گھر سے نکلی ہو".
وہ ارم کے لئے متاسف بھی تھی اور فکرمند بھی'مگر دور اندر دل کے اس پوشیدہ خانے میں جو کائی شخص دنیا کو نییں دکھاتا'اسے تھوڑی سی کمینی خاشی بھی ہوئی تھی.
"بہت اچھا ہوا تایا ابا!"قس دور کے خانےمیں کسی نے کہا تھا."اب تو آپ کو معلوم ہع گیا ہو گا کہ دوسروں کی بیٹیوں پہ انگلیاں اٹھانے والوں کے اپنے گھروں پہ وہ انگلیاں لوٹ کرآتی ہیں.بہت اچھا ہوا تایا ابا!"
صبح سویرے اٹھتے ہی اسی کرتے'ٹراوزر پہ ایک ڈھیلا ڈھالا سا سویٹر اور شال لپیٹ کر"دیا"سٹور آ گئی.بال اب اس نے کیچر میں باندھ لئے تھے اور بند جوتے پہن لئے تھے.
سٹور سے اس نے کارڈ خریدا'ری چارج کیا اورموبائل پہ اماں کا نمبر ملاتی باہر کیفے کے برآمدے میں بچھی کردی کھینچ کر بیٹھی.وہاں فاصلے فاصلے پہ گول میزوں کے گرد کرسیوں کے پھول بنے تھےاسٹوڈنٹس صبح صبح یہاں ناشتہ کرنے آتے تھے.سامنے سبانجی کا خوبصورت فوارہ نصب تھا.گول چکر میں مقید فوارہ جس کی پانی کی دھار بہت اوپر جا کر نیچے گرتی تھی.
"اتنی صبح صبح فون کیسے کیا'خیریت" ؟فاطمہ زرا فکر مند ہع گئیں۔
"تع کیا میں آپ کو ایسے یاد نہیں کر سکتی؟"وہ آرام دہ انداز میں ٹانگ پہ ٹانگ رکھتی زرا خفگی سے بولی۔
"ہماری ایکسچینج سٹوڈنٹس ہمیں عموماً مسڈ بیل دیتی ہیں یا کسی ایس ایم ایس ویب سائٹ سے مفت ایس ایم ایس کرکے کال کرنے کا کہتی ہیں تع ہم کال بیک کرتے ہیں۔اس لئے اگر وہ علی الصبح خود فون کریں تو خیرت تو ہو گی نا!"
"بس اماں غربت ہی اتنی ہے'کیا کریں"۔وہ قینچی چپلوں میں مقید پیر جھلاتےہنس کر بولی۔
"ہاں یارپی یونین نےوہ ہزاروں یوروز کا سکالرشپ تو کسی اور کو دیا تھا نا"۔فاطمہ کی تشویش ختم ہو گئی تھی اور وہ اسی کے انداز میں بات کر رہی تھی۔
"وہ تو رینی ڈیز کے لئے سنبھال کر رکھا ہے"۔
"کون سے رینی ڈیز؟"
"اسپرنگ بریک'اماں اور یہاں اسپرنگ بریک کے دنوں خوب بارش ہو تی ہے۔اس لئے میں اور ڈی جے اسپرنگ بریک میں پورا ترکی گھومنے کا سوچ رہے ہیں اور لگتا ہے آج کل آپ صائمہ تائی کی کمپنی میں رہ رہی ہیں' صبح ہی صبح طنز کیے جا رہی ہیں'اچھا سب کچھ چھوڑیں گھر پہ سب خیریت ہے؟"
"ہاں سب ٹھیک ہے"۔
"تایا فرقان کی طرف بھی؟"اس نے ہاتھ سے ویٹر کو اشارہ کیا۔وہ قریب آیا تو اس نے مینیو کارڈ پہ بنے ڈونٹ پہ انگلی رکھی'پھر انگلیوں سے وکٹری کا نشان بنایا تو وہ سمجھ مر واپس مڑ گیا۔
"ہاں کیوں؟کسی نے کچھ کہا؟"
"نہیں 'مگر رات تایا کا فون آیا تھا۔اچھا آپ جا کر ان کو کہہ مت آئے گا۔"
"لو'میں کیوں کہو ں گی؟"فاطمہ الٹا خفا ہوئیں'مگر وہ جانتی تھی کہ ماوں کا بھروسہ نہیں ہوتا۔
لاکھ کہو کہ نہ بتائیےگا پھر بھی اپنے اگلے پچھلے حساب چُکاتے وقت کسی نہ کسی موقع پر اس بات کو استعمال کر ہی لیتی تھیں'مگر ایک اچھی بیٹی کی طرح سےپوری بات ماں کے گاش گزار کئے بغیر ڈونٹس کہاں ہضم ہونے تھے۔سو ساری بات دہرا دی'بس قرم کا میسج پڑھنے والا قصہ گول کر گئی۔
"اچھا'پتہ نہیں'ہمیں تو کچھ نہیں پتہ چلا"۔وہ کچھ دیر اسی بات پہ تبصرہ کرتی رہیں'پھر ایک دم یاد آنے پہ بالیں۔لو'میں بتانا ہی بھول گئی'مہوش کی شادی طے ہو گئی ہے"۔ انہاں نے زاہد چچا کی بیٹی کا نام لیا'جس کی نسبت کافی عرصےسےاپنےماموں زاد سےطےتھی۔
"اچھا'کب؟"اسے خوشگوار حیرت ہوئی۔ترکی آتے وقت سنا تو تھا کہ اپریل کی کوئی تاریخ رکھیں گے'مگر اسےبھول گیا تھا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
"ہفتہ ہو گیا ہے رکھے ہوئے'جب بھی بات ہوتی ہے'بتانا ہی بھول جاتی ہوں۔"پھر انہوں نے جو تاریخ بتائی وہ اپریل ان کی اسپرنگ بریک کے درمیان آتی تھی۔
"تب تو ڈی جے اور میں عظیم ترکی کی سیر کر رہےہوں گے۔"
"سبین کو بلایا توہے'مگر کہہ رہی تھی کہ سکندر بھائی کی طبیعت آج کل خراب رہتی ہے'وہ نہیں آ سکےگی 'میں نےکہا جہان کو بھیج دو'اچھا ہے ساتھ حیا بھی آ جائےگی'دونوں شادی اٹینڈ کر لیں گے'مگر وہ کہہ رہی تھی کہ مشکل ہے۔"
اس نے فون کو کان سےہٹا کر گھورا'اور پھر ہنس دی۔اماں بھی کبھی کبھی لطیفےسناتی تھیں۔وہ انتہائی غیر رومانٹک سےماں'بیٹا کہاں مانتےایسےرامانٹک ٹرپ کےلئے۔؟
اس نےسر جھٹک کر موبائل کان سےلگایا۔فاطمہ کہہ رہی تھیں"ایک تو تمہاری پھپھو بھی کوئی بات غیر مبہم نہیں کرتی"۔
"بالکل!"اس نےتائیدکی۔
ویٹر نے چاکلیٹ اوررنگ برنگے دانوں سے سجے دو ڈونٹس ٹیبل پر رکھے تو وہ الوداعی کلمات کہنے لگی۔
"بیوک ادا؟پھر بیاک ادا؟"
اس روز وہ شام میں جلدی سو گئی تھی'سو عشاءکےبعد آنکھ کھلی۔کچھ دیر پڑھتی رہی پھر روحیل سےاسکائپ۔۔۔۔۔پہ گھنٹہ بھر باتیں کیں اور اسے ترکی کا سفرنامہ سنا کر خوب بور کیااور اب بھوک لگی تھی تو کچن میں آئی تھی۔ڈی جےنےآلو مٹربنایاہواتھاجو سالن کم اور کوئی گدلا پانی زیادہ لگ رہا تھا'جس میں مٹراور پیازتیررہےتھےوہ ناک چڑھاتےہوئےاس مغلوبے کو گرم کرنےکےلئےپلیٹ میں ڈال ہی رہی تھی کہ ڈی جےنےپیچھےسےآکر بتایا کہ اس نے ہالےاور انجم باجی کے ساتھ بیاک ادا جانے کا پراگرام بنا لیا ہےاور کل چھ بجےگارسل شٹل پکڑنی ہے۔
"بیاک ادا؟پھربیاک ادا؟"وہ اوون کادروازہ بند کرتی چانک کر پلٹی۔پل بھر میں اس کی آنکھوں میں ناگواری سمٹ آئی تھی۔
"ہالے اور انجم باجی نے پروگرام بنا کر مجھ سے پوچھا تو میں نے ہامی بھرلی۔"پانی کی بوتل کو کھڑے کھڑے منہ سےلگاتےہوئےڈی جےنےشانے اچکائے۔
"اور یقیناًمیری طرف سےبھی ہامی بھرلی ہو گی۔"
"بالکل!"
"میں کوئی نہیں جا رہی بیاک ادا'میری طرف سے انجم باجی کو انکار کر دو"وہ پلٹ کر چیزیں اٹھا پٹخ کرنے لگی انداز میں واضح جھنجھلاہٹ تھی۔
"کیوں؟اتنا خوبصورت جزیرہ ہے"۔
"مجھے نہیں جاناادھر'بس کہہ دیا نا"وہ ریفریجریٹرکا اوپری فریزر کھولے پیکٹ ادھر ادھر کرنے لگی۔بالوں کا ڈھیلا جوڑا اس کی گردن کی پشت پر جھول رہا تھا۔
"مگر کیوں؟"
"وہ عبدالرحمٰن پاشاکا جزیرہ ہےاور میں اس آدمی کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتی"۔اس نے روٹیوں کا پیکٹ نکال کر فریزر کا دروازہ زور سے بند کیا۔پیکٹ میز پہ رکھا۔جمی ہوئی دو روٹیاں نکالیں'اور پلیٹ میں رکھیں۔اس میدے کی بنی ترک روٹیوں کا نام انہیں معلوم نہیں تھا۔بس"دیا"اسٹور پہ وہ فریزر میں نظر آئی تھیں اور اتنی سمجھ انہیں تھی کہ انہیں مائیکروویومیں گرم کر کے کھاتے ہیں؟تب سے وہ یہی روٹیاں کھارہی تھیں۔
ڈی جے اس کے راٹی اوون میں رکھنے تک سکتے سے باہر آ چکی تھی۔
"عبدالرحمٰن پاشا؟وہ جس کا زکر ہماری ہوسٹ آنٹی نے کیا تھا؟"
"ہاں وہی'کر ۔ اسمگلر!"
"مگر اس کا کیا زکر؟ہالےنےکہا تھا"
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
"ہالے کو چھوڑو'میں سب بتاتی ہوں'پہلے کیچپ لاو'پھرانجم باجی کو کال کر کے کل کا پروگرام کینسل کرو۔"
کھانا کھا کر دونوں باہر آ گئیں۔رات گہری ہو چکی تھی۔دونوں نے اونی سوئیٹر پہن رکھے تھے۔وہ ڑورم بلاک سے نکل کر باتیں کرتے سبزہ زار پہ۔۔۔۔چلتی گئیں۔پہلےڈی جےنےانجم باجی کو فون کر کےمعزرت کی اور جب اسےلگا کہ وہ زرا ناراض ہو گئی ہیں'کیونکہ ان دونوں نے خاصی پاکستانی حرکت کی تھی اور ترکی میں کمٹمنٹ ٹورنا بہت بُرا سمجھا جاتا تھا۔سو اس پاکستانی حرکت کو سنبھالنے کےلئےحیا نےفون لےلیا اورانہیں بتایا کہ اس کی پھپھو نےکل اسےاور اسکی فرینڈ کواپنےگھرانوائیٹ کیا ہے۔سو انجم باجی اس کی دعوت قبول کر کےاب کےساتھ چلیں'بیاک ادا پھرکسی روز چلے جائیں گے۔یوں انجم باجی مان گئیں اور اب وہ دونوں چلتے چلتے"دیا"اسٹور کےسامنےوالے فوارےکی منڈیر پہ آ بیٹھی تھیں۔فوارےکا پانی چھینٹے اڈاتا ہوا نیچے گر رہا تھااور اس پانی میں بنتےمٹتےبلبلوں کو دیکھتےہوئےحیا نے ساری کہانی الف تا یےاس کو سنا ڈالی۔
ڈی جےکتنی دیر تو چُپ ۔بیٹھی رہی'پھرآہستہ آہستہ سوچ کر کہنے لگی۔
"تو وہ پنکی میجراحمد تھا'جو ہمیں مارکیٹ میں ملا تھا؟"
"بالکل!"
"اورڈولی اصلی خواجہ سرا تھا؟"
"ہاں 'وہ ان کا پُرانا ملازم ہے۔"
"اور تم منہ اٹھا کر اس کے گھر چلی گئیں؟"
"منہ اٹھا کر کیا!میرا پاسپورٹ تھا اس پرس میں اور اچھا ہی ہوا'ساری بات تو کلئیر ہو گئی۔"وہ اپنی غلطی مانتی'یہ نا ممکن تھا۔
"مگر تم نےاسےفون کر کےبہت غلطی کی۔"
"تو بگھت رہی ہوں نا وہ غلطی۔اس ظالم شخص نے یہ بھی نہیں سوچاکہ جہان کےپاس اس ریسٹورنٹ کےعلاوہکچھ نہیں ہےاور اس نےاسی کو تباہ برباد کر دیا۔اب یقیناًوہ اس کی لینڈ لیڈی کو شہہ دے گا کہ وہ ریسٹورنٹ واپس حاصل کر لے۔"وہ سخت نادم تھی۔
"تمہیں کیا لگتا ہے'وہ تم سےواقعی محبت کرتا ہے؟"
"کسی کو ازیت پہنچنا محبت نہیں ہوتی۔"
کچھ دیر وہ یونہی اسی بات کو ہر پہلو سے ڈسکس کرتی رہیں'پھر ڈی جےنےہاتھ اٹھا کرحتمی انداز میں کہا۔
"ایک بات تو طے ہے'اب یہ معاملہ ختم ہو چکا ہے۔وہ اب تمہارےپیچھے نہیں آئےگا۔"وہ سر ہل کر اٹھ گئی۔
"ہوں!"رات بہت بیت چکی تھی'اب ان کو واپس جانا تھا۔
سبزہ زار پہ چلتےڈورم بلاک کی طرف بڑھتےہوئےوہ سوچ رہی تھی کہ اپنے مسئلےکسی کو بتانے سےوہ حل نہیں ہوتے۔دل کا بوجھ کسی کے سامنےہلکا کرتےکرتےبعض دفعہ ہم اپنی زات کو ہی دوسرے کےسامنےہلکا کردیتےہیں۔پریشانیاں بتانےسےکم ہو سکتی ہیں'ختم نہیں'جیسے اس کی پریشانی ابھی تک اس کے ساتھ تھی۔
کلاس روم کی کھڑکیوں سےسورن کی روشنی چھن کر اندر آ رہی تھی۔صبح کی نم ہوا بار بارشیشیوں سےٹکرا کر واپس پلٹ جاتی'جیو انفارمیشن کےپروفیسراپنےمخصوص اندازمیں لیکچر دے رہےتھے۔اس کےساتھ بیٹھی ڈی جےبظاہربہت توجہ سےلیکچرسنتی رجسٹر پرلکھ رہی تھی۔وہ ہر چنر لفظ لکھ کرسراٹھا کر پروفیسرکو دیکھتی'زرا غورسے ان کے اگلے الفاظ سنتی اور پھرسمجھ کرسرہلاتی دوبارہ لکھنے لگ جاتی۔
حیا نے ایک نگاہ اس کےرجسٹرپر ڈالی۔وہاں اس کا چلتا قلم لکھ رہا تھا۔
"تم لوگوں کا سپرنگ بریک کا کیا پروگرام ہے؟
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کدھر جاو گے اور کون کون تمہارے ساتھ جا رہا ہے؟"آخری لفظ لکھ کراس نے گردن سیدھی کر کے پورے اعتماد سے پروفیسر کو دیکھتے ہوئے رجسٹر دائیں جانب بیٹھےمعتصم کو پاس کر دیا۔یہ ان کی اور فلسطینیوں کی واحد مشترکہ کلاس تھی۔
معتصم نےایک نگاہ کھلے رجسٹر پہ ڈالی'اور پھرسرجھکا کر کچھ لکھنے لگا۔جب رجسٹرواپس ملا تو اس پہ انگریزی میں لکھا تھا۔
"ہم ٹرکی کےٹور پہ نا رہے ہیں۔سات دن میں سات شہر۔ہم پانچوں اور ٹالی اور تم لوگوں کا کیا پروگرام ہے؟"
"اُف پھر یہ ٹالی"۔ڈی جےکوفت سےجواب لکھنے لگی۔
"ہم بھی سات دنوں میں سات شہر گھمنے کا سوچ رہے ہیں۔"
اس نےرجسٹر آگےپاس کر دیا اورپھر زرا ٹیک لگا کر بیٹھ گئی۔
معتصم اب صفحہ پہ چند الفاظ گھسیٹ رہا تھا۔
"تو ہمارے ساتھ چلو نا۔"
"تم لوگوں کو کب نکلنا ہے؟"
"پہلی چھٹی والے دن۔"
"ہم نےدوسری چھٹی پہ نکلنا ہے'سو تمہارے ساتھ مشکل ہو گا۔چلو پھر چھٹیوں کے بعد ملیں گے۔"
"نو پرابلم!" معتصم نےساتھ ایک مسکراتا ہوا چہرہ بنایا۔
حیا دانت پہ دانت جمائےبمشکل جمائیاں روکنے کی سعی کر رہی تھی۔اسے ان کی کلاس سے زیادہ بورنگ کوئی کلاس نہیں لگتی تھی۔
دفعتاًمعتصم نےرجسٹر ڈی جےکی طرف بڑھایا تو اس پہ لکھے الفاظ کو پڑھ کر ڈی جےنےرجسٹر حیا کےسامنےرکھ دیا۔حیا نےزرا سی گردن جھکا کر دیکھا۔اوپر اس نےانگریزی میں لکھا تھا۔"ٹرانسلیٹ ان اردو پلیز۔"اس کے نیچےعربی عبارت لکھی تھی۔"کیف حالک؟"
حیا نےقلم انگلیوں کےدرمیان پکڑا اور اردو ہجوں میں لکھا۔
"آپ کا کیا حال ہے؟"اوررجسٹرواپس کردیا۔معتصم اور حسین کو آج کل ڈی جےسےاردوالفاظ سیکھنےکا شوق چڑھا ہواتھا۔اس کلاس میں وہ یوں سارا وقت عربی الفاظ لکھ لکھ کر ان کو دیتےتھے۔
چند لمحوں بعد اس نےصفحہ پھر حیا کےسامنےکیا۔اب کہ اس پہ الفاظ تھے"حالی بخیر۔"
حیا نےچِڑھ کر نیچے لکھا۔
"میں بالکل ٹھیک ٹھاک ہوں اور آپ کی خیریت ٹھیک چاہتی ہوں۔"
"اتنا لمبا کیوں لکھا؟"ڈی جےنےحیرت سےسرگوشی کی۔
"اگر چھوٹا لکھتی تو اس نےفوراًہی اسےسیکھ کر مجھ سےآج ہی کی تاریخ میں پوری فیروزاللغات لکھواتا۔اب اچھا ہے نا'پورا دن" ٹھیک "پڑھنے میں گزار دےگا۔"
اور معتصم سےکلاس کےاختتام تک "ٹھیک ہے"ٹھیک سےنہیں پڑھا گیا۔
کلاس ختم ہوئی تو وہ واپس ڈروم میں آئیں۔منہ ہاتھ دھو کر تیار ہونے میں کافی وقت لگ گیا۔اس نےایک مور پنکھ کےسبزرنگ کا پاوں کا چھوتا فراک پہنا۔فروک کی آستین تنگ چوڑی دار تھیں اور نیچے پاجامہ تھا۔پورا لباس بالکل سادہ تھا۔بال اس نے کھلے چھوڈ دئےاور کاجل اور نیچرل پنک لپ اسٹک لگا کتر ڈی جے کی طرف پلٹی۔
"کیسی لگ رہی ہوں؟"
ڈی جے بالوں میں برش کر رہی تھی'اس نےرک کر دیکھا۔
"بالکل پاکستان کا جھنڈا۔"
"دفع ہو جاو۔"
تقریباًڈیڈھ گھنٹے بعد وہ دونوں ہالے اور انجم باجی کے ساتھ جہانگیرمیں واقع پھپھو کےگھر کےسامنےکھڑی تھی:۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
"پھپھو کو بتا تو دیا تھا؟یہ نہ ہو کہ وہ کہیں'میں نے تو انواائیٹ ہی نہیں کیا تھا۔"
"ہاں ہاں'بتا دیا تھا۔"اس نےسرگاشی میں ڈی جےسےکہتےہوئےڈوربیل نجائی۔پھپھو ان سےبہت تپاک سےملیں۔لونگ روم میں بیٹھنے تک تعارف کا مرکلہ تمام ہو گیا تھا۔
"حیا!آج تو تم نےگھر میں رونق کر دی ہے۔"وہ واقعتابہت ًخوش تھیں۔حیا ان کے گھر کو اپنا سمجھ کردوستوں کو ساتھ لائی ہے'یہ خیال ہی ان کو مسرت بخش رہا تھا۔
وہ ان دو ماہ میں چنر ایک بار ہی پھپھو کے گھر آئی تھی اور پہلی دو دفعہ کے بعد جہان کبھی گھر نہیں ملا تھا'نہ ہی وہ اسےبتا کرآتی تھی۔اس دفعہ تو اس نےبالکل بھی نہیں بتایا۔وہ اندر ہی اندرخود کو اس کا مجرم سمجھ رہی تھی'اس کےٹوٹےبکھرےریسٹورنٹ کو یاد کر کےوہ اندر ہی اندر خود کو ملامت کرتی تھی۔
"آپ کا گھر بہت پیارا ہےآنٹی!"انجم باجی نے صوفے پہ بیٹھتے ہوئےادھر ادھردیکھتےہوئےستائشی انداز میں کہا تھا۔
"اور یہ رگز تو بہت ہی پیارےہیں"ہالےنےفرش پہ بچھےرگز کی جانب اشارہ کیا۔
"اور میری پھپھو بھی بہت پیاری ہیں۔"وہ پھپھو کےشانوں کےگرد بازو حمائل کئےمزےسےبولی تو پھپھو ہنس دیں۔ڈی جےنےآہستہ سےسرگوشی کی ۔"اور پھپھو کا بیٹا بھی بہت پیارا ہے۔"
حیا نےزورسےاس کا پاوں دبایا۔وہ بس "سی" کر کےرہ گئی۔
"آچلو تم لوگ ادھر بیٹھو'میں ابھی آتی ہوں۔"اچھےمیزبانوں کی طرح پھپھو مسکرا کرکہتےہوئےراہداری کی طرف مُڑ گئیں۔جس کےدوسرےسرےپہ کچن تھا۔کچن کا دروازہ کھلا تھا اور صوفوں پہ بیٹھے ہوئےانہیں کچن کا آدھا حصہ نظر آتا تھا۔
"پھپھو!"وہ ان کےپیچھے چلی آئی۔
"ارے!تم کیوں آ گئیں؟ان کا کمپنی دو نا۔"وہ فریزرسےکچھ جمے ہو ئے پیکٹ نکال رہی تھیں۔
"وہ ایک دوسرے کو کافی ہیں۔آپ سنائیں!انکل اوپر ہیں؟میں نےسوچا ان سےمل لوں۔جب بھی آتی ہوں'عموماًان کے سونے کا وقت ہوتا ہے۔ملاقات ہی نہیں ہو پاتی۔"وہ یہ تو نہیں کہہ پائی کہ جب ۔ ھی وہ آتی تھی'پھپھو ان دوا دےکرسلا دیتی تھیں تا کہ کوئی بدمزگی نہ ہو۔
"ہاں!شائد جاگے ہوں تم اوپر دیکھ لو۔"
"اچھا ۔ ۔ ۔ اور ۔ ۔ جہان کےریسٹورنٹ کا کیا بنا؟کچھ لوگوں نےنقصان کر دیا تھا شائد۔"زرا سرسری انداز میں پوچھا۔
"ہاں!اچھا خاصا نقصان ہو گیا ہےاس کا۔کافی چڑچڑا رہنے لگا ہےاس دن سے۔بس دعا کرنا'وہ پُرملال لہجےمیں کہتےہوئےکیبنٹ سے کچھ نکال رہی تھیں۔
وہ واپس آئی تو ڈی جےاور ہالےپھپھوکےگھرکی آرائش پہ تبصرہ کررہی تھیں'جبکہ انجم باجی بہت غور سےٹی وی پہ کارٹون نیٹ ورک دیکھ رہی تھیں۔جس کےکارٹون ترکی میں ڈب کئے گئے تھے۔سبانجی میں جو واحد شے دیکھنےکا موقع نہیں ملتا'وہ ٹی وی تھا۔
ان کو مصروف پا کروہ زینہ چڑھنے لگی۔کندھے سے لٹکتے شیفون کے سبز ڈوپٹےکا کنارہ زینوں پہ پھسلتا اس کےپیچھےاوپرآرہا تھا۔
سکندر انکل کےکمرےکا دروازہ بند تھا۔اس نےہولےسےانگلی کی پشت سےدستک دی'پھر ڈور ناب گما کردروازہ دھکیلا۔
کمرےمیں نیم تاریکی سی چھائی ہوئی تھی۔باہردھوپ تھی'مگر بھاری پردوں نےاس کا راستہ روک رکھا تھا۔سکندرانکل بستر پہ لیٹےتھے'گردن تک کمبل ڈالا تھا اور آنکھیں بند تھیں۔
"انکل؟"اس نےہولےسےپکارا۔وہ ہنوز بےحس و حرکت پڑے رہے۔وہ چند لمحے تاسف سےان کاپژمردہ'بیمار چہرہ دیکھتی رہی'پھرہولےسےدروازہ بند کر کے باہر آگئی۔
"وہ سیڑھیوں کےوسط میں تھی'جب بیرونی دروازہ,.......
***
کھلنے کی آواز آئ.وہیں ریلنگ پہ ہاتھ رکھے، رک کر دیکھنے لگی. صوفوں پہ آرام سے بیٹھی لڑکیاں بھی تیر کی طرح سیدھی ہوئ تھیں.
درواذہ کھول کر جہان اندر داخل ہو رہا تھا. ایک ہاتھ میں بریف کیس، دوسرے بازو پہ کوٹ ڈالے، ٹائ کی ناٹ ڈھیلی کیے، ہلکی گرے شرٹ کی آستین کہنیوں تک موڑے وہ بہت تھکا تھکا سا لگ رہا تھا.
پہلے سے کمزور ، اور مرجھائ ہوئ رنگت. دروازہ بند کر کے وہ پلٹا تو ایک دم ٹھٹک کر رکا.
"السلام و علیکم"
وہ جو سڑھیوں کے وسط میں کھڑی تھی، سلام کر کے زینے اترنے لگی. جہان نے چونک کر سر اٹھایا، پھر اسے دیکھ کر سر کے اشارے سے سلام کا جواب دیا.
"پھپو سے ملوانا تھا اپنی فرینڈ کو."
"نایس ٹو میٹ یو." بغیر کسی مسکراہٹ کے اس نے کھڑے کھڑے مروتا" کہا، اور جواب کا انتظار کیے بغیر ان ہی سنجیدہ تاثرات کے ساتھ کچن کی طرف بڑھ گیا.
"یہ؟" انجم باجی نے سوالیہ نگاہوں سے اسے دیکھا.
"پھپھو کا بیٹا، جہان." وہ قدرے خفت سے تعارف کرواتے ہوۓ آخری زینہ اتر کر صوفے پہ آ بیٹھی.
وہاں سے کچن کا آدھا منظر دکھائ دیتا تھا. جہان کا کوٹ راہداری میں لگی اسٹینڈ پہ لٹکا تھا، اور بریف کیس کاؤنٹر پہ. وہ خود بھی کاؤنٹر سے
ٹیک لگا کر کھڑا پانی کی بوتل منہ سے لگاۓ گھونٹ بھر رہا تھا. ساتھ ہی پھپھو کیبنٹ سے کچھ نکالتی دکھائ دے رہی تھیں.
گھر چھوٹا تھا اور راہداری مختصر،سو کچن میں گفتگو کرتے افراد کی آوازیں صاف سنائ دیتی تھیں. "نے ضمن جلدی؟" وہ بوتل رکھ کر ان کی طرف متوجہ ہوا. "حمن سمدی"
جوابا وہ ذرا کھڑے انداز میں درشتی سے ترک میں کچھ بولا تو ڈی جے سے کچھ کہتی ہالے نے چونک کر کچن کی طرف دیکھا.
"جہان!"پھپھو نے تنبیہی نگاہوں سے اسے گھورا.اس نے جواب میں خاصی تلخی سے کچھ کہتے ہوۓ بوتل میز پہ رکھی.
ہالے نے قدرے بے چینی سے پہلو بدلہ.حیا اس کے چہرے کے الجھے تاثرات بغور دیکھ رہی تھی، وہ کچھ دیر بعد ذرا سوچ کر بولی. "حیا! استقلال اسٹریٹ میں آج Levi's پہ سیل لگی ہے، وہ چیک نہ کر لیں؟"
اٹھنے کا ایک بہانہ.
حیا گہری سانس لے کر کھڑی ہوگئ.ڈی جے اور انجم باجی بھی کچھ کچھ سمجھ پا رہی تھیں.
"ہاں!چلو میں ذرا پھپھو کو بتا دوں."وہ کچن کی طرف آگئ. باقی لڑکیاں صوفوں سے اپنے اپنے بیگ اٹھانے لگیں.
"اچھا پھپھو!ہم لوگ چلتے ہیں.ہمیں آگے شاپنگ پہ جانا ہے." کچن کی چوکھٹ میں کھڑے ہو کر اس نے جہان سکندر کو قطا" نظر انداز کرتے ہوۓ بتا
بتایا.وہ فریج کا دروازہ کھولے کچھ نکال رہا تھا.
"ارے! ابھی تو آئ تھیں.ابھی سے جا رہی ہو؟"پھپھو ایک ملازمت زدہ نگاہ جہان پہ ڈال کر تیزی سے اس کی طرف آئیں.پھر وہ اصرار کرتی رہیں،مگر وہ نہیں رکی.دوبارہ آنے کا وعدہ کر کے وہ بہت خوش دلی سے ان کو خدا حافظ کر کے باہر نکلی. ڈور میٹ پہ رکھے اپنے جوتوں میں پاؤں ڈالنے تک اس کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہوگئ تھی اور اس کی جگہ سپاٹ سی سختی نے لے لی تھی.وہ ان چاروں کے آگے خاموشی سے سڑک کے کنارے چلنے لگی.جب وہ کالونی کا موڑ مڑ کر دوسری گلی میں داخل ہوئیں تو وہ تیزی سے ہالے کی جانب گھومی."ہالے...! جہان نے پھپھو سے کیا کہا تھا؟"
جانے دو حیا! ہالے نے نگاہیں چرائیں.اسکارف میں لپٹا اس کا چہرہ قدرے پھیکاسا
تھا.
"ہالے!مجھے بتاؤ،اس نے کیا کہا تھا."
"حیا!وہ کسی اور بات پر اپ سیٹ ہوگا.تم چھوڑو اس قصے کو."
"ہالے نور چو لگ لو!میں تم سے کچھ پوچھ رہی ہوں."اس نے کندھوں سے پکڑ کر ہالے کو جھنجھوڑتے ہوۓ اس کا پورا نام لیا.(چولو یعنی کہ اس گاؤں کی ہالے نور)
"اچھا!ٹھیک ہے پھر سنو.اس نے پہلے پوچھا کہ یہ کب آئ ہیں،پھر کہا کہ ان کے لیے اتنا پھیلاوا کرنے کی کیا ضرورت ہے؟اور اس نے کہا کہ میں سارا دن کتوں کی طرح اس لیے نہیں کماتا کہ آپ یوں ضائع کر دیں."
اس کے کندھوں پہ رکھے حیا کے ہاتھ نیچے جاگرے.بہت آہستہ سے وہ پلٹ گئ. "حیا...چھوڑ دو!"انجم باجی نے پیچھے سے کندھا تھپتھپا کر اسے تسلی دی.
"چھوڑ ہی تو دیا ہے.آج کے بعد میں کبھی پھپھو کے گھر قدم نہیں رکھوں گی.میں اتنی ارزاں تو نہیں ہوں کہ میرے مغرور رشتہ دار میری یوں توہین کریں."
وہ کوٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے، سیدہ میں دیکھتے ہوۓ ان کے آگے چلتی جا رہی تھی.آج اس کا دل بہت بری طرح دکھا تھا.
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
رات سبانجی کے گردنواح پہ اپنے پر پھیلاۓ ہوۓ تھی.سبزہ زاروں پر جمی برف اب پانی بن کر جھیل میں بہتی تھی.بہار کی تازہ ہوا ہر سو پھول کھلا
رہی تھی.ڈورم س
بلاک کی چوکور کھڑیاں باہر سے روشن دکھائ دیتی تھیں.رات بیت چکی تھی.مگر ہاسٹل جاگ رہا تھا.اسپرنگ بریک شروع ہونے میں چند دن ہی تھے،اور چھٹیوں سے پہلے یہ ان کی ڈروم میں آخری راتیں تھیں.پھر باری باری سب کو اپنے اپنے ٹور پہ نکل جانا تھا.
خدیجہ،حیا،ٹالی اور چیری کے ڈورم میں رونق اپنے عروج پہ تھی.حیا کی کرسی پہ سوئڑزلینڈز کی سارہ ایکسٹینشن کا ریسیور کان سے لگاۓ بیٹھی تھی.مسکراہٹ دباۓ، انگلی پہ سنہری بالوں کی لٹ لپیٹتے ہوۓ ہوۓ وہ کہہ رہی تھی.
"میرا فیورٹ کلر تو بلیو ہے. اوہ! تمہارا بھی یہی ہے مومن؟" وہ کہنے کے ساتھ بمشکل ہنسی روکے ہوۓ تھی.مومن کافی دنوں سے اس کی توجہ لینے کی کوشش کر رہا تھا،مگر وہ اس کو دکھانے کے لیے ہالینڈ کے لطیف کے ساتھ نظر آتی تھی.لطیف خالص ڈچ اور کیتھولک تھا،مگر افغانستان میں پیدا ہونے کے سبب اس کے ماں باپ نے اس کا نام اپنے کسی افغان دوست لطیف کے نام پہ رکھا تھا.یوں وہ تمام فلسطینیوں کا بہت اچھا دوست بن چکا تھا، سواۓ مومن کے.
سامنے ڈی جے کی کرسی پہ ہالے بیٹھی تھی اور اس کے مقابل کاؤچ پہ اسپین کی سینڈرا تھی. وہ دونوں اپنے درمیان ایک میگزین کھولے تبصرہ کر رہی تھیں.
"اس تھیم کے ساتھ یہ کنٹراسٹ کچھ اوور لگے گا.... نہیں؟" ہالے متزبزب سی سینڈرا سے پوچھ رہی تہی.
چیری اپنے بینک کی سیڑھی کے ساتھ کھڑی اپنی kipoa آئل کی آدھی شیشی ان کو دکھاتے ہوۓ بار بار نفی میں سر ہلاتے ہوۓ"آئ ڈونٹ بلیودس!"کہے جا رہی تھی.کسی لڑکی نے باتھ روم میں رکھا اس کا تیل استعمال کر کے اوپر چٹ لگا کر معذرت کر لی تھی کہ "چونکہ میں جلدی میں ہوں،سو پوچھ نہیں سکی."اور چیری کو جب سے ان چند بوندوں کا غم کھاۓ جا رہا تھا.
"ان چینیوں کے دل بھی اپنے قد کی طرح ہوتے ہیں.چھوٹے اور پست."
ٹالی جو اوپر اپنے بینک پہ بیٹھی حیا کو اسرائیلی نامہ سنا رہی تھی،لمحہ بھر کو بات روک کر چیری کو دیکھتے ہوۓ بولی.پھر سر جھٹک کر بات کا وہیں سے آغاذ کیا جہاں
چھوڑی تھی.
"یونو...ان اسرائیل،وی ہیوسچ سٹریس دیٹ..."
ٹالی کےنزدیک دنیا کاسب سےرسیلاپھل اسرائیل کا تھا،سب سے میٹھا پانی،سب سے خالص شہد،سب سے خوشبودار پھل،اورسب سے سہانا موسم اسرائیل کا تھا.وہ کہتی تھی"اسرائیل جنت ہے" مقدس اور بابرکت سر زمین ہے."اور اس کے جاتے ہی حیا اور ڈی جے اس کے فقرے میں یوں ترمیم کر لیتیں کہ "فلسطین جنت ہے.مقدس اور بابرکت سر زمین ہے"
اب بھی حیا بہت انہماک سے دونوں ہتھیلیوں پہ چہرہ گراۓ اس کی باتیں سن رہی تھی.جو بھی تھا،اسرائیل نامہ سننے میں مزا بہت آتا تھا.
دھیمی آواز میں بات کرنے کے باوجود، ان سب کی آوازوں نے مل کر شور کر رکھا تھا اور اس سارے شور میں ڈی جے اپنے بینک کے اوپر بستر میں لیٹی تکیہ منہ پہ رکھے ہوۓ تھی.
ان کی آواز بلند ہوتی گئیں تو اس نے منہ سے تکیہ ہٹایا اور چہرہ اوپر کر کے بے زاری سے ان کو مخاطب کیا.
"پلیز!شور مت کرو.میرے سر میں درد ہے مجھے سونے دو."
"اوکے اوکے!" ہالے نے فورا" اثبات میں سر ہلایا.سب نے "شش شش" کر کے ایک دوسرے کو چپ کروایا اور دھیمی دھیمی بڑبڑاہٹوں میں بولنے لگیں. ڈی جے واپس لیٹ گئ اور تکیہ منہ پہ رکھ لیا.
"ہاں چاند....میں چاند کو ہی
کھ رہی تہی."سارہ جو اپنی لٹ کو انگلی پہ مروڑتے،مسکراتے ہوۓ کہہ رہی تھی،دوسری طرف کچھ سن کر ذرا گڑبڑائ."اچھا! آج چاند نہی نکلا؟اوہ...!میں نے شاید پھر اپنے تصور میں دیکھا تھا."
"مجھے یہی کلر اسکیم چاہیےاور اگر اس کے ساتھ ہم یہ پھول کر لیں تو وہ میچ کر جائیں گے،پھریہ رنگ."
سینڈرا میگزین کے صفحے کو پلٹ کر پیچے سے کوئ دوسرا صفحہ نکال کر ہالے کو دکھانے لگی.آہستہ آہستہ ان کی آوازیں پھر سے بلند ہونے لگیں.
کچھ دیر بعد ڈورم میں پھر سے شور مچا تھا.
"کین سم ون پلیز شٹ اپ؟"ڈی جے ضبط کھو کر اٹھی اور زور سے چلائ.وہ پچھلے دو گھنٹوں میں کئ دفعہ ان کو خاموش ہونے کو کہہ چکی تھی،مگر باربار لڑکیوں کی آوازیں بلند ہو جاتی تھیں.لیکن اس کے یوں چلانے پر ایک دم سے ڈورم میں آوازیں فورا" بند ہوگئیں.
"بس!تم آرام کرو.ہم چپ ہیں.اب سب آہستہ بولو،اچھا!"حیا نے جلدی سے مسکراکر اسے تسلی دی.وہ کچھ بڑبڑاتے ہوۓ واپس لیٹ گئ اور کمرے میں سب مدھم سرگوشیوں میں باتیں کرنے لگے.
چند پل مزید سر کے،پھر.....
"اسرائیل میں ہمارا مقدس درخت....."
سب سے پہلے ٹالی کی آواز بلند ہوئ تھی،پھر سارہ،پھر ہالے،اور پھر چیری جو ابھی تک سب کو
دیکھ رہی تہی.
اور کمرے میں سب مدھم سرگوشیوں میں باتیں کرنے لگے.
اور پھر چیری جو ابھی تک سب کو
متوجہ کرنے کی سعی کرتے ہوۓ انہیں بوتل دکھا رہی تھی.
"مطلب،یہ کہاں کی اخلاقیات ہیں کہ کسی کا تیل اس سے پوچھے بغیر استعمال کر لیا جاۓ."شور واپس لوٹ رہا تھا.ڈی جے ایک دم اٹھی،کمبل اتار کر پھینکا،بینک کی سڑھیاں پھلانگ کر اتری.اپنی میز پہ رکھا سوئٹر گردن میں ڈالا،ساتھ رکھی تین کتابیں اٹھائیں،تہہ کردہ عینک کھول کر آنکھوں پہ لگائ اور خاموشی سے کسی کی طرف بھی دیکھے بغیر باہر نکل گئ.اس نے اپنے پیچے دھڑام سے دروازہ بند کیاتھا.ڈورم میں ایک دم سناٹا چھا گیا.سب نے ایک دوسرے کو دیکھا تھا.
سارہ نے بناکچھ کہے ریسیور کریڑل پہ رکھ دیا.چیری نے خفت سے اپنی بوتل واپس بیگ میں رکھی.ہالے اور سینڈرا نے میگزین بند کر دیا.بہت سی نادم نگاہوں کے تبادلےهوۓ.....
"وہ ناراض ہوگئ ہے،اب کیا کریں؟"ہالے بہت آہستہ سے بولی.
ٹھہرو!میں اسے مناتی ہوں."حیا نے کمبل پرے ہٹایا اور بینک کی سیڑھیاں اتر کر نیچے آئ.میز پہ رکھا اپنا دوپٹا اٹھایا اور چپل پہنتے ہوۓ باہر نکل گئ.پیچے کمرے میں ابھی تک سناٹا چھایا تھا.
اسٹڈی ساتھ ہی تھی.اسے پتا تھا،ڈی جے وہیں ہوگی.اس نے دروازہ دھکیلا تو وہ کھلتا چلا گیا.وہ سامنے رائٹنگ ٹیبل پہ کتابیں پھیلاۓ بیٹھی تھی.چوکھٹ سے اس کا نیم رخ ہی نظر آتاتھا،پھر بھی وہ دیکھ سکتی تھی کہ وہ رو رہی ہے.اس کا دل ایک دم بہت زیادہ دکھا.وہ د بے قدموں چلتے ہوۓ اس کے قریب آئ.
"ڈی جے!"
خدیجہ بائیں کنپٹی کو انگلی سے مسلتے،چہرہ کتاب پہ جھکاۓ،آنسو پینے کی کوشش کر رہی تھی.
"ڈی جے!وی آر رئیلی سوری."وہ کرسی کھینچ کر اس کے ساتھ بیٹھی اور اس کا ہاتھ تھامنا چاہا.ڈی جے نےسختی سے ہاتھ چھڑالیا.اسے بے حد ملال ہوا.
"سوری یار!ہم نے تمہارا خیال نہیں کیا.تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے؟"
وہ جواب دیےبنا یوں ہی کنپٹی کو انگلی سے مسلتے، کتاب پہ سر جھکاۓ بیٹھی رہی.
"سر میں درد ہے؟"اس نے ہولے سے پوچھا.
ڈی جے نے اثبات میں سر ہلایا.
"ٹیبلیٹ لی ہے کوئ؟"
"ہاں!" و
ہتھیلی کی پشت سے گیلے رخسار رگڑتے ہوۓ بولی تو آواز بھاری تھی.
"صرف یہ ہی بات ہے؟"اس نے غور سے اس کا چہرہ دیکھا.
"مجھے گھر یاد آرہا ہے."
"تو رو کیوں رہی ہو؟ سمسٹر ختم ہونے کے بعد ہم نے گھر تو چلے جانا ہے نا."
"سمسٹر ختم ہونے میں بہت دیر ہے."اس نے چہرہ اٹھا کر بے چارگی سے اسے دیکھتے ہوۓ کہا.عینک کےپیچھے اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھری تھیں.
"دیر کہاں؟ فروری میں ہم ادھر آۓ تھے، مارچ گزر گیا،اپریل گزر جاۓ گا،مئ آنے والا ہے،جون میں ایگزامز ہوں گے اور جولائ میں ہم پاکستان ہوں گے.لو!پانچ ماہ تو ختم بھی ہو گۓ."ڈی جے بھیگی آنکھوں سے مسکرادی.
"کیا زندگی اتنی جلدی گزر جاتی ہے؟"
"اس سے بھی جلدی گزر جاتی ہے.ہمیں پتا بھی نہیں چلتا اور ہمارا وقت ختم ہو جاتا ہے....اختتام....
دی اینڈ..... خلاص!"اس نے ہاتھ جھاڑ کر جیسے بات ختم کی. ڈی جے چند لمحے ڈبڈبائ آنکھوں سے اسے دیکھتی رہی.
"حیا!میں نے کل اپنی امی کو خواب میں دیکھا تھا. وہ بہت بری طرح رو رہی تھیں.اتنی بری طرح کہ میرا دل ڈر رہا ہے.پتا نہیں،گھر میں سب ٹھیک بھی ہیں یا نہیں.میں گھر کا آخری بچہ ہوں اور آخری بچوں کے حصے میں ہمیشہ بوڑھے ماں باپ آتے ہیں
میرا دل ان کے لیے دکھتا ہے حیا!"
"میں سمجھ سکتی ہوں،مگر ہم کیا کر سکتے ہیں.تین ماہ تو ہم نے یہاں گزارنے ہیں نا."
"ہم پاکستان چلے جائیں؟"
"تم جانتی ہو یہ نا ممکن ہے.ہم نے کانٹریکٹ سائن کیا ہے.ہم پانچ ماہ ختم ہونے تک ترکی نہیں چھوڑسکتے."
"میں مستقل جانے کی بات نہیں کر رہی.بس چند دن کے لیے.اسپرنگ بریک میں ہم اسلام آباد چلے جائیں؟"
حیا نے گہری سانس لی.
"میری بھی کزن کی شادی ہے،مگر میں اسے قربان کر رہی ہوں.صرف اس لیے کہ اگر ہم ابھی پاکستان گۓ تو واپس آتے ہوۓ ہمارا دل بہت خراب ہوگا اور پھر یوں ترکی میں اکیلے گھومنے پھرنے کا موقع ہمیں کبھی نھیں ملے گا.
اکیلے!" ڈی جے نے استہزائیہ سر جھٹکا."تمہیں پتا ہے،ہم دونوں نے یہ اسکالرشپ پروگرام کے لیے کیوں اپلائ کیا تھا؟کیونکہ ہم دونوں کو اکیلے آزادی سے وقت گزارنے کا شوق تھا.ایسی آزادی جس میں ابو اور بھائیوں کی روک ٹوک نہ ہو.مگر انسان آزاد تب ہی ہوتا ہے،جب وہ تنہا ہوتا ہےاور یہ ہی تنہائ قید کر لیتی ہے.ہر آزادی میں قید چھپی ہوتی ہے،جیسے اب ھم ترکی میں قید ہیںاور مجھے لگتا ہے،ہم کبھی پاکستان واپس نہیں جاسکیں گے."
حیا نے جیسے تاسف سےنفی میں گردن ہلائ،پھر نگاہ میز پہ رکھی ڈی جےکی موٹی سی فلسفے کی کتاب پہ پڑی جس کے سرورق پہ سقراط کی تصویر بنی تھی.اس کی پیشانی پہ بل پڑ گۓ.
"پرے ہٹاؤ اس بڈھے بابے کو.اس کو پڑھ پڑھ کر تمہارا دماغ خراب ہوا ہے."
"سقراط کو کچھ مت کہو."ڈی جے نے تڑپ کر کتاب پیچے کی."افلاطون گواہ ہے کہ سقراط نے کس عظمت وبہادری سے زہر کا پیالا پیا تھا."
"میری تو سات نسلوں پہ احسان کیا تھا."وہ یہ کہتے ہوۓ کھڑی ہوگئ."اور ہم کوئ پاکستان نہیں جا رہے.سات دن اور ترکی کے سات شہر.یہ پروگرام ہے ہمارا،ڈن؟"
"ڈن!" ڈی جے مسکرا دی.
"اور سنو!آج ٹائم چینج ہوگیا ہے.گھڑی ایک گھنٹہ آگے کر لو."
وہ ڈی جے کو
نارمل ہوتا دیکھ کر ٹالی کا اسرائیل نامہ سننے واپس چلی گئ.
"اوہ!نہیں،یہاں بھی وہی مشرف والا نیا ٹائم!"پرانا ٹائم!ڈی جے نے جھنجلاتے ہوۓ کتاب کھول لی.اسے نئے ٹائم،پرانے ٹائم سے زیادہ کوفت کسی شے سے نہیں ہوتی تھی.
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
ٹاقسم اسکوائر کا مجسمہ آزادی بہار کے پھولوں کی خوشبو میں بسا ہوا تھا.صبح کا وقت تھا اور مجسمے کے گرد دائرے میں اگہ گھاس پہ سرخ ٹیولپس کھلے تھے.فضا میں تازہ پکے پھلوں کی رسیلی مہک تھی.
وہ دونوں اس ٹھنڈی ، میٹھی ہوا میں ساتھ ساتھ چلتی،استقلال اسٹریٹ کی طرف بڑھ رہی تھیں.
دونوں نے سیاہ کوٹ پہن رکھے تھےاور بازو میں بازو ڈال رکھا تھا.وہ اتنی دفعہ استقلال اسٹریٹ آچکی تھیں کہ بہت سی دکانیں تو انہیں حفظ ہو چکی تھیں.اس کے باوجود وہ آج تک اس طویل ترین گلی کے اختتال تک نہیں پہنچ سکی تھیں.
ان کے تمام دوست اور ڈورم فیلوز کل ہی اپنے ٹورز پہ نکل چکے تھے.انہوں نے آج سارا دن استقلال اسٹریٹ میں شاپنگ کر کے کل صبح کی بس سے Coppadocia جانا تھا.آج وہ خوب بھاؤ تاؤ کر کے شاپنگ کرنے کا پروگرام بنا کر آئ تھیں،کیںنکہ ویسے بھی پاکستانی سیاحوں کے لیے ترک فورا" نرخ کم کر دیتے تھے.
"سات دن..
سات شہر!کتنا مزا آۓ گانا!"ڈی جے نے چشم تصور خوب صورت ترکی کو دیکھتے آنکھیں بند کر کے کھولیں.
"مزا تو چھوٹالفظ ہے ڈی جے! مجھے تو خود پہ رشک آنے لگا ہے.کیا زندگی اتنی حسین بھی ہو سکتی ہے؟"
وہ دونوں استقلال اسٹریٹ میں داخل ہوگئ تھیں.
وہاں ہمیشہ کی طرح رش تھا.دونوں اطراف میں بنے ریسٹورنٹس اور دکانوں کی رونق عروج پہ تھی.
"ترکی کا نقشہ ہمارے پاس ہے.ہم روز ایک شہر جائیں گے.ایک رات ادھر قیام کریں گےاور پھر وہاں سے قریبی شہر کی بس پکڑ کر آگے چلے جائیں گے.یوں سات دنوں میں ہمارے سات شہر ہو جائیں گے."
"اور کسی شہر میں ہاٹ ایر بیلون کی فلائٹ بہی لیں گے.کتنا مزا آۓ گا حیا!جب ہم بیلون کی ٹوکری میں بیٹھے اوپر فضا میں تیر رہے ہوں گےاور پورا ترکی ہمارے قدموں تلےہوگا."
جاری هے
0 تبصرے
ہم سے رابطہ کرنے کا شکریہ
ہم آپ سے بہت جلدی رابطہ کریں گے۔