"میں امیر حمزہ عہد کرتا ہوں. حالات کچھ بھی ہوں میں اپنی جان و مال کے ساتھ اپنے ملک کی حفاظت کروں گا. کوئی بھی کڑا وقت میرے ملک سے کیے گئے اس عہد میں رکاوٹ نہیں بنے گا. "
⭕⭕⭕⭕⭕⭕⭕⭕
"اٹھ جائیں نا. آپ کو کچھ دکھاتی ہوں. جلدی کریں. "
وہ پچھلے پانچ منٹ سے اسے جگانے کی کوشش کر رہی تھی. لیکن وہ بس ہونہہ ہاں کر کے کروٹ بدل لیتا.
"یار اٹھ جائیں نا. پھر وہ چلا جائے گا." اس نے منت کی.
"کون؟" یکدم نیند غائب ہو گئی.
"کوئی ہے." اب وہ اسے چھیڑ رہی تھی.
"کون؟" شکائتا اسے گھورتے ہوئے اس نے اپنا سوال دہرایا.
"آپ اٹھیں گے تو بتاؤں گی نا." اس کے داہنے گال کو اپنی انگلیوں میں بھرتے ہوئے اس نے پیار سے کھینچا اور اس کے ماتھے پہ جھکی.
وہ اس کے ہونٹ محسوس کر سکتا تھا. جیسے ہی وہ اوپر اٹھی. اسے اپنی طرف ٹکٹکی باندھے دیکھ وہ گھبرائی اور پھر جلدی سے دوبارہ کھڑکی کے پاس جا کر کھڑی ہو گئی.
"اہم." حمزہ نے شرارتأ کھنگارا..
اس نے اپنی نظریں آسمان پہ چمکتے واحد ستارے پہ مرکوز کر لی.
" تو مسز امیر حمزہ آسمان پہ کیا ڈھونڈ رہی ہیں آپ؟ آپ کا چاند تو یہاں کھڑا ہے آپ کے پاس." اس نے اس کے کان میں سرگوشی کی.
"صبح کا ستارہ. "
"ہاں؟" اس نے سوالیہ انداز میں کہا.
"یہ ستارہ دیکھ رہے ہیں آپ. ؟ " اس نے ہاتھ ہوا میں اٹھایا. حمزہ نے اس کی انگلی کی سمت میں دیکھا.
" یہ ستارہ اس وقت ہر روز آسمان پہ آ کر لوگوں کو روشن صبح کی نوید سناتا ہے. "
"پتا ہے اور سورج نکلے سے پہلے یہ خود پھر سے اندھیروں میں ڈوب جاتا ہے. "
"انٹرسٹنگ نا؟ " اس نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا. وہ اس کی بات سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا.
تبھی اسے اپنے سینے پر اس کے ہاتھوں کا احساس ہوا.
وہ اپنے دونوں ہاتھ سلیقے سے سجائے اپنا سر اس کے سینے پہ دھر چکی تھی. اسے حالات کی سنجیدگی کا اندازہ ہو گیا تھا.
"کیا ہوا؟" وہ کسی بچے کی طرح اس کا سر تھپتھپا رہا تھا.
" آپ سب کے لئے لڑتے ہیں. انہیں ان کا حق دلاتے ہیں. لوگوں کی زندگی میں تو آپ وہ صبح کا ستارہ ہی ہیں. انہیں روشن صبح کی خوشخبری دینے والے. اور خود پھر اسی اندھیرے میں لوٹ آتے ہیں. پھر کالی رات کا انتظار کرتے ہیں. تا کہ دوبارہ کسی مظلوم کو صبح کا پیغام دے سکیں. " وہ عجیب باتیں کر رہی تھی.
"مجھے ڈر ہے دوسروں کی زندگی روشن کرتے کرتے ہم خود اندھیروں میں نا کھو جائیں. "
"ارے. میں تمہیں کبھی ان اندھیروں میں ڈوبنے نہیں دوں گا. " دونوں ہاتھوں میں اس کا چہرہ تھامے اس کی آنکھوں میں آئے خوف کو چرا کر ان میں اپنے پیار کے جگنو بھر رہا تھا.
"سر آپکا نام بہت پیارا ہے. مجھے بہت پسند ہے. " نسوانی آواز پہ وہ چونکا. آنکھوں کی چمک ماند پڑ گئی. وہ دوبارہ اپنے کمرے کی کھڑکی سے ہٹ کر لائیو سٹوڈیو کی اسپیشل گیسٹ چئیر پہ بیٹھا تھا.
"مجھے بھی." ہلکے سے ہونٹ ہلے تھے. لیکن یہ آواز نہ تو امیر حمزہ کے کانوں تک پہنچی اور نہ ہی سٹوڈیو میں بیٹھی ہوسٹ تک.
"سر اب آپکی وائف کہاں ہیں؟" حاضرین میں سے ایک لڑکی نے سوال کیا. چہرے کے تاثرات پھر بھاری ہوئے.
"شی از نو مور ود می." جواب بہت سادہ تھا.
"آئی لوسٹ ہر.. میں نے کھو دیا اسے." اب اس کی نظریں کیمرہ کی طرف تھیں.
"وہ صحیح کہتی تھی. لوگوں کی زندگی میں روشنی بھرتے بھرتے میں خود اندھیروں میں گم ہو گیا. میں نہیں. میں نہیں. اسے میں نے انداھیرے میں دھکیل دیا.
. آئی لوسٹ ہر." اسٹوڈیو کی خاموشی میں آواز گونجنے لگی تھی.
"میں دی اونیسٹ پولیس آفیسر." اس نے دونوں ہاتھ ہوا میں اٹھا کر کالن بنایا.
" اپنے اب تک کے کیرئیر میں 453 ان کا ؤنٹرز, اور جانے کتنوں کے جیل اور پھر جیل سے پھانسی تک پہنچا چکا ہوں. میں نے کبھی کسی ظالم کو رہا نہیں ہونے دیا. ہر ثبوت اتنا ٹھوس ہوتا کہ یا پھانسی ہو جاتی یا عمر قید." اب کے اس کا انداز جارحانہ تھا. تالیوں کی آواز گونجی.
"اور اس کام کا کریڈٹ مجھ اکیلے کو نہیں جاتا. کوئی اور بھی ہے." کیمرے کا فوکس اب اس کا سرخ ہوتا چہرہ تھا.
"وہ. وہ ٹی وی کے سامنے بیٹھی میری بیوی ہے. میری بیوی.مسز امیر حمزہ." اس کا سینہ چوڑا ہوا تھا.
وہ سانس لینے کے لیے رکا.
"ایک چھوٹی سی بریک کے بعد واپس آتے ہیں آپ ہمارے ساتھ رہیے گا." کیمرہ آف ہوگیا.
ٹی وی کے سامنے بیٹھی فضیلت نے نظریں چرائی جیسے اس کی چوری پکڑی گئی تھی.
"ماما اس کی وائف کتنی لکی ہے نا." فضیلت کی بارہ سالہ بیٹی نے حسرت سے ماں کو دیکھا.
"شی واز ناٹ لکی. وہ دنیا کی سب سے بد قسمت لڑکی ہے."
" آپ جانتی ہیں اسے؟ " اسے جاننے کا اشتیاق ہوا.
"میں کیسے جانتی ہوں گی.اور ہمیں جاننے کی ضرورت بھی نہیں ہے." اس نے بیٹی کو خفگی سے دیکھا.
"ماما کاش آپ اسکی وائف ہوتی."
"واٹ ربش." اس نے پھر ذرا خفگی دکھائی.
"ویلکم بیک ٹو دی شو."
مسفرا تکیہ گود میں دبائے دوبارہ ٹی وی میں کھو گئی. فضیلت نے بھی بیٹی سے نظریں چراتے ہوئے ٹی وی میں بیٹھے اس جانے پہچانے چہرے کو اپنی نظروں کا محور بنایا جو اپنہ رٹائرمنٹ کے بعد ینگ آفیسرز کو موٹیویٹ کرنے آیا تھا.
"میری بہادری کا بدلہ ان درندوں نے میری بیوی سے لیا."
کیمرے پہ اچانک تتلیا گھومنے لگی. اسٹوڈیو کی جگہ اب اس کا اپنا کمرہ تھا.
"You killed me.. You just killed me.. "
وہ چلا رہی تھی. بکھرے بال. آنکھوں کے گرد سیاہ ہلکے.
"میری بات سنو فضیلت." وہ آگے بڑھا.
"دور رہو مجھ سے. " دونوں ہاتھ اٹھا کے وہ چلائی. اس کا یہ روپ اس نے کبھی نہیں دیکھا تھا.
"آپ نے کہا تھا میری حفاظت کرو گے. مجھے اندھیروں میں نہیں گم ہونے دو گے. دیکھیں نا آپکی فضیلت کو گندا کر گئے وہ." وہ اب خود کو اپنے ہاتھوں سے نوچ رہی تھی.
"تم میری بات سنو." حمزہ نے آگے بڑھ کر زبردستی اسے بازو سے پکڑ کر اپنی طرف متوجہ کرایا.
" کس نے کیا یہ؟ کون تھا؟ ہو دی ہیل واز ہی؟" وہ خود بے قابو ہو رہا تھا.
"وہ بہت زیادہ تھے. ان کا باس تھا نا گالیاں دے رہا تھا آپکو..اس نے نا اس نے مجھے گندا کر دیا. میں بس شاپنگ کے لئیے گئی تھی. وہ بہت سارے لوگ تھے." اب وہ دونوں ہاتھوں سے اس کی شرٹ کو پکڑے سہمی ہوئی بتا رہی تھی. اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ اس کے اندر کہیں گم ہو جائے جہاں وہ خود کو بھی کبھی دیکھ نہ پائے.
"I wanna die.I dun wanna live anymore plz."
اب تک جو وہ اس پہ چلا رہی تھی. اب اپنے محافظ کے گلے لگے بلک بلک کے رونے لگ گئی.
" میں انکو ایسی جگہ گاڑوں گا. جہاں گد انہیں نوچ نوچ کھا جائیں. " اپنی کپکپاہٹ چھپاتے ہوئے حمزہ نے اسے اپنے بازؤں میں چھپا لیا. اسے سمجھ نہیں آرہا تھا وہ اس سے کیا پوچھے. وہ پاگل ہو رہا تھا. ایک ہفتے کے لئیے وہ شہر سے باہر گیا تھا. اور اس کی تو زندگی ہی بدل گئی تھی. اس کی بیوی. جسے وہ فخر سے فنکشنز میں متعارف کرواتا تھا. شاید ہی کسی کو اس کا نام پتا ہو. مسز امیر حمزہ. یہ تین الفاظ اس کا تعارف ہوتے ہمیشہ.
"مجھے ختم کر دیا. آپ نے نہیں کی میری حفاظت. " وہ اس سے الگ ہو گئی تھی.
"آئی ایم نو مور. ایم نو مور." وہ وہیں فرش پر ڈھے گئی.
منظر بدلا. دوبارہ سٹوڈیو کی روشنی اسے اپنی آنکھوں میں چبھنے لگی.
کمرشل بریک تھی. ہوسٹ نے اپنے آنسو ٹشومیں جزب کیے. وہ خود ہانپ رہا تھا. سٹوڈیو میں بیٹھا ہر چہرہ اسے ترس کی نظر سے دیکھ رہا تھا.
اس کی انگلیاں صوفے میں بھنچتی جا رہی تھی. پرانے زخم ہرے ہو گئے تھے.
"ماما جلدی سے آجائیں بریک ختم ہو گیا ہے. مسٹر امیر حمزہ آگے بتا رہے ہیں." مسفرا نے لاؤنج سے آواز لگائی.
فضیلت نے کب سے خود کو واش روم میں بند کر رکھا تھا. وہ اسی وقت اٹھ کر چلی گئی تھی جب اس نے بریک سے پہلے اپنی بات کا آغاز کیا تھا. وہ خود کو پھر سے گندا محسوس کر رہی تھی. واش روم کے فرش پہ بیٹھی وہ پھر سے اپنے بکھرے ٹکڑے جوڑ رہی تھی. پھر پہلے دن سی اذیت اس کی رگوں میں اتر رہی تھی. اس کے اندر کٹ رہا تھا کچھ. اس کا جسم بے جان فرش پہ پڑا تھا.
"میری چند ماہ پرانی دلہن بے ہوش میرے سامنے ہسپتال میں پڑی تھی. "
وہ ٹی وی کی آواز واش روم میں بھی سن سکتی تھی.
"میں نے پورا شہر کچھ دن بند کر کے رکھ دیا. مجھے ہر قیمت اپنی خوشیوں کا قاتل چاہئیے تھا. "
"وہ کہتی تھی نا کہ میں صبح کا ستارہ ہوں. میں انصاف دلاتا ہوں. میں نے اسے بھی انصاف دلایا تھا. بلیو می." اس نے کیمرے کی طرف دیکھا.
" میں جتنی اذیت دے کے ان کو مار سکتا تھا میں نے مارا. " آنکھوں میں نفرت ابھر آئی تھی.
"بلیو می. لیکن وہ پھر بھی میرے ساتھ نہیں رہنا چاہتی تھی. رہتی بھی کیوں. خود کو اس کا محافظ کہتا تھا. لیکن حفاظت نہیں کر پایا اسکی." اس نے اپنا سر اپنے دونوں ہاتھوں میں پکڑ لیا.
"وہ کہتی تھی آج جو اس کے ساتھ ہوا کل ہماری بیٹی کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے. اسے میرے ساتھ فیملی نہیں رہنا.. ہمارے بچے بھی اسی جہنم میں جل جائیں گے." اس کی آواز دھیمی ہونے لگی.
اور فضیلت کی سسکیاں بڑھنے لگی. اس نے اپنے ہاتھوں سے اپنا منہ بند کر دیا.. وہ پھر بکھر رہی تھی. وہ اسکے سامنے اذیت میں تھا.
وی آر سوری سر. ہم نے آپکو غمگین کر دیا." ہوسٹ نے خاموشی توڑی.
"یار ماما آجائیں. دیکھیں وہ رو رہا ہے. ہی از آ رئیل ہیرو." وہ پرجوش تھی.
"سر آپ ہمیں پھر بھی ماٹیویٹ کرنے آئے ہیں. اتنا سب کھونے کے بعد بھی؟" ایک لڑکے نے سوال پوچھا.
"ہاں. بالکل. ان فیکٹ اگر میرا بیٹا ہوتا وہ بھی پولیس جوائن کرتا. " وہ پر جوش تھا.
"مجھے بھی بس پولیس جوائن کرنی ہے." مسفرا نے نعرہ لگایا.
"بند کرو یہ فضول پروگرام." فضیلت جو خود کو بمشکل سنبھالے باہر آئی تھی اس نے مصفرا کو ڈانٹا.
"ماما climax ہے یار." اس نے ریکویسٹ کی.
"اپنے کمرے میں جاؤ. " ماں کے تیور دیکھ کر وہ جلدی سے اپنے کمرے میں چلی گئی. فضیلت نے ٹی وی بند کیا اور اپنے کمرے میں جا کر دروازہ بند کر لیا. اور لیپ ٹاپ پہ دوبارا لائیو پروگرام لگا کر بیٹھ گئی.
"سر آپکی وائف آپکو چھوڑ گئی. ڈو یو فیل بیڈ فار یورسیلف؟ "ایک لڑکی نے افسوس کرتے ہوئے پوچھا.
"نو." جواب دو ٹوک تھا. فضیلت کے ہونٹوں پہ اداس مسکراہٹ پھیلی.
" مجھے اس پہ فخر ہے. شی از سٹل مسز حمزہ." اس کے چہرے پہ بھی ایک خوبصورت رنگ آکر چلا گیا.
"سر وی ہیو آ لائیو کال ود اس."
"ہیلو ہمارے ساتھ کون ہے؟ " ایک کالر تھا جس نے حمزہ کی بہادری کو سراہا تھا. اور تسلی کے کچھ الفاظ کے بعد کال کٹ گئی.
وہاں بیٹھے نوجوان آفیسرز کے لئیے یہ عجیب تھا. ان کا حوصلہ بڑھا تھا. لیکن اپنی فیملی کو لے کر ان کی تشویش بڑھ گئی تھی.
"ہیلو اسلام علیکم. ہمارے ساتھ کون اور کہاں سے ہیں؟"
"ہیلو. ہیلو." کال ڈراپ ہو گئی تھی.
"ہیلو." ہوسٹ نے اگلی کال لائیو کی.
"کون اور کہاں سے."
"م. میں. میں. مسز. مسز امیر حمزہ. " الفاظ حلق میں اٹک رہے تھے.
سٹوڈیو میں اچانک خوشی اور حیرت سے ہوٹنگ ہوئی.
"ان بلیو ایبل" ٹی وی کے بالکل سامنےآواز دھیمی کیے خوشی سے اپنے دونوں ہاتھ منہ پہ رکھے مسفرا نے بے یقینی سے خود سے سرگوشی کی.
سٹوڈیو میں ہر نظر حمزہ کے چہرے پہ رک گئی تھی. سب اس کا ری ایکشن دیکھنا چاہتے تھے. اس نے سکون سے آنکھیں بند کر لی. اور اپنا سر صوفے کی پشت سے ٹکا دیا.
"ہمیں لینے آؤ گے یا ہم خود آجائیں تمہارے فضیلت ہاؤس؟ "
اب وہ خود کو کافی سنبھال چکی تھی.
" ہم؟" بے یقینی کی کیفیت میں وہ بس اتنا ہی کہہ سکا.
"مسز امیر حمزہ اینڈ ڈاٹر آف امیر حمزہ."
سٹوڈیو تالیوں سے گونجا.. کچھ لوگ اب سیٹییوں سے اس خوشگوار لمحے کا استقبال کر رہے تھے.
"بیٹی.؟" اس کا بس نہیں چل رہا تھا وہ ہاتھ بڑھا کر اسے تھام لے.
"میری بیٹی." اسے یقین نہیں آرہا تھا. حالات کیا تھے کس طرح تھے. کیسے سب ہوا. وہ کچھ نہیں پوچھنا چاہتا تھا. وہ بس اس لمحے کو جینا چاہتا تھا اب.
اس دلچسپ گفتگو کو مسفرا سانس روکے سن رہی تھی.
کال کٹ گئی تھی. شو کا وقت ختم ہونے والا تھا.
لگاتار تالیوں کا شور تھا. پروگرام خود بند ہو گیا تھا. اگلی صبح سے پہلے وہ فضیلت اور مسفرا کو اپنے گھر لے آیا تھا.
مسفرا نے اپنی ماں کی آواز تب ہی پہچان لی تھی. اور رہا سہا شک ماں کے کمرے سے آتی آواز نے ختم کر دیا تھا.
⭕⭕⭕⭕⭕⭕⭕⭕
"میں مسفرا حمزہ عہد کرتی ہوں کہ حالات کچھ بھی ہوں میں جی جان سے اپنے ملک کے دشمنوں سے لڑوں گی. چاہے اس کے لیے مجھے اپنی جان, مال کی قربانی دینی پڑے."
ایک بار پھر صبح کا ستارہ روشنی کی نوید لیے جگمگانے کو تیار تھا.

0 تبصرے
ہم سے رابطہ کرنے کا شکریہ
ہم آپ سے بہت جلدی رابطہ کریں گے۔