑﻮﻟﺘﺎ ﮨﮯ . ﺗﻤﮩﯿﮟ ﭘﺘﺎ ﮨﮯ ﻧﺎ، ﻭﮦ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﯿﺮﻧﭩﺲ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺷﺎﺩﯼ ﺍﺱ ﮐﯽ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻧﯽ ﮐﺰﻥ ﺳﮯ ﻃﮯ ﮐﺮ ﺩﯼ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺷﺎﺩﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ".
" ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ؟ "
" ﺍﺱ ﮐﯽ ﻣﺮﺿﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﮔﯽ "! ﺍﺱ ﻧﮯ ﺳﻮﺉ ﮐﻮ ﭘﻬﻮﻝ ﮐﯽ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﻧﮑﺎﻝ ﮐﺮ ﮐﻬﯿﻨﭽﺎ . ﺩﻫﺎﮔﺎ ﮐﻬﯿﻨﭽﺘﺎ ﭼﻼ ﺁﯾﺎ . ﭘﻬﻮﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﻟﮍﯼ ﻟﻤﺒﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﺟﺎ ﺭﮨﯽ ﺗﻬﯽ .
" ﺷﺎﺩﯼ ﻣﺮﺿﯽ ﺳﮯ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﻧﺎ ؟ "
" ﮨﺎﮞ "! ﻭﮦ ﺍﺏ ﺑﮩﺎﺭﮮ ﮐﮯ ﺳﻔﯿﺪ ﭘﻬﻮﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﮨﺎﺗﻪ ﺳﮯ ﺍﺩﻫﺮ ﺍﺩﻫﺮ ﭨﭩﻮﻝ ﺭﮨﯽ ﺗﻬﯽ .
" ﭘﻬﺮ ﺟﺐ ﻣﯿﮟ ﺑﮍﯼ ﮨﻮﮞ ﮔﯽ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻋﺒﺪﺍﻟﺮﺣﻤﻦ ' ﺳﮯ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﺮﻭﮞ ﮔﯽ ".
ﭘﻬﻮﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﺳﻤﯿﭩﺘﺎ ﺍﺱ ﮐﺎ ﮨﺎﺗﻪ ﺭﮐﺎ . ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺧﻔﮕﯽ ﺑﻬﺮﯼ ﻧﮕﺎﮦ ﺑﮩﺎﺭﮮ ﭘﮧ ﮈﺍﻟﯽ .
" ﺑﺮﯼ ﺑﺎﺕ ﺑﮩﺎﺭﮮ ﮔﻞ ! ﺍﭼﻬﯽ ﻟﮍﮐﯿﺎﮞ ﮨﻮﮞ ﮨﺮ ﺑﺎﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﻟﯿﺘﯿﮟ ".
" ﻣﮕﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻋﺒﺪﺍﻟﺮﺣﻤﻦ ' ﮐﻮ ﮐﮩﮧ ﺩﯾﺎ ﺗﻬﺎ ".
ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﺩﻡ ﭨﻬﭩﮏ ﮐﺮ ﺭﮎ ﮔﺊ ﺍﻭﺭ ﺑﮯ ﯾﻘﯿﻨﯽ ﺳﮯ ﺍﺳﮯ ﺩﯾﮑﻬﺎ .
" ﮐﯿﺎ ﮐﮩﺎ ﺗﻢ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ؟ "
" ﯾﮩﯽ ﮐﮧ ﺟﺐ ﻣﯿﮟ ﺑﮍﯼ ﮨﻮﮞ ﮔﯽ ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﻭﮦ ﻣﺠﻪ ﺳﮯ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﺮﮮ ﮔﺎ؟ "
" ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﯿﺎ ﮐﮩﺎ؟ "
" ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ، ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﯾﺴﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﺲ ﻧﮯ ﺳﮑﻬﺎﺉ ؟ "
" ﭘﻬﺮ ؟ " ﻭﮦ ﺳﺎﻧﺲ ﺭﻭﮐﮯ ﺳﻦ ﺭﮨﯽ ﺗﻬﯽ .
" ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ..... ﻋﺎ ..... ﺋﺸﮯ ﮔﻞ ﻧﮯ "! ﺭﻭﺍﻧﯽ ﺳﮯ ﺑﻮﻟﺘﯽ ﺑﮩﺎﺭﮮ ﯾﮏ ﻟﺨﺖ ﺍﭨﮑﯽ .
" ﮐﯿﺎ؟ " ﻭﮦ ﺷﺸﺪﺭ ﺭﮦ ﮔﺊ ". ﺗﻢ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺟﻬﻮﭦ ﺑﻮﻻ؟ ﺗﻢ ﻧﮯ ﻭﻋﺪﮦ ﮐﯿﺎ ﺗﻬﺎ ﮐﮧ ﺍﺏ ﺗﻢ ﺟﻬﻮﭦ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻮﻟﻮﮔﯽ . ﺧﺪﺍﯾﺎ ! ﻭﮦ ﮐﯿﺎ ﺳﻮﭼﺘﺎ ﮨﻮﮔﺎ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ "
ﺍﺱ ﻧﮯ ﺗﺎﺳﻒ ﺳﮯ ﻣﺎﺗﻬﮯ ﮐﻮ ﭼﻬﻮﺍ . ﺑﮩﺎﺭﮮ ﻧﮯ ﻻﭘﺮﻭﺍﺉ ﺳﮯ ﺷﺎﻧﮯ ﺍﭼﮑﺎﺋﮯ .
" ﻣﮕﺮ ﺍﺳﮯ ﭘﺘﺎ ﭼﻞ ﮔﯿﺎ ﺗﻬﺎ . ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ، ﻋﺎﺋﺸﮯ ﮔﻞ ﺍﭼﻬﯽ ﻟﮍﮐﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﻬﮯ ﭘﺘﺎ ﮨﮯ ، ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﭽﻪ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮩﺎ ﮨﻮﮔﺎ ".
ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﭘﺮ ﻋﺎﺋﺸﮯ ﮐﮯ ﺗﻨﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﻋﺼﺎﺏ ﮈﻫﯿﻠﮯ ﭘﮍ ﮔﺌﮯ . ﺍﯾﮏ ﺑﮯ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﺳﯽ ﻣﺴﮑﺮﺍﮨﭧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭼﮩﺮﮮ ﭘﮧ ﺑﮑﻬﺮ ﮔﺊ . ﻭﮦ ﮨﻮﻟﮯ ﺳﮯ ﺳﺮ ﺟﻬﭩﮏ ﮐﺮ ﭘﻬﻮﻝ ﺍﮌﻫﺎﻧﮯ ﻟﮕﯽ .
" ﻣﮕﺮ ﺗﻢ ﻧﮯ ﺟﻬﻮﭦ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﻬﻮﮌﺍ ﻧﺎﮞ ".
" ﻭﻋﺪﮦ، ﺍﺏ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻮﻟﻮﮞ ﮔﯽ ".
" ﮨﺮ ﺩﻓﻌﮧ ﺍﻟﻠﻪ ﺳﮯ ﻭﻋﺪﮦ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﻮ . ﻭﮦ ﮨﺮ ﺩﻓﻌﮧ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺍﻭﺭ ﻣﻮﻗﻊ ﺩﮮ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ ، ﻣﮕﺮ ﺗﻢ ﭘﻬﺮ ﻭﻋﺪﮦ ﺗﻮﮌ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﻮ . ﺍﺗﻨﯽ ﺩﻓﻌﮧ ﻭﻋﺪﮦ ﺗﻮﮌﻭ ﮔﯽ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻭﻋﺪﻭﮞ ﮐﺎ ﺍﻋﺘﺒﺎﺭ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﻬﻮﮌ ﺩﮮ ﮔﺎ ".
" ﺁﺋﻨﺪﮦ ﻣﯿﮟ ﺳﭻ ﺑﻮﻟﻮﮞ ﮔﯽ ، ﺍﺏ ﮐﯽ ﺑﺎﺭ ﻣﻀﺒﻮﻁ ﻭﺍﻻ ﻭﻋﺪﮦ ".
" ﭼﻠﻮ ﭨﻬﯿﮏ ﮨﮯ ". ﻭﮦ ﻣﺴﮑﺮﺍ ﺩﯼ ". ﺍﺏ ﺗﻢ ﻧﮯ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺳﭻ ﺑﻮﻟﻨﺎ ﮨﮯ، ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺟﺐ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺑﮩﺖ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺟﻬﻮﭦ ﺑﻮﻟﺘﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﯾﮏ ﻭﻗﺖ ﺍﯾﺴﺎ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﭻ ﮐﺎ ﺑﻬﯽ ﺍﻋﺘﺒﺎﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﺘﺎ ".
ﭘﺮﻧﺪﻭﮞ ﮐﺎ ﻏﻮﻝ ﭘﻬﮍﭘﻬﮍﺍﺗﺎ ﮨﻮﺍ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺍﻭﭘﺮ ﺳﮯ ﮔﺰﺭﺍ . ﻋﺎﺋﺸﮯ ﻧﮯ ﮔﺮﺩﻥ ﺍﭨﻬﺎ ﮐﺮ ﺍﻭﭘﺮ ﺩﯾﮑﻬﺎ . ﻭﮦ ﭘﺮﻧﺪﮮ ﯾﻘﯿﻨﺎ " ﭘﻮﺭﮮ ﺑﺒﻮﮎ ﺍﺩﺍ ﮐﺎ ﭼﮑﺮ ﮐﺎﭦ ﮐﺮ ﺍﺏ ﺳﻤﻨﺪﺭ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻣﺤﻮ ﭘﺮﻭﺍﺯ ﺗﻬﮯ .
" ﻋﺎﺋﺸﮯ ﮔﻞ "! ﭼﻨﺪ ﻟﻤﺤﮯ ،ﺍﻥ ﭘﺮﻧﺪﻭﮞ ﮐﮯ ﭘﻨﮑﻪ ﮐﯽ ﻣﺎﻧﻨﺪ ﺍﮌ ﮐﺮ ﺑﺎﺩﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮔﻢ ﮨﻮﮔﺌﮯ ﺗﻮ ﺑﮩﺎﺭﮮ ﻧﮯ ﭘﮑﺎﺭﺍ .
" ﺑﻮﻟﻮ ". ﻭﮦ ﮔﺮﺩﻥ ﺟﻬﮑﺎﺋﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻟﮍﯼ ﻣﯿﮟ ﺍﺏ ﺳﺮﺥ ﭘﻬﻮﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﺁﮔﮯ ﺳﻔﯿﺪ ﭘﻬﻮﻝ ﭘﺮﻭ ﺭﮨﯽ ﺗﻬﯽ .
" ﺗﻢ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺳﭻ ﺑﻮﻟﺘﯽ ﮨﻮ ﻧﺎ، ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺕ ﺑﺘﺎﺅ ﮔﯽ ".
ﺑﮩﺎﺭﮮ ﺫﺭﺍ ﮈﺭﺗﮯ ﮈﺭﺗﮯ ﮐﮩﮧ ﺭﮨﯽ ﺗﻬﯽ .
" ﭘﻮﭼﻬﻮ ".
" ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﻪ ﮐﯽ ﺑﮩﻦ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﮐﮩﮧ ﺭﮨﯽ ﺗﻬﯽ ﮐﮧ ﺑﺒﻮﮎ ﺍﺩﺍ ﮐﯽ ﭘﻮﻟﯿﺲ ﺑﮩﺖ ﺑﺮﯼ ﮨﮯ . ﻭﮦ ﻋﺒﺪﺍﻟﺮﺣﻤﻦ ' ﭘﺎﺷﺎ ﮐﻮ ﮐﭽﻪ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮩﺘﯽ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺟﺰﯾﺮﮮ ﮐﺎ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﺮﺍ ﺁﺩﻣﯽ ﮨﮯ؟ " ﻭﮦ ﺭﮎ ﺭﮎ ﮐﺮ ،ﺗﺬﺑﺬﺏ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﻪ ﺭﮨﯽ ﺗﻬﯽ .
ﻋﺎﺋﺸﮯ ﺳﺎﻧﺲ ﺭﻭﮐﮯ ﺍﺳﮯ ﺩﯾﮑﻪ ﺭﮨﯽ ﺗﻬﯽ . ﺑﮩﺎﺭﮮ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﮨﻮﺉ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺫﺭﺍ ﺧﻔﮕﯽ ﺳﮯ ﺳﺮ ﺟﻬﭩﮑﺎ .
" ﻧﮩﯿﮟ ، ﻭﮦ ﺑﮩﺖ ﺍﭼﻬﺎ ﺁﺩﻣﯽ ﮨﮯ . ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﻪ ﮐﯽ ﺑﮩﻦ ﮐﻮ ﮐﯿﺎ ﭘﺘﺎ ؟ ﺍﻭﺭ ﺗﻢ ﻧﮯ ﮐﺴﯽ ﺳﮯ ﺟﺎ ﮐﺮ ﻋﺒﺪﺍﻟﺮﺣﻤﻦ ' ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺉ ﺑﺎﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﻧﯽ . ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﭘﻨﺎ ﻭﻋﺪﮦ ﯾﺎﺩ ﮨﮯ ﻧﺎ؟ "
ﺑﮩﺎﺭﮮ ﻧﮯ ﮔﺮﺩﻥ ﺍﺛﺒﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﮨﻼ ﺩﯼ .
" ﻣﺠﻬﮯ ﯾﺎﺩ ﮨﮯ ".
ﻋﺎﺋﺸﮯ ﺩﻫﺎﮔﺎ ﺩﺍﻧﺖ ﺳﮯ ﺗﻮﮌ ﮐﺮ ﻟﮍﯼ ﮐﮯ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺳﺮﻭﮞ ﮐﯽ ﺁﭘﺲ ﻣﯿﮟ ﮔﺮﮦ ﻟﮕﺎﻧﮯ ﻟﮕﯽ . ﺍﺱ ﮐﮯ ﭼﮩﺮﮮ ﭘﮧ ﻭﺍﺿﺢ ﺍﺩﺍﺳﯽ ﺑﮑﻬﺮﯼ ﺗﻬﯽ .
ﻭﮦ ﺳﮧ ﭘﮩﺮ ﻣﯿﮟ ﺧﺪﯾﺠﮧ ﮐﮯ ﮔﻬﺮ ﺳﮯ ﻭﺍﭘﺲ ﺁﺉ ﺗﻬﯽ . ﮐﭽﻪ ﺩﯾﺮ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﻟﯿﭩﯽ ﺭﮨﯽ . ﺳﺮ ﺩﺭﺩ ﺳﮯ ﭘﻬﭩﺎ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﺗﻬﺎ، ﺑﺨﺎﺭ ﺑﻬﯽ ﮨﻮ ﺭﮨﺎ ﺗﻬﺎ ﺍﻭﺭ ﻧﯿﻨﺪ ﺗﻬﯽ ﮐﮧ ﺁ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﯽ ﺗﻬﯽ . ﺑﻨﺪ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﮔﻬﭩﻦ ﮨﻮﻧﮯ ﻟﮕﯽ ﺗﻮ ﻭﮦ ﮔﻬﺒﺮﺍ ﮐﺮ ﺍﭨﻬﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﻬﮍﮐﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﭘﺮﺩﮮ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮨﺎﺗﻬﻮﮞ ﺳﮯ ﮨﭩﺎﺋﮯ . ﺳﺎﻣﻨﮯ ﻻﻥ ﻣﯿﮟ ﮐﺮﺳﯿﻮﮞ ﭘﮧ ﺍﺑﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻣﺎﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﻪ ﺗﺎﯾﺎ ﻓﺮﻗﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﺻﺎﺋﻤﮧ ﺗﺎﺉ ﭼﺎﺋﮯ ﭘﯿﺘﮯ ﻧﻈﺮ ﺁ ﺭﮨﮯ ﺗﻬﮯ . ﻣﯿﺰ ﭘﮧ ﺍﺳﻨﯿﮑﺲ ﺍﻭﺭ ﺩﯾﮕﺮ ﻟﻮﺍﺯﻣﺎﺕ ﺭﮐﻬﮯ ﺗﻬﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﻟﻮﮒ ﺑﺎﺗﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﮕﻦ ﺗﻬﮯ . ﺻﺎﺋﻤﮧ ﺗﺎﺉ ﺑﮩﺖ ﺳﻠﯿﻘﮯ ﺳﮯ ﺳﺮ ﭘﮧ ﮈﻭﭘﭩﺎ ﺟﻤﺎﺋﮯ ﻓﺎﻃﻤﮧ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﭼﮩﺮﮦ ﮐﯿﮯ ﮐﭽﻪ ﮐﮩﮧ ﺭﮨﯽ ﺗﻬﯿﮟ . ﻓﺎﻃﻤﮧ ، ﺗﺎﯾﺎ ﻓﺮﻗﺎﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺳﺮ ﭘﮧ ﮈﻭﭘﭩﺎ ﻟﮯ ﻟﯿﺘﯽ ﺗﻬﯿﮟ ﺟﻮ ﭘﯿﭽﻬﮯ ﮐﯿﭽﺮ ﺗﮏ ﮈﻫﻠﮏ ﺟﺎﺗﺎ ﺗﻬﺎ . ﺍﻥ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﻬﯿﮟ ﺣﯿﺎ ﺟﯿﺴﯽ ﺗﻬﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻟﻮﮒ ﮐﮩﺘﮯ ﺗﻬﮯ ﮐﮧ ﺑﯿﺲ ﺳﺎﻝ ﺑﻌﺪ ﺣﯿﺎ ﺍﯾﺴﯽ ﮨﯽ ﮨﻮﮔﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺏ ﻭﮦ ﺳﻮﭼﺘﯽ ﺗﻬﯽ ﮐﮧ ﭘﺘﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﯿﺲ ﺳﺎﻝ ﺑﻌﺪ ﻭﮦ ﮨﻮﮔﯽ ﺑﻬﯽ ﯾﺎ ﻧﮩﯿﮟ .
ﻭﮦ ﺷﺎﻭﺭ ﻟﮯ ﮐﺮ ، ﺳﺎﺩﮦ ﭨﺮﺍﺅﺯﺭ ﭘﮧ ﭨﺨﻨﻮﮞ ﮐﻮ ﭼﻬﻮﺗﯽ ﺳﻔﯿﺪ ﻟﻤﺒﯽ ﻗﻤﯿﺾ ﭘﮩﻨﮯ،ﮨﻢ ﺭﻧﮓ ﮈﻭﭘﭩﺎ ﺳﺮ ﭘﮧ ﻟﭙﯿﭩﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﺁﺉ . ﭘﮩﻠﮯ ﻋﺼﺮ ﮐﯽ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﻫﯽ ﮐﮧ ﻧﻤﺎﺯﯾﮟ ﺍﻥ ﺗﯿﻦ ﺩﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﻗﺮﯾﺒﺎ " ﺳﺎﺭﯼ ﭘﮍﻩ ﺭﮨﯽ ﺗﻬﯽ . ﺧﺪﯾﺠﮧ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺑﮩﺖ ﮈﻫﯿﺮ ﺳﺎﺭﯼ ﺩﻋﺎﺋﯿﮟ ﮐﺮ ﮐﮯ ﻭﮦ ﺍﭨﻬﯽ ﺍﻭﺭ ﭘﻬﺮ ﮈﻭﭘﭩﺎ ﺷﺎﻧﻮﮞ ﭘﮧ ﭘﻬﯿﻼﺋﮯ ﮐﻬﻠﮯ ﺑﺎﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﮐﻬﻼ ﭼﻬﻮﮌﮮ ﮐﭽﻦ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺁﮔﺊ .
ﻓﺎﻃﻤﮧ ﻓﺮﯾﺞ ﺳﮯ ﮐﭽﻪ ﻧﮑﺎﻝ ﺭﮨﯽ ﺗﻬﯿﮟ . ﺍﺳﮯ ﺁﺗﮯ ﺩﯾﮑﻬﺎ ﺗﻮ ﻓﺮﯾﺞ ﮐﺎ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﺑﻨﺪ ﮐﺮ ﮐﮯ ﻣﺴﮑﺮﺍﺗﯽ ﮨﻮﺉ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺁﺋﯿﮟ . ﺷﺎﻧﮯ ﺗﮏ ﺁﺗﮯ ﺑﺎﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﮐﯿﭽﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﻧﺪﻫﮯ ، ﻭﮦ ﻋﺎﻡ ﺣﻠﯿﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﻬﯽ ﺑﮩﺖ ﺟﺎﺫﺏ ﻧﻈﺮ ﻟﮕﺘﯽ ﺗﻬﯿﮟ .
" ﻣﯿﺮﺍ ﺑﯿﭩﺎ ﺍﭨﻪ ﮔﯿﺎ ؟ ' ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﮔﻠﮯ ﺳﮯ ﻟﮕﺎﯾﺎ، ﭘﻬﺮ ﻣﺎﺗﻬﺎ ﭼﻮﻣﺎ .
" ﺟﯽ "! ﻭﮦ ﻣﺴﮑﺮﺍﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﯽ ﺗﻬﯽ ﻣﮕﺮ ﺁﻧﮑﻬﯿﮟ ﺑﻬﯿﮓ ﮔﺌﯿﮟ .
" ﺑﺲ ﺻﺒﺮ ﮐﺮﻭ . ﺍﻟﻠﻪ ﮐﯽ ﭼﯿﺰ ﺗﻬﯽ، ﺍﻟﻠﻪ ﻧﮯ ﻟﮯ ﻟﯽ ".
" ﺻﺒﺮ ﺍﺗﻨﺎ ﺁﺳﺎﻥ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﻮ ﮐﻮﺉ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﻮ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﻮ ﻧﮧ ﮐﮩﺘﺎ ﺍﻣﺎﮞ ! ﮨﺮ ﺷﺨﺺ ﺧﻮﺩ ﮨﯽ ﮐﺮ ﻟﯿﺘﺎ . ﻣﮕﺮ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﺮﻭﮞ ﮔﯽ ".
" ﮔﮉ ! ﺍﭼﻬﺎ ﺑﺎﮨﺮ ﺁﺟﺎﺅ، ﺗﺎﯾﺎ ﺗﺎﺉ ﻣﻠﻨﮯ ﺁﺋﮯ ﮨﯿﮟ ".
" ﻣﺠﻪ ﺳﮯ ؟ "
" ﮨﺎﮞ ﺍﻭﺭ ﺟﮩﺎﻥ ﺳﮯ ﺑﻬﯽ ".
" ﺍﻭ ﮨﺎﮞ ، ﮐﺪﻫﺮ ﮨﮯ ﻭﮦ ؟ " ﺍﺳﮯ ﯾﺎﺩ ﺁﯾﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺑﻬﯽ ﺳﺎﺗﻪ ﺁﯾﺎ ﺗﻬﺎ .
" ﺑﺲ ﮐﻬﺎﻧﺎ ﮐﻬﺎ ﮐﺮ ﺳﻮ ﮔﯿﺎ ﺗﻬﺎ ، ﻇﺎﮨﺮ ﮨﮯ ﺗﻬﮑﺎ ﮨﻮﺍ ﺗﻬﺎ، ﺍﺑﻬﯽ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﻬﺎ ﺗﻮ ﺍﭨﻪ ﭼﮑﺎ ﺗﻬﺎ، ﮐﮩﮧ ﺭﮨﺎ ﺗﻬﺎ ﺑﺲ ﺁ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ . ﻭﯾﺴﮯ ﺳﺒﯿﻦ ﮐﺎ ﺑﯿﭩﺎ ﺫﺭﺍ "..... ﻭﮦ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺟﻬﺠﮑﯿﮟ . ﺫﺭﺍ ﭘﺮﺍﺅﮈ ﺳﺎ ﮨﮯ ، ﻧﮩﯿﮟ ؟ "
" ﻧﮩﯿﮟ ، ﻭﮦ ﺷﺮﻭﻉ ﻣﯿﮟ ﯾﻮﻧﮩﯽ ﺭﯾﺰﺭﻭ ﺳﺎ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ ".
" ﺍﻭﺭ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ؟ "
ﺣﯿﺎ ﻧﮯ ﮔﮩﺮﯼ ﺳﺎﻧﺲ ﻟﯽ .
" ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﺑﻬﯽ ﺍﯾﺴﺎ ﮨﯽ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ . ﺍﺱ ﺷﺮﻭﻉ ﺍﻭﺭ ﺑﻌﺪ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﮐﺒﻬﯽ ﮐﺒﻬﯽ ﻧﺎﺭﻣﻞ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ".
ﻭﮦ ﺑﺎﮨﺮ ﺁﺉ ﺗﻮ ﺍﺳﮯ ﺩﯾﮑﻪ ﮐﺮ ﺗﺎﯾﺎ ﻓﺮﻗﺎﻥ ﻣﺴﮑﺮﺍﺋﮯ . ﻭﮦ ﺟﻬﮏ ﮐﺮ ﺍﻥ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﻠﯽ .
" ﺍﺗﻨﮯ ﻋﺮﺻﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﻼ ﮨﻮﮞ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﯿﭩﯽ ﺳﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺑﻬﯽ ﺍﯾﺴﮯ ﻣﻮﻗﻊ ﭘﺮ . ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺩﻭﺳﺖ ﮐﺎ ﺳﻦ ﮐﺮ ﺑﮩﺖ ﺍﻓﺴﻮﺱ ﮨﻮﺍ، ﺍﻟﻠﻪ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻣﻐﻔﺮﺕ ﮐﺮﮮ ".
" ﺁﻣﯿﻦ "! ﻭﮦ ﺳﺮ ﮐﮯ ﺍﺛﺒﺎﺕ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﻪ ﺗﻌﺰﯾﺖ ﻭﺻﻮﻝ ﮐﺮﺗﯽ ﮐﺮﺳﯽ ﮐﻬﯿﻨﭻ ﮐﺮ ﺑﯿﭩﻬﯽ .
" ﮨﻮﺍ ﮐﯿﺎ ﺗﻬﺎ ﺍﺳﮯ ؟ ﺻﺎﺋﻤﮧ ﺗﺎﺉ ﻧﮯ ﺗﺎﺳﻒ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﻬﺎ .
" ﺑﺮﯾﻦ ﮨﯿﻤﺒﺮﺝ "
ﭼﻨﺪ ﻟﻤﺤﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻣﻼﻝ ﺫﺩﮦ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﭼﻬﺎﮔﺊ ، ﺟﺴﮯ ﺑﺮﺁﻣﺪﮮ ﮐﺎ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﮐﻬﻠﻨﮯ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﻧﮯ ﭼﯿﺮﺍ . ﻭﮨﺎﮞ ﺳﮯ ﻓﺎﻃﻤﮧ ﺑﺎﮨﺮ ﺁﺉ ﺗﻬﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻋﻘﺐ ﻣﯿﮟ ﺟﮩﺎﻥ ﺑﻬﯽ ﺗﻬﺎ .
ﺍﺱ ﻧﮯ ﺳﯿﺎﮦ ﭨﺮﺍﺅﺯﺭ ﺟﺲ ﮐﮯ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﭘﮩﻠﻮﺅﮞ ﭘﮧ ﻟﻤﺒﯽ ﺳﻔﯿﺪ ﺩﻫﺎﺭﯼ ﺗﻬﯽ ، ﮐﮯ ﺍﻭﭘﺮ ﺁﺩﻫﮯ ﺑﺎﺯﻭﺅﮞ ﻭﺍﻟﯽ ﺳﺮﻣﺊ ﭨﯽ ﺷﺮﭦ ﭘﮩﻦ ﺭﮐﻬﯽ ﺗﻬﯽ . ﺁﻧﮑﻬﯿﮟ ﺧﻤﺎﺭ ﺁﻟﻮﺩ ﺗﻬﯿﮟ،ﺟﯿﺴﮯ ﺍﺑﻬﯽ ﺳﻮ ﮐﺮ ﺍﭨﻬﺎ ﮨﻮ . ﭼﮩﺮﮦ ﺍﻭﺭ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﺎﻝ ﮔﯿﻠﮯ ﺗﻬﮯ . ﻭﮦ ﺷﺎﯾﺪ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﮯ ﭼﻬﯿﻨﭩﮯ ﻣﺎﺭ ﮐﺮ ﺗﻮﻟﯿﮯ ﺳﮯ ﻣﻨﮧ ﺧﺸﮏ ﮐﯿﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﮨﯽ ﺑﺎﮨﺮ ﺁﮔﯿﺎ ﺗﻬﺎ . ﺍﺳﮯ ﺁﺗﮯ ﺩﯾﮑﻪ ﮐﺮ ﺳﺐ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻣﺘﻮﺟﮧ ﮨﻮﮔﺌﮯ . ﻭﮦ ﻻﻥ ﮐﮯ ﺩﮨﺎﻧﮯ ﭘﮧ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺗﻮ ﻟﻤﺤﮯ ﺑﻬﺮ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺫﺭﺍ ﺗﺬﺑﺬﺏ ﺳﮯ ﮔﻬﺎﺱ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﻬﺎ ، ﭘﻬﺮ ﺍﯾﮏ ﻧﮕﺎﮦ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺑﯿﭩﻬﮯ ﺍﻓﺮﺍﺩ ﮐﮯ ﻗﺪﻣﻮﮞ ﭘﮧ ﮈﺍﻟﯽ ﺟﻮ ﺟﻮﺗﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﻘﯿﺪ ﺗﻬﮯ، ﭘﻬﺮ ﺫﺭﺍ ﺟﻬﺠﮏ ﮐﺮ ﮔﻬﺎﺱ ﭘﮧ ﭼﻠﺘﺎ ﮨﻮﺍ ﺍﻥ ﺗﮏ ﺁﯾﺎ .
ﺣﯿﺎ ﺟﺎﻧﺘﯽ ﺗﻬﯽ ﮐﮧ ﻭﮦ ﮐﯿﻮﮞ ﺟﻬﺠﮑﺎ ﮨﮯ . ﺗﺮﮐﯽ ﻣﯿﮟ ﮔﻬﺎﺱ ﭘﮧ ﭼﻠﻨﺎ ﺳﺨﺖ ﻣﻌﯿﻮﺏ ﺳﻤﺠﻬﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﺗﻬﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﻮﻗﻊ ﻣﻠﻨﮯ ﭘﮧ ﻭﮦ ﺍﻭﺭ ﮈﯼ ﺟﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺗﺴﮑﯿﻦ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮔﻬﺎﺱ ﭘﮧ ﺿﺮﻭﺭ ﺟﻮﺗﻮﮞ ﺳﮯ ﭼﻞ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﻬﺘﯽ ﺗﻬﯿﮟ .
" ﺷﮑﺮ ﮨﮯ، ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺷﮑﻞ ﺗﻮ ﺩﯾﮑﻬﯽ ﮨﻢ ﻧﮯ ". ﺍﺱ ﺳﮯ ﻣﻞ ﮐﺮ، ﺭﺳﻤﯽ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﺣﺎﻝ ﺍﺣﻮﺍﻝ ﭘﻮﭼﻪ ﮐﺮ ﺗﺎﯾﺎ ﻓﺮﻗﺎﻥ ﻧﮯ ﮔﻬﻨﯽ ﻣﻮﻧﭽﻬﻮﮞ ﺗﻠﮯ ﻣﺴﮑﺮﺍﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎ ﺗﻬﺎ .
" ﺗﻬﯿﻨﮑﺲ "! ﻭﮦ ﺭﺳﻤﺎ " ﮐﺒﻬﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﺴﮑﺮﺍﯾﺎ ، ﺍﻭﺭ ﺍﺳﯽ ﺳﺮﺩ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﺘﺎ ﺣﯿﺎ ﮐﮯ ﻣﻘﺎﺑﻞ ﮐﺮﺳﯽ ﮐﻬﯿﻨﭻ ﮐﺮ ﺑﯿﭩﻬﺎ . ﻭﮦ ﯾﮩﺎﮞ ﺁﻧﮯ ﭘﮧ ﻗﻄﻌﺎ " ﺭﺍﺿﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﻬﺎ،ﻭﮦ ﺟﺎﻧﺘﯽ ﺗﻬﯽ .
" ﺳﺒﯿﻦ ﻧﮯ ﮔﻮﯾﺎ ﻗﺴﻢ ﮐﻬﺎ ﺭﮐﻬﯽ ﺗﻬﯽ ﮐﮧ ﮨﻤﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﯽ ﺷﮑﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﮑﻬﻨﮯ ﺩﮮ ﮔﯽ . ﺍﺳﮯ ﮐﯿﺴﮯ ﺧﯿﺎﻝ ﺁﯾﺎ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺑﻬﯿﺠﻨﮯ ﮐﺎ ؟ " ﺍﺱ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺩﯾﮯ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﮐﺎ ﺍﺛﺮ ﺗﻬﺎ ﮐﮧ ﺗﺎﯾﺎ ﻓﺮﻗﺎﻥ ﻣﺴﮑﺮﺍﺗﮯ ﻟﮩﺠﮯ ﮐﮯ ﭘﯿﭽﻬﮯ ﺫﺭﺍ ﺳﯽ ﭼﺒﻬﻦ ﺩﺭ ﺁﺉ .
" ﻣﻤﯽ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﻬﺘﯿﺠﯽ ﮐﻮ ﺍﮐﯿﻠﮯ ﺑﻬﯿﺠﻨﺎ ﺁﮐﻮﺭﮈ ﻟﮓ ﺭﮨﺎﺗﻬﺎ ، ﺳﻮ ﻣﺠﻬﮯ ﺁﻧﺎ ﭘﮍﺍ ". ﺑﻐﯿﺮ ﮐﺴﯽ ﻟﮕﯽ ﻟﭙﭩﯽ ﮐﮯ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﮧ ﮈﺍﻻ . ﻣﻨﮕﯿﺘﺮ ، ﻣﻨﮑﻮﺣﮧ ﮐﮯ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﺗﻮ ﺩﻭﺭ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ،ﺍﺱ ﻧﮯ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﯼ ﮐﺰﻥ ﺗﮏ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮩﺎ ﺗﻬﺎ، ﮔﻮﯾﺎ ﺭﺷﺘﻮﮞ ﮐﯽ ﺣﺪﻭﺩ ﻭﺍﺿﺢ ﮐﯿﮟ .
ﺳﻠﯿﻤﺎﻥ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﮯ ﻣﺎﺗﻬﮯ ﭘﮧ ﺫﺭﺍ ﺳﯽ ﺷﮑﻦ ﺍﺑﻬﺮ ﺁﺉ ، ﺍﻭﺭ ﺻﺎﺋﻤﮧ ﺗﺎﺉ ﮐﮯ ﻟﺒﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﻣﻌﻨﯽ ﺧﯿﺰ ﻣﺴﮑﺮﺍﮨﭧ ﻧﮯ ﭼﻬﻮ ﻟﯿﺎ . ﺣﯿﺎ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﻻ ﺗﻌﻠﻖ ﺳﮯ ﻻﻥ ﮐﯽ ﮐﯿﺎﺭﯾﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﮔﮯ ﭘﻬﻮﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﻬﻨﮯ ﻟﮕﯽ . ﻭﮦ ﺍﻭﺭ ﮈﯼ ﺟﮯ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﭨﺎﻗﺴﻢ ﭘﺎﺭﮎ ﺳﮯ ﭘﻬﻮﻝ ﭼﺮﺍﻧﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﻬﮯ ﻣﮕﺮ ﻭﮦ ﮐﺌﯿﺮ ﭨﯿﮑﺮ ﺍﻥ ﭘﮧ ﺑﮍﯼ ﺳﺨﺖ ﻧﮕﺎﮦ ﺭﮐﻬﺘﺎ ﺗﻬﺎ .
" ﺍﻭﺭ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﻣﻤﯽ ﮐﺐ ﺁﺋﯿﮟ ﮔﯽ ؟ " ﺳﻠﯿﻤﺎﻥ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﭼﺎﺋﮯ ﮐﺎ ﮔﻬﻮﻧﭧ ﺑﻬﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﭘﻮﭼﻬﺎ .
" ﻣﻤﯽ ﮐﯽ ﺑﻬﺘﯿﺠﯽ ﺍﻭﺭ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﻣﻤﯽ ". ﺍﺱ ﮐﮯ ﮔﻬﺮ ﮐﮯ ﻣﺮﺩ ﺁﺝ ﺑﮩﺖ ﺗﻮﻝ ﺗﻮﻝ ﮐﺮ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﺍﺩﺍ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﺗﻬﮯ .
" ﮐﭽﻪ ﮐﮩﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﺎ ". ﺍﺱ ﻧﮯ ﺷﺎﻧﮯ ﺍﭼﮑﺎ ﺩﯾﮯ .
" ﺟﮩﺎﻥ ! ﺟﻮﺱ ﻟﻮ ﮔﮯ ﯾﺎ ﭼﺎﺋﮯ ،ﯾﺎ ﭘﻬﺮ ﮐﺎﻓﯽ؟ " ﻓﺎﻃﻤﮧ ﻧﮯ ﭼﺎﺋﮯ ﮐﮯ ﺧﺎﻟﯽ ﮐﭗ ﭨﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﻬﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ ﻣﺨﺎﻃﺐ ﮐﯿﺎ . ﻭﮦ ﻣﺮﺩﻭﮞ ﮐﯽ ﺑﮧ ﻧﺴﺒﺖ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺩﺍﻣﺎﺩ ﻭﺍﻻ ﭘﺮﻭﭨﻮﮐﻮﻝ ﺩﮮ ﺭﮨﯽ ﺗﻬﯿﮟ .
" ﺑﺲ ﺍﯾﭙﻞ ﭨﯽ ﺑﮩﺖ ﮨﮯ ". ﺍﺱ ﻧﮯ ﺭﻭﺍﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﮧ ﺩﯾﺎ ﻣﮕﺮ ﻓﺎﻃﻤﮧ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﻬﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﺑﻬﺮﺗﯽ ﻧﺎﺳﻤﺠﻬﯽ ﺩﯾﮑﻪ ﮐﺮ ﻟﻤﺤﮯ ﺑﻬﺮ ﮐﻮ ﻣﺘﺬﺑﺬﺏ ﮨﻮﺍ، ﭘﻬﺮ ﻓﻮﺭﺍ " ﺗﺼﺤﯿﺢ ﮐﯽ .
" ﺑﺲ ﭼﺎﺋﮯ "
ﻓﺎﻃﻤﮧ ﻧﮯ ﻣﺴﮑﺮﺍ ﮐﺮ ﺳﺮ ﮨﻼﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﭨﺮﮮ ﺍﭨﻬﺎﺋﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺑﮍﻩ ﮔﺌﯿﮟ .
" ﺗﻮ ﺑﯿﭩﺎ ! ﺁﭖ ﮐﯽ ﺍﺳﭩﮉﯾﺰ ﮐﻤﭙﻠﯿﭧ ﮨﻮﮔﺌﯿﮟ ؟ " ﺻﺎﺋﻤﮧ ﺗﺎﺉ ﺍﺏ ﺑﮩﺖ ﻣﯿﭩﻬﮯ ﻟﮩﺠﮯ ﻣﯿﮟ ﭘﻮﭼﻪ ﺭﮨﯽ ﺗﻬﯿﮟ . ﻭﮦ ﮨﺮ ﮐﺴﯽ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﺗﻨﯽ ﻣﯿﭩﻬﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ ﺗﻬﯿﮟ ، ﮐﭽﻪ ﺗﻬﺎ ﺟﻮ ﺍﺳﮯ ﭼﻮﻧﮑﺎ ﮔﯿﺎ .
" ﺟﯽ ،ﺍﺏ ﺗﻮ ﮐﺎﻓﯽ ﻋﺮﺻﮧ ﮨﻮﮔﯿﺎ ".
" ﭘﻬﺮ ﮐﯿﺎ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﻮ ﺁﭖ ؟ "
" ﻣﯿﺮﺍ ﺍﺳﺘﻘﻼﻝ ﺍﺳﭩﺮﯾﭧ ﭘﮧ ﺍﯾﮏ ﺭﯾﺴﭩﻮﺭﻧﭧ ﮨﮯ ﻭﮨﯽ ﺩﯾﮑﻬﺘﺎ ﮨﻮﮞ ....
ﺟﻮﺍﺑﺎ " ﺻﺎﺋﻤﮧ ﺗﺎﺉ ﺫﺭﺍ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮨﻮﺋﯿﮟ، ﺍﻟﺒﺘﮧ ﺗﺎﯾﺎ ﻓﺮﻗﺎﻥ ﻧﮯ ﻣﺘﺎﻧﺖ ﺳﮯ ﺳﺮ ﮨﻼﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺗﺎﺛﺮﺍﺕ ﭼﻬﭙﺎ ﻟﯿﮯ . ﻭﮦ ﺟﺎﻧﺘﯽ ﺗﻬﯽ ﮐﮧ ﻭﮦ ﻟﻮﮒ ﺍﺳﺘﻘﻼﻝ ﺍﺳﭩﺮﯾﭧ ﮐﯽ ﻗﯿﻤﺘﯽ ﺯﻣﯿﻦ ﮐﯽ ﺍﮨﻤﯿﺖ ﮐﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻤﺠﻬﺘﮯ ،ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﻣﺘﺎﺛﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﮔﻮ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﯽ ﻻﺗﻌﻠﻘﯽ ﺗﻮﮌﻧﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﺎﮨﺘﯽ ﺗﻬﯽ ، ﭘﻬﺮ ﺑﻬﯽ ﺩﻫﯿﺮﮮ ﺳﮯ ﺑﻮﻟﯽ ﺗﻬﯽ .
" ﺍﺳﺘﻘﻼﻝ ﺍﺳﭩﺮﯾﭧ ﭘﮧ ﺍﯾﮏ ﺭﯾﺴﭩﻮﺭﻧﭧ ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﮨﮯ ، ﻻﮨﻮﺭ ﮐﯽ ﺍﯾﻢ ﺍﯾﻢ ﻋﺎﻟﻢ ﺭﻭﮈ ﭘﮧ ﺩﻭ ﺭﯾﺴﭩﻮﺭﻧﭩﺲ ". ﻭﮦ ﮐﮩﮧ ﮐﺮ ﮐﯿﺎﺭﯾﻮﮞ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﻬﻨﮯ ﻟﮕﯽ ".
" ﺍﻭ ﺍﭼﻬﺎ ..... ﮔﮉ "! ﺍﻥ ﮐﮯ ﺗﺎﺛﺮﺍﺕ ﻓﻮﺭﺍ " ﮨﯽ ﺑﺪﻟﮯ ﺗﻬﮯ .
" ﻭﺍﻟﺪ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﯽ ﻃﺒﯿﻌﺖ ﮐﯿﺴﯽ ﮨﮯ ﺍﺏ ؟ "
" ﺟﯽ ﭨﻬﯿﮏ ﮨﯿﮟ ". ﻭﮦ ﻣﺨﺘﺼﺮ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﮮ ﺭﮨﺎ ﺗﻬﺎ . ﺗﺐ ﮨﯽ ﻓﺎﻃﻤﮧ ﺍﺱ ﮐﯽ ﭼﺎﺋﮯ ﮐﺎ ﻣﮓ ﭨﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﻟﯿﮯ ﭼﻠﯽ ﺁﺋﯿﮟ .
" ﮐﭽﻪ ﻟﻮ ﻧﺎ ﺑﯿﭩﺎ ! ﺗﻢ ﻧﮯ ﮐﭽﻪ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﯿﺎ ".
" ﺟﯽ، ﻣﯿﮟ ﻟﯿﺘﺎ ﮨﻮﮞ ". ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﮓ ﺍﭨﻬﺎﻟﯿﺎ ﻣﮕﺮ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﮐﺴﯽ ﺷﮯ ﮐﻮ ﭼﻬﻮﺍ ﺗﮏ ﻧﮩﯿﮟ .
ﺗﺎﯾﺎﻓﺮﻗﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﺻﺎﺋﻤﮧ ﺗﺎﺉ ﺍﺩﻫﺮ ﺍﺩﻫﺮ ﮐﯽ ﭼﻬﻮﭨﯽ ﻣﻮﭨﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺟﻠﺪ ﮨﯽ ﺍﭨﻪ ﮐﺮ ﭼﻠﮯ ﮔﺌﮯ . ﺍﻟﺒﺘﮧ ﺟﺎﺗﮯ ﻭﻗﺖ ﻭﮦ ﺟﮩﺎﻥ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺩﯾﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺁﺝ ﺭﺍﺕ ﮐﮯ ﮈﻧﺮ ﭘﮧ ﺳﺐ ﮐﻮ ﻣﺪﻋﻮ ﮐﺮ ﮐﮯ ﮔﺌﮯ ﺗﻬﮯ .
" ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﭼﻬﭩﯽ ﮐﺐ ﺗﮏ ﮨﮯ ﭘﻬﺮ ؟ " ﺍﻥ ﮐﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺳﻠﯿﻤﺎﻥ ﺻﺎﺣﺐ ﺟﮩﺎﻥ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﻬﻨﮯ ﻟﮕﮯ .
" ﺑﺲ ﯾﮩﯽ ﭼﺎﺭ ﺩﻥ ".
" ﭘﻬﺮ ﺗﻢ ﺍﭘﻨﯽ ﻓﻼﺋﭧ ﺑﮏ ﮐﺮﻭﺍﻧﺎ ﺗﻮ ﺣﯿﺎ ﮐﯽ ﻣﺖ ﮐﺮﻭﺍﻧﺎ . ﻭﮦ ﻭﺍﭘﺲ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ ". ﺣﯿﺎ ﻧﮯ ﭼﻮﻧﮏ ﮐﺮ ﺍﺑﺎ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﻬﺎ .
" ﺍﻭﮐﮯ ! " ﺟﮩﺎﻥ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺳﺮﺳﺮﯼ ﻧﻈﺮ ﺍﺱ ﭘﮧ ﮈﺍﻟﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺷﺎﻧﮯ ﺍﭼﮑﺎ ﺩﯾﮯ .
" ﻣﮕﺮ ﺍﺑﺎ ..... ﮨﻤﺎﺭﺍ ﮐﺎﻧﭩﺮﯾﮑﭧ ". ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﺩﻡ ﺑﮩﺖ ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﮨﻮﮔﺊ ﺗﻬﯽ .
" ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﻣﯿﮉﯾﮑﻞ ﺳﺮﭨﯿﻔﮑﯿﭧ ﺑﻨﻮﺍ ﺩﻭﮞ ﮔﺎ . ﮐﺎﻧﭩﺮﯾﮑﭧ ﮐﯽ ﻓﮑﺮ ﭼﻬﻮﮌﻭ . ﺍﺏ ﻣﯿﺮﺍ ﻣﺰﯾﺪ ﺣﻮﺻﻠﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺑﺎﮨﺮ ﺑﻬﯿﺠﻨﮯ ﮐﺎ . ﺍﺱ ﺑﭽﯽ ﮐﺎ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﺑﻬﮕﺘﺎﯾﺎ ﮨﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ . ﺍﺗﻨﯽ ﺩﻭﺭ ﺍﮐﯿﻠﯽ ﺑﭽﯿﺎﮞ ﺑﻬﯿﺠﻨﺎ ﮐﮩﺎﮞ ﮐﯽ ﻋﻘﻞ ﻣﻨﺪﯼ ﮨﮯ . ﮐﻞ ﮐﻮ ﮐﭽﻪ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ".
" ﺍﺑﺎ ! ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﺮﯾﻦ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﺪﺭ ﺑﮩﺖ ﭘﮩﻠﮯ ﺳﮯ ".....
" ﺣﯿﺎ ! ﺟﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ، ﻭﮦ ﺗﻢ ﻧﮯ ﺳﻦ ﻟﯿﺎ ؟ " ﺍﻥ ﮐﺎ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﺍﺗﻨﺎ ﺩﻭ ﭨﻮﮎ ﺍﻭﺭ ﺳﺨﺖ ﺗﻬﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺳﺮ ﺟﻬﮑﺎ ﺩﯾﺎ .
" ﺟﯽ ﺍﺑﺎ "
ﺟﮩﺎﻥ ﻻﺗﻌﻠﻖ ﺳﺎ ﺑﯿﭩﻬﺎ ﭼﺎﺋﮯ ﮐﮯ ﮔﻬﻮﻧﭧ ﺑﻬﺮ ﺭﮨﺎ ﺗﻬﺎ .
ﺗﺎﯾﺎ ﻓﺮﻗﺎﻥ ﮐﮯ ﭘﻮﺭﭺ ﮐﯽ ﺑﺘﯿﺎﮞ ﺭﺍﺕ ﮐﯽ ﺗﺎﺭﯾﮑﯽ ﻣﯿﮟ ﺟﮕﻤﮕﺎ ﺭﮨﯽ ﺗﻬﯿﮟ . ﻭﮦ ﺍﻭﺭ ﺟﮩﺎﻥ ،ﻓﺎﻃﻤﮧ ﮐﮯ ﮨﻤﺮﺍﮦ ﭼﻠﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﺮﺁﻣﺪﮮ ﮐﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﺗﮏ ﺁﺋﮯ ﺗﻬﮯ . ﺳﻠﯿﻤﺎﻥ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﺎ ﮐﻮﺉ ﺁﻓﯿﺸﻞ ﮈﻧﺮ ﺗﻬﺎ ، ﺳﻮ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﻌﺬﺭﺕ ﮐﺮ ﻟﯽ ﺗﻬﯽ .
ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﺟﮩﺎﻥ ﺭﮐﺎ ﺍﻭﺭ ﺟﻬﮏ ﮐﺮ ﺑﻮﭦ ﮐﺎ ﺗﺴﻤﮧ ﮐﻬﻮﻟﻨﮯ ﻟﮕﺎ . ﻓﺎﻃﻤﮧ ﻧﮯ ﺭﮎ ﮐﺮ ﺍﭼﻨﺒﻬﮯ ﺳﮯ ﺍﺳﮯ ﺩﯾﮑﻬﺎ ......

ﺟﺎﺭﯼ ﻫﮯ

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے